آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم قرآن پر
عمل کرنے میں مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ تھے۔آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم
قرآن پاک کے ترجمان تھے۔ قرآن شریف نے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو صبر و
ثبات کا حکم دیا تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم مکہ میں کافروں کی مخالفتوں،
طائف میں جاہلوں کے تشدد اور مدینہ میں یہودیوں اور منافقوں کی سازشوں کے
سامنے صبر و ثبات کا ایک پہاڑ معلوم ہوتے تھے۔مدینہ میں جہاد کا حکم ملا تو
مدنی زندگی جہاد میں ڈھل گئی۔ قرآن مجید نے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو
پریشان حالوں کی مدد کا حکم دیا تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے قرض لے
لے کر حاجت مندوں کی مدد کی۔آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم فقر و فاقہ کا
اندیشہ نہ کرتے تھے۔ تند و تیز ہوا سے بھی بڑھ کر سخاوت فرمایا کرتے تھے۔
قرآن حکیم نے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو عہد کی پابندی کا حکم دیا تو
کیفیت یہ تھی کہ دشمن تک بھی آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے وعدوں پر یقین
کرتے تھے۔ قرآن نے عفو و درگزر کے لئے کہا تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم
نے اپنے سخت ذاتی دشمنوں تک کو معاف کردیا اور کبھی ذاتی انتقام نہیں لیا۔
قرآن نے رحم کرنے کا حکم دیا تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم انسانوں پر
اتنے مہربان تھے جتنی ایک ماں اپنے چھوٹے بچے پر، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔
قرآن نے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو عدل وانصاف سے کام لینے کے لیے کہا
تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے عدل پر حیرت، آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم
کے صحابہ کو نہیں آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم دشمنوں کو ہوا کرتی
تھی۔(سبحان الله تعالیٰ)اللھمہ صلی علی سیدنا محمدً وبارک وسلم |