عربی اور اردو کیلنڈر کے مطابق
ساتواں مہینہ سال کا رجب المرجب ہے۔یہ مہینہ اپنے اندر بڑی فضیلت
رکھتاہے۔سال بھر میں چار مہینے حرمت والے ہوتے ہیں،جن کا قرآنِ مجید کی
سورۂ توبہ میں آیاہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مفہوم: ’’بے شک مہینوں کی گنتی اﷲ کے نزدیک بارہ ہے،جن میں سے چار مہینے
بہت حرمت والے ہیں۔‘‘حرمت والے مہینوں میں رجب کا مہینہ بھی شامل ہے۔پھر ذی
قعدہ و ذی الحجہ اور محرم ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے انہیں حرمت والا فرمایاہے،لہٰذا
ہر مسلمان کو ان کا احترام کرناچاہیئے اور گناہوں سے دور رہ کر عبادتوں میں
وقت گزارناچاہیئے۔خود ہمارے نبیٔ مکرم ﷺ اس مہینے میں عبادت کا اہتمام
فرماتے تھے۔اسی مہینہ میں شبِ معراج بھی ہوئی۔حدیث شریف میں آیاہے کہ جو
کوئی رجب کا مہینہ پائے اور اس کی پندرہویں اور آخری تاریخ میں عمل کرے تو
اس کے تمام گناہ ڈُھل جاتے ہیں۔اس مہینے کی پانچ راتیں زیادہ افضل ہیں۔ایک
تو پہلی رات، دوسری پندرہویں اور تیسری راتیں آخر کی ہیں۔روایت میں یہ بھی
فرمایاگیاکہ جو کوئی اس مہینے میں تیس رکعتیں پڑھے اور ہر رکعت کے بعد
بشمول سورۂ فاتحہ کے سورۂ الکافرون تین بار اور سورۂ قل تین بار پڑھے تو اس
کا بھی بہت زیادہ ثواب ہے۔اس مہینے کی کوئی تو خاص بات ہے جس کا اشارہ ہمیں
معراج شریف سے ملتاہے جو اس ماہ کی ستائیسویں شب میں ہوئی اور ہمارے نبیٔ
مکرم ﷺ نے وہاں بھی امت کے لئے شفاعت فرمائی اور نمازوں کی رکعتیں کم
کرائیں لیکن ثواب پچاس وقت کی نمازوں کا ہی برقرار رہا۔
حضرت مالک بن صعصہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے لوگوں سے اس شب کا
حال بیان فرمایا جس میں آپ کو معراج ہوئی تھی۔آپ ﷺ نے فرمایا ایسا ہوا کہ
میں حطیم یا حجر میں لیٹا ہوا تھا اتنے میں ایک آنے والاآیا اور اس نے میرا
سینہ یہاں سے یہاں تک چاک کر دیا۔ راوی کہتاہے حلقوم سے زیرِ ناف تک۔پھر اس
نے میرا دل نکالا اس کے بعد سونے کا ایک طشت لایاگیا،جو ایمان سے بھرا ہوا
تھا۔میرا دل دھویاگیا اور پھر اسے ایمان سے بھر کر اپنی جگہ رکھ دیاگیا۔پھر
میرے پاس ایک سفید رنگ کا جانور لایاگیاجو خچرسے چھوٹا اور گدھے سے
اونچاتھا۔راوی سے ثابت ہے کہ وہ براق تھاجو اپنا قدم منتہائے نظر
پررکھتاتھاتومیں اس پر سوار ہوا۔پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر
چلے۔آسمانِ دنیا پر پہنچ کر انہوں نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا ،پوچھا گیا
کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا میں جبرائیل ہوں۔پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟
انہوں نے کہا اﷲ کے محبوب حضرت محمد ﷺ ۔پوچھاگیاکیا یہ بلائے گئے ہیں؟ کہا
ہاں،پھر جواب ملامرحبا ان کی آمد خوش آئند اور مبارک ہو۔پھر دروازہ کھول
دیاگیا جب میں وہاں گیاتو حضرت آدم علیہ السلام ملے۔ حضرت جبرائیل علیہ
السلام نے بتایاکہ یہ آپ کے باپ حضرت آدم علیہ السلام ہیں،انہیں سلام
کیجئے۔میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا اچھے
بیٹے خوش آمدید! اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے اوپرلے کر چڑھے
تاآنکہ دوسرے آسمان پر پہنچے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا پوچھاگیاکون
ہے؟جواب دیا جبرائیل۔پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟انہوں نے کہا محمد ﷺ۔
پوچھاگیا ،کیا انہیں بلایاگیاہے۔انہوں نے کہا ہاں، کہا گیاخوش آمدید! اور
جس سفر پر تشریف لائے ہیں وہ مبارک اور خوشگوار ہو اور دروازہ کھول
دیاگیاجب میں وہاں پہنچا تو حضرت یحییٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام
ملے جو دونوں آپس میں خالہ زادبھائی ہیں۔ حضرت جبرائیل نے کہایہ یحییٰ علیہ
السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے۔چنانچہ میں نے
سلام کیا اور ان دونوں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے میرا استقبال کیا اور
فرمایامرحبا اے بھائی اور نبی محترم خوش آمدید!پھر جبرائیل علیہ السلام
مجھے لے کر تیسرے آسمان پر چڑھے،وہاں بھی اسی طرح کے سوال و جواب
کاسامناکرنے کے بعد دروازہ کھول دیاگیاجب میں وہاں پہنچا تو حضرت یوسف علیہ
السلام ملے۔سلام کے بعد اور خوش آمدید کہا۔پھر چوتھے آسمان پر سوال و جواب
کے بعد دروازہ کھول دیاگیا۔وہاں حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔پھر
حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے لیکر پانچویں آسمان پر چرھے۔سوال و جواب کے
بعد پھر دروازہ کھلا،وہاں حضرت ہارون علیہ السلام ملے۔انہوں نے بھی حضرت
محمد ﷺ کو خوش آمدید کہا۔پھر چھٹے آسمان کا سفر شروع ہوا اور وہاں پہنچنے
پر بھی سوال و جواب کا سلسلہ ہوا۔وہاں نبی ﷺ کی ملاقات حضرت موسیٰ علیہ
السلام سے کروائی گئی۔پھر جب آگے بڑھا تو وہ رونے لگے پوچھاگیا آپ کیوں
روتے ہیں؟ انہوں نے کہا میں اس لئے روتا ہوں کہ ایک نو عمر جسے میرے بعد
رسول بناکربھیجاگیاہے،اس کی امت جنت میں میری امت سے زیادہ تعداد میں داخل
ہوگی۔پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے لے کر ساتویں آسمان پر چڑھے اور
دروازہ کھلوانے سے پہلے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔پھر وہاں حضرت
ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہایہ آپ
کے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔سلام کے بعد انہوں نے بھی خوش آمدید
کہا۔پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک بلند کیا گیا ۔ اس منزل سے آگے جاناکسی بھی
ملک مقرب کی مجال نہیں ہے۔شیخ سعدی نے جبرائیل امین علیہ السلام کے الفاظ
کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
اگر یک سر موئے برتر پرم
فروغِ تجلّی بسوزہ پرم
(اگر ایک بال برابر بھی اس مقام سے میں آگے بڑھ جاؤں گا تو تجلیات سے میرے
پر جل کر راکھ ہو جائیں گے)اسی مقام پر آپ نے فرشتوں کی امامت فرمائی اور
اس کے بعد سفر کا تیسرا مرحلہ شروع ہوا۔سدرۃ المنتہیٰ سے عرشِ بریں تک کا
سفر رفرف پر طے ہوا اور نور کے لاتعداد پردے اٹھتے چلے گئے اور نورانی
مسافریہ کہتا ہوا آگے بڑھتاگیا:
ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلّی
اﷲ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
وہاں پہنچ کر دیکھاکہ اس کے پھل ہجر کے مٹکوں کی طرح بڑے ہیں اور اس ہاتھی
کے کانوں کی طرح ہیں۔بتایا گیا یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے اور وہاں چار نہریں
تھیں جن میں دو تو بند اور دو کھلی ہوئی تھیں۔میں نے پوچھا یہ نہریں کیسی
ہیں؟ انہوں نے کہا بند نہریں تو جنت کی ہیں اور جو کھلی ہیں وہ نیل اور
فرات ہیں۔پھر بیت المعمور میرے سامنے لایا گیادیکھتا ہوں کہ اس میں ہر دن
ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں۔پھر میرے سامنے ایک پیالہ شراب کا،ایک پیالہ
دودھ کا اور ایک پیالہ شہد کا لایاگیا تو میں نے دودھ کا پیالہ لے
لیا۔فرمایا گیا کہ یہ فطرتِ اسلام ہے۔جس پر آپ اور آپ کی امت قائم ہے۔پھر
مجھ پر شب و روز کی پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔جب میں واپس لوٹا تو حضرت موسیٰ
علیہ السلام کے پاس سے میرا گزر ہوا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کو کیاحکم
دیاگیاہے؟میں نے کہا مجھے دن رات میں پچاس نمازیں ادا کرنے کا حکم
دیاگیاہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ آپ کی امت ہر دن پچاس نمازیں
نہیں پڑھ سکتی۔اﷲ کی قسم ! میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کرچکا ہوں اور
میں بنی اسرائیل کے ساتھ بھرپور کوشش کرچکا ہوں لہٰذا آپ اپنے رب کی طرف
لوٹ جائیں اور اپنی امت کے لئے تخفیف کی درخواست کریں۔چنانچہ میں لوٹ کر
گیا اور پھر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے مجھے دس نمازیں معاف کر دیں۔پھر میں موسیٰ
علیہ السلام کے پاس لوٹ کر آیاتو انہوں نے پھر ویسا ہی کہا۔میں پھر گیا اور
اﷲ نے مجھے دس نمازیں اور معاف کر دیں۔ پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس
لوٹ کر آیاتو پھر انہوں نے ویسا ہی کہا،چنانچہ میں لوٹ کرگیاتو مجھے دس
نمازیں اور معاف ہوئیں۔پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پھر
ویسا ہی کہا،چنانچہ میں لوٹ کر گیاتومجھے ہر دن میں دس نمازوں کا حکم
دیاگیا۔ پھر لوٹا تو پھر ویسا ہی کہاگیامیں پھر لوٹاتو مجھے ہر دن میں پانچ
نمازوں کا حکم دیاگیا۔پھر موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا ہوا۔میں نے کہا ہر
دن میں پانچ نمازوں کا حکم دیاگیاہے،انہوں نے کہا آپ کی امت ہر دن میں پانچ
نمازیں بھی نہیں پڑھ سکتی۔تم ایسا کرو پھر اپنے پروردگار کے پاس جاؤ اور
اپنی امت کے لئے تخفیف کی درخواست کرو۔میں نے جواب دیامیں اپنے رب سے کئی
دفعہ درخواست کر چکا ہوں اور اب مجھے شرم آتی ہے لہٰذا میں راضی ہوں اور اس
کے حکم کو تسلیم کرتا ہوں۔آپ نے فرمایاجب میں آگے بڑھا تو ایک منادی نے (خود
پروردگار نے) آواز دی کہ میں نے حکم جاری کردیا اور اپنے بندوں پرتخفیف بھی
کر دی۔(حوالہ: رواہ بخاری: ۳۸۸۷، وانظر حیث رقم: ۳۴۹)یہ تھی فوائد معراج
شریف۔ علماء سلف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسراء اور معراج ایک ہی رات جسم
اور روح دونوں کے بحالتِ بیداری ہوا۔(فتح الباری: ۱۳۷؍۷)
افسوس اس بات کا ہے کہ آج امت نے معراج شریف کے اس مہینہ کو بھلارکھاہے اور
عام مہینوں کی طرح یہ مہینہ بھی گزر جاتاہے۔یہ اﷲ کی ناشکری ہی توہے۔ہم آج
اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں اور رسولِ اکرم ﷺ کی عظمتوں کے ناقدرے بلکہ منکر ہو
رہے ہیں (نعوذ باﷲ) تب ہی تو پریشانیاں،بے برکتیاں اور بیماریاں آ رہی ہیں
جو اﷲ و رسول کا فرمانبردار ہوتاہے سب اس کے فرمانبرداربن جاتے ہیں۔جو
نافرمانی کا بیج بوتاہے تو سب اس کے نافرمان ہو جاتے ہیں۔ خدا ہمیں سنتِ
نبوی ﷺ پر زندگی گزارنے کے قابل بنائے۔اور اس مضمون کے الفاظوں میں اگر
کہیں کوئی کوتاہیاں اور خامیاں رہ گئی ہیں تو مجھے معاف فرمائے (آمین)
|