جہاد و دفاع سے متعلق مسائل کے
بارے میں گفتگو سے پہلے خود ان دو لفظوں کی تشریح و تفسیر ضروری ہے ۔
دفاع سے مراد ہر اس چیز کی حفاظت کی خاطر جارح کو پیچھے دھکیلنا ہے جس کی
حفاظت ضروری ہو، خواہ وہ چیز جان ہو یا مال، عقیدہ ہو یا آزادی، ناموس ہو
یا شرف ۔
قانونی ( حقوقی ) نقطہ نظر سے دفاع ایک حق ہے جو انسان کو عطا کیا گیا ہے
تاکہ قانون کو پس پشت ڈال کر تجاوز کرنے والے جارح کے شر سے اپنا دفاع کر
سکے اور شر پسند افراد حکومت کی غیر حاضری سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے
قانون شکنی کر کے عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو سے نہ کھیل سکیں ۔
دفاع فطری حق ہے
اپنے جائز حق کا دفاع ایک ایسا فطری امر ہے جس سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ
ہر ذی روح بہرہ ور ہے کیونکہ ہر ذی روح اپنی بقا کی خاطر مجبور ہے کہ اپنی
ضروریات زندگی کو دوسری مخلوقات میں پائے جانے والے امکانات سے پورا کرے
اور ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرے جن سے اس کی زندگی و بقا
خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں زندگی کا دارو مدار ان افعال و
انفعالات ( عمل و رد ّ عمل ) اور تاثیر و تاثر پر ہے جو نظام خلقت میں
انجام پاتے ھیں ۔ ایسے میں اختلاف اور ٹکراؤ قدرتی بات ہے ۔ اگر کوئی ذی
روح مخلوق دفاعی طاقت سے محروم ھو تو اس کی موت و تباہی یقینی ہے ۔ اسی لئے
خدا وند عالم نے ہر مخلوق کو اس کی مناسبت سے دفاعی ہتھیار عطا کئے ہیں
تاکہ اپنے جائز حق کا دفاع کر سکے ۔ ہر حق کے ہمراہ حق دفاع کا فطری ہونا
اس کی عام مقبولیت کا باعث ہے ، ہر انسان اس فطری حق کو تسلیم کرتا ہے۔ ہر
فرد، ہر معاشرہ، ہر مکتب اور ہر قانون جارح سے مقابلہ جائز قرار دیتا ہے۔
دنیا کا کوئی قانون مسلّمہ حقوق سے دفاع کو جرم نہیں سمجھتا۔ اسلام نے بھی
انسانوں کے اس حق کو تسلیم کیا ہے، اس کے استعمال کو مذاہب توحیدی نیز
انسانوں کی بقا کا ضامن قرار دیا ہے اور اس کے فطری ہونے کا اعلان کیا ہے :
” ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض “ (۱)
اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا تو ساری زمین میں فساد پھیل
جاتا
یہ آیت انسانوں کو شر پسند وں کی سر کوبی کی ہدایت کرتی ہے اور روئے زمین
پر انسانوں کے برپا کیے ہوئے فتنہ و فساد کی روک تھام کا حکم دیتی ہے ۔ ایک
دوسری آیت میں ہے :
” و لولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد
یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا “(۲)
اور اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ نہ روکتا ہوتا تو تمام گرجے اور
یہودیوں کے عبادت خانے اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منہدم کردی
جاتیں۔
قرآن مجید اس دفاع کو دینی مظاہر اور عبادتی مراکز کی بقا اور نتیجہ بقائے
توحید کا باعث سمجھتا ہے ۔
معنی جہاد
لفظ جہاد کے لغوی معنی ہیں طاقت و اختیار کے ساتہ جدوجہد۔ قرآن مجید میں
بھی لفظ جہاد اسی معنی میں متعدد بار استعمال ہوا ہے ۔
” و الذین جاھدوا فینا لنھد ینّھم سبلنا “ ( ۳)
اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت
کریں گے ۔
لیکن ثانوی طور پراس سے مراد اسلام دشمنوں سے جنگ اور راہ خدا میں مال و
جان کو قربان کر دینا ہے ۔
”انّ الذین آمنوا و ھاجروا و جاھدوا باموالھم و انفسھم فی سبیل اللہ “ (۴)
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ھجرت کی اور راہ خدا میں اپنے جان و
مال سے جہاد کیا ۔
فقہ میں جہاد کبھی دفاع کے بجائے استعمال ہوتا ہے یعنی کفار سے وہ ابتدائی
جنگ جس کا مقصد یہ ہے کہ وہ کفر کو چھوڑ کر خدائے واحد پر ایمان لائیں اور
نظام الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کریں ۔ اور کبھی کفار سے مطلق جنگ کے لئے
استعمال ہوتا ہے جس میں دفاع بھی شامل ہے ۔ قرآن میں دفاع سے یہی عمومی
معنی مراد ہیں اگرچہ اس کا اہم ترین مصداق دفاع ہے یا اس کے تمام مصداق
دفاع پر بھی دلالت کرتے ہیں ۔ |