ترقی اور تعلیم کا آپس میں چولی
دامن کا ساتھ ہے ، کسی بھی قوم کی ترقی کا راز تعلیم کے حصول میں ہی پوشیدہ
ہے ۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں شعبہ تعلیم حکومتوں کی عدم توجہی کا شکا ر
ہے ، جس کی وجہ سے عام آدمی کیلئے تعلیمی سہولتوں کا خاصا فقدان ہے۔ موجودہ
حکومت بھی صرف ایک صوبے میں ترقی کی خواہشمند نظر آتی ہے اور باقی علاقوں
میں حالات جو ں کے توں ہیں ۔ ملک کی بقاو سلامتی اور استحکام کیلئے ضروری
ہے کہ اس نظریاتی مملکت میں نظام تعلیم اس طرح استوار کیا جائے کہ ہماری
آنے والی نسلیں اپنے ملک و قوم کے اجتماعی شعور اور نظریاتی اساس سے ہم
آہنگ ہو کر عملی تقاضوں کیلئے ہنر لے کر پروان چڑھیں ۔
حیرت کی بات ہے کہ میڈیا کی آزادی کے باوجود نظام تعلیم پستی کی طرف جا رہا
ہے ۔ آج بھی قوم کا مستقبل کھلے آسمان تلے ، قبرستانوں میں بیٹھ کر تعلیم
حاصل کر رہے ہیں ۔ ملک کے مستقبل کو علم کی روشنی سے بہرہ ور کروانا حکومتی
ذمہ داریوں میں سے ایک ہے مگر حکمران ذاتی تفرکوں سے نکل ہی نہیں پارہے کہ
ملک کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو سنبھال سکیں۔
اسی ڈوبتی ناؤ میں وادی لیپہ سے ایک طالبہ نے جرات مندی کا سامنا کر تے
ہوئے علم کی پیاس بجھانے کیلئے اور سینکڑوں طالبات کا احساس محرومی منظرِ
عام پہ لانے کیلئے وزیراعظم میاں نواز شریف کے نام کھلا خط لکھا ۔ میں نے
یہ خط روزنامہ سیاست اور روزنامہ خبرنامہ میں پڑھا ، پڑھ کر میں کافی کرب
سے گزری اور سوچتی رہی کے ہمارے حکمران خواب ِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں مگر
اس افسوسناک حقیقت سے لاتعلق کہ وادی لیپہ ایک بے حد خوبصورت مگر مسائل سے
گھری ہوئی ایک ایسی وادی ہے جہاں اعلیٰ تعلیم تو ایک خواب ہے مگر گرلز کالج
میں سائنس مضامین کا شعبہ ہی موجو د نہیں ۔۔۔ سال دوئم کی طالبہ سعدیہ عاشق
بٹ نے حکومتی اداروں اور اعلیٰ افسران کی توجہ وادی لیپہ میں میں درپیش
مسائل کی طرف مبذول کروانے کی بے حد خوبصورت کوشش کی ہے ۔ اس طالبہ کے شوق
نے اور وادی کے تعلیمی مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے میں نے یہ کالم لکھنے کی
جسارت کی۔
سعدیہ کے کھلے خط سے معلوم ہو اکہ گرلز کالج میں سائنس مضامین کا شعبہ تو
نہ بنا مگر ایک گھٹیا قسم کا حل ضرور نکال لیا گیا ۔۔۔ کہ بوائز کالج میں
لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ سائنس مضامین پڑھیں گی۔ بلاشبہ یہ حل معاشرتی روایات
سے انحراف ہے کوئی شک نہیں کہ یونیورسٹی میں بھی مخلوط نظام ِتعلیم رائج ہو
تا ہے مگر گرلز کالج کے ہوتے ہوئے چند سائنس مضامین کی عدم دستیابی کی وجہ
سے معصوم لڑکیاں سینکڑوں لڑکوں کے بیچ سہمی ہوئی علم کی پیا س بجھائیں ۔۔۔
یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ وزیر تعلیم کیوں چپ ہیں ۔۔کروڑوں روپے کے فنڈز
حاصل کرنے والے حکمران کہاں چھپ گئے؟ سعودی کویت فنڈز کے تعاون سے ہی وادی
لیپہ میں گرلز کالج کی عمارت تعمیر کی گئی ۔۔ حالانکہ ہمارے حکمرانوں کیلئے
یہ ایک نہایت ہی معمولی سی بات تھی جو کہ اربوں روپے ہضم کرے بیٹھے ہیں ۔
خط کے مطابق حکومت ِ آزادکشمیر سے مطالبات بھی کئے گئے ۔ معمول کے مطابق
حکومت نے اعلانات اور وعدے بھی کئے مگر بے سود۔۔۔۔حکمران تو اپنی سیٹیں پکی
کروانے کیلئے ایک دوسروں کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں انہیں کہاں فرصت ہے کہ
وادی لیپہ بھی کوئی پس ماندہ علاقہ ہے ۔۔۔
جناب چیف سیکرٹری آزادکشمیر نے ذاتی طور پر اس ادارے کا دورہ کر کے مطالبات
نوٹ کر لئے اور ذاتی دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے مناسب حل کا وعدہ تو کر لیا
۔۔۔ مگر معلوم نہیں وہ دن کب آئے گا جس دن یہ تمام وعدے اور اعلانات سچ ہو
ں گے ۔
معلوم نہیں کہ سعدیہ عاشق بٹ کے کھلے خط بنام وزیراعظم پاکستان نے وزیراعظم
پاکستان تک رسائی حاصل کی ہے کہ نہیں مگر شاہین ماڈل کالج مین کیمپس
مظفرآباد نے اس خط کی پذیرائی ضرور کی ہے ۔ جس کو پڑھ کر مجھے بے حد خوشی
ہوئی کہ آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں بھی چند اچھے افراد حیات ہیں جو
احساس ذمہ داری جیسے جوش رکھتے ہیں ۔ شاہین ماڈل کالج نے نہ صرف سعدیہ کو
خراج تحسین پیش کی بلکہ شاہین ایجوکیشن سسٹم مظفرآباد نے عہد کیا ہے کہ ان
کی خواہش تشنہ تکمیل نہ رہے گی ۔ یہی نہیں انہوں نے سارے تعلیمی اخراجات
برداشت کرنے اور معیاری تعلیم فراہم کرنے کا بھی عہد کر لیا ہے اور وہ پر
امید ہیں کہ ان کی پیشکش کو شرف ِ قبولیت بخشتے ہوئے اپنی وادی کا نام روشن
کریں ۔
بلاشبہ تعلیمی ادارے کی یہ پیشکش ایک احسن قدم ہے ۔ امید ہے کہ باقی صاحب
اختیار لو گ بھی اس مسئلے کی طرف نظرِ کرم کریں گے ۔ نجی سطح پر تو مل ملا
کر کوئی صورتحال نکال ہی لی جاتی ہے ۔ مگر حکومتی سطح پر ضرورت اس امر کی
ہے کہ تعلیمی پالیسیاں ، نصابات کی تشکیل ، ذریعہ تعلیم ، تربیت اساتذہ اور
نظام ِ امتحانات کو ترجیحات میں شامل کرکے اس ملک کی تعلیمی حالت اور عام
آدمی کے حالات کو بدلا جائے اور حقیقت میں روشن پاکستان لائیں ۔ |