ایک بچے نے سوال کیا:’’کیا یہ
فوری تعریف و ستائش مجھے خوشی مہیا کر سکتی ہے؟‘‘ پھر وہ خوفزدہ نظر آنے
لگا۔خاتون استاد نے کہا:’’دراصل یہ تعریف و ستائش، دس سیکنڈپر مشتمل تعریف
و ستائش سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘ سب بچے ہنسنے لگے۔ استانی نے اپنی بات آگے
بڑھاتے ہوئے کہا:’’تمہارے سوال کا واضح اور تفصیلی جواب دینے کے لیے میںنے
ایک گوشوارہ تیار کیا ہے جو پانچ مراحل پر مشتمل ہے۔’’میں فوری طور پر خود
کو تعریف و ستائش سے نوازتی ہوں۔‘‘’’جیسے ہی میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ میں
نے کوئی اچھاکام کیا ہے، میں خود کو خاص طور پر بتاتی ہوں کہ میں نے ایک
درست اور اچھا کام انجام دیا ہے۔‘‘ ’’میں اپنے آپ میں مزید حوصلہ اور ولولہ
پیداکرتی ہوں کہ میںاپنا یہ اچھا رویہ اور طرز عمل مستقل جاری رکھ سکوں
کیونکہ میں دوبارہ اپنے لیے خوشی و طمانیت حاصل کرنا چاہتی ہوں کہ میں نے
اپنے اچھے رویے اور طرز عمل کوبرقرار رکھا ہے۔‘‘ موثر اور بہترین خاتون
استاد نے کہا:’’ممکن ہے کہ تم ایک منٹ صرف کرکے اپنے لیے فوری تعریف و
ستائش تخلیق کرنا چا رہے ہو۔ اس ایک چیز کے متعلق سوچو جو تم درست اور اچھے
انداز میں انجام دے رہے ہو۔‘‘ پھراستانی مسکرائی اورکہنے لگی:’’میرے پاس اس
بچے کے لیے تھوڑا سا اضافی وقت ہے جوکسی چیز کے متعلق سوچ سکتا ہے۔‘‘ایک
دفعہ پھر تمام بچے ہنسنے لگے۔انہیںایک دوسرے کی رفاقت میں لطف حاصل ہونے
لگا تھا۔ چند منٹ بعد خاتون استاد نے بچوں سے کہاکہ وہ بلند آواز سے اپنی
اپنی ’’فوری تعریف و ستائش‘‘ کے متعلق پڑھ کر سنائیں۔ خاتون نے بچوںکی طرف
ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہوئے انہیں یادکرایا ہم سب لوگ ہر روزکوئی نہ کوئی ایسا
کام سر انجام دیتے ہیںجو تعریف و ستائش کے قابل ہوتا ہے۔ اس نے فوری طور پر
انہیںیقین دلایا کہ ہم اس قابل ہیں کہ اپنے آپ کویہ بتااورسکھا سکیںکہ ہم
کیا کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔جونی اٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی:’’آج میں نے
سارہ کو بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر لیا کیوں کہ وہ اپناکھانا لانا
بھول گئی تھی۔اس نے واقعی میری بہت تعریف کی۔‘‘جونی بیٹھ گئی توایک اور
طالب علم نے کہا:’’جونی نے یہ نہیں بتایا کہ اس نے جو اچھا کام کیا، اس کے
متعلق اس نے کیا محسوس کیا، اور اس نے اپنے اچھے رویے کو مستقل طور پر جاری
رکھنے کے ضمن میں اپنے عزم و ارادے کا بھی اظہار نہیں کیا۔‘‘ خاتون استاد
نے طالب علم کی طرف دیکھا اورکہنے لگی:’’جو کچھ واقعہ رونما ہوا، اس کے
متعلق غور کرو۔ اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ایک دوسرے کے متعلق ہمارا رویہ
اور طرز عمل کیا ہوتا ہے۔ ہم صرف ایک دوسرے کی غلطیوں ہی کی تلاش میں ہوتے
ہیں۔‘‘ایک لمحے کے لیے تو طالب علم کچھ نہ سمجھ پائے، ان کے پاس کچھ جواب
موجود نہ تھا۔ پھر ایک طالب علم نے ہچکچاتے ہوئے کہا:’’ہم لوگوں کے اچھے
کاموںکو تو نظر انداز کر دیتے ہیںلیکن ان کے غلط رویے پر تنقید کرتے ہیں۔‘‘
استانی نے اس طالب علم کی بات سے اتفاق کیا اور کہنے لگی:’’ہم نے جونی کی
فوری تعریف وستائش کے ضمن میں تو فوراً ہی اس میں کیڑے نکالنے شروع کر دیے
اور ہم نے یہ بھی نہیں دیکھاکہ اس نے کون سا اچھا اورصحیح کام سر انجام
دیا۔‘‘خاتون استاد نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے آہستگی سے کہا:’’اب تم میں
سے کون طالب علم ’’فوری تعریف و ستائش‘‘ کے متعلق مثال دے گا تاکہ ہم اس پر
تبصرہ کر سکیں؟ ‘‘ تمام بچے ہنس پڑے۔وہ جانتے تھے کہ ان میں سے کوئی بھی
نہیں چاہتا کہ اس پر تنقید کی جائے۔ اب خاتون استاد کہنے لگی:’’ہم سب کو
علم ہے کہ تنقید کے باعث ہم پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہم نہایت
خاموشی سے کہتے ہیں ’نہیں‘ آپ کا شکریہ، میں نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا
ہے۔ جب ہم اپنے متعلق تلخ رویہ اپناتے ہیں تو یہی رد عمل سامنے آتا ہے۔ہم
حوصلہ اور ہمت ہار دیتے ہیں اور خود کو اپنے مقصد تک پہنچے کا موقع بہم
نہیں پہنچاتے۔اس مرحلے پر ہمیں یہ چاہیے کہ ہم جو بھی اچھا کام کریں، اس کا
ادراک کریں، اس کا جائزہ لیں اور اس کے متعلق غور کریں۔ ہر روز ہم بے شمار
اچھے کام کرتے ہیں‘ لیکن ہم اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کا ادراک اور
شمار بھول جاتے ہیں۔‘‘ اچانک ایک طالب علم کو واضح طور پر معلوم ہوگیا کہ:
جب میں کوئی اچھا کام کرتا ہوں اور مجھے اپنے اس فعل کے متعلق علم ہو جاتا
ہے تو پھر میں نہایت آسانی سے اپنے آپ کو بتا اور سکھا دیتا ہوں کہ مجھے
کیا سیکھنا چاہیے۔‘‘ (کانسٹینس جانسن کی کتاب ’’ون منٹ ٹیچر‘‘ سے ماخوذ)
٭…٭…٭ |