ہم اور ہماری ذمہ دادی
الحمدللہ رب العلمین
والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین
تعلیم و تربیت کی اہمیت سے سارا زمانہ آشنا ہے ۔ یہ تعلیم ہی تو ہے جس کی
بنا پر انسان کو اشرف المخلوقات کا رتبہ ملا ، حضرت انسان مسجود ملائک بنے
۔ یہ تعلیم ہی کا ثمرہ ہے جس کی بنا پر انسان روز بروز ترقی کی منازل طے
کرتا جا رہا ہے ۔دنیاوی ترقی ہو یا ولایت کی منازل طے کرنا، علم ہی اس کا
راستہ ہے۔ علم زندگی گزارنے کا شعور دیتا ہے ۔علم انبیاء کرام علیھم السلام
کی معراث ہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں ہر کوئي علم کے حصول کی اہمیت کو اجاگر کر رہا ہے
اور علم کے حصول پر زور دے رہا ہے مگر معذرت کے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے۔ علم
دین کی طرف توجہ ہی نہیں صرف دنیاوی علوم کا حصول سب کے مد نظر ہے۔ ہر کوئی
چاہتا ہے کہ میرا بیٹا یا بیٹی ڈاکٹر بنے ، انجینیر بنے، وکیل بنے، چارٹر
اکاؤنٹنٹ بنے وغیرہ وغیرہ۔ مگر جو علوم فرض ہیں ان کی طرف توجہ ہی نہیں۔
وکیل ، ڈاکٹر یا انجینیر بننا برا نہیں، برا تو یہ ہے کہ اس بنے ہوے ڈاکٹر،
انجینیر ، یا چارٹر اکاؤنٹنٹ وغیرہ کو حلال و حرام میں فرق نہیں پتا، وہ یہ
نہیں جانتا کہ وضو اور غسل کا سنت طریقہ کیا ہے ان میں فرائض کیا ہیں ،
نماز کے بارے میں علم نہیں ۔ نماز کے واجبات ، فرائض ، سنتیں ؟ غرض کہ ہر
چیز سے بے خبری ہے یہاں تک کے سچ اور جھوٹ کا فرق ہی ہمارے معاشرے میں مٹتا
جا رہا ہے۔
آج اگر کوئی علم دین کی طرف آتا بھی ہے تو غلط لوگوں کے ہتے چڑ جاتا ہے ۔
جو دین کے نام پر اسے مسلمانوں سے بد گمان کرتے ہیں ، اولیاء اللہ سے
بدگمان کرتے ہیں ، انبیاء کرام علیھم السلام کی بے ادبی سکھاتے ہیں ، گویا
کے دین سیکھنے گیا اور دین سے ہی ہاتھ دھو بیٹھا۔
اگر یقین نہیں آتا تو آج ملکی حالات دیکھ لیں ۔۔۔۔ کبھی مزارات کو بم
دھماکے سے اڑایا جا رہا ہے کہ یہاں شرک ہو رہا ہے کبھی مساجد کو نشانہ
بنایا جاتا ہے کہ یہاں مشرک آتے ہیں حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ" مجھے تم لوگوں سے شرک کا اندیشہ نہیں "۔ مطلب
اب جو مسلمانوں کو مشرک کہتا ہے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے
ادبی کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو کوئی اہمیت نہیں
دیتا۔
یہ مسلمانوں کو شہید کرنے والے دعوی مسلمانی رکتھے ہیں اور اچھے خاصے مدارس
انہوں نے بنا رکھے ہیں ۔ اور لوگ دین سیکھنے کے چکر میں ان کے چکر میں آ
جاتے ہیں۔
اب سچوں اور جھوٹوں میں فرق کیسے کیا جاۓ؟ کیسے ان بد مذھب لوگوں سے اپنے
آپ کو ، اپنے گھر والوں کو اور آنے والی نسلوں کو محفوظ کیا جاۓ؟
اس کا آسان سا طریقہ تو وہ ہے جسے امام اہلسنت، الشاہ امام احمد رضا خان
بریلوی رضی اللہ عنہ نے اپنی نعت شریف کے ایک شعر میں بیان کیا ہے کہ
تیرے غلاموں کا نقش پا ہے راہ خدا
وہ کیا بھٹک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے
مطلب یہ کہ جب تک ہم اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں (اولیاء
کرام ) کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے اور ان کا دامن تھامے رکھیں گے تب تک ہم
گمراہ نہیں ہونگے اور نہ غلط لوگوں کے ہتے چڑ سکیں گے۔
ہمیں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہمہ تن ڈوبے ہوے لوگوں کی صحبت
اختیار کرنی ہے جہاں ہمیں عشق و ادب کا سبق ملے ، جہاں ہمارے دلوں میں عظمت
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بٹھائی جاۓ، جہاں شان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
کا بیان ہو، جہاں درود و سلام کی صدائیں سننے کو ملیں ،جہاں عظمت اولیاء
اللہ کا بیان ہوں ، جہاں پینے کو عشق صحابہ کرام اور عشق اہل بیت اطہار کے
جام ملتے ہوں، جہاں غوث اعظم کی غلامی کا پٹا ہمارے گلوں میں ڈالا جاۓ،
جہاں ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بے مثل علوم کی بلندی بتائی جاۓ ،
جہاں لفظ "نبی" (یعنی غیب کی خبریں دینے والا) کا صحیح معنی و مفہوم
سمجھایا جاۓ ، جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات و خصوصیات سے ہمارے
قلوب منور کیے جائیں ۔جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثلیت سکھائی
جاۓ، جہاں یہ سکھایا جاۓ کہ
جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا
جسے ہو عشق کا مزہ ناز دوا اٹھاۓ کیوں
جہاں یہ نعرہ دلوں کی دھڑکن ہو
سب سے اولی اعلی ہمارا نبی
جہاں مومن کی حرمت کا درس ملے ، جہاں بھائی چارے کی فضا کے قیام پر زور دیا
جاۓ، جہاں انسان تو کیا جانوروں سے بھی محبت کاسبق پڑھایا جاۓ، اس ماحول
میں جب انسان دینی تعلیم حاصل کرے گا تو عشق الہی و عشق رسول صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم سے لبریز ہو کر سراپا سنت بن جاۓ گا، انسانیت کی قدرو قیمت کا
اسے پورا پورا احساس ہو گا ، حرام حلال میں وہ تمیز کرے گا،گویا کے اس کا
چلنا ، پھرنا ، سونا جاگنا شریعت کے تابع ہو جاۓ گے ، ہر طرف پیار، محبت،
امن و امان ، بھائی چارے کی فضا قائم ہوگی ، ہمارے ملک سے انتہا پسندی کا
خاتمہ ہور گا ، جرائم کا خاتمہ ہو گا ، ہر ایک کا جان و مال و عزت محفوظ ہو
گی گویا کہ ایک فلاحی ریاست بن جاۓ گی۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد و آل کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے چاہنے والوں کے دامن سے وابستہ کریں تا کہ وہ غلط ہاتھوں کے آلہ کار نہ
بنیں۔
اگر کہیں سے یہ آواز کان میں پڑے کے معاذاللہ نبی ہم جیسا بشر ہوتا ہے یا
معاذاللہ نبی کو دیوار کے پیچھے کا علم نہیں یا معاذاللہ نبی کو عطائی علم
غیب نہیں ۔ یا معاذاللہ نبی کو کوئی اختیار نہیں یا معاذاللہ نبی کے وسیلے
کی کوئی ضرورت نہیں۔ یا معاذاللہ نبی اور ولی کے مزار شریف کو کوئی بت کہے
تو ایسے لوگوں کی ہم نشینی اور صحبت سے کوسوں دور باگیں کیونکہ جو نبی کا
گستاخ ہے اور نبی کا وفادار نہیں وہ ہم سے کب وفا کرے گا۔ وہ ہمیں کہاں
احترام مسلم سکھاۓ گا۔ حقیقت میں یہی وہ لوگ ہیں جو ہمارے ایمان و جان و
ملک کے دشمن ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں اتحاد کی فضا قائم
نہیں ہونے دیتے اور ہر طرف دہشت پھیلا رکھی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے
بارے قرآن اعلان فرماتاہے کہ یہ لوگ شرالبریہ یعنی بد ترین مخلوق ہیں۔ یہی
وہ لوگ ہیں جن کو بخاری شریف میں خوارج کہا گیا۔ یہ نام بدل بدل کر
مسلمانوں کی صفحوں میں شامل ہوتے ہیں تا کہ ہم مسلمانوں کو جنت سے دور کر
دیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو بتوں کے اور کفار کے رد میں نازل ہونے والی آیات
کو انبیاء اور اولیاء پر چسپاں کرتے ہیں۔تاکہ اللہ والوں میں اور اللہ کے
دشمنوں میں فرق مٹا دیں ۔ حالانکہ اللہ والوں کو اللہ" حزب اللہ" یعنی اللہ
کی جماعت قرار دیتا ہے اور انھیں جنتوں کی نعمتوں کا خوشخبری سناتا ہے اور
اپنے دشمنوں کو "حزب الشیطان " یعنی شیطان کی جماعت قرار دیتا ہے اور انھیں
جہنم کا ایندھن قرارا دیتا ہے۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خود بھی ان کو پہچانیں اور اپنے گھر والوں کو
اور اپنی آنے والی نسلوں کو ان خونخوار خارجی درندوں سے محفوظ رکھیں۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ عزوجل اپنے محبوب صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا صدقہ ہمیں اپنے اچھوں کے دامن سے وابستہ رکھے اور بروں کی
صحبت سے محفوظ فرماۓ ۔ آمین بجاہ النبی الا مین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم |