ہمارانصاب تعلیم۔۔۔ نظرثانی کی ضرورت

کسی بھی ملک یامعاشرے میں بسنے والے افراد کے کردارواطوارمیں مثبت تبدیلی لانے کی بنیادتعلیم پرہواکرتی ہے اور تعلیم ہی وہ عامل ہے جو انسان کو ایک مخصوص قالب کے اندر رہتے ہوئے زندگی گزارنے کے لیے راستہ فراہم کرتاہے۔ اب معاشرے میں رہنے والا کوئی فرد تعلیم حاصل کرنے کے بعدکیارجحانات وترجیحات اپنائے گا اس کادارومدار علم ومعلومات کے اس مجموعے پرہوتاہے جودورانِ تعلیم اُس کے ذہن میں منتقل کیاجاتاہے اور جس کے حصول کے لیے اساتذہ اورکتابوں کے درمیان ایک لمبی زندگی گزاری جاتی ہے۔ استاد کے ذریعے اور کتاب کے واسطے طالب علم کے قلب ودماغ میں جوکچھ منتقل ہوتاہے عرفِ عام میں اس کی تعبیر’’نصابِ تعلیم‘‘ سے کی جاتی ہے۔ اگرتعلیمی نصاب کوترتیب دیتے وقت معاشرتی، سیاسی، روحانی، اخلاقی، قومی اور مذہبی غرضیکہ انسان کی زندگی میں پیش آنے والے تمام امور و لوازمات کومدنظررکھاجائے تو اس نصاب کے نتیجے میں یقیناایک کامل انسان وجودپائے گا اور اگرکسی مخصوص پہلوکوسامنے رکھ کر صرف چندظاہری باتوں پراکتفاء کیاجائے تو یہ نصاب کسی انسان کی تعمیرمیں موثر کردار ادا نہیں کرے گا۔۔۔ اگر وطن عزیز پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں رائج نصاب پرنظرڈالی جائے تو حالت کوئی اطمینان بخش نہیں؛ پہلانقص یہ ہے کہ پور ے ملک کے ہرصوبے میں قائم تمام سرکاری اور غیرسرکاری تعلیمی اداروں میں الگ الگ نصاب پڑھایاجاتاہے، ہرصوبے کے ٹیکسٹ بک بورڈ نے اپنے انداز سے نصاب ترتیب دیاہے۔ اس کے علاوہ پرائیویٹ سکولز نے اپنی اپنی مرضی اورکسی ذاتی سوچ یا’’ترجیحات‘‘ کی بنیادپر اپنے لیے نصاب کا انتخاب کیاہے اور بعض اداروں میں تو بیرون ملک غیروں کے ہاتھوں تیارشدہ نصاب پڑھایاجاتاہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ فکری اور نظریاتی وحدت کاشیرازہ بکھرگیا، کیونکہ ہرایک ادارے میں الگ الگ سوچ اور نظریات کے حامل طلبہ تیار ہوتے ہیں اور حصول تعلیم کے بعد ان کے خیالات اور مقاصدمختلف ہوتے ہیں اور اسی نظریات کے اختلاف کی وجہ سے بہت سارے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں جو آج ہم سب کے سامنے ہیں۔۔۔ اگرپورے ملک میں طلبہ کے اذہان میں ایک ہی قسم کے تعلیمی مواد منتقل کیے جاتے تو گلگت سے لیکر کراچی تک طلبہ اور تعلیم یافتہ افراد کے ذہن متضاد افکار کے حامل نہ ہوتے اور کل کوکسی حدتک ملک بھرمیں بسنے والے لوگوں کے درمیان کم از کم ملکی وقومی سطح کے نظریات میں اضطراب نہ ہوتا۔۔۔ دوسرابڑانقص جو نصاب تعلیم میں نظرآتاہے وہ اس میں شامل غیراخلاقی ، غیرمعیاری اور غیرمفید موادہیں۔ غیراخلاقی کہوں یاغیرضروری بہرحال حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم میں بچوں کی ذہنی اور اخلاقی نشوونماکے لیے موادکی بہت کمی ہوتی ہے، اس کے مقابلے میں ایسے اسباق کی کثرت نمایاں ہے جن سے بچے کے ذہن پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور ان میں طلبہ کے لیے کوئی نصیحت یافائدہ بھی موجود نہیں ہوتا، بعض اسباق تو ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے طلبہ پراگندہ خیالات میں مبتلاہونے کے ساتھ ساتھ عملی طورپربھی برے اعمال کے عادی بن جاتے ہیں۔ کوئی تصویر یاکوئی پیراگراف خال خال ہی ملتاہے جس سے طالب علم اخلاقی، مذہبی یامعاشرتی طورپرکوئی سبق اخذکرسکتاہو۔۔۔ آرٹس کی بعض کتابوں میں شروع سے آخرتک کتوں، پریوں، جنات، پرندوں اور ناپیدجانوروں کے قصے ہوتے ہیں۔ کہیں مہمل قسم کے اسباق نظرآتے ہیں جن کاکوئی مطلب بھی نہیں بنتا تو کبھی فحش قسم کی تصاویر سے آنکھیں لگ جاتی ہیں۔ جھوٹ پرمبنی بے ہودہ داستانیں بھی کتاب کاحصہ ہوتی ہیں۔ جماعت نہم سے بارھویں تک کی اردو کتابوں میں حصہ نظم کودیکھ کرایسا معلوم ہوتاہے کہ کلاس میں دورانِ تدریس منظربڑاعجیب ہوگا؛ ایسالگے گا جیسے یہ کوئی علمی درسگاہ نہیں بلکہ عشق ومحبت اور ’’اختلاط مردوزن‘‘ کے مختلف اندازوں اور ’’کرداروں‘‘ کے طورطریقے سکھلانے کی تربیت گاہ ہے۔ پندرہ سے لیکر انیس سال تک کے نوجوانوں کو عشق ومعاشقے پرمشتمل اشعارسکھلانا کہاں کی عقلمندی ہے!!! پھرستم بالائے ستم کہ اُسی کلاس میں ہماری نوجوان بیٹیاں اور بہنیں بھی بیٹھی ہوتی ہیں جوان اسباق واشعار اور استادمحترم کی زبان سے ہونے والی تشریحات کویقیناًسنتی ہیں۔ آخرعین شباب کے زمانے میں ہماری نوخیزونوجوان نسل جب ان غیراخلاقی وناشائستہ گفتگو سے آشناہوجاتی ہے تو کل کو ان سے شرافت کی امیدکیسے رکھی جاسکتی ہے!!! میری دعوتِ فکر۔۔۔ کہ حکومت، نصاب بنانے والے اداروں اور دیگر ماہرین تعلیم کو اس سلسلے میں سنجیدہ غور کرنا چاہئے۔ لایعنی اور بےمقصد اسباق کی بجائے بہترہوگا کہ ہم طلبہ کے سامنے ایسانصاب رکھیں جس سے ان کی بہتر سے بہترمذہبی اور اخلاقی نشوونما ہوجائے، ان کے دلوں میں اپنے وطن سے محبت کاجذبہ ابھرآئے، قومی حمیت اور ملکی تشخص کی باتیں ان کی رگ رگ میں پیوست ہوجائیں، ان کے مذہبی معلومات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو اور تاریخ اسلام کے ضمن میں وہ مسلمانوں کے شاندارماضی سے بخوبی واقف ہوجائیں اور اپنے اسلاف وبزرگوں کے غیرت بھرے تذکروں سے ان کے دماغ روشن ہوجائے۔جب کوئی سبق ختم ہو تو طلبہ کوپتہ ہوجانا چاہئے کہ اس سے ہمیں کیاملا اور یہ سبق عملی زندگی میں ہمارے لیے کتنا معاون ومفیدثابت ہوگا۔۔۔ کیا یہ بہترنہ ہوگا کہ پشمی پولی جیسے ناپید جانور کے قصے کی جگہ ’’پاکستان سے محبت ضروری ہے‘‘ کاعنوان شامل نصاب ہواور گلیور یابھوتوں کی جھوٹی داستانوں کی بجائے حضرت عمر کے دور خلافت پر تفصیلی روشنی ڈالی جائے ۔ میں مانتاہوں کہ اردو یا انگریزی ادب (لیٹریچر) کی اہمیت ہے اور طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذکورہ زبانوں کو سیکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی باریکیوں اور ادبی ذوق مذاق سے بھی واقف ہوں لیکن کیا ’’ادب‘‘ انہی واہیات ولغویات میں منحصرہے جن سے ہمارے جوان بچے بے ادب بن جاتے ہیں!!! ہمارے سائنسی مضامین توخیرمتعلقہ موضوع پرمشتمل ہوتے ہیں لیکن کم ازکم آرٹس اور علوم انسانی سے وابستہ مضامین میں درست سمت جانے کے لیے ضرورسوچناچاہئے۔ سب سے بڑامسئلہ کہ ہمارے ہاں معلومات کا ذخیرہ تو بہت ہوتاہے جو طلبہ کے اذہان میں ٹھونساجاتاہے لیکن طلبہ کے اخلاقی معیارکی بہتری کے لیے کچھ بھی موجودنہیں۔ لہٰذانصاب تعلیم بناتے وقت ایسے اسباق تیارہونے چاہئے جوہرلحاظ سے طلبہ کے اخلاق کو سدھارنے میں مددگارہوں تو پھرکل کویہی تعلیم یافتہ افراد خودبخود جھوٹ بولنے، ناجائزمال کھانے، رشوت وصول کرنے، وعدہ خلافی، بے جاسفارش اور ان جیسی بے شمار دوسری بداخلاقیوں سے محفوظ رہیں گے۔۔۔ اگرمذکورہ بالا سطورکواہمیت دی گئی تو کوئی مشکل نہیں کہ بہت سارے مسائل کے حل ہونے کے ساتھ ساتھ ہم اس ملک کوبہتر مستقبل دے سکیں گے۔

Nizam Uddin
About the Author: Nizam Uddin Read More Articles by Nizam Uddin: 14 Articles with 18024 views Columnist / Reasercher / Story Writer.. View More