مبینہ توہین رسالت - جوزف کالونی نذر آتش کردی گئی

ہفتے کے روز لاہورکے علاقے بادامی باغ میں مبینہ مذہبی گستاخی پر مشتعل ہجوم نے مسیحی برادری کی جوزف کالونی پرحملہ کرکے متعدد مکانوں اور دکانوں کوآگ لگادی، بستی کے مکین خوف کے باعث رات کوہی بستی خالی کرچکے تھے، اس لیے کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں آئی۔ جوزف کالونی میں پولیس نے مقدمہ درج کر کے توہین رسالت کے الزام میں ایک نوجوان اوراس کے والد کوحراست میں لے لیا تھا لیکن اس کی گرفتاری ظاہر نہیں کی گئی، جس پر گزشتہ رات سے ہی پورے علاقے میں کشیدگی تھی اور وہاں مظاہرے شروع ہو گئے۔ ہفتے کے روز دن کا آغاز ہوتے ہی مختلف افراد بستی کے باہر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے اور انہوں نے ٹولیوں کی صورت میں بستی کی طرف جانے والے مختلف راستوں پر ٹائر رکھ کر آگ لگائی اور بعد ازاں مظاہرین نے بستی کے اندر بھی گھس کر گھروں کو آگ لگانا شروع کر دی۔ اس دوران پولیس نے مداخلت بھی کی، تا ہم بپھرے ہوئے ہجوم پر پولیس کا قابو پانا مشکل ہو گیا، مظاہرین نے کئی رکشوں اورموٹرسائیکلوں کوبھی آگ لگادی۔ پولیس نے مداخلت کی کوشش کی تو مشتعل ہجوم نے ان پر بھی پتھراو ¿ شروع کر دیا، اس کے بعد پولیس نے مظاہرین کو بتایا کہ ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے لیکن اب بات بہت آگے تک پہنچ چکی تھی، اب تو سب کچھ جل چکا تھا۔

متعدد علماءکرام نے واقعہ پر پہنچ کر مشتعل ہجوم سے خطاب کیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے علماءکرام کا کہنا تھا کہ اسلام کسی کے ساتھ زیادتی کادرس نہیں دیتا، ہم جلاؤ، گھیراؤ پریقین نہیں رکھتے، اسلام گھروں کوجلانے کی اجازت نہیں دیتا، مظاہرین قانون کوہاتھ میں نہ لیں اور پر امن طور پر منتشر ہو جائیں۔ اس کے بعد مظاہرین منتشر ہو گئے۔ پولیس کے مطابق ملزم ساون عرف بودی کے والد چمن مسیح کو بھی حراست میں لیا تھا جسے چھوڑ دیا گیا۔ مشتعل افراد نے شیشے کی بوتلوں میں پیٹرول بھر کر گھروں کے اندر پھینکا جبکہ بعض گھروں کے اندر بھی داخل ہو کر آگ لگاتے رہے، آبادی کوجانے والے راستوں پر تعینات کرنے کے لیے شہر بھر سے خصوصی طور پرنفری منگوائی گئی، پولیس نے خاردار تار لگاکر علاقے کوسیل کردیا۔ مظاہرین میں10سے 25سال تک کے نوجوانوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اکثریت پینٹ شرٹ میں ملبوس تھی۔

بادامی باغ میں مسیحیوں کے گھر نذر آتش کیے جانے پر سیاسی و مذہبی رہنماﺅں نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ رہنماﺅں نے توہین رسالت کے مرتکب کی مذمت کی اور مسیحیوں کے مکان جلا کر قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔ جماعت اسلامی کے رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ ملک میں آئین و قانون موجود ہے، جو شخص بھی توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے اس کے ٹرائل کے لیے عدالتیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اور تفتیش کا باقاعدہ طریقہ ہوتا ہے لیکن اس کی آڑ میں لوگ خود قانون کو ہاتھ میں لے لیں یہ مجرمانہ فعل ہے جس کی ملک کا آئین و قانون ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ جے یو آئی (ف) اور دوسری کئی مذہبی جماعتوں نے بادامی باغ میں ہونے والے واقعہ کی فوری تحقیقات اور اصل صورتحال سے قوم کو آگاہ کر نے کا مطالبہ کیا ہے۔ جے یو آئی کے رہنماﺅں مولانا رشید احمد لدھیانوی، مولانا محمد امجد خان، قاری ثناءاللہ نے توہین رسالت کے مرتکب کے خلاف فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا اور احتجاج کے موقع پر پرتشدد واقعات کو افسوسناک قرار دیا، عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔ امیر جماعة الدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے اس واقعہ کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ کسی ایک شخص کے جرم پر عام لوگوں کے گھر جلانا اور ان کے جان و مال کو نقصان پہنچانا کسی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ توہین رسالت کی سزا کے لیے باقاعدہ قانون اور عدالتیں موجود ہیں، کسی شخص کو خود قانون اپنے ہاتھ میں لے کر جلاﺅ گھیراﺅ اور توڑ پھوڑ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بادامی باغ کے واقعہ کو پاکستان کے خلاف گہری سازش قرار دیتے ہوئے اسکی پرزور مذمت کی۔دیگر علماءکرام نے بھی واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔جب کہ سیاسی رہنماﺅں نے اس واقعہ کی مذمت کم جبکہ پنجاب حکومت کی مذمت زیادہ کی، ان کا کہنا تھا کہ بادامی باغ کے واقعہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ پنجاب حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ یہ افسوسناک واقعہ پنجاب حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے مسیحی برادری پر حملہ کرنے والے ملزموں کی24گھنٹے میں گرفتاری، جوڈیشل انکوائری کا حکم د یا اور رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں 5رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی، متاثرین کے لیے 2،2 لاکھ رو پے امداد کا اعلان کرتے ہوئے گھروں کی تعمیر کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ مسیحی برادری کا تحفظ میں خود کروں گا، متاثرہ گھروں کی تعمیر سرکاری خزانہ سے کی جائے گی۔ اتوار دوپہر تک وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر سانحہ بادامی باغ میں ملوثسو سے زائد مشتبہ شرپسندوں کو حراست میں لینے کی اطلاعات ہیں۔ لاہورپولیس نے سیکڑوں نامعلوم افراد کے خلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا، ڈی آئی جی آپریشنز رائے طاہر کے مطابق ہنگامہ آرائی کرنے والوں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں اور ویڈیوفوٹیج سے بھی مدد لی جارہی ہے۔ شرپسندوں کی نشاندہی کے لیے مسیحی برادری کے گھروں پر حملہ کرنے والوں کی تصاویر بھی تیار کی جارہی ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور رائے طاہر حسنین کاکہنا تھا کہ رات سے ڈیڑھ سو افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں اور مزید ملزمان کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ چرج جلانے کے الزام پر 295 بی کے تحت بھی مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔ حکومت مختلف ٹھیکیداروں کو 55 گھروں کی تعمیر کا آرڈر دے رہی ہے۔ سیکورٹی کو ہر ممکن انداز میں بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔سانحہ بادامی باغ کے خلاف لاہور، گوجرانوالہ، کراچی سمیت مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے، لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں مسیحی برادری کے مظاہرے میں مشتعل افراد نے نشتر ٹاﺅن میٹرو بس سٹیشن کی توڑ پھوڑ کی۔ مظاہرین نے پنجاب حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور ذمہ داروں کو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ اس واقعہ سے صرف دو دن پہلے ہی اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کو ایک رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ جن ممالک میں توہین مذہب اور مذہب تبدیل کرنے کے خلاف قوانین موجود ہیں ان قوانین کو ختم کردینا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے آزادیِ مذہب نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان قوانین کو آزادیِ اظہار اور اقلیتوں کے حقوق سلب کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کچھ مغربی ممالک میں توہین مذہب کے قوانین موجود ہیں لیکن ان کا اطلاق بہت کم ہوتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کا نام لے کر کہا کہ چند مسلمان ممالک جیسے سعودی عرب اور پاکستان میں توہین مذہب کی سزا موت ہے۔ اس لیے بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ممکن ہے اس قسم کے واقعات کے پیچھے انہی قوتوں کا ہاتھ ہو جو توہین مذہب کے قوانین کو ختم کروانا چاہتے ہیں اور متعدد بار اس قسم کے واقعات رونما کروا کر پھر اس واقعہ کی آڑ میں توہین مذہب کے قانون کو ختم کروانے کی مہم چلاتے ہیں، اس قسم کے واقعات کروا کے قوانین کو ختم کروانے کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے، ممکن ہے اس بار بھی یہی کچھ ہو۔ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، اس واقعہ میں ملوث افراد ہو سخت سے سخت سزا بھی ملنی چاہیے کیونکہ ایسے واقعات سے دنیا بھر میں مسلمانوں کو جگ ہنسائی ہوتی ہے۔

علماءکرام نے اس واقعہ کی شدید مذمت بھی کی ہے۔ اس واقعہ کی اگر فوٹیج دیکھی جائیں تو اس واقعہ میں ایسا کوئی بھی فرد نظر نہیں آرہا جس کا حلیہ کسی مذہبی جماعت کے کارکن جیسا ہو۔ جب یہ سب کچھ ہے تو پھر کون لوگ ہیں جنہوں نے اس قسم کے واقعہ کو جنم دیا ہے۔ ہر بار ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی بھی قانون کو پاکستان سے ختم کروانا مقصود ہوتا ہے تو اس سے پہلے ایک فضا تیار کی جاتی ہے، لوگوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس قانون کو ہی ختم کردیا جاتا ہے، ممکن ہے یہاں بھی ایسے ہی ہو کہ اس واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ کہا جائے کہ توہین مذہب کے قانون کو ختم کردیا جائے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے، اس لیے اس قانون کو ہی ختم کردینا چاہیے۔ گزشتہ دنوں بعض مذہبی رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ اگر توہین رسالت کے مجرموں کو سزا دینے کا قانون ختم کردیاگیا تو پھر احتجاج کا ایک طوفان اٹھے گا اور لوگ ازخود توہین رسالت کے مجرموں کو سزا دیں گے۔ جب قانون موجود ہی نہ ہوگا پھر تو سو فیصد لوگ خود قانون کو ہاتھ میں لیں گے۔ بعض حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئٹہ اور کراچی میں ہونے والے دھماکے اور لاہور میں بادامی باغ کے واقعے کا ایک ایسے وقت میں ظہور پذیر ہونا جب کہ انتخابات قریب ہیں، یقیناً کچھ معنے رکھتا ہے۔ اس قسم کے واقعات کی آڑ میں مذہبی سیاسی جماعتوں اور ان سیاسی جماعتوں کو جن کے روابط مذہبی جماعتوں کے ساتھ ہیں، ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے انتخابات میں نقصانات پہنچانا بھی ہوسکتا ہے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701054 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.