یہ مینار ہمارے نیزے اور گنبد ہماری ڈھال ہیں

چونکہ ” میری پارٹی نے اسلام کے خلاف مہم چلا رکھی ہے اس لیے میں اپنی پارٹی چھوڑ رہا ہوں، میناروں پر پابندی کے مطالبہ نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ میں تیس سال سے ایک ایسی پارٹی سے کیسے وابستہ رہا جو مسلمانوں کے حوالے سے متعصبانہ رویہ رکھتی ہے، سوئٹزر لینڈ حکومت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ مسلمانوں کو اپنے شعائر پر عمل کرنے سے روکے، آج ضرورت تو اس بات کی تھی کہ سوئٹزر لینڈ میں زیادہ سے زیادہ مساجد ہوں، لیکن اس کے برخلاف سوئٹزر لینڈ میں میناروں پر پابندی اسلام کے خلاف تعصب اور مسلمانوں کا گھیراؤ کرنے کے مترادف ہے، آج میں اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ اسلام میں مجھے اُن تمام سوالات کا جواب مل گیا جو بائبل میں نہیں مل سکا۔“اسلام کی حقانیت کے مظہر یہ الفاط سوئٹزر لینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعت سوئس پیپلز پارٹی سے وابستہ رہنے والے ڈینئل اسٹریچ کے ہیں، جو کچھ عرصہ قبل تک ایک پکے عیسائی کی طرح باقاعدگی سے بائبل کا مطالعہ کرتے اور پابندی سے چرچ جاتے تھے، لیکن اب وہ قرآن پڑھتے ہیں اور نماز کیلئے پانچ وقت مسجد میں جاتے ہیں۔

گو کہ ڈینئل اسٹریچ دو سال سال قبل ہی اسلام قبول کرچکے تھے، مگر انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا، لیکن اپنی جماعت کے اس متعصبانہ فیصلے اور اقدام نے انہیں اتنی ایمانی جرات عطا کی کہ وہ نہ صرف اپنی پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے بلکہ انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار بھی کرلیا، پارٹی کی رکنیت سے احتجاجاً استعفیٰ دینے والے ڈینئل اسٹریچ تیس سال تک سوئٹزر لینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی کا مطالبہ کرنے والی سیاسی جماعت سوئس پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے ہیں اور آج کل وہ سول کنزرویٹو ڈیمو کریٹک پارٹی کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنانے کی تیاری بھی کر رہے ہیں، واضح رہے کہ ڈینئل اسٹریچ ایک سیاستدان ہونے کے علاوہ سوئس فوج میں انسٹرکٹر بھی ہیں، ان کے مسلمان ہونے کے اعلان کی وجہ سے سوئٹزر لینڈ میں بعض حلقے اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک نومسلم کا فوج میں انسٹرکٹر کے طور پر کام کرنا خطرناک ہو سکتا ہے، وہ امریکی فوجی اڈے فورٹ ہڈ میں میجر ندال کی فائرنگ کا حوالہ دیتے ہیں، سوئس فوج میں ڈینئل اسٹریچ کا بطور انسٹرکٹر کام کرنا سیکورٹی رسک قرار دیا جا رہا ہے تاہم فوج کے ترجمان نے اس کو بے ہودہ الزام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوئس فوج مذہبی تعصب سے پاک ہے۔

گزشتہ دنوں میناروں کی تعمیر پر پابندی کیلئے سوئٹرزلینڈ میں ہونے والے حالیہ ریفرنڈم کے خلاف مسلمان ممالک، تنظیمیں اور دنیا بھر کے حقوق انسانی کے ادارے جہاں اس امتیازی قانون کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں، وہیں اس ہنگامے میں ہمیں ڈینئل اسٹریچ کے مسلمان ہونے کی روح پرور اور ایمان افروز خبر بھی سننے کو ملی، سوئٹزر لینڈ میں ہونے والے ریفرنڈم میں کل چھبیس حلقوں سے ملنے والے نتائج کے مطابق 57.5 فی صد ووٹروں نے میناروں کی تعمیر پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا ہے جبکہ صرف چار حلقوں میں ووٹروں نے پابندی کی تجویز مسترد کی ہے،29 نومبر 2009 کو سوئٹزرلینڈ میں اس بات پر ووٹ ڈالے گئے کہ مینار تعمیر کرنے پر کیوں نہ پابندی لگا دی جائے، ووٹ ڈالنے کی وجہ یہ تھی کہ عوامی رائے جاننے کے ادارے نے 113540 سے بھی زیادہ ووٹ دہندگان کے دستخط جمع کر کے 8 جولائی 2008 کو پارلیمینٹ میں پہنچائے تھے، ان دستخط کنندہ کا مطالبہ تھا کہ سوئٹزرلینڈ میں مینار کے تعمیر پر پابندی لگائی جائے، سوئٹزرلینڈ کی کئی بنیاد پرست تنظیموں کا خیال ہے کہ مینار مسلمانوں کی مذہبی یا سیاسی طاقت کی نشانی ہیں جبکہ اسلامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مینار صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

ریفرنڈم کی حامی قوم پرست سوئیس پیپلز پارٹی مسجد کے مینار کو سیاسی طاقت کی علامت قرار دیتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کا مقصد سوئٹزرلینڈ کو مزید ”اسلامی رنگ میں رنگے جانے سے بچانا ہے“دوسری طرف سوئیس حکومت کہنا ہے کہ اس نے ووٹنگ کے نتائج کو تسلیم کرلیا ہے اور اب سوئٹزر لینڈ میں نئی مسجدوں کے ساتھ مینار تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کو انفرادی یا اجتماعی طور پر بدستور عبادت کرنے کا حق حاصل رہے گا، کئی قوم پرست لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں سوئٹزرلینڈ میں مسجدوں کی تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن انہیں میناروں پر اعتراض ہے، اس لیے کہ انتہا پسند عناصر مسجد کے مینار کو ایک سیاسی علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یہ بات سوئٹزر لینڈ کے آئین کے خلاف ہے، ان کا یہ بھی استدلال ہے کہ اسلام میں مینار تعمیر کرنا لازمی نہیں ہے۔

لیکن یہ بات کسی طور بھی درست نہیں، جناب مختار مسعود اپنی مشہور زمانہ کتاب ”آواز دوست“ میں لکھتے ہیں کہ ”مسجد بنو امیہ (دمشق میں) کا شمالی مینار آج سے پورے تیرہ سو دو سال قبل بنا تھا، یہ ہمارے میناروں کا امام ہے، اس کے پیچھے لا تعداد مینار دست بستہ کھڑے ہیں۔“قارئین محترم یہ وہ دور تھا جب یورپ جہالت کی تاریکی ڈوبا ہوا تھا اوراس کی گلیاں گندگی اور کیچڑ میں لتھڑی ہوئی تھیں، یہ صحیح ہے کہ اسلام کی سب سے پہلی مسجد ”مسجد قبا” ایک خیمے کی طرز پر بنائی گئی تھی اور اس میں کوئی مینار نہیں تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مساجد بہت سادہ ہوتی تھیں، اسلیے اس میں مینار یا گنبد کا بنایا جانا ضروری خیال نہیں کیا جاتا تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے طرز تعمیر میں جدت آتی گئی اور انہوں نے اپنی ضرورت اور علاقے کی ثقافت کے مطابق مساجد تعمیر کیں، یوں مساجد میں مہنگے کام، بلند وبالا مینار اور خوبصورت گنبد بننا شروع ہوئے، مساجد میں گنبدوں اور میناروں کی تعمیر کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی شان و شوکت ظاہر ہوں، مسجد دور سے نظر آئے اور میناروں پر چڑھ کر اذان دی جائے تو اذان کی آواز دور دراز علاقوں تک پھیل جائے۔

اسی طرح گنبد سے مسجد کے خطیب کی تقریر اور نماز کی آواز ایک گونج اور خوبصورتی کے ساتھ پوری مسجد میں پھیلتی اور نمازیوں کو صاف سنائی دیتی تھی، اسلامی فن تعمیر کی ترقی کے ساتھ مساجد کی تزئین و آرائش کے لئے قرآنی آیات کا مختلف خوبصورت طریقوں سے استعمال بھی کیا گیا اور مساجد کے دور و دیوار پر مختلف جیومیٹرک ڈیزائن بھی بنائے گئے، اسی وجہ سے مینار اور گنبد مسجد کی بنیادی پہچان، علامت اور نشان بن گئے اور مساجد کا لازمی حصہ قرار پائے، آج مسلمانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مساجد کے مینار کلیساؤں کے میناروں کو دیکھ کر بنائے گئے مگر اس الزام میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ عرب تعمیرات میں پہلے سے ہی مینار بنتے تھے، خصوصاً دور تک دیکھنے کیلئے دفاعی قلعوں کے ساتھ بنائے گئے مینار قابل ذکر ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت سوئٹزرلینڈ میں چار لاکھ مسلمان آباد ہیں اور ان کی دو سو مساجد ہیں، جن میں صرف چار مساجد میں مینار ہیں، مسلمان ملک کی آبادی کا چار فیصد ہیں، زیادہ تر لوگ ترکی اور بلقان سے یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں، ملک کی کل آبادی ستتر لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اسلام عیسائیت کے بعد اس ملک کا دوسرا بڑا مذہب ہے، گو کہ حکومت اور پارلیمنٹ کے اراکین اس پابندی کو واضح طور پر مسترد کرتے رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ایسا کچھ نہ صرف قومی اثاثے کے منافی ہے بلکہ آئینی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے اور ساتھ ہی یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے بھی منافی ہے، حکومت کا خیال ہے کہ یہ مسلمانوں کے مذہبی نشان کے ساتھ ایک امتیازی سلوک ہوگا، کیونکہ اور دوسرے مذاہب بھی اپنی عبادت گاہ ایک خاص مذہبی عمارت کے طور پر تعمیر کرتے ہیں۔ “جبکہ سوئٹزر لینڈ کی وزیر انصاف ایولائین وِڈنر شمپ کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج سے بنیاد پرست مسلمانوں کے بارے” وسیع پیمانے پر خوف “ کی عکّاسی ہوتی ہے، ان کا کہنا ہے کہ میناروں پر پابندی عائد کرنے سے انتہا پسند روّیوں کو تبدیل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

ادھر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق تنظیم نے سوئٹزرلینڈ کے فیصلے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے متعصبانہ اور بین الاقوامی قانونی ذمہ داری کے خلاف بتایا ہے، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیشن کی سربراہ نے سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں کی تعمیرات میں پابندی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے سخت امتیازی فیصلہ قرار دیا ہے، سیکرٹری جنرل کی نائب ترجمان نے انسانی حقوق کی ہائی کمشنر کے بیان کے حوالے سے بتایا کہ سوئٹزر لینڈ میں مساجد کے میناروں کی تعمیر پر لگائی جانیوالی پابندی کو جو ریفرنڈم میں اکثریتی ووٹ کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے، انتہائی امتیازی، سوئس سماج کو تقسیم کرنے والا اور بدقسمت فیصلہ کہا ہے، انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے سوئٹزر لینڈ بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے رو گردانی کا مرتکب ہوگا، ہائی کمشنر نے سوئٹزر لینڈ میں مساجد پر پابندی کے فیصلے کو عدم برداشت اور نسل پرستی پر مبنی سیاست کا وہ تسلسل قرار دیا جس کے تحت اس سے قبل غیر ملکیوں، تارکین وطن اور سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کے خلاف پوسٹر چسپاں کیے جاتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے اس کی مذمت کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ سوئٹزر لینڈ سمیت کئی ممالک میں غلط طور پر مسلمانوں سے خوف کے ہیجان پر مبنی سیاسی مہموں نے ایسے فیصلوں کو جنم دیا ہے، اگرچہ سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے ریفرنڈم کی حمایت نہیں کی تھی لیکن ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والی علامات کی یعنی مسلمانوں کی مساجد کے میناروں پر پابندی کا فیصلہ واضح طور پر امتیازی سلوک ظاہر کرتا ہے، دوسری طرف فرانس کے وزیرِ خارجہ نے انسانی حقوق کی مسلم تنظیموں اور سوئیس حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں اس ریفرنڈم کی مذمت کی ہے، برنارڈ کوچنر نے اس ووٹنگ کو عدم رواداری کا ایک اظہار قرار دیا ہے، جنیوا میں ایک ممتاز بین المذاہب مسلم تنظیم ” باہمی مفاہمت کی مسلم کونسل“ کے سربراہ نے کہا ہے کہ انہیں ریفرنڈم کے نتائج پر حیرت اور افسوس ہے، انہوں نے کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ مسلمان اس پابندی کے خلاف انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں اپیل دائر کریں گے۔

سوئٹزرلینڈ حکومت کی جانب سے مساجد کے میناروں پر پابندی ایک نہایت افسوس ناک قدم ہے، حکومت کے اس فیصلے سے یورپ سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی ہے، اس فیصلے سے نہ صرف مذاہب کے درمیان فاصلے پیدا ہوں گے بلکہ غیر مسلموں میں اسلامی اقداروں سے نفرت کا اظہار بھی بڑھے گا، سوئٹزرلینڈ حکومت کے اس اقدام سے نہ صرف یورپ بھر میں مذہبی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچے گا بلکہ اس قسم کے معتصبانہ فیصلے تہذیبوں کے درمیان ٹکراؤ کا باعث بھی بنیں گے، مساجد کے مینار اسلام کا سمبل ہیں، ان کی تعمیر پر پابندی اسلام کے خلاف کھلا اعلان جنگ اور عالمی سازشوں کا ایک حصہ ہے،جب تک مسلمانوں نے عزت سے جینا اور مرنا نہیں سیکھا اس وقت مسلمانوں کے خلاف اس قسم کی سازشیں ہوتی رہیں گی، حقیقت یہ ہے کہ یورپ سمیت دنیا بھر میں مساجد دشمنان اسلام کی آنکھوں میں کھٹکتی ہیں، کیونکہ مسجد اسلام کا مرکز ہے اور یہاں سے پانچ وقت ”اللہ اکبر“ کی آواز بلند ہوتی ہے، یورپ میں نماز جمعہ اور رمضان المبارک میں مساجد نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں، وہاں کے تعلیمی اداروں سے سینکڑوں مسلمان بچیاں روزانہ سکارف پہنے نکلتی ہیں، جبکہ مسلم نوجوان داڑھیاں رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے تھنک ٹینک سر پکڑ کر بیٹھے سوچتے ہیں کہ اسلام کو پھیلنے سے کیسے روکا جائے۔

یہی وہ صورتحال ہے جس سے خوفزدہ لوگوں نے سوئٹزر لینڈ میں ”مینار“ پر پابندی کے لئے نام نہاد ریفرنڈم کروایا، جو مغرب کی اسلامی دنیا کے حوالے سے دوغلی پالیسی کا آئینہ دار ہے، سوال یہ ہے کہ اگر مینار انہیں مشکل میں ڈالتے ہیں تو پھر چرچ پر لگی صلیبیں انہیں کیوں مشکل میں نہیں ڈالتیں، اصل بات یہ ہے کہ مینار نہیں، بلکہ اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت اور تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت نے انہیں خوفزدہ اور پریشان کیا ہوا ہے، یہی وہ عوامل ہیں، جس کی وجہ سے فرانس برقعہ پرپابندی لگا چکا ہے اور بہت سے مغربی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ متعصبابہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے، دراصل یہ ان کے دل کی وہ نفرت ہے جو آج مساجد کے میناروں سے جلن کی صورت میں عیاں ہورہی ہے، آج سوئٹزر لینڈ میں مسجد کے میناروں پر پابندی کے اعلان سے واضح ہو گیا ہے کہ یورپ اور پورا عالم کفر مسلمانوں کے خلاف متحد اور صف آراء ہے، آج اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مینار، گنبد اور محراب و منبر شعائر اسلامی کا حصہ ہیں۔

سوئٹزر لینڈ نے میناروں کی تعمیر پر پابندی لگا کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات توہین کی ہے اور انہیں مجروح کیا ہے لیکن اس کے باوجود عالم اسلام ابھی تک مہر بلب خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مساجد کے میناروں، اسکارف اور داڑھی پر پابندی لگانے والے ممالک کے خلاف اسلامی ممالک باہم یک آواز ہو کر صدائے احتجاج بلند کریں، کیونکہ مسئلہ دینی حمیت اور شعائر اسلامی کی توہین کا ہے، مساجد کے مینار ہماری مذہبی شناخت، تہذہبی علامت اور ہماری مساجد کا علامتی سمبل ہیں، ترکی کے مشہور شاعر ضیاء گوکلب نے اپنی مشہور نظم میں کہا تھا کہ ”مسجدیں ہماری پناہ گاہیں ہیں، اُن کے مینار ہمارے نیزے ہیں، اُن کے گنبد ہماری ڈھال ہیں اور اہل ایمان ہمارے سپاہی ہیں۔“اور اہل ایمان اسلام کے سپاہی اپنی پناہ گاہوں، اپنی خانقاہوں، اپنے نیزوں اور اپنی ڈھالوں پر نہ تو کسی قسم کی کوئی پابندی برداشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے اِن ہتھیاروں سے دست بردار ہوسکتے ہیں۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 314187 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More