آج کچھ دردمیرے دل میں سواہوتاہے

باسمہ تعالیٰ

(جشن عیدمیلادالنبی و جلوس محمدی کے تناظرمیں)

۱۲؍ربیع الاول کامبارک دن گذرچکاہے،یہ دن ہرسال آتاہے اورہمیں بہت کچھ یادکراکرچلاجاتاہے،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ۱۲؍ربیع الاول کی تاریخ جس عظیم وبلندوبرتر شخصیت کے اہم واقعہ سے متعلق ہے ہم اس شخصیت اور اورہستی کے پیغام سے یاتوبالکلیہ ناواقف ہیں یاپھرہم اس پیغام پرعمل پیراہونے کی کوشش نہیں کرتے کیوں کہ بظاہروہ پیغام ہمیں بہت ہی دشوارگذارمعلوم ہوتاہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگی کالب لباب ہی وہی پیغام ہے،لیکن بجائے ہم اس پیغام پرعمل کرنے کے ہم ان خرافات اور لہو و لعب میں مصروف ہوجاتے ہیں جن کااس پیغام سے دوردورتک کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ ہمارے نفس کواچھالگتاہے،لہٰذاہم ۱۲؍ربیع الاول کے دن کونہایت ہی تزک واحتشام اورواہیات وخرافات کی ان تمام شکلوں کے ساتھ مناتے ہیں جس کا اس عظیم شخصیت اوراس عظیم وبرترشخصیت کے پیغام سے دوردورتک کاکوئی واسطہ نہیں ہے،اورپھرسال بھرکے لیے ہماری چھٹی ہوجاتی ہے،۱۲؍ربیع الاول کی دھینگامشتی کوہم اپنی کوتاہ نظروں میں عظیم کام سمجھ کرانجام دے لیتے ہیں گویاکہ ہم نے اپنی پوری زندگی کے گناہوں کاکفارہ ادا کر لیا، اب کس بات کی فکرہے۔۱۲؍ربیع الاول کادن ختم ہماری ذمہ داری بھی ختم۔افسو س صدافسوس!لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بہت بڑی تاریخی غلطی جس میں امت کاسواداعظم مبتلا ہے اورنہ تواس جانب کوئی توجہ دلانے کی کوشش کرتاہے وہ ہے ۱۲؍ربیع الاول کی تاریخ سے متعلق،درحقیقت جس تاریخ کولوگوں نے ولادت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے متعلق مان کراس دن ’’جشن عیدمیلادالنبی‘‘کااہتمام کرتے ہیں،مشہورتاریخ وروایات کی روشنی میں وہ تاریخ وفات ہے،اورولادت کے سلسلہ میں تاریخ مختلف فیہ ہے،جس کے بارے میں مختلف سیرت نگاروں کی مختلف آراء ہیں،بعض نے ۱؍بعض نے۲؍۵،۸،۹،۱۲ وغیرہ بتایاہے جس میں سے مشہورقول ۸؍اور۹؍ ربیع الاول کاہے۔

مشہورسیرت نگارحضرت مولاناادریس کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی مشہورزمانہ تصنیف سیرۃ المصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم میں تاریخ ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں:سیدولدآدم محمدصلی اﷲ علیہ وسلم واقعہ فیل کے پچاس یاپچپن روزکے بعدتاریخ ۸؍ربیع الاول بروزپیرماہ اپریل ۵۷۰عیسوی مکہ مکرمہ میں صبح صادق کے وقت ابوطالب کے مکان میں پیدا ہوئے، جمہور محدثین اورمؤرخین کے نزدیک راجح اورمختارقول یہ ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم۸؍ربیع الاول کوپیداہوئے،عبداﷲ بن عباسؓ اورجبیربن مطعم ؓکابھی یہی قول ہے۔‘‘(سیرۃ المصطفیٰ :۱؍۶۵)تاریخ کی مشہورکتاب البدایہ والنہایہ میں بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت۸؍ربیع الاول ہی بیان کی گئی ہے۔رہی بات تاریخ وفات کی تواس سلسلہ میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہااورمفسرقرآن حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ کاقول ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ۱۲؍ربیع الاول بروزپیرہوئی۔جہاں تک ولات کی تاریخ کی بات ہے تواس میں سیرت نگاروں کااختلاف ہے پھربھی مشہوراورراجح قول ۸؍ربیع الاول کاہے لیکن وفات کی تاریخ کے سلسلہ میں کسی قسم کااختلاف نہیں ہے اوراس سلسلہ میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہاکاقول بہت ہی مضبوط ہے اوران کے قول کی وجہ سے اس میں اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہتی ،اگرتھوڑی دیرکے لیے یہ مان بھی لیاجائے کہ ۱۲؍ربیع الاول تاریخ ولادت ہے تواب ولادت اوروفات کی تاریخ ایک ہی ہوئی یعنی ۱۲؍ربیع الاول، توبھلاجس دن اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اس دنیاسے رخصت فرمارہے ہوں اس دن کوجشن مناناکیایہ کسی عاشق رسول اورمحب رسول کاکام ہوسکتاہے؟اگرآپ نے سیرت کی کتابوں کامطالعہ کیاہوگاتوآپ کومعلوم ہوگاکہ جس دن اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیائے فانی کوالوداع کہااس دن روئے زمین کاکوئی ایسامسلمان نہیں تھاجوغم اورمصیبت سے نڈھال نہ ہو،ہرشخص غم زدہ اورپریشان حال تھا،کسی کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ کیاکرے،ایسامحسوس ہورہاتھا گویامدینہ میں قیامت آگئی ہو،حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ جیساجلیل القدرصحابی بھی اس وقت اپنے آپ کوسنبھال نہیں پارہے تھے اوروہ تلوارسونت کرباہرنکل آئے کہ اگرکسی شخص نے یہ کہاکہ حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ہے تومیں اس کی گردن اڑادوں گا،ایسے وقت میں امت محمدیہ کاصرف ایک شخص تھاجسے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیائے فانی کوالوداع کہنے کاکامل ومکمل یقین تھااوراسی نے اس نازک وقت میں امت محمدیہ کی کمان اپنے ہاتھوں میں لی اوریہ اعلان فرمایاکہ :’’اے مسلمانو!اﷲ کے بندوں اوررسول کے پیروکاروں! جوکوئی محمدکی عبادت کرتاتھاتوسن لوکہ محمدصلی اﷲ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں،لیکن جواﷲ کی عبادت کرتاہے اﷲ زندہ ہے اورہمیشہ باقی رہنے والاہے،‘‘یہ سننا تھاکہ مسلمانوں کی ڈھارس بندھی اورانہوں نے یہ یقین کرلیاکہ ہاں اب اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے درمیان نہیں رہے،اب صرف ان کی تعلیمات اوران کااسوۂ حیات ہی ہمارارہبرورفیق ہے اورقیامت تک رہے گا،لیکن دوسری طرف اس دن کفارومشرکین جشن منارہے تھے،وہ خوشیاں منارہے تھے، انہوں نے اپنے زعم باطل میں یہ گمان کرلیاکہ جب دین اسلام کاکھیون ہارہی چلاگیاتواب دین اسلام کابھی خاتمہ ہوجائے گااوراسی خوشی میں مست ہوکرشادیانے بجارہے تھے اورمسلمانوں کے غم کودوبالاکررہے تھے،غورکریں کہ اگرہم اس دن جشن مناتے ہیں اورجلوس نکالتے ہیں توہم کس کی پیروی کررہے ہیں،اورکس کے ساتھ ہیں،مدینہ کے ان مسلمانوں کے ساتھ ہیں جن کے اوپرمصیبت کاپہاڑٹوٹ پڑاتھا؟یاہم ان کفارومشرکین کے ساتھ ہیں جواسلام کے ختم ہوجانے کی خوشی کاسوچ کرخوشیاں منارہے تھے اورناچ گاناگارہے تھے؟کیاہمارایہ جشن اورڈھول باجے کے ساتھ نکلنے والایہ جلوس کس بات کی جانب اشارہ کرتاہے؟کبھی غورکیاہے اس پر؟

۱۲؍ربیع الاول کے دن برصغیرکے ممالک میں بڑے ہی تزک واحتشام کے ساتھ ’’جشن عید میلاد النبی‘‘ اور’’جلوس محمدی‘‘ کااہتمام کیاگیا،اخبارمیں شائع تصویروں کے دیکھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ مسلمانوں نے اس دن کواسلام کی دوعید،عیدالفطراورعیدالاضحی سے بھی اوپرجاکر’’عیدمیلادالنبی‘‘کوپہلی عیدبنالیا،کہیں نعت خوانی کی محفل منعقدکی گئی توکہیں جلسۂ ذکررسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلسیں منعقدکی گئیں اورکہیں بڑے ہی شان وشوکت کے ساتھ جلوس نکالاگیا،اگریہ باتیں اتنی ہی حدتک محدودرہتی توشایدکسی درجہ چشم پوشی کی جاسکتی تھی،لیکن افسوس اس وقت ہواجب یہ خبریں پڑھنے کوملی کہ جلوس محمدی کے دوران نوجوانوں نے ڈی جے کی دھن پررقص بھی کیااورخوب دھینگامشتی کی،ظاہرسی بات ہے کہ جب دین میں کسی غیردینی عمل کودین کے نام پرکیاجائے گاتواس کالازمی نتیجہ بے دینی ہی شکل میں نکلے گااورایساہی ہوا،اسی دوران ایک چونکانے والی خبریہ بھی آئی کہ آندھراپردیش کے کریم نگرشہرمیں خطبۂ عیدمیلادالنبی بھی پڑھاگیا،شروع میں یہ خبربھی آئی تھی کہ دورکعت عیدمیلادالنبی کی نمازبھی پڑھی گئی لیکن پھربعدمیں اس کی تردیدکردی گئی،البتہ خطبۂ میلادپڑھنے کی تصدیق کی گئی،یقین جانیں ان خبروں کوپڑھنے اورسننے کے بعدطبیعت بے چین ہوگئی اوردل میں ایسی کڑھن پیداہوئی کہ بتلانامشکل ہے اوراسی کے نتیجہ میں اس یوم سعیدکے گذرنے کے باوجوداس سے متعلق لکھنے پرمجبورہوناپڑا۔کیااﷲ اوراس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کاتقاضایہی ہے کہ ان کی تعلیمات کوپس پشت ڈال کران خرافات اورلہوولعب کے کاموں میں مشغول ہوجائیں جس کی وجہ سے ہماری نمازوں پہ اثرپڑے،کیاآپ کویقین ہوگاکہ جن لوگوں نے جلوس محمدکااہتمام کیاہوگاانہوں نے پانچ وقت کی نمازوں کواس کے وقت پراداکی ہوگی،ہرگزنہیں!اوریہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ جولوگ نمازوں کے پابنداورسنت نبی پرمضبوطی سے عمل پیراہوتے ہیں ان کے پاس ان خرافاتی کاموں کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا،آپ تحقیق کرلیں توآپ کے سامنے یہ حقیقت کھل کرسامنے آجائے گی کہ ان جلوسوں اورجشن کااہتمام کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کااسلام اورپیغمبراسلام کی تعلیمات سے دورکابھی کوئی واسطہ نہیں ہوتاہے،بس وہ سال میں ایک باران واہیات اورلغویات کااہتمام کرکے اپنی بڑی بڑی تصویریں اخبارات میں شائع کرادیتے ہیں اورپھرمطمئن ہوکرسال بھرکے لیے بیٹھ جاتے ہیں گویاکہ انہوں نے اپنی سال بھرکے گناہوں کاکفارہ اداکردیاہو۔

۱۲؍ربیع الاول کی بدعتوں کوبڑھاوادینے میں شعوری وغیرشعوری طورپراخبارات اورعلمائے کرام کابھی بڑاعمل دخل ہے۔جہاں ایک طرف اخبارات والے اس موقع پراشتہارات کے ذریعہ اپنی آمدنی کی فکرمیں خصوصی شمارہ کااعلان کرتے ہیں اورسیاسی وسماجی کارکنان اپنی تشہیرکے لیے عیدمیلادالنبی کی مبارکبادیاں دیتے ہیں جس سے عوام یہ سمجھ بیٹھتی ہے کہ عیدالفطراورعیدالاضحی کے علاوہ بھی کوئی عیدہے اوروہ تیسری عید’’عیدمیلادالنبی‘‘ہے،اسی طرح چنداخبارات والوں نے پوری دنیاکی تصاویرشائع کیں جس کے ذریعہ سے یہ بتلانے کی کوشش کی گئی کہ پوری دنیامیں جشن عیدمیلادالنبی کااہتمام کیاگیاان تصاویرمیں ایک تصویرخانہ کعبہ کی بھی شائع کی گئی اوریہ لکھاکہ عیدمیلادالنبی کے موقع پرزائرین عبادت کرتے ہوئے۔افسوس ہوتاہے اخباروالوں کی اس غلط بیانی پرکہ سعودی میں صرف دوعیدیں پڑھی جاتی ہیں وہ بھی منائی نہیں جاتی اسکے علاوہ سعودی عرب میں کسی چیز کا تصور نہیں ہے خواہ وہ محرم ہویارجب یاپھرپندرہویں شعبان یاپھرعیدمیلادالنبی،اوریہ میں اپنے تجربہ کی روشنی میں بیان کررہاہوں کیوں کہ میں خودسعودی عرب میں رہتاہوں،میں نے تو یہاں تک دیکھاہے کہ لوگ عیدکے دن مسجدوں میں آتے ہیں دورکعت نمازپڑھی اورباہرہوٹل سے کھاناخریدااوراپنے اپنے گھروں کوروانہ ہوگئے،کسی قسم کی کوئی ایسی چہل پہل نظر نہیں آئے گی جس سے آپ کواندازہ ہوکہ آج عیدالفطرہے یاعیدالاضحی سوائے دورکعت نمازکے،رہی بات یہ کہ عیدمیلادکے موقع سے حرم شریف میں عبادت کرتے ہوئے تویہ بتلادوں کہ حرم شریف میں پورے سال اسی طرح عبادت کرنے اورطواف کرنے والوں کاہجوم رہتاہے اسی لیے اخباروالوں کی ان تصاویرسے دھوکہ نہ کھائیں،اسی طرح علماء بھی خاص طورپرربیع الاول کے مہینوں میں سیرت کے حوالہ سے مضامین لکھتے ہیں،جلسہ سیرت النبی کااہتمام کرتے ہیں جوکہ گرچہ مبارک اورنیک کام ہے لیکن اگرباریک بینی سے دیکھاجائے تواس بدعت کوبڑھاوادینے میں یہ بھی بہت حدتک معاون ہے۔ذکررسول کی محفلوں کامنعقدکرناہماراعین ایمان ہے،لیکن اس کے لیے دن اورمہینہ مخصوص کرلینااسے بدعت کے درجہ میں رکھ دیتاہے جوکہ اسلامی روح کے منافی ہے۔اگریہ اتناہی ضروری ہوتاتواﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعداکابرصحابہ،تابعین اورائمہ عظام نے اپنی زندگیوں میں ایساکوئی مخصوص عمل کیاہوتالیکن تاریخ اس سے خالی ہے،ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے عمل سے اس بدعت کوبڑھاوادینے کی بجائے اس کے خاتمہ کی فکرکریں،اورجشن وجلوس کی بجائے ہم سیرت کے پیغام پرعمل کریں جوکہ اصل مطلوب ومقصودہے۔آئیے !ہم ایک عہدکریں،کہ آئندہ ہم اس طرح کے خرافات سے اپنی زندگی کوپاک وصاف رکھیں گے اورجشن وجلسہ وجلوس کی بجائے ہم نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات پرعمل کرنے کی بھرپورکوشش کریں گے ۔٭٭٭
Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 50655 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More