کرکٹ پر اجارہ داری حاصل کرنے
کیلئے آجکل جو پلان ترتیب دیا جا رہا ہے اس سے اکثریت اختلاف رائے کا اظہار
کر رہی ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح ناصرف کرکٹ کے کھیل کو نقصان
پہنچے گا بلکہ تین ممالک کی کرکٹ پر اجاری داری قائم ہو جائے گی۔ دنیائے
کرکٹ میں تین بورڈز بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ نے انٹرنیشنل کرکٹ کو اپنے
اشاروں پر چلانے اور سپر پاور بننے کے لیے جو خواب دیکھ رکھا ہے اس پر جوڑ
توڑابھی بھی جاری ہے۔ ٹرائیکایابگ تھری کے نام سے سامنے آنے والے اس پلان
میں کرکٹ کی بہتری کے لئے تو کچھ نہیں ہے لیکن اس میں تین ممالک کی اجارہ
داری اور دنیائے کرکٹ کے وسائل پر قبضہ صاف نظرآ رہا ہے۔ اس کا فیصلہ اگلے
ماہ کے اجلاس میں ہو گا۔ لیکن بھارت نے اپنی اصلیت دکھاتے ہوئے دھمکیاں بھی
دینا شروع کر دی ہیں کہ اگر بگ تھری کی مخالفت ہوئی تو بنگلادیش میں ورلڈ
ٹی ٹوئنٹی اور ایشیا کپ نہیں کھیلیں گے۔یعنی اگر ہماری نہ مانی گئی تو پھر
دھمکیوں سے منوا لیں گے۔۔۔ ابھی یہ حال ہے تو بگ تھری بننے کے بعد کیا
ہوگا؟ٹرائیکا یابگ تھری پلان کیا ہے؟ اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے اس کے
مطابق، آئی سی سی کے سارے بڑے عہدوں پر ان تین ممالک کا قبضہ ہو گا۔ آئی سی
سی کی کمائی کا سب سے بڑا حصہ ان تین ممالک کو ملے گا۔ تینوں ممالک آئی سی
سی رینکنگ میں ، تنزلی سے مستثنیٰ ہو نگے۔ آئی سی سی ایگزیکٹو کمیٹی میں
کسی اور رکن ملک کو جگہ ملے گی تو ان تینوں کی مرضی سے۔ فیوچر ٹور پروگرام
کا خاتمہ، کون کس سے کھیلنا چاہتا ہے اس کا فیصلہ آئی سی سی کے بجائے یہ
تین ممالک کریں گے۔
اس پلان میں کرکٹ کی بہتری نہیں بلکہ کرکٹ کو ختم کرنے کا پلان بنایا گیا
ہے۔ یہ پلان کرکٹ کے میدانوں پر تین ملکوں کی دادا گیری کے منصوبے کے سوا
کچھ نہیں۔ اس سے کرکٹ کی دنیا میں انتشار اور آئی سی سی کے رکن ممالک کا دو
گروپوں میں تقسیم ہونے کا خطرہ ہے۔ اب تک صرف جنوبی افریقہ سینہ تان کر اس
پلان کے خلاف کھڑا ہے جبکہ دیگر رکن ممالک گو مگوں کی کیفیت میں ہیں کہ کیا
کریں اور کیا نا کریں۔ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے کچھ تبدیلیوں کی صورت میں اس
کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ پاکستان سری لنکا اور زمبابوے کا موقف حمایت
یا مخالفت کے لئے ابھی واضح نہیں ہے۔ نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز نے من وعن
اس پلان کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ کیا کمزور ٹیسٹ ارکان اور ایسوسی ایٹ
ممبر ممالک کے حقوق کے لیے پاکستان، سری لنکا اور جنوبی افریقہ سینہ تان کر
کھڑے رہ سکیں گے؟ آئی سی سی کے انتظامی ڈھانچے میں مجوزہ ترامیم کے معاملے
پر پاکستان غیر معمولی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ پاکستان کو ساتھ ملانے کے
لیے پہلے بھارت نے نیوٹرل وینیو پر سیریز کھیلنے کی پیشکش کی، پھر انگلش
بورڈ نے بھی لفٹ کرانا شروع کردی۔مقصد یہ تھا کہ کسی طرح پاکستان کی حمایت
حاصل کر لی جائے۔ یہ دونوں کرکٹ بورڈز، آئی سی سی کے اجلاس میں ورکنگ گروپ
کے پوزیشن پیپر پر پاکستان کا ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ذکا اشرف کا کہنا
ہے کہ بگ تھری کے معاملے میں ایسا موقف اختیار کیا جائے گا جس سے پاکستان
اور کرکٹ دونوں کا فائدہ ہو۔ کچھ لوگ اس تجویز کے حق میں ہیں اور کئی سخت
خلاف ہیں۔ جیسا کہ سابق کپتان رمیز راجہ کا کہنا ہے کہ بھارت، انگلینڈ اور
آسٹریلیا نے آئی سی سی پر قبضہ کرنے کیلئے جو پوزیشن پیپر بنایا ہے وہ ایک
دن ہونا ہی تھا کیوں کہ آئی سی سی کا کردار کافی عرصے سے غیر فعال تھا،
رمیز راجہ نے کہا کہ اس تجویز کی حمایت کیلئے بھارت اور انگلینڈ نے پاکستان
کو جو پیشکشیں کی ہیں، اسے قبول کرلینا چاہئے، جذباتی ہونے یا پاکستانیت
دکھانے کی ضرورت نہیں، اگر اس کیلئے بے شرم بھی ہونا پڑے تو کوئی برائی
نہیں۔ انھوں نے شاید بی سی سی کی رکنیت اوراس کی مخالفت مول نہ لینے کی وجہ
سے ٹرائیکا کی حمایت کی ہے۔دوسری طرف بھارتی بورڈ کے سابق نائب صدر للیت
مودی نے پوزیشن پیپر کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بات صرف پاکستان اور بھارت
کی کرکٹ کی نہیں، کرکٹ کھیلنے والے دیگر ممالک کی بھی ہے، اگر بگ تھری نے
آئی سی سی پر قبضہ جمالیا تو کرکٹ ختم ہوجائے گی۔ جس سے ا کثریت متفق ہے۔
پاکستان کی طرح بھارت میں بھی اکثریت اس پلان کے سخت خلاف ہے۔شعیب اختر کا
کہنا ہے کہ وہ بھی اس تجویز کے حق میں نہیں مگر پاکستان کے پاس سوائے اس کی
حمایت میں ووٹ دینے کے کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں۔ سابق بھارتی کپتان بشن
سنگھ بیدی نے بھی کہا ہے کہ اس تجویز کو مسترد کرنے کے لیے غیرت کا مظاہرہ
کرنا ہوگا۔ اگر یہ ڈرافٹ ہو بہو نافذ ہوگیا تو پھر بنگلہ دیش رینکنگ میں
ٹاپ 8 میں نہ ہونے کی وجہ سے ٹیسٹ کرکٹ سے باہر ہوجائے گا لیکن اسے دیگر
مالی فائدے ضرور ہوں گے۔ دوسری طرف اس بات کے بھی خدشات ہیں کہ اس پلان کے
نافذ ہونے کے بعد کرکٹ میں مالی بد عنوانیاں، اسپاٹ فکسنگ اور جوا مافیا کو
زبردست عروج حاصل ہو گا اور یہ چیزیں قابو سے باہر ہو جائیں گی۔ بگ تھری کی
تجویز کا فیصلہ آئندہ ماہ کے اجلاس میں ہوگا۔یعنی معاملہ فی الحال تو ٹل
گیا ہے لیکن اگلے چند دنوں تک جوڑ توڑ ، لالچ ور اور دھمکیاں دینے میں صرف
ہونگے۔دیکھتے ہیں کرکٹ کی تقدیر کا کیا فیصلہ سامنے آتا ہے اور اس اجارہ
داری کے سامنے کون ڈٹ کر کھڑا ہو گااور کون بھیگی بلی بنناپسند کرے گا۔سب
سے بڑھ کر یہ کہ اب کرکٹ کی بہتری کی ذمہ داری کوئی اپنے سر لے گا بھی یا
اسے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جائے گا۔۔ |