بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میری نظر سے ایک بہت ہی خوبصورت اقتباس گزرا جو امام ابن القیم رحمہ اللہ
(المتوفی 751ھ) نے اپنی کتاب میں ایک مضمون کی صورت میں تحریر فرمایا، یہ
اقتباس میری نظر میں ایک شہکار ہے جو حاکم اور محکوم (عوام) کے متعلق ہے،
اسکا اردو ترجمہ و مفہوم مندرجہ ذیل ہے، بریکٹ کے الفاظ میں نے اسکو صحیح
سمجھنے کے لیے ڈالے ہیں:
محکوم (عوام، جن پر حکومت کی جاۓ) کے اعمال کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے ان
اعمال سے جو ان کے حکام کرتے ہیں، اور یہ خداداد حکمت ہے (یعنی جیسا عمل
محکوم (عوام) کا ہوگا ویسا ہی عمل حکام کا ہوگا) اگر وہ (محکوم اور عوام)
دیانتدار رہیں، تو ان کے بادشاہ دیانتدار رہیں گے، اور اگر وہ ہٹ جائیں گے
(دیانتداری سے)، تو وہ (بادشاہ) بھی ہٹ جائیں گے دیانتداری سے. اور اگر وہ
(عوام) ظلم کریں گے (اپنے اپر اور دوسروں پر) تو ان کے بادشاہ اور حکام ان
پر (عوام پر) ظلم کریں گے، اور اگر ایسا لگے کے کہ وہ (عوام) سازش اور دغا
بازی کریں گے، تو ان کے حکام بھی (عوام کے ساتھ) ایسا طرز عمل کریں گے اور
اگر عوام اللہ کے حقوق پامال کریں گے جو ان کے مابین ہیں اور کنجوس اور
بخیل ہو جائیں گے (ایک دوسرے کے حقوق میں) تو پھر ان کے بادشاہ اور حکام ان
کے حقوق روک لیں گے جیسے وہ (عوام) ایک دوسرے پر بخیل ہوگۓ اور ایک دوسرے
کے حقوق روک لیے. اور اگر وہ (عوام) لیں گے اس سے جو کمزور گردانا جاتا ہے،
وہ جو اس سے لینے کے حق دار نہیں اپنے کاروبار میں (یعنی کاروبار یا لین
دین میں خورد برد کریں گے)، تو پھر ان کے بادشاہ (حکام) ان سے لیں گے وہ جو
وہ (حکام) ان سے لینے کے حقدار نہیں اور لاگو کریں گے تکلیف دینے والا
محصول (ٹیکس). اور ہر وہ چیز جو انہوں نے (عوام نے) کمزور سے لی تو بادشاہ
(حکام) ان سے بزور طاقت لیں گے.
تو ان کے اعمال (عوام کے اعمال) ان میں ظاہر ہوتے ہیں (یعنی بادشاہ اور
حکام کے اعمال میں) .اور یہ حکمت خداداد نہیں کہ برے اعمال اور گناہ گاروں
پر حکومت ہو (کسی کی) مگر ان (حکام کی) جو ویسے ہی ہیں (مراد یہ ہے کیونکہ
عوام میں برائ چھوٹے پیمانے پر موجود ہے اس لیے ان کے حکام بھی ویسے ہیں
ورنہ اللہ کی خواہش نہیں کہ برے لوگ ہی حکام بنیں) واللہ اعلم.
اور جب سب سے پہلا گروہ (اسلام کی) بہترین نسل میں تھا، اور سب سے تقوی
دار، تو اس کے حکام بھی ویسے ہی تھے. اور جب وہ آلودہ ہوگۓ (بد اخلاق،
اسلام سے دور) تو ان کے حکام بھی ویسے ہی ہوگۓ. تو نتیجہ میں، الله کی حکمت
نے اس بات کا انکار کیا کہ معاویه رضی الله عنه اور عمر بن عبدالعزیز رحمه
الله جیسے حکام ہم پر آئیں (آٹھویں صدی ہجری میں) کجا کہ سیدنا ابوبکر اور
سیدنا عمر رضی الله عنھما جیسے حکام.
بلکہ ہمارے حکام ہماری (فطرت کے) مطابق ھیں اور ہم سے پہلے حکام اسی طرح
تھے جس طرح وہ لوگ (یعنی جیسے پہلے لوگوں کی فطرت)
(حوالہ: مفتاح دار السعادۃ ،دار ابن عفان پبلیشینگ، جلد 2 صفحہ 177)
اگر چہ یہ اقتباس ابن القیم رحمہ اللہ نے 8ویں صدی ہجری کے حوالہ سے تحریر
فرمایا مگر یہ اقوال آج کی 14ویں صدی میں بھی ثابت آتے ہیں، اللہ ھمیں ان
کو سمجھنے اور ھم عوام کو شریعت کی طرف بدلنے کی توفیق عطا فرماۓ، آمین
عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ حاکم صحیح ہو گا تو عوام صحیح ہوگی، یہ غلط
ہے، بلکہ صحیح تو یہ کہ جیسا کہ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی فرمایا کہ جیسی
عوام ہوگی تو ویسے حکام ہوں گے اور اللہ نے فرمایا، مفہوم:
"حقیقت یہ ہے کہ اللہ نہیں بدلتا حالت کسی قوم کی جب تک کہ (نہ) بدلے وہ ان
(اوصاف) کو جو اس میں ہیں.."
(سورۃ الرعد:11)
اللہ ھم عوام کو اسلام اور شریعت کی طرف پھیر دے تاکہ ہم پر صالح اور نیک
حکمران آ جائیں، آمین |