اسلام اور مستشرقین ۱

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ابتدائیہ
سب سے پہلے تو حمد و ثنا ہے اس رب جلیل کی جس نے ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے آخری آسمانی ہدایت کی نعمت سے نوازا اور ہمیں اس بار امانت کے قابل سمجھا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تاقیامت اپنے فضل و کرم کے سائے میں رکھے، ہماری راہ نمائی فرمائے، شیطان اور اس کے ساتھیوں کے مقابلے میں ہماری مدد فرمائے اور ہمیں صبر و ثبات اور ہمت و حوصلہ عطاء فرمائے۔زیر نظر مقالہ استاد مکرم جناب ڈاکٹر عبدالرشید رحمت کی ہدایت کے مطابق ایم فل، سیکنڈ سمیسٹر کے پرچہ ۔۔’’اسلام اور مستشرقین‘‘ کے حوالے سے ایک تعارف ہے، جس میں استشراق کا مفہوم، مستشرقین کے عقائد و نظریات کا پس منظر، اسلام کے بارے میں مستشرقین کے عمومی رویوں کا بیان اور اسلام پر مستشرقین کے اعتراضات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مستشرقین کا تعلق زیادہ تر مغرب سے ہے اور ان کا مذہبی پس منظر عیسائیت اور یہودیت کا ہے۔ یہود اپنے آپ کو خدا کی چہیتی قوم قرار دیتے ہیں اور عیسائی کفارے کے عقیدے کی بنا پر خود کو نجات یافتہ گردانتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ نجات کے لیے بس یہودی یا عیسائی ہو جانا ہی کافی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد، یہ دونوں اقوام اپنی آسمانی کتابوں میں بیان کی گئی پیش گوئیوں کی روشنی میں آخری زمانے میں آنے والے نبی کی منتظر تھیں۔ لیکن اللہ نے حضرت ابراہیم کے ساتھ کیے گئے وعدے کو دوسرے انداز میں پورا کیا۔ یہود و نصاریٰ کی سرکشی، ظلم، نفاق، انبیاء کے ساتھ غلط رویوں، کتاب اللہ میں تحریف اور احکام خدا کے ساتھ مذاق کی وجہ اور اصلاح کی ساری کوششوں کی ناکامی کے بعد کچھ اور ہی فیصلہ کر لیا تھا۔ اس نے نبوت و رسالت کے عظیم منصب کو بنی اسرائیل سے واپس لے کر بنو اسماعیل کے ایک صادق و امین اور صالح ترین فرد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کر دیا۔ اس پر یہود، باوجود اس کے کہ ساری نشانیوں سمیت آپ کو نبی کی حیثیت سے پہچان گئے تھے، آپ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اور اس سلسلے میں تمام اخلاقی حدود کو پامال کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تفصیل سے ان اقوام پر اپنے انعامات اور ان کی بدکرداری اور نافرمانی کا ذکر کیا ہے۔

ان دونوں قوموں نے آغاز اسلام سے لے کر اب تک ہمیشہ اسلام کی مخالفت اور اسلامی تعلیمات کو شکوک و شبہات سے دھندلانے کی سعی و جہد کی ہے۔ اپنی کتابوں میں تحریف کر کے ہر اس آیت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے جو کسی بھی صورت میں اسلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں تھی۔ اسلام کے افکار و نظریات میں تحریف کرنے، غلط عقائد کو پھیلانے اور اسلام کے آفاقی پیغام کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے اس مقالے میں انہی چیزوں کو واضح کرنے کی سعی کی ہے۔
عبدالحی عابد

استشراق کی لغوی تحقیق

’’استشراق‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا سہ حرفی مادہ ’’شرق‘‘ ہے، جس کا مطلب ’’روشنی‘‘اور’’ چمک ‘‘ ہے۔ اس لفظ کو مجازی معنوں میں سورج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح شرق اور مشرق، سورج طلوع ہونے کی جگہ کو بھی کہتے ہیں۔ ابن منظورالافریقی لکھتے ہیں:
’’الشَّرْق: الضوء والشرق الشمس
وروی عمرو عن ابیہ انہ قال الشرق الشمس بفتح الشین والشِّرق الضوء الذی
یدخل من شق الباب۔
شرقت الشمس تشرق شروقا وشرقا طلعت و اسم الموضع المشرق‘‘۔[۱]
لفظ ’’شرق ۔‘‘ کو جب باب استفعال کے وزن پر لایا جائے تو’’ ا، س، ت‘‘ کے اضافے سے ’’ استشراق ‘‘ بن جاتا ہے۔ اس طرح اس کے اندر طلب کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ۔ گویا ’’استشراق ‘‘ سے مراد مشرق کی طلب ہے۔ عربی لغات کی رو سے مشرق کی یہ طلب علوم شرق، آداب، لغات اور ادیان تک محدود ہے ۔ یہ ایک نیا لفظ ہے جو قدیم لغات میں موجود نہیں ہے ۔ انگریزی زبان میں ’’شرق‘‘ کے لیے "Orient" اور ’’استشراق ‘‘ کے لیے "Orientalism" اور مستشرقین کے لیے "Orientalists"کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ اردو زبان میں اس کے لیے ’’شرق شناسی‘‘ کی اصطلاح اختیار کی گئی ہے، جو اس کے مفہوم و مقصد کو پوری طرح سے واضح کرنے کے قابل نہیں ہے۔ مغربی لغات میں استشراق صرف جغرافی مفہوم میں مشرق کی طلب کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ روشنی ، نور اور ہدایت کی طلب کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ ڈاکڑ مازن بن صلاح مطبقانی نے لفظ ’’Orient‘‘کے بارے میں سید محمد شاہد کی تحقیق کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے:

’’شرق’’Orient‘‘ انہ یشار الی منطقۃ الشرق المقصودہ بالدراسات الشرقیہ بکلمۃ۔ تتمیز بطابع معنوی و ھو’’Morgenland‘‘ و تعنی بلاد الصباح ، و معروف ان الصباح تشرق فیہ الشمس، و تدل ھذہ الکلمۃعلی تحول من المدلول الجغرافی الفلکی الی الترکیز علی معنی الصباح الذی یتضمن من النور والیقظۃ، وفی مقابل ذالک نستخدم فی اللغۃ کلمۃ’’Abendland‘‘ وتعنی بلاد المساء لتدل علی الظلام و الراحۃ۔۔۔وفی اللاتینیۃ تعنی کلمۃ ’’Orient‘‘ یتعلم او یبحث عن شیء ما، و بالفرنسیۃ تعنی کلمۃ ’’Orienter‘‘ وجہ او ھدیٰ او ارشد۔‘‘[2]

استشراق کا مفہوم

استشراق کا عام فہم اور فوری طور پر ذہن میں آنے والا مفہوم یہ ہے کہ مغرب کے رہنے والے علماء ومفکرین جب مشرقی علوم و فنون کو اپنی تحقیق و تفتیش کا مرکز و محور بنائیں گے تو اسے استشراق کہا جاتا ہے۔ عام طور پر ان علوم و فنون میں ہر قسم کے علوم شامل کیے جاتے ہیں۔ مثلاً، عمرانیات، تاریخ ، بشریات، ادب، لسانیات، معاشیات، سیاسیات، مذہب وغیرہ۔ اگرچہ بظاہر استشراق میں کوئی منفی مفہوم نہیں پایا جاتا، اور مغربی مفکرین اس سے مشرقی علوم و فنون کا مطالعہ اور ان کی تحقیق و تفتیش ہی مراد لیتے ہیں۔ جیسے کہ ایڈورڈ سوید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

’’شرق شناسی (استشراق)ایک سیاسی موضوع ہی نہیں یا صرف ایک شعبہ علم ہی نہیں، جس کا اظہار تمدن، علم یا اداروں کی صورت ہوتا ہے۔ نہ یہ وسیع و عریض مشرق کے بارے میں کثیر تعداد میں منتشر تحریروں پر مشتمل ہے اور نہ یہ کسی ایسی فاسد مغربی سازش کی نمائندگی یا اس کا اظہار ہے جس کا مقصد مشرقی زمین کو زیر تسلط رکھنا ہو بلکہ یہ ایک جغرافی شعور، معلومات اور علم کا جمالیاتی اور عالمانہ، معاشی، عمرانی، تاریخی اور لسانیات کے متعلق اصل تحریروں میں ایک طرح کا پھیلاؤ ہے ۔‘‘ [3]

اگر ہم اس بات کو مان بھی لیں کہ استشراق کا مقصد صرف مشرق، اس کے علوم، روایات اور انفرادی و اجتماعی رویوں کا مطالعہ ہے تو ان مذکور شعبہ جات کی حد تک یہ رائے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ لیکن جیسے ہی اسلام کا ذکر آتا ہے تو مغرب کی ساری اخلاقیات، علمی روایات، انصاف ، رواداری سب کچھ آن واحد میں کہیں کھو جاتا ہے۔ اور اس بات سے بھی مفر نہیں کہ مشرق اور اسلام کا ساتھ چولی دامن کا ہے۔ نہ مشرق کا ذکر اسلام کے بغیر ممکن ہے اور نہ اسلام کا ذکر مشرق کے بغیر مکمل ہو سکتا ہے ۔ اس لیے استشراق کے تمام مراحل میں مغربی مفکرین کا سابقہ اسلام سے پڑتا رہا اور وہ اس کے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک کرتے رہے ۔’’ استشراق ‘‘کا یہ لفظ اختیار کرنے کے پس پشت اگرچہ کوئی خاص مقصد یا سوچ کارفرما نہیں تھی، لیکن اتفاق سے یہ لفظ مستشرقین کے لیے بے حد موزوں اور ان کی نیتوں کی صحیح وضاحت کرتا ہے ۔ باب استفعال کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ثلاثی مجرد کو مزید فیہ میں لایا جائے تو اس کے اندر تکلف کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ یعنی کسی کام یا امر کو بتکلف سر انجام دیا جائے اور پس منظر میں کچھ منفی مقاصد بھی ہوں۔ عام طور پر استشراق کا جو مفہوم اہل علم میں مشہور ہے وہ یہی ہے کہ مغربی مفکرین کا مشرقی علوم کے مطالعے اور تحقیق و تفتیش کا نام استشراق ہے ۔ جدید لغات میں بھی اس کا یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے ۔ ورڈ ویب انگلش ڈکشنری کے مطابق:
The scholarly knowledge of Asian cultures and languages and" people."[4]
’’ایشیائی ثقافت اور زبانوں کے عالمانہ مطالعے کا نام استشراق ہے ۔"
عربی زبان کی لغت’ المنجد ‘کے مطابق:
العالم باللغات والاٰداب والعلوم الشرقیۃ والاسم الاستشراق۔ [5]
’’مشرقی زبانوں ، آداب اور علوم کے عالم کو مستشرق کہا جاتا ہے اور اس علم کا نام
استشراق ہے ۔‘‘

ان تمام تعریفوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرقی علوم وثقافت اور ادب کا مطالعہ استشراق کہلاتا ہے۔ لیکن اگر اس مفہوم کو مان لیا جائے تو چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت اسلام کے علاوہ دو بڑے مذاہب یہودیت اور عیسائیت ہیں۔ ان دونوں مذاہب کے انبیاء اور ان کے ابتدائی پیروکاروں کا تعلق مشرق سے ہے۔ تورات و انجیل میں بیان کیے گئے تمام حالات و واقعات اور مقامات کا تعلق بھی مشرق سے ہے۔ لیکن اس کے باوجود بائیبل یا عیسائیت و یہودیت کے عالمانہ مطالعے کو کوئی بھی استشراق کے نام سے موسوم نہیں کرتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ استشراق کی اس تحریک کے مقاصد سراسر منفی ہیں، مستشرقین اپنے ان مقاصد کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد اسلام اور اس کی تعلیمات کا صرف تحقیقی مطالعہ نہیں، بلکہ ان تعلیمات کو شکوک و شبہات سے دھندلانا، مسلمانوں کو گم راہ کرنا اور غیر مسلم لوگوں کے سامنے اسلام کا منفی تصور پیش کر کے انہیں اسلام قبول کرنے سے روکنا ہے۔ لفظ استشراق کی کوئی قدیم تاریخ نہیں ہے۔ یہ ایک نیا لفظ ہے جو پرانی لغات میں موجو د نہیں ہے ۔ اے جے آربر ی’ ’Arthur John Arberry‘‘(۔1905-1979)کے مطابق لفظ استشراق ’’Orientalist‘‘ پہلی بار1638ء میں یونانی کلیسا کے ایک پادری کے لیے استعمال ہوا۔[6]

میکسم روڈنسن(Maxime Rodinson) (1915-2004 )کے مطابق استشراق کا لفظ انگریزی زبان میں ۱۸۳۸ء میں داخل ہوا اور فرانس کی کلاسیکی لغت میں اس کا اندراج 1799ء میں ہوا۔[7]

تحریک استشراق کا پس منظر
اگرچہ لفظ استشراق نومولود ہے ، لیکن تحریک استشراق کا آغاز بہت پہلے ہو چکا تھا۔ اہل مغرب کی اسلام دشمنی کی تاریخ کا آغاز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غار حرا میں پہلی وحی کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ اہل مغرب سے یہاں ہماری مراد اہل کتاب یہود و نصاریٰ ہیں جو مشرکین بنی اسماعیل کے بعد اسلام کے دوسرے مخاطب تھے۔ یہود و نصاریٰ کی کتب اور صحائف میں آخری زمانے میں آنے والے ایک نبی کا ذکر بڑی صراحت اور واضح نشانیوں کے ساتھ موجود تھا۔ عہد نامہ قدیم میں ہے :

’’میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور وہ انھیں وہ سب کچھ بتائے گا جس کا میں اسے حکم دوں گا۔ اگر کوئی شخص میرا کلام جسے وہ میرے نام سے کہے گا، نہ سنے گا تو میں خود اس سے حساب لوں گا۔‘‘[8]

عیسائی علما اس آیت کا مصداق حضرت عیسیٰ کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن حضرت عیسیٰ کسی طرح بھی حضرت موسیٰ کی مانند نہیں تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی تخلیق، حیات مبارکہ اور وفات کے لحاظ سے حضرت موسیٰ سے مکمل طور پر مختلف تھے۔ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی پیدایش، شادی، اولاد، وفات اور شریعت، ہر طرح سے ان کے مماثل تھے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
واذقال عیسیٰ ابن مریم یٰبنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم مصدقا لما بین یدی من التورٰہ و مبشرا برسول یاتی من بعد اسمہ احمد فلما جاء ھم بالبینٰت قالواھذا سحر مبین۔ (الصف 6:61)
’’اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا اے بنی اسرائیل میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی میں تمہیں خوش خبری سنانے والا ہوں جن کا نام احمد ہے۔ پھر جب وہ ان کے پاس کھلی دلیلیں لائے تو یہ کہنے لگے، یہ تو کھلا جادو ہے ۔‘‘

اسی طرح انجیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے منسوب الفاظ اس طرح سے ہیں :
’’اور میں باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمھیں ایک اور مددگار بخشے گا تاکہ وہ ہمیشہ تک تمہارے ساتھ رہے ۔‘‘ [8]
سی طرح انجیل یوحنا کے اگلے باب میں لکھا ہے :
’’جب وہ مددگار یعنی روح حق آئے گا جسے میں باپ کی طرف سے بھیجوں گا تو وہ میرے بارے میں گواہی دے گا۔[9]
انجیل کے یونانی نسخوں میں ’’مددگار‘‘ کے لیے لفظ "Paracletos" استعمال ہوا ہے، جب کہ انگریزی نسخوں میں "Paracletos " کا ترجمہ "Comfortor" مددگار کر دیا گیا ہے۔ جب کہ "Paracletos" کا صحیح ترین ترجمہ’’A kind friend ۔ ‘‘ یا ’’رحمۃ للعالمین‘‘ ہو سکتا ہے ۔

لیکن اگر ہم قرآن کی روشنی میں دیکھیں تو یہ لفظ اصل میں "Paracletos" کے بجائے "Periclytos" ہے جس کا ترجمہ عربی زبان میں ’’احمد یا محمد‘‘ اور انگریزی میں "the praised one" ہے ۔

قوم یہود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انتہائی درجے کا حسد تھا۔ وہ اپنی کتابوں اور انبیاء بنی اسرائیل کی پیش گوئیوں کی روشنی میں ایک آنے والے نبی کے انتظار میں تھے۔ ان کو اس حد تک نبی کی آمد اور آمد کے مقام کا اندازہ تھا کہ انھوں نے مدینہ کو اپنا مرکز بنا لیا تھا اور عربوں کو اکثر یہ بات جتاتے تھے کہ ہمار ا نبی آنے والا ہے اور ہم اس کے ساتھ مل کر عرب پر غلبہ حاصل کر لیں گے. قرآن مجید نے اس بات کو اس طرح سے بیان کیا ہے :
و کانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جاء ھم ما عرفوا
کفروا بہ۔ (البقرہ ۲:۸۹)
’’اور پہلے ہمیشہ کافروں پر فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے، تو وہ چیز جسے یہ خوب پہچانتے تھے، جب ان کے پاس آ پہنچی تو انھوں نے اس کا انکار کر دیا۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنی کتابوں میں بیان کردہ نشانیوں کے لحاظ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پورے یقین کے ساتھ بطور نبی جانتے اور پہچانتے تھے ۔ ارشاد ہے:
الذین آتینٰھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم وان فریقا منھم لیکتمون الحق و ھم یعلمون۔
(البقرۃ 2:146)
’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح سے پہچانتے ہیں، جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، مگر ان میں سے ایک فریق سچی بات کو جانتے بوجھتے ہوئے چھپاتا رہتا ہے ۔‘‘

بنی اسرائیل اپنے آپ کو اللہ کی پسندیدہ قوم سمجھتے تھے، اور اس خوش گمانی میں مبتلا تھے کہ اپنی تمام تر نافرمانیوں کے باوجود وہ جنت میں جائیں گے اور یہ کہ وہ خدا کی چہیتی قوم ہیں۔ چنانچہ جب ان کی تمام تر خوش گمانیوں کے برعکس اللہ نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنی اسماعیل میں مبعوث کر دیا تو یہود نے فرشتہ جبرائیل کو اپنا دشمن قرار دے دیا کہ انھوں نے دانستہ، وحی بجائے یہود پر اتارنے کے، بنی اسماعیل کے ایک فرد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کر دی ہے۔ چنانچہ اس جلن اور حسد کی وجہ سے انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کر دیا۔ قرآن مجید نے ان کی اس حرکت کو اس طرح سے بیان کیا ہے :
قل من کان عدوا لجبریل فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ مصدقا لما بین یدیہ و ھدی و بشریٰ للمومنین۔ ( البقرۃ ۲:۹۷)
’’کہہ دو کہ جو شخص جبرائیل کا دشمن ہے، تو اس نے (یہ کتاب) اللہ کے حکم سے تمہارے دل پر نازل کی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت و بشارت ہے ۔‘‘

اس حسد اور جلن نے یہود اور عیسائیوں دونوں کو مسلمانوں کا دشمن بنا دیا۔ انھوں نے آنے والے نبی کے بارے میں اپنی کتابوں میں موجود پیش گوئیوں کو اپنی دانست میں گویا ہمیشہ کے لیے مٹا دیا۔ لیکن اس تحریف کے باوجود اللہ نے بہت ساری نشانیاں ان کی کتابوں میں باقی رہنے دیں اور قرآن مجید میں، دو ٹوک انداز میں ان کی تحریف کا پول بھی کھول دیا۔ چنانچہ اس پس منظر کے باعث مغربی مفکرین ، بالعموم اسلام کے بارے میں منفی انداز فکر سے کام لیتے ہیں ۔ اسلام کے تمام تعمیری کاموں کو نظر انداز کر کے صرف انھی پہلوؤں پر زور دیتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ لوگوں میں اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلا سکیں۔ جب ہم استشراق اور مستشرقین کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں تو لفظ ’’استشراق‘‘ میں تکلف کا جو مفہوم پایا جاتا ہے، اس کی وضاحت زیادہ آسانی سے ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہم اس کی تعریف اس طرح سے کریں گے کہ مغربی علماء و مفکرین جب اپنے مخصوص منفی مقاصد کے لیے اسلامی علوم و فنون کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیتے ہیں تو اس عمل کو استشراق کہا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر احمد عبدالحمید غراب کے نزدیک استشراق کی تعریف اس طرح سے ہے :
"الاستشراق: ھو دراسات ’’اکادیمیۃ‘‘یقوم بھاغربیون کافرون من اھل الکتاب بوجہ خاص، لاسلام والمسلمین، من شتی الجوانب:عقیدۃ وشریعۃ، وثقافۃ، وحضارۃ، وتاریخا، و نظما، وثروات و امکانات۔۔۔۔ھدف تشویۃ الاسلام ومحاولۃ تشکیک المسلمین فیہ، و تضلیلھم عنہ وفرض التبعیۃللغرب علیھم ومحاولۃ تبریر ھذہ التبعیۃ بدراسات و نظریات تدعی العلمیۃ والموضوعیۃ، تزعم التفوق العنصری والثقافی للغرب المسیحی علی الشرق الاسلامی۔‘‘[۱]
’’استشراق، کفار اہل کتاب کی طرف سے، اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے، مختلف موضوعات مثلاً عقائد و شریعت، ثقافت، تہذیب، تاریخ، اور نظام حکومت سے متعلق کی گئی تحقیق اور مطالعات کا نام ہے جس کا مقصد اسلامی مشرق پر اپنی نسلی اور ثقافتی برتری کے زعم میں، مسلمانوں پر اہل مغرب کا تسلط قائم قائم کرنے کے لیے ان کو اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور گمراہی میں مبتلا کرنا اور اسلام کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنا ہے ۔‘‘

ہم یہ بات بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ استشراق صرف مشرقی لوگوں کی عادات، رسم ورواج، زبانوں اور علوم کے مطالعے کا نام نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو یہودیت، عیسائیت اور دیگر تمام مشرقی مطالعات کو بھی استشراق کے ذیل میں رکھا جاتا۔ بلکہ یہ اسلام اور اس کی تعلیمات کے خلاف ایک پوری تحریک ہے، جس کا آغاز اسلام کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ مشرق، اہل مغرب کے لیے ہمیشہ پر اسرار دنیا کی حیثیت اختیار کیے رہا ہے۔ اس کے بارے میں جاننے اور کھوجنے کی کوشش ہمیشہ سے کی جاتی رہی ہے۔ اہل مغرب کے سامنے مشرق کی پرکشش تصویر مغربی سیاح پیش کرتے تھے اور اپنے تجارتی اور سیاحتی سفروں کی کہانیاں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے۔ مشرق کے بارے میں ان کے علم کا بڑا ذریعہ مختلف سیاح تھے۔ مثلاً، اطالوی سیاح مارکوپولو(Marco Polo ) ((1254-1324 ، لوڈو و یکو ڈی وارتھیما (1470-1517) (Ludovico di Varthema)وغیرہ ۔ان کے بارے میں کبھی کسی نے مستشرق ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔
اگرچہ بعض مغربی مفکرین خلوص نیت سے اسلام کی تفہیم کے لیے مشرقیت اختیار کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مفید تحقیق بھی کرتے ہیں۔ لیکن فی الحال ہمار ے پیش نظر صرف وہ مغربی مفکرین ہیں، جو اسلام کی مخالفت اور اسے بدنام کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں۔

تحریک استشراق کا آغاز
ہم یہ بات گزشتہ صفحات میں بیان کر چکے ہیں کہ اس تحریک کا آغاز اسلام کے ساتھ ہی ہو گیا تھا۔ عیسائیوں اور یہودیوں نے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزمایا، لیکن ناکام رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیے گئے معاہدات کی خلاف ورزی کے نتیجے میں یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا گیا اور ان کی نسلی و علمی برتری کانشہ ٹوٹ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت کے اختتام تک ان لوگوں کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہی اسلام کے شاندار اور تابندہ نظریات کے سامنے کوئی اور فکر یا نظریہ اپنا وجود برقرار رکھ سکا۔ بلکہ یہود و نصاریٰ کے مذہبی و روحانی مرکزبیت المقدس پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ ظہور اسلام کے ایک سو سال مکمل ہونے سے پہلے ہی اسلام اپنے آپ کو دنیا میں ایک روشن خیال، علم دوست، شخصی آزادیوں کے ضامن ، عدل و انصاف، رواداری اور احترام انسانیت جیسی خوبیوں سے متصف، دین کے طور پر منوا چکا تھا۔ یہ کامیابی یہود و نصاریٰ کو ہرگز گوارا نہ تھی۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود و نصاریٰ کی ریشہ دوانیوں کا آغاز حیات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں ہو چکا تھا۔ لیکن ان کاروائیوں کا عملاً کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ مدینہ میں عیسائی راہب ابو عامر نے منافقین کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے مسجد ضرار تعمیر کرائی اور ساتھ ہی رومی سلطنت سے مسلمانوں کے خلاف مدد چاہی، لیکن اسے کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ اسی طرح موتہ اور تبوک کی جنگوں میں بھی مسلمان کامیاب رہے۔ عہد خلافت راشدہ میں چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام کثیر تعداد میں موجود تھے اور پوری اسلامی سلطنت میں ان کے حلقہ دروس پھیلے ہوئے تھے۔ مسلمان ذہنی اور علمی لحاظ سے یہود و نصاریٰ سے کہیں آگے تھے، لہٰذا دشمنان دین کی سرگرمیاں زیادہ تر جنگ و جدل تک ہی محدود رہیں۔ لیکن اس محاذ پر بھی مسلمانوں کی برتری قائم رہی اور اسلامی ریاست کی حدود پھیلتی گئیں اور عیسائی و یہودی عوام اسلام کے سایہ عاطفت میں پناہ لیتے گئے۔ یہاں تک کہ ان کے مذہبی مقامات بیت المقدس وغیرہ بھی مسلمانوں کے قبضے میں آ گئے۔ خلافت راشدہ کے آخری دور میں صحابہ کرام کی تعداد کم ہو چکی تھی اور نئے غیر تربیت یافتہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے، جو ابھی تک اپنے سابقہ عقائد و رسوم کو پورے طور پر نہیں چھوڑ سکے تھے۔ عبداللہ بن سبا اور اس طرح کے لوگوں نے ان مسلمانوں میں غلط عقائد کو رواج دینا شروع کیا۔ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کو بھڑکایا اور سادہ لوح لوگوں میں خلفاء و عمال کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائیں اور غلط سلط احادیث اور قصے کہانیوں کو رواج دینا شروع کیا۔ پہلا آدمی جس نے باقاعدہ طور پر اسلام کے خلاف تحریری جنگ شروع کی وہ جان آف دمشق (یوحنا دمشقی676 [L:150] 4 December 749)تھا۔ اس نے اسلام کے خلاف دو کتب’’محاورہ مع المسلم‘‘ اور ’’ارشادات النصاریٰ فی جدل المسلمین‘‘ لکھیں ۔[10]

کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس تحریک کا آغاز ۱۳۱۲ء میں ہوا جب فینا میں کلیسا کی کانفرنس ہوئی، جس میں یہ طے کیا گیا کہ یورپ کی جامعات میں عربی، عبرانی اور سریانی زبان کی تدریس کے لیے، پیرس اور یورپ کی طرز پر چیئرز قائم کی جائیں ۔ [11]
بعض اہل علم کے نزدیک یہ تحریک دسویں صدی میں شروع ہوئی جب فرانسیسی پادری’’ جربرٹ ڈی اوریلیک‘‘(۹۴۶ء ۔۱۰۰۳ء ) (Gerbert d'Aurillac )حصول علم کے لیے اندلس گیا اور وہاں کی جامعات سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد۹۹۹ء سے ۱۰۰۳ء تک پوپ سلویسٹرثانی(Silvester II ) کے نام سے پاپائے روم کے منصب پر فائز رہا۔اسی طرح بعض نے
اس کا آغاز ۱۲۶۹ء میں قرار دیا ہے جب قشتالیہ( Castile)کے شاہ الفانسو دہم(Alfonso X) (۱۲۲۱ء۔۱۲۸۴ء )نے ۱۲۶۹ء میں مرسیا(Murcia) میں اعلیٰ تعلیم کا ایک ادارہ قائم کیا اور مسلم ، عیسائی اور یہودی علماء کو تصفیف و تالیف اور ترجمے کا کام سونپا۔[12]
اسی طرح بعض کے نزدیک اس تحریک کا بانی پطرس محترم(Peter the Venerable)(۱۰۹۲ء ۔۱۱۵۶ء) تھا، جو کلونی Cluny, France)) کا رہنے والا تھا۔اس نے اسلامی علوم کے تراجم کے لیے مختلف علماء پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جس میں مشہور انگریزی عالم رابرٹ آف کیٹن(Robert of Ketton)(1110 [L:150] 1160) بھی تھا۔ اس نے قرآن مجید کا پہلا لاطینی ترجمہ کیا، جس کا مقدمہ پطرس نے لکھا تھا۔[13]
اہل مغرب نے اس بات کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا کہ مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے انھیں علمی میدان میں مسلمانوں کو شکست دینی ہوگی۔ اس کے لیے انھوں نے مختلف طریقے اختیار کیے۔ ایک طرف اپنے اہل علم کو مسلمانوں کے علوم و فنون سیکھنے پر لگایا اور دوسری طرف مسلمانوں میں، ان کے افکار کو دھندلانے کی کوشش کی۔ ۱۵۳۹ء میں فرانس ، ۱۶۳۲ء کیمبریج اور ۱۶۳۸ء میں آکسفورڈ میں عربی و اسلامی علوم کی چیئرز قائم کی گئیں ۔ ۱۶۷۱ء میں فرانس کے شاہ لوئی چہاردہم(Louis XIV of France)(1638[L:150]1715) تمام اسلامی ممالک سے اپنے کارندوں کے ذریعے سے مخطوطات اکٹھے کروائے اور اس سلسلے میں تمام ممالک میں موجود سفارت خانوں کو ہدایت کی کہ اپنے تمام افرادی اور مالی وسائل استعمال کریں ۔[14]

مستشرقین کے مقاصد و اہداف
۱۔ دینی اہداف
یہودی اور عیسائی جو کہ خود کو اللہ کی پسندیدہ قوم قرار دیتے تھے اور آنے والے نبی کے منتظر اور اس کے ساتھ مل کر ساری دنیا پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ لیکن جب اللہ نے ان کی نافرمانیوں اور بدکاریوں کے باعث فضیلت کے منصب سے محروم کر کے نبوت و رسالت کی ذمہ داری بنو اسماعیل کے ایک فرد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ڈال دی تو وہ حسد اور جلن کے باعث ہوش و حواس کھو بیٹھے اور باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی کی حیثیت سے پہچان لینے کے، آپ کی نبوت کا انکار کر دیا۔ اسلام چونکہ انتہائی سرعت سے عرب کے علاقے سے نکل کر دنیا کے ایک بڑے حصے پر چھا گیا تھا، اس لیے یہود و نصاریٰ کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اسلام اسی رفتار سے پھیلتا گیا تو ایک دن ان کا دین بالکل ہی نہ ختم ہو جائے۔ چنانچہ انھوں نے سوچا کہ ایک طرف اسلامی تعلیمات پر شکوک وشبہات کے پردے ڈالے جائیں اور اسے ناقص، ناکام، اور غیر الہامی فلسفہ قرار دیا جائے۔ دوسری طرف یہودیوں اور عیسائیوں کو اسلام قبول کرنے سے روکا جائے اور تمام دنیا میں اپنے مذہب کا پرچار کیا جائے۔ اس کام کے لیے انھوں نے پادریوں کی تربیت کی اور مسلم ممالک سے اسلامی علوم کی کتب جمع کر کے ان میں سے ایسی کمزوریاں تلاش کرنے کی کوشش کی جس سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکے۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات، ازواج، قرآن مجید، احکام، احادیث، سیرت صحابہ ہر چیز کو ہدف بنایا اور ان میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں میں اتحاد اور اخوت کو ختم کر کے ان میں مختلف نسلی، لسانی اور علاقائی تعصبات کو ابھارنے کی کوشش کی۔

علمی اہداف
اگرچہ مستشرقین میں کچھ منصف مزاج لوگ بھی موجود ہیں جو کبھی کبھار کوئی صحیح بات بھی منہ سے نکال لیتے ہیں، لیکن چونکہ ان کی تربیت میں یہ بات داخل ہو چکی ہے کہ عیسائیت ہی صحیح دین ہے، اس لیے وہ اسلامی تعلیمات کو ہمیشہ اپنے انداز سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صدیوں پر محیط اسلام دشمن پروپیگنڈا کی وجہ سے مغربی عوام کے اذہان اسلام کے بارے میں کوئی صحیح بات آسانی سے قبول نہیں کرتے ۔ ان کے علماء و فضلا نے علمی تحریکوں اور تحقیق و جستجو کے نام پر صرف اسلام مخالف مواد ہیں جمع کیا ہے ۔ یہودی اور عیسائی جوہمیشہ ایک دوسرے کے دشمن رہے ہیں اور عیسائی یہود کو حضرت عیسیٰ کے قاتل کی حیثیت سے دیکھتے تھے، لیکن مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے صدیوں کی رقابت کو بھول کر باہم شیر و شکر ہو گئے۔ یہ لوگ ہر وہ کام کرنے پر متفق ہو چکے ہیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ مختلف ادارے اور انجمنیں بنا کر مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے، سائنسی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔ اسلام چھوڑنے والوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے، مسلمان عورتوں میں آزادی اور بے پردگی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ غریب ممالک میں عیسائی تنظیمیں فلاحی کام کی آڑ میں عیسائیت کا پرچار کر رہی ہیں۔ مسلمان ممالک کے پالیسی ساز اداروں پر اثر انداز ہو کر تعلیمی نصاب اور طریق تعلیم کو اپنی مرضی کے مطابق کرنے کی بھر پور کوشش کی جاتی ہے۔

اقتصادی و معاشی اہداف
استشراق کی اس تحریک کا آغاز اگرچہ اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے ہوا تھا، لیکن بعد میں اس کے مقاصد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اہل مغرب نے مسلم ممالک کی تکنیکی مہارت حاصل کرنے کے لیے اور اپنے معاشی مفادات، اور تجارتی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے بھی عربی زبان اور اسلامی تہذیب وثقافت کا مطالعہ کیا۔مسلم ممالک میں اپنے اثر و نفوذ کو بڑھایا اور مقامی طور پر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی کہ ان ممالک کے وسائل مکمل طور پر نہ سہی، کسی حد تک اہل مغرب کے ہاتھوں میں چلے جائیں۔ مشرق کو اہل مغرب تمام ممالک نے مختلف مشرقی ممالک میں اپنے اثر ونفوذ کو بڑھانے اور ان کو اپنی کالونیاں بنانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں ہر قسم کے غیر اخلاقی حربے استعمال کیے گئے اور آزادی، انصاف اور رحم و مروت کے تمام اصولوں کو فراموش کر دیا گیا۔ ایک انگریز ادیب’’سڈنی لو‘‘ نے مغربی اقوام کے بارے میں اپنے ہم قوموں کا رویے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے :

’’مغرب کی عیسائی حکومتیں کئی سالوں سے امم شرقیہ کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہیں اس سلوک کی وجہ سے یہ حکومتیں چوروں کے اس گروہ کے ساتھ کتنی مشابہت رکھتی ہیں جو پرسکون آبادیوں میں داخل ہوتے ہیں، ان آبادیوں کے کمزور مکینوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کا مال و اسباب لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ یہ حکومتیں ان قوموں کے حقوق پامال کر رہی ہیں جو آگے بڑ ھنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ اس ظلم کی وجہ کیا ہے جو ان کمزوروں کے خلاف روا رکھا جا رہا ہے۔ کتوں جیسے اس لالچ کا جواز کیا ہے کہ ان قوموں کے پاس جو کچھ ہے وہ ان سے چھیننے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ عیسائی قوتیں اپنے اس عمل سے اس دعویٰ کی تائید کر رہی ہیں کہ طاقت ور کو حق پہنچتا ہے کہ وہ کمزوروں کے حقوق غصب کرے ۔‘‘[15]

سیاسی و استعماری اہداف
اتفاق سے جب یہود و نصاریٰ کی سازشوں اور مسلمانوں کی اپنی اندرونی کمزوریوں کے نتیجے میں مسلمان زوال کا شکار ہوئے تو اسی اثنا میں مغرب میں علمی و سائنسی ترقی کا آغاز ہورہا تھا۔ کچھ اسلام دشمن مفکرین اور مصنفین کی وجہ سے اور کچھ صلیبی جنگوں کے اثرات کے تحت اہل مغرب مسلمانوں کو اپنا سب سے بدترین دشمن گردانتے تھے۔ ان کی ساری جدوجہد اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کرنے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کی شخصیات کوان کے مرتبے سے گرانے اور قرآن و حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں صرف ہو رہی تھی۔ مثال کے طور پر فلپ کے ہٹی(- ۱۹۷۸۱۸۸۶)(Philip Khuri Hitti)اپنے ہم مذہب لوگوں کے رویوں پر اس طرح سے تبصرہ کرتا ہے :

’’ قرون وسطیٰ کے عیسائیوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غلط سمجھ اور انھیں ایک حقیر کردار خیال کیا۔ ان کے اس رویّے کے اسباب نظریاتی سے زیادہ معاشی اور سیاسی تھے۔ نویں صدی عیسوی کے ایک وقائع نگار نے ایک جھوٹے نبی اور مکار کی حیثیت سے آپ کی جو تصویر کشی کی تھی بعد میں اسے جنس پرستی، آوارگی اور قزاقی کے شوخ رنگوں سے مزین کیا گیا۔ پادریوں کے حلقوں میں محمد دشمن مسیح کے نام سے مشہور ہوئے ۔‘‘[16]

اسلام سے اس دشمنی اور مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے خوف نے یہود و نصاریٰ کو ایک ایسے نہ ختم ہونے والے خبط میں مبتلا کر دیا جو اسلام کے خاتمے کے بغیر ختم ہونے والا نہیں تھا۔ انھوں نے ایک طرف تو مسلمانوں کو دینی اور اخلاقی لحاظ سے پست کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف ایسا منصوبہ بنایا کہ مسلمان دوبار ہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑ ے نہ ہو سکیں۔ اپنے سابقہ تجربات کی بنیاد پر ان لوگوں کو علم ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو جنگ و جدل کے ذریعے سے ختم کرنا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔ اس لیے انھوں نے اندھا دھند جنگی اقدام کے بجائے، متبادل طریقوں سے مسلمانوں کو کمزور کرنے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ طویل منصوبہ بندی کے ذریعے مسلمانوں کی قوت اور طاقت کی بنیادوں کو جان کر ان کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ علماء و محققین کے پردے میں مسلم ممالک میں اپنے تربیت یافتہ لوگوں کو بھیج کر مسلمانوں کی دینی حمیت، اتحاد و اخوت، جہاد، پردہ وغیرہ جیسی امتیازی اقدار کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف علاقائی، نسلی اور مسلکی تعصبات کو ہوا دینے کی کوشش کی۔ پہلے مرحلے میں مسلمانوں کے مذہبی اور سیاسی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے بعد، اپنے اثر ونفوذ میں اضافہ کر کے کمزور ممالک کو اپنی طفیلی ریاستوں کی صورت دے دی۔ اس طرح ایک طرف تو مسلمان ہر لحاظ سے کمزور ہوگئے اور دوسری طرف ان کے تمام وسائل پر یہود و نصاریٰ کا قبضہ ہو گیا۔ جرمن مفکر پاؤل شمٹ(Paul Schmidt) نے اپنی کتاب میں تین چیزوں کو مسلمانوں کی شان وشوکت کا سبب قرار دیتے ہوئے، ان پر قابو پانے اور ختم کرنے کی کوششوں پر زور دیا ہے :
’’۱۔ دین اسلام، اس کے عقائد، اس کا نظام اخلاق اور مختلف نسلوں، رنگوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں رشتہ اخوت استوار کرنے کی صلاحیت۔
۲۔ ممالک اسلامیہ کے طبعی وسائل۔
۳۔مسلمانوں کی روز افزوں عددی قوت۔‘‘
چنانچہ ، مسلمانوں کی قوت و طاقت کی اصل بنیادوں کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے :
’’ اگر یہ تینوں قوتیں جمع ہو گئیں، مسلمان عقیدے کی بنا پر بھائی بھائی بن گئے اور انھوں نے اپنے طبعی وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنا شروع کر دیا، تو اسلام ایک ایسی مہیب قوت بن کرابھرے گا جس سے یورپ کی تباہی اور تمام دنیا کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلے جانے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔‘‘[17]

مستشرقین کی اقسام
مستشرقین صدیوں سے اسلام اور اس کی تعلیمات کے بارے میں اپنی تحقیقات میں مصروف ہیں۔ ان کی تعداد بلامبالغہ سینکڑوں میں ہے۔ ان کا تعلق کسی ایک ملک یا علاقے سے نہیں ہے، بلکہ یہ دنیا کے مختلف ممالک اور خطوں میں مصروف عمل ہیں۔ آپس میں کسی رابطے اور تعلق کے بغیر اپنے بنیادی مقصد میں سب یکساں ہیں جو کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پھیلانا ہے۔ لیکن، جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح ان مستشرقین کو ایک ہی درجے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ ان میں کچھ بہت زیادہ متعصب اور ہٹ دھرم ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف اسلام کو بدنام کرنا ہوتا ہے، اور کچھ تھوڑے بہت انصاف پسند بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کو درج ذیل زمرہ جات میں تقیم کیا جا سکتا ہے :

۱۔علم و تحقیق کے شائق محققین
دنیا کے تمام حصوں میں ایسے بہت سے محققین اور علماء موجود ہیں جو علم و تحقیق کے شیدائی ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد صرف تحقیق و تفتیش اور کھوج و جستجو ہے۔ علم ایک ایسی روشنی ہے جو انسان کے قلب و نظر کو وسعت دیتی اور حقائق سے آگاہ کر کے اس کے اندر کی دنیا کو تبدیل کر دیتی ہے۔ اس لیے بہت سے ایسے لوگ دنیا میں ہمیشہ پائے جاتے رہے ہیں جن کا مقصد صرف علم اور تحققیق کی حوصلہ افزائی ہے۔ ایسے لوگ مشرق میں بھی پائے جاتے ہیں اور مغرب میں بھی، اسی طرح شمال و جنوب بھی ان کی موجودگی سے خالی نہیں ہیں۔ یہ لوگ اپنے علم اور اپنی تحقیق کو بلا خوف و خطر جوں کا توں بیان کر دیتے ہیں۔ ان کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کی تحقیق سے کسی کو نقصان پہنچ رہا ہے یا فائدہ، وہ سچ کو بیان کر دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے اسلامی مشرق سے علم و ادب کا ذخیرہ ترجمہ کر کے مغرب میں پہنچایا جس میں تحقیق اور اضافے کے نتیجے میں آج مغرب دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ انھوں نے مشرق کے چپے چپے کو چھان مارا اور جہاں سے کچھ ملا اس کو حاصل کیا اور اپنی شب و روز محنت سے سنوار کر علم و فن کے شیدایوں کے حوالے کر دیا۔ اسلامی دنیا کا بہت سا علمی ذخیرہ جو صرف مسلمانوں کی ضرورت تھا، اسے بھی انھی لوگوں نے تلاش کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا۔لیکن ہمیں اس بات سے حیرت ہوتی ہے کہ بالعموم, ان مستشرقین کا رویہ بھی انھی چیزوں کے بارے میں غیر جانب دارانہ ہوتا ہے جو اسلامی عقائد سے ہٹ کر ہوں، جب معاملہ اسلامی عقائد و نظریات کا آتا ہے تو یہ لوگ بھی بعض اوقات اپنے متعصب محققین کی تحریروں سے استفادہ کرنے لگتے ہیں اور حقیقت کی تلاش میں زیادہ جستجو نہیں کرتے۔ اس لیے ہمیں ان کی تصانیف کے مواد پر بھی من وعن یقین نہیں کر لینا چاہیے۔ تحقیق و تفتیش، دراصل مسلمانوں ہی کا ورثہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک اہم اصول دیا ہے کہ کوئی بات بغیر تحقیق کے نہ مانی جائے، چاہے اس کابیان کرنے والا کتنا ہی معتبر کیوں نہ ہو۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
یَٰایُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْاِنْ جَائَ کُمْ فَاسِکُمْ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا اَنْ تُصِبُوْا قَوْماً بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلیٰ مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ۔(الحجرات ۴۹:۶)
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے آئے تو تم اس کی اچھی طرح سے تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے اس عمل پر نادم ہو۔‘‘

۲۔ اسلام دشمن متعصب مستشرقین
مستشرقین کا یہ طبقہ ان متعصب یہودی اور عیسائی محققین پر مشتمل ہے، جن کا بنیادی مقصد صرف اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ ان میں سے کچھ خود مغربی مفکرین کے لٹریچر کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے باعث اسلام کے خلاف کمر بستہ ہوتے ہیں اور کچھ کو یہود و نصاریٰ خصوصی طور پر مسلمانوں کے مقابلے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زندگی مسلمانوں کے خلاف اور اپنے عقائد و نظریات کے فروغ کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے مشرق سے جو بھی مفید چیزیں اخذ کی ہیں، علمی دیانت کے برخلاف ان کے ماخذ و مصادر کو پوشیدہ رکھ کے اسے مغرب سے منسوب کیا ہے۔ اسی طرح اسلام کے خلاف اس طرح کی باتیں پھیلائی ہیں کہ عام سطحی ذہانت کا آدمی بھی معمولی کوشش سے ان میں سے مستشرقین کی بددیانتی کو ظاہر کر سکتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے اپنی تحریروں سے اسلام کو اس حد تک بدنام کر رکھا تھا کہ ان کے عوام نے ساری ہفوات کو من و عن قبول کر لیا۔ اہل مغرب نے عرب مسلمانوں سے جو کچھ حاصل کیا اسے اپنے نام سے پیش کرتے رہے۔ مسلمان سائنس دانوں کے ناموں کو بگاڑ کر ان کے مغربی ہونے کا تاثر دیا گیا۔ آج مغرب میں کوئی نہیں جانتا کہ جن اہل علم کی تحقیقات سے مغرب صدیوں تک استفادہ کرتا رہا، وہ یا تو خود مسلمان تھے یا ان کو مسلمانوں سے اخذ کیا گیا تھا۔ کرسٹوفر کولمبس (۱۴۵۱ء۔۱۵۰۶ء) نے ۱۴۹۲ء میں امریکہ دریافت کیا، جہاں لوگ اس وقت تہذیب و تمدن اور علم وفن کے نام ہی سے واقف نہ تھے۔ اور اتفاق سے اسی سال سپین کی اسلامی سلطنت اپنے عروج کی انتہا کو دیکھ کر، مسیحی صلیبیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی تھی۔ جب ۲ جنوری ۱۴۹۲ء کو سلطان ابو عبداللہ محمددوازدہم نے غرناطہ کا قبضہ شاہ فرڈینینڈ اور ملکہ ازابیلا کے حوالے کیا۔(۱۲اکتوبر ۱۴۹۲ء کو کولمبس کے امریکہ میں داخلے کے دن کے طور پرسپین اور امریکہ میں ’’کولمبس ڈے ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے ۔)

مسلمانوں کے سینکڑوں سالہ عروج اور مسیحی و یہودی لوگوں کی مسلمانوں کے خلاف تعصب اور دشمنی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان لوگوں نے جو کچھ مسلمانوں سے لیا اسے مسلمانوں کا ذکر کیے بغیر اپنے معاشروں میں پھیلا دیا۔ مسلمانوں کی ایجادات و اختراعات کو مغربی لوگوں سے منسوب کر دیا۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں :
’’یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان بارود، قطب نما، الکحل، عینک اور دیگر بیسیوں اشیاء کے مؤجد تھے، لیکن بقول رابرٹ بریفالٹ مؤرخین یورپ نے عربوں کی ہر ایجاد اور انکشاف کا سہرا اس یورپی کے سر باندھ دیا ہے جس نے پہلے پہل اس کا ذکر کیا تھا۔ مثلاً قطب نما کی ایجاد ایک فرضی شخص فلویوگوجہ کی طرف منسوب کر دی۔’ولے ناف کے آرنلڈ‘ کو الکحل اور بیکن کو بارود کا مؤجد بنا دیا۔ اور یہ بیانات وہ خوف ناک جھوٹ ہیں جو یورپی تہذیب کے ماخذ کے متعلق بولے گئے ہیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ بعض اوقات عربوں کی تصانیف پر اپنا نام بطور مصنف جڑ دیا ۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں لفظ جیبر(Geber)کے تحت ایک مترجم کا نام دیا ہوا ہے ، جس نے اسلام کے مشہور ماہر کیمیا دان جابر بن حیان کے ایک لاطینی ترجمے کو اپنی تصنیف بنا لیا تھا۔ یہی حرکت سلرنو کالج کے پرنسپل قسطنطین افریقی (۱۰۶۰ء) نے بھی کی تھی کہ ابن الجزار کی ’’زادالمسافر‘‘ کا لاطینی ترجمہ’ Viaticum‘کے عنوان سے کیا اور اس پر اپنا نام بطور مصنف لکھ دیا۔‘‘[18]

مادی مفادات کے شائق پیشہ ورمحققین
مستشرقین کی ایک قسم ایسی بھی ہے جن کے پیش نظر کوئی اعلیٰ ترین قومی یا علمی مقاصد نہیں ہوتے بلکہ وہ مادی مفادات، عہدوں، سستی شہرت اور دنیاوی مال و دولت کے لالچ میں اس میدان میں قدم رکھتے ہیں۔ چونکہ اہل مغرب مسلمانوں کے خلاف کی گئی کسی بھی تحقیق کو، چاہے وہ کتنی ہی غیر معیاری، بے بنیاد اور علمی و عقلی لحاظ سے پست ہی کیوں نہ ہو، ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ اس وجہ سے اکثر لوگ ایسی چیزوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کے ذریعے سے وہ اہل مغرب سے مفادات سمیٹ سکیں۔ اس طرح کے لوگوں میں ہندوستان کے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ دنوں پاکستان میں بھی ہوا جس میں ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے میڈیا کے کچھ افراد بلوچستان کے علاقے میں طالبان کے بارے میں جعلی فلم تیار کرتے ہوئے گرفتار کیے گئے تھے۔ اس قسم کے افراد کی تحقیقات زیادہ تر جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہیں ۔

4۔ ملحد مستشرقین
یورپ میں جس وقت علوم و معارف نے معاشرے میں جگہ بنائی اور سائنسی و تحقیقی دور شروع ہوا تو لوگوں نے ہر چیز کو دلیل اور عقل کی بنیاد پر پرکھنا شروع کر دیا۔ یہودیت اور عیسائیت کی تعلیمات چونکہ تحریف کا شکار ہو چکی تھیں اس لیے وہ عقل اور دلیل کے معیار پر پوری نہ اتر سکیں۔ ہم بلا خوف تردید یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ انسانی کاوش چاہے کتنی ہی محنت اور دقت نظر سے کی جائے وہ مکمل طور پر غلطی سے مبر ا نہیں ہو سکتی۔ صرف اور صرف خدائی احکام کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی قسم کی غلطی سے پاک ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے انسانی تحریف کی شکار یہودیت اور عیسائیت اس ذہنی ارتقاء اور علمی انقلاب کا ساتھ نہ دے سکیں۔ چونکہ اس دور میں اہل مذہب کو معاشرے میں قوت اور اقتدار حاصل تھا، لہٰذا انھوں نے بزور قوت نئے خیالات اور نظریات کو کچلنا اور ختم کرنا چاہا۔اس کے نتیجے میں اہل علم و تحقیق اور اہل مذہب کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اہل کلیسا کے نزدیک ہر وہ شخص جو نئے نظریات پیش کرتا، علمی کتابیں لکھتا یا کلیسائی خیالات کے خلاف کوئی بھی بات پیش کرتا اسے کافر قرار دے کر خوف ناک سزائیں دی جاتیں۔ پاپائے روم کے حکم سے ہزاروں کتابوں اور لوگوں کو جلا دیا گیا۔ لاکھوں لوگوں کو قید و بند کی سزائیں دی گئیں۔ اس کے نتیجے کے طور پر عام آدمی مذہب سے بیزار ہو گیا اور یورپ میں الحاد اور بے دینی کی تحریک شروع ہو گئی۔ ان لوگوں نے اپنے اہل مذہب سے بدلہ لینے اور ان کو بدنام کرنے کے لیے، اسلام اور دوسرے مذاہب کا سہارا لیا۔ جہاں وہ اپنے لوگوں کے رویوں اور عقائد پر تنقید کرتے وہاں ان کے شر سے بچنے کے لیے اور ان کی خوشنودی کے لیے اسلام کو بھی ہدف تنقید بنالیتے۔ اس طرح سے ان لوگوں کو اہل مذہب کی سرپرستی بھی حاصل ہو جاتی اور وہ اپنا کام بھی کرتے رہتے ۔

علمی معیار کے اعتبار سے مستشرقین کی اقسام
عام طور پر معاشرے میں جو رجحان فروغ پائے، لوگ بے سوچے سمجھے اسی طرف چل پڑتے ہیں۔ جن دنوں یورپ میں استشراق کی تحریک شروع ہوئی تو ہر شخص جو چار لفظ جانتا تھا، اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور اپنی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے علمی و تحقیقی کام کرنے لگا۔ اس طرح سے بہت سے مستشرقین ایسے بھی وجود میں آئے جن کا کوئی علمی و تحقیقی پس منظر نہیں تھا اور نہ ہی وہ علمی دنیا کی اخلاقیات سے واقف تھے۔ ایسے لوگوں نے اسلامی عقائد و نظریات اور شخصیات پر انتہائی بے بنیاد اور اخلاق سے گرے ہوئے الزامات بھی لگا دیے ۔ مولانا شبلی نعمانی نے اس طرح کے مستشرقین کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے :
۱۔ عربی زبان و ادب اور تاریخ اسلام سے ناواقف مستشرقین، جن کی معلومات براہ راست نہیں ہوتیں، بلکہ وہ تراجم سے مدد لیتے ہیں۔
۲۔ وہ مستشرقین جو عربی زبان اور تاریخ سے تو واقف ہوتے ہیں، مگر مذہبی لٹریچر اور فنون مثلاً اسماء الرجال، روایت اور درایت کے اصولوں، قدیم ادب اور روایات سے واقف نہیں ہوتے۔
۳۔ و ہ مستشرقین جو اسلامی علوم اور مذہبی لٹریچر کا مطالعہ کر چکے ہوتے ہیں، لیکن اپنے مذہبی تعصبات کو دل سے نہیں نکال سکے۔ وہ اسلامی علوم کے بارے میں تعصب، تنگ نظری اور کذب و افترا سے کام لیتے ہیں۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
Abdul Hai Abid
About the Author: Abdul Hai Abid Read More Articles by Abdul Hai Abid: 2 Articles with 3535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.