شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
ایک اسلامی معاشرے میں تعلیم ایک اہم عمل ہے اور اسلام کی اشاعت کے سلسلے
میں اس کی مکمل حمایت کا ہونا ضروری ہوتا ہے اور یہ کبھی بھی امید نہیں کی
جاسکتی کہ ہماری آنے والی نسل بغیر تعلیم و تربیت کے اسلامی عقیدے اور
اقدار کو سمجھ پائے گی۔ اس مقصد کے لئے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو سچا
مسلمان بنا سکیں۔ہمیں اپنی اسلامی تعلیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تب ہی ہم
اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور اس کے لئے بہت سے ضروری اقدامات کرنے
کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ صرف مسجد ہی
ہمارے چھوٹے بچوں کے لئے مناسب جگہ ہے جہاں وہ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ ہر
مسجد کو ایک سکول کی طرح ہونا چاہیے۔ دوسرے بات یہ کہ عربی کی پڑھائی تمام
تعلیمی سطح پر لازمی ہونی چاہیے اور اس کو پہلی ترجیح دی جانی چاہیے۔ ہر
مسلمان بچے کو قرآن پاک نہ صرف سیکھنا اور پڑھنا چاہیے بلکہ اس کو عربی میں
صحیح معنوں کے ساتھ سمجھنا چاہیے۔تمام مضامین کو قرآن پاک کی ہدایات کے
مطابق پڑھانا چاہیے اور سارا نصاب اس کے گرد گھومنا چاہیے اور ایسے مضامین
جو قرآن کے حوالے سے پڑھائے جا رہے ہیں اس میں مذہبی اور سیکولر پڑھائی میں
امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ ہماریپورے نصاب کو قرآن پاک کے اصولوں کے مطابق
مربوط ہونا چاہیے۔مغربی زبانیں، فلسفہ گریجویٹ سطح پر ہونا چاہیے۔چاہے جیسے
بھی حالات ہوں ہمیں اپنے بچوں کو سیکولرازم کی طرف راغب نہیں کرنا چاہیے۔
کیونکہ بچوں کے ذہین ناپختہ ہوتے ہیں اور اس چیز کا ان پر گہرا اثر ہوتا ہے
اور اس طرح یہ خدشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اسلام سے دور نہ ہوجائیں۔ اسلام
صرف عقائد کا ہی مذہب نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کا ایک مکمل ضابطہ ہے۔ جس میں
سائنس اور ٹیکنالوجی اور اس طرح معاشرتی اور انسانی سائنسز، معاشی اور
ثقافتی سرگرمیاں پائی جاتی ہیں۔مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کے تمام
شعبوں میں اس سے راہنمائی حاصل ہوتی ہے اور یہ راہنمائی ہمیں قرآن پاک اور
سنت سے ملتی ہے اور یہاں تک اگر ہفتہ میں صرف دو گھنٹے ہی اس کی تلاوت کرلی
جائے تو اس سے ایک سکون اور اطمینان ملتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے
ہماری بہت سی ضروریات پوری ہوگئی ہوں۔قرآن پاک کی تلاوت سے ہم اطمینان اور
سکون حاصل کر تے ہیں۔ جب ہم اپنے بچوں کو ماضی کے بارے میں سمجھ بوجھ فراہم
کریں تو اس سلسلے میں تاریخ ِاسلام سے بہت زیادہ مددلی جاسکتی ہے۔جبکہ
ہمارے ہاں زیادہ تر یونانی فلسفے سے مثالیں دی جاتی ہیں۔جب کہ اگر یورپ کو
دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اسلامی علوم اور تہذیب سے بہت کچھ
حاصل کیا۔یہاں تک کہ انسانیت کی اعلیٰ اقدار کو مسلمانوں کی ثقافت سے لیا
گیا۔ یورپ نے دیگر علوم میں مختلف اسلامی مفکرین و سائنسدانوں کے کام سے
استفادہ کیا۔جن میں الہندی، الفارابی، ابن سینا، ابن الہشیم، جابر بن حیان
وغیرہ سے بہت کچھ حاصل کیا۔ اگر ہم اسلامی تاریخ کو پڑھیں تو ہمیں اس بات
کا پتہ چلتا ہے کہ عمربن عبدالعزیز، صلاح الدین ایوبی اور اورنگ زیب
عالمگیر نے بہت سے کارنامے سرانجام دیئے اور وہ عظیم انسان تھے۔ہم صرف یہ
ہی نہیں کہ سکتے کہ مغربی تہذیب نے اسلام سے بہت کچھ حاصل کیا ہے بلکہ اگر
یونانی فلسفے کو دیکھا جائے تو ہمیں اسلام میں یہ سب کچھ نظر آتا ہے پس یہ
کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں ہر وہ چیز شامل ہے جو کسی اور فلسفے میں پائی
جاتی ہے اور اس کا موزانہ کسی بھی ماضی اور حال کی تہذیب کے ساتھ کیا جا
سکتا ہے۔تاہم یہ بات بے کار اور فضول ہے کہ اس کو دوسری تہذیبوں کے ساتھ
ملایا جائے۔ کیونکہ اسلام کی ایک علیحدہ شناخت اور تشخص ہے اور یہ ساری
کائنات کا مذہب ہے اور جب اسلام آیا تھا تو تمام مذہب اور تہذیبیں باطل ہو
گئی تھیں۔اس لئے کائنات میں اسلام کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی اورمذہب کو ہو
ہی نہیں سکتا۔یہ ایک خدائی مذہب ہے اس کو کسی شخص نے نہیں بنایا۔اب یہ
ہمارے حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی نظام تعلیم کے لئے زیادہ سے اقدامات
کریں اور اس سلسلے میں فراخدلی سے خرچ کیا جائے۔ہمارے سکولوں پر حکومت کا
براہ راست کنٹرول نہیں ہونا چاہیے اور تعلیم کو انفرادی اعتبار سے پھیلانے
کی کوشش کرنی چاہئیں۔پاکستان کی بقاء اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے
ادارے اسلامی تعلیم کو عام کریں۔ معاشرتی مطابقت کے لئے اس بات کی بہت اہم
ضرورت ہے کہ تعلیم کے تمام شعبوں میں ہمیں اسلامی تعلیم کو رائج کرنا چاہیے۔ |