سانحہ کربلا ہر لحاظ سے اہمیت کا حامِل ہے

محرم کا مہینہ ہمیں ہر سال اُس عظیم وبے مثال قربانی کی یاد تازہ کراتا ہے جو آج سے سینکڑوں برس قبل خانوادہِ رسول پاک ﷺ کے معزز افراد نے کربلا کے تپتے ہوئے ریگستان میں اسلام کی عظمت و سر بلندی کے لئے پیش کی تھی۔وصال رسول مکرم ﷺ کے ۳۴ یا ۳۵ سال بعد سر زمین ِ عرب پر حق و باطل دستِ گریباں ہوئے۔ اِس مرتبہ باطل اقتدار اور سامراجیت کے لباس میں مقابل میں آیا تھا۔ اسلامی تاریخ کا یہ وہ نازک ترین دور تھاکہ اگر اس وقت حضرت امام حسینؓ اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی پیش کرکے عظمتِ اسلامی کی علم برداری نہ فرماتے تو اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کے آج دنیا میں کوئی اسلام کا نام لیوا ہوتا بھی یا نہیں۔ لیکن آغوشِ رسول پاک ؐ میں تربیت پانے والے پیارے نواسے حضرت امام حسینؓ نے حالاتِ وقت اور ماحول کے شدید تقاضوں کو بھانپ لیا۔اور فروغِ اسلام ، تحفظِ انسانیت کی خاطر اپنے ایک چھوٹے سے قافِلے کے ساتھ جس میں بچّے بھی تھے ، بوڑھے بھی تھے ، اور عورتیں بھی تھے ۶۱ ؁ ھ میں محرم الحرام کی دوسری تاریخ کو کربلا کے صحرا میں تشریف لائے اور دس محرم الحرام کو صبح سے لے کر نمازِ ظہر تک ان کے انصارواعزّا نے اطاعتِ الٰہی ، شکروتحمل ، صبرو ثبات اور شجاعت و جوان مردی کی وہ تمثیلیں قائم کیں جو اپنے حیران کُن معیار کے اعتبار سے انسانیت کی فضیلت اشرف کی آئینہ دار ہیں اور بہت سچ کہا ہے۔۔۔
حسین ؓ نام ہے قربانی و شہادت کا
حسین ؓ نام ہے ایثار و محبت کا
حسین ؓ نام ہے انسان کی شرافت کا
حسین ؓ نام ہے اﷲ کی اطاعت کا

خیر وشر کی جنگ ، حق وباطل کی لڑائی ، اہلِ صبر سے اہلِ جفا کا تصادم کہاں نہ ہوا۔ لیکن حقوباطل کا معرکہ جو کربلا میں ہوا اسکی کوئی دوسری مثال نہیں۔ کوئی جنگ ایسی نہیں بوڑھے لڑے ہوں ، کوئی جنگ ایسی نہیں جس میں علی اکبر ؓ جیسے نوجوان کی لاش حضرت امام حسینؓ جیسے شفیق و مہربان باپ نے اپنے ہاتھوں پر اُٹھائی ہو ، کوئی جنگ ایسی نہیں جس میں کمسن بچوں نے موت کو شہد ے زیادہ شریں پایا ہو ، کوئی جنگ ایسی نہیں جس میں کسی بوڑھی ماں نے اپنے جوان بیٹے کے کٹے سر کا ظالموں کی فوج میں یہ کہہ کر واپس کر دیا ہو کہ ہم خدا کی راہ میں جو چیز دیتے ہیں اُسے واپس نہیں لیتے ، کوئی جنگ ایسی نہیں ہے جس میں بہن نے بھائی کو ، بیوی نے شوہر کو ، ماں نے بیٹے کو اﷲ کی راہ میں یوں فِدا کردیا ہو۔

کربلا کا پس منظر یہ ہے کے ماہِ رجب ۶۰ ؁ھ میں امیر معاویہ ؓ کی وفات کے بعد شام کے پایہ تخت دمشق میں یزیدبن معاویہ کو وراثت کی راہ سے تاج وتخت ملا۔ یہ تخت شریعت کا تاج تھا ۔ لیکن بدبخت یزید جس کے اعمال وکردار شریعت کے خلاف تھے تخت کے نشے میں ایسا بد مست ہوا کہ اِس نے امیر معاویہ کی یہ نصیحت بھی پسِ پُشت ڈال دی کہ وہ حضرت امام حسینؓ سے کوئی حجّت نہ کریں ، اُن سے حسنِ سلوک سے پیش آنااور انکے خاندان کی پوری طرح عزت واحترام کرنا۔ مگر حکومت کے حوس نے اُسے ترغیب دی کے وہ عالی مقام حضرت امام حسینؓ سے اپنی بیعت و اطاعت منوائے اوران کے ماننے والے بھی اِسکے سامنے جھک جائیں۔

لیکن حضرت امام حسینؓ کی آنکھیں دیکھ رہیں تھیں کے یزید فاسق وفاجر ہے ، عیش پرستی نے اسے اندھا بنا دیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اسلام کو اور حق و صداقت کے تقاضوں کو پورا کریں گے۔راہِ حق و صداقت پر حضرت امام حسینؓ کا یہ سفرشروع ہوا۔ جب کربلا کی زمین کے قریب پہنچے تو صداقت کا یہ مجاہد اپنے گھوڑے سے اُترازمین کی طرف جُھک کر اپنی مُٹھی میں اس زمین کی مٹّی اُٹھائی اس کی خوشبو سونگھی اور آس پاس کے لوگوں سے پوچھا کہ اِس جگہ کا نام کیا ہے۔ کسی نے کہا نینوا اور کسی نے کہا کربلا ۔یہ سننا تھا کے حضرت امام حسینؓ نے فرمایا یہی ہماری منزل ہے اور یہیں ہمیں قِیام کرنا ہے۔

کربلا کے صحراء میں جلتی ہوئی ریت پر خیمے لگائے گئے جن کو اِبن ِ زیاد کی فوج نے اپنے محاصرہ میں لے لیا۔ ۷ محرم سے حضرت امام حسینؓ اور آپکے ساتھیوں پر پانی بند کردیا گیا۔ دریائے فراط پر فوج کے پہرے بٹھادئے گئے۔ ننھے ننھے بچّے کربلا کی جلتی ہوئی ریت پر پیاس کی شدّت سے تڑپنے لگے بوڑھے اور جوان نڈھال ہوگئے لیکن حضرت امام حسینؓ نے ہر جبر وستم کو صبرو تحمّل کے ساتھ برداشت کیا۔

جب دس محرم کی سحر نمودار ہوئی تو حضرت امام حسینؓ ، اہلِ بیت اور انکے ساتھی ابھی نمازِ فجر ادا کررہے تھے کہ یزید کی فوج کے سپہ سالار عمر بن سعد نے کمان میں تیر جوڑا اور اپنی پوری فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گواہ رہنا حسین ؓ کی طرف سب سے پہلا تیر میں نے مارا ہے۔ اسی طرح کربلا کی جنگ کا آغاز ہوا۔انصار نے دلیری دکھائی ، احباب نے وفاداری کی مثال قائم کی اور اپنی شہادت پیش کی۔ جب چھ ماہ شیر خوار معصوم علی اصغر ؓ بھی حضرت امام حسینؓ کے ہاتھوں پر حُرملہ کا تیر کھا کر شہید ہوگیا تو باپ کا دل تڑپ اُٹھا۔ آپ بھوکے پیاسے معصوم شہید کے گلے کا خون اپنے ہاتھوں میں لے کر آسمان کی طرف دیکھا آسمان لرزا ُٹھا ، زمین کی طرف دیکھا تو زمین کانپ گئی آخرکار یہ خون اپنی پیشانی پر مل لیا۔ یہ خون حضرت امام حسینؓ کے صبر و استقامت کی تصدیق کرتا ہے۔

اب عالی مقام نے خود کو شہادت کے لئے پیش کیا۔ آپکی دلیری کا عالم یہ تھا کے کوئی آپکے سامنے آنے کی کوشش نہ کرتا۔ لیکن اکثر باطل پرست لوگ پیچھے سے وار کرتے ہیں۔ حُرملہ بن کاہل نے تیر کا سہارا لیا اور وہ تیر حضرت امام حسینؓ کے سینے میں پیوست ہو گیااور آپ زمین پر آگئے۔ اﷲ کی بارگاہ میں سجدہِ شکر کے لئے زمین پر پیشانی رکھی۔ خولی نے خنجر نکالا اور آپکے سرِ مبارک کو قطع کر دیا۔ حضرت امام حسینؓ شہید ہو گئے۔مگر ہم سب کا ایمان بچ گیا ، کعبہ بچ گیا ، نانا کی شریعت بچ گئی۔

حق وباطِل کے معرکہ کب نہیں ہوئے۔ ہابیل وقابیل کا معرکہ ، ابراہیم ؑ و نمرود کا معرکہ ، موسٰی ؑ و فرعون کا معرکہ لیکن ان تمام سے علحٰیدہ معرکہ کربلا ایک علحٰیدہ نوعیت اور جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ سانِحہ کربلا ہر لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ صرف بہتّر کمزور نہتّے ، بھوکے پیاسے افراد پر مشتمل قافلے نے دلیری کے ساتھ ایک با جبرُوت سلطنت کی افواج سے
ٹکرانے کا حوصلہ کیا ہو۔ لیکن حضرت امام حسینؓ نے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ حق و صداقت کی راہ میں کثرت و قلّت کا امتیاز بے معنی ہے۔ آپ نے ذلّت کی زندگی پر عزّت کی موت کو تر جیح دی ، اور خوشی خوشی کربلا کی دھرتی پر جامِ شہادت نوش فرمالیا۔

جس طرح حضرت امام حسینؓ کی حیاتِ طتّبہ اُمّتِ مسلِمہ کے لئے ایک مستقل درس تھی اُسی طرح آپ کی وفات بھی ایک مکمل درس ہے۔ لیکن یہ بات ہماری سمجھ میں ابھی تک نہیں آئی کہ ہم اس عظیم سانحہ سے حقیقی درس لیں۔ ایسا درس جو ہمیں دنیا میں عزّت اور ایمان کے ساتھ جینے اور مرنے کا حوصلہ دے۔ ہم میں حق کی آواز کو بلند کرنے کا جوش دے۔ ہماری دینوی اور دنیاوی زندگی سُدھارے۔

در حقیقت محرم کا مہینہ ہمارے لئے لمحات ِ فکر مہےّا کرتا ہے ہمیں نہایت سنجیدگی سے سوچنا اور غور کرنا چاہئے کے ہم نے ماضی میں کیا کیا اور اب مستقبل میں ہمیں کیا اور کیسے کرنا چاہئے۔ اگر ہم غور کریں تو یقینا ہمارے لئے ترقی و سر بلندی کی راہیں پیدا ہو سکتی ہیں اور اقوامِ عالم کی نگاہوں میں ہمیں پھر اپنا کھویا ہوا امتیازی مقام حاصل ہو سکتا ہے۔
IMRAN YADGERI
About the Author: IMRAN YADGERI Read More Articles by IMRAN YADGERI: 26 Articles with 33736 views My Life Motto " Simple Living High Thinking ".. View More