عروس البلاد ممبئی کے چند سرکردہ
ارباب علم کو اس کا احساس ہوا اور انہوں نے ۵ ؍ستمبر ۱۹۹۲ء بروز سنیچر کو
بے سروسامانی کے عالم میں اللہ عزوجل کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے سنی دعوت
اسلامی کے پیارے نام سے ایک تحریک کی داغ بیل ڈالی اور اس کی بنیادوں کو
مستحکم کرنا شروع کردیا اور جیساکہ شاعر نے کہا ہے:
میں اکیلا ہی چلاتھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اور باتفاق علما حضرت حافظ وقاری مولانا محمد شاکر نوری رضوی کو اس تحریک
کا قائد وامیر تسلیم کرلیا گیا، جب سے اب تک نوری صاحب کل وقتی طور پر اس
تنظیم اور اس مشن کو آگے بڑھانے میں ہمہ تن مصروف ہیں، اس تحریک کی ترقی
حقیقت میں دین ومذہب کی ترقی ہے، اگر یہ تنظیم پھیل رہی ہے تو گویا دین عام
ہورہا ہے۔
بنیادی دفعات:
سنی دعوت اسلامی کے لیے دستورالعمل اورایک خاص منشور بھی مرتب کیاگیاجس
کاخلاصہ یہاں پیش کیاجارہاہے۔
(۱) اس مقدس تحریک کو اکابر اہل سنت کی اجتماعی سرپرستی حاصل رہے گی۔
(۲) فکری اور عملی سطح پر مسلک اہل سنت وجماعت (مسلک امام احمد رضا) کی
ترویج واشاعت اس تحریک کا بنیادی نصب العین ہے۔
(۳) یہ تحریک انہیں خطوط پر کام کرے گی جو رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم اور ان کے جاں نثار صحابہ کرام، تابعین کرام، ائمہ مجتہدین، اولیاے
کرام بالخصوص سیدنا غوث اعظم اور خواجۂ ہندوستان کے علاوہ اکابرین اُمت،
مشائخ طریقت بالخصوص شیخ عبدالحق محدث د ہلوی، مجدد الف ثانی شیخ احمد
سرہندی، سید شاہ آل رسول مارہروی، علامہ عبدالقادر بدایونی، امام احمد رضا
قادری بریلوی، شیخ المشائخ حضور اشرفی میاں کچھوچھوی، صدر الشریعہ علامہ
امجد علی اعظمی، مناظر اسلام علامہ حشمت علی خاں لکھنوی، محدث اعظم سید
محمد اشرفی کچھوچھوی، حجۃ الاسلام ومفتی اعظم عالم وحافظ ملت ومجاہد ملت
وغیرہم رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے متعین فرمائے تھے۔
(۴) یہ تحریک کسی بھی حال میں اپنے جماعتی امتیازات اور مسلکی شناخت کے
متعلق کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
(۵) عقائد واعمال کی اصلاح اور رد بد مذہباں اس کا اہم مقصد ہے۔
(۶) علماے اہل سنت ومشائخ طریقت کا اعزاز و اکرام ہرگام ضروری ولازمی ہوگا۔
(۷) اس مقدس تحریک کی قیادت پر کسی شخص واحد کی اجارہ داری نہیں ہوگی۔
تحریک سنی دعوت اسلامی نے جن بنیادوں پر اپنی خوب صورت عمارت کھڑی کی تھی
زمانے کی رفتار سے اسے منزل بہ منزل اوپر اٹھانے کی بھرپور جد وجہد کررہی
ہے اور کافی حد تک اپنے منصوبوں کی تکمیل میں کامیاب لگ رہی ہے۔ جس طرح آج
کا دور انتشار واختلاف، بد عقیدگی، مذہب بیزاری، مسلک فروشی اور سماجی وملی
مسائل میں انتہائی درجہ کی پیچیدگی کے لحاظ سے بڑا بھیانک اور درد انگیز
دور مانا جاتا ہے آج سے قریب بیس سال پہلے کا زمانہ کچھ زیادہ مختلف نہ
تھا، اگر چہ آزاد خیالی اور بے پرواہی اپنی ابتدائی منزل میں تھی اور
مسلمان اپنے مذہب ومسلک کے متعلق سے اس قدر لا ابالی نہ ہوا تھا تاہم بد
عقیدگی کا سیلاب بڑھتا ہی جارہا ہے تھا اور انگریز ظالم کی ناجائز اولادیں
نئے دین ومذہب اور جدید ترین خودساختہ مذہبی رجحانات کے ساتھ بددینی اور
مذہب بیزاری کاسلسلہ درازکررہی تھیں اور مسلمان قوم بالخصوص نوجوان نسل
قرآن اور صاحب قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اپنا
تعلق مضبوط ومستحکم کرنے میں تساہلی برت رہاتھا اس لیے بھی تحریک سنی دعوت
اسلامی کا قیام اس بھیانک اور خوں آشام پس منظر کے ساتھ انتہائی وقت پر
ہورہاتھا، اس نے بدعقیدگی کے بڑھتے ہوئے طوفان کو پسپا کرنے کے منصوبے تیار
کیے اور بے سروسامانی کے عالم میں گستاخان رسول اور باغیان اسلام کے خلاف
صف آرا ہوکر مذہب اہل سنت اورسواد اعظم کو منضبط کرنے کی کامیاب کوشش کی،
جو حد درجہ سراہنے کے لائق ہے۔ |