گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی
کی ازیت نے امت مسلمہ بلخصوص پاکستان کے مسلمانوں کو بدنام کر رکھا ہے جبکہ
اسلام امن و سلامتی اور محبت و مرو ت کا دین ہے ،اسلامی تعلیمات کے مطابق
مسلمان وہی شخص ہے جس کے ہاتھوں مسلم و غیر مسلم سب انسانوں کے جان و مال
محفوظ رہیں ،انسانی جان کا تقدس و تحفظ شریعت اسلامی میں بنیادی حثیت کے
حامل ہے بلکہ دنیا کا کوئی مذہب قتل و غارت گری کی اجازت نہیں دیتا ،کسی
بھی انسان کی ناحق جان لینا اور اُسے قتل کرنا دنیا کے تمام مذاہب میں فعل
حرام ہے اور اسلام میں بعض صورتوں میں یہ عمل موجب کفر بن جاتا ہے ،آج کل
دہشت گرد اپنے عقائد و نظریات مسلط کرنے اور اپنے مخالفین کو صفحہ ہستی سے
مٹآ دینے کی ناکام کاوش میں جس بے دردی سے خود کش حملوں اور دھماکوں سے
گھروں ،بازاروں ، عوامی و حکومتی دفاتر اور مساجد میں مسلمانوں کی جانیں لے
رہے ہیں ،وہ صریحاً کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں ،دنیا و آخرت میں ان کے لئے
زلت ناک عذاب کی وعید ہے،دہشت گردی حرام ہے اور جب اس میں خودکشی کا حرام
عنصر بھی شامل ہو جائے تو اس کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے،اسلام
صرف مسلم ریاست کے مسلم شہریوں کی ہی ضمانت نہیں دیتا بلکہ غیر مسلم شہریوں
کے اور معاہدین کی عزت و آبرو اور جان و مال کو بھی برابر تحفظ کی ضمانت
دیتا ہے،شریعت اسلامیہ میں مسلم ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے حقوق مسلم
شہریوں کی طرح ہی ہیں ،انسانی جان کی عزت و حرمت پر اسلامی تعلیمات میں اس
قدر زور دیا گیا ہے کہ دوران جنگ بھی اسلام غیر محارب لوگوں کے قتل عام کی
اجازت نہیں دیتا ،میدان جنگ میں بھی بچوں،عورتوں،ضعیفوں ،بیماروں مذہبی
رہنماؤں اور تاجروں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ،حضرت عبداﷲبن عمروؓ
روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا اﷲکے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے
پوری دینا کا ناپید ہو جانا ہلکا(واقعہ) ہے،اپنے گھناؤنے اور ناپاک مقاصد
کے حصول کے لئے عام شہریوں اور پُر امن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والے
کیسے دین امن و سلامتی کے علم بردار ہو سکتے ہیں ،وہ اپنی دہشت گردانہ
کاروائیوں کے زریعے مسلمانوں کی قتل و غارت گری میں مصروف ہیں ،جبکہ رسول ا
ﷲﷺنے تو ایک مومن کے قتل کو بھی پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار
دیا ہے،ایک جگہ امام ابوداؤد حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول
اﷲ ﷺنے فرمایا’’نہ کسی بوڑھے کو قتل کرونہ شیر خوار بچے کو نہ عورت کو‘‘
برعکس اس کے آج دہشت گرد خود کو مسلماں کیوں کر کہہ سکتے ہیں ؟
جبکہ امام نسائی اور احمد بن جمبل حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ
رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ ’’ مومن وہ ہے جس کے پاس لوگ اپنے خون اور مال محفوظ
سمجھیں‘‘ ،اسلام تو عبادت گاہوں ،عمارتوں ،بازاروں کے ساتھ ساتھ کھیتوں ،فصلوں
اور درختوں کو بھی تباہ کرنے سے روکتا ہے ،جبکہ دہشت گرد ایسی کاروائیاں جو
بلا امتیاز مذہب و ملت پُر امن لوگوں ،عورتوں ،بچوں اور مساجد میں عبادت
کرنے والے نمازیوں کے قتل عام کا باعث بن رہی ہوں پھر بھی وہ اسلام کا نام
لیں اور جہاد کی بات کریں اس سے بڑا تضاد تو شاید چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا
ہو گا ،غیر مسلم عالمی طاقتوں کی نا انصافیوں اور بلا جواز کاروائیوں کے رد
عمل کے طور پر پُرامن مسلم و غیر مسلم شہریوں اور غیر ملکی سفارت کاروں پر
قتل کرناانہیں حبس بے جا میں رکھنا قطعاًجائز نہیں ،جو ایسا کرتا ہے اُس کا
اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ سے کوئی تعلق نہیں اور بعقول شاعر۔۔۔ نہ تیرا خدا
کوئی اور ہے نہ میرا خدا کوئی اور ہے..... احتساب ،شیح اسلام ڈاکٹر محمد
طاہر القادری ، |