نوجوانان مسلم کا المیہ
(Shahzad Ahmad, Islamabad)
ایک ثابت شدہ بات ہے کہ کسی بھی
معاشرے کے بننے بگڑنے میں نوجوانوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے،ان کی اگر
درست تربیت کی جائے تو یہ بہتر نتائج دینے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اگر ان
کی تربیت میں کمی رہ جائے تو یہ ملک و ملت کے لئے مضر اور برے اثرات کو
فروغ دینے کا سبب بن جاتے ہیں ۔یہ نوجوان معاشرے میں پر اثر اثرات چھوڑ
سکتے ہیں کیوں کہ یہ ملک و ملت کا مستقبل ہیں انہوں نے ہی نئی نسل اور
آئندہ قوم کی قیادت سنبھالنی ہے۔نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ان کو بنانے اور
بگاڑنے میں اہم کرداراداکرتی ہے۔
اسی سلسلہ میں نوجوانان مسلم جو کہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہوچکاہے اور
مغرب کی اندھی تقلید میں اپنی تہذیب و ثقافت کو دفن کرکے مغربیت کا دلدادہ
ہوچکا ہے۔عصر حاضر کے عظیم مفکر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اﷲ علیہ
نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسلامک سنٹر کے افتتاح کے موقع پر ’’اسلام اور
مغرب‘‘کے عنوان پرایک مؤثر خطاب کیا جوکہ قارئین کے استفادہ کے لئے یہاں
رقم کررہاہوں ۔امید ہے کہ نئی نسل کو اس سے راہنمائی حاصل کرنے میں مدد ملے
گی۔مولانا فرماتے ہیں کہ اٹھارویں صدی میں اسلامی دنیا کے ممالک سے واسطہ
مغرب کے دو ممالک سے پڑا جن میں برطانیہ جس نے مصر وہند اور مشرق وسطی میں
ایک طویل مدت تک حکومت کی اور دوسرا فرانس جس نے شمالی افریقہ میں مسلمانوں
پر طویل حکومت کی ۔یہ دوممالک سائنس و ٹیکنالوجی ،اقتصادو صنعت میں نمایاں
مقام رکھتے تھے۔مگر ان ممالک پر لازم تھا کہ وہ جن پر حکومت کررہے تھے ان
کے مذہب یعنی اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور قرآن و سیرت محمدی ﷺکو
سمجھنے کی کوشش کرتے اور اس سلسلہ میں ادارے قائم کرتے اور ان سے خیر و
بھلائی اور ان کی بھائی چارگی ،ان کی بے مثال و طویل تاریخ سے سبق حاصل
کرتے ۔مگر افسوس وہ فاتح و حاکم ہونے کے سبب اپنی توہین سمجھتے تھے کہ وہ
دین اسلام یا مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو سمجھنے اور پڑھنے یا اس کو
اپنانے کو معیوب سمجھتے تھے۔اس سلسلہ میں جہاں برطانیہ و فرانس کے حکمرانوں
کے غرور و تکبر کو دخل تھا،اور انہوں نے مسلمانوں کو سائنس و ٹیکنالوجی اور
مادیت کو جمع کرنے کی تعلیم مسلم نوجوانوں کو دی تاکہ ان کو اپنے مقاصد کے
لئے استعمال کرسکیں۔مسلمانو ں سے استفادہ کرنے سے اجتناب کیا۔ وہیں پر
ہمارے مسلمانوں میں بھی یہ کمزوری تھی کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہوچکے تھے
اور مفتوح و مغلوب ہونے کے سبب ان سے مرعوب ہوچکی تھی اگر یوں کہاجائے تو
غلط نہ ہوگا کہ وہ اخلاقی جرأت اور پختہ اعتقادی سے محروم ہوچکے تھے اور
اسلام کی دعوت دینے میں خوف محسوس کرتے تھے۔جب کہ نبی کریم ﷺ نے روم و فارس
کے بادشاہوں کو عقیدہ توحید اور دین اسلام کی دعوت پر مبنی خطوط روانہ کیے
جب کہ اس وقت آپﷺ کے پاس بعید نہیں کہ گھر میں کھانے کے لئے کھانامیسرنہ
ہواور روشنی کے لئے تیل دستیاب نہ ہو۔مگر دعوت حق پر کامل اعتماد و یقین
حاصل تھا ۔اسی طرح آپ کے صحابی سے جب رستم نے پوچھا کہ تمہیں کون سی بات
جزیرۃ العر ب سے فارس کو لے آئی تو انہوں نے جواب دیاکہ ’’ہمیں اﷲ نے بھیجا
ہے کہ ہم بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک خداواحد کی بندگی میں لے
آئیں ،دنیا کی تنگی سے دنیا کی وسعت میں اور مذاہب کے ظلم وجبر سے اسلام کے
عدل وانصاف کی جانب لے آئیں ۔یہ صحراء نشین جو کہ دنیا کی سہولیات سے محروم
تھے اور اپنے سے کئی گناظاہری طور پر طاقتور کو یہ کہہ رہے ہیں کہ تمہیں
دنیا کی وسعت میں لانا چاہتے ہیں اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ ان کے نزدیک دنیا
کی مال و متاع کی کثرت کو یہ انجام کارکی بہتری کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے
وہ یہ جانتے تھے کہ یہ لوگ اپنے نفس کے غلام ہوچکے ہیں ظاہراًوہ حاکم ہیں
مگر حقیقت میں غلام ہیں اور ان کا خاتمہ کسی طور پر درست نہیں ۔یہ صرف دعوت
کی تڑپ اور اس پر کامل یقین کا ہی اثر تھا کہ لاکھوں مربع میل کے مالکوں کو
جرأت سے اسلام کی دعوت پہنچائی۔
ایشیائی ممالک میں سے جو نوجوان مغرب میں تعلیم کے لئے گئے وہ ایمان و یقین
کی دولت اور خد اعتمادی و خوداعتمادی کی دولت سے محروم ہوتے گئے،اور اس کا
نتیجہ یہ نکلاکہ یہ نوجوان اپنے اساتذہ تو درکنار اپنے دوستوں اور کلاس
فیلوز کو بھی اسلام کی دعوت نہ د سکے بلکہ ظلم در ظلم یہ ہوا کہ وہ مغرب کی
پیروی کرناشروع کردی ۔ان میں سے چند ایک حضرات جو مغرب جاکر بھی ان سے
متاثر ہونے کی بجائے ان کو اسلام کی دعوت دینے میں کامیاب ہوئے ان میں سید
امیر علی جنہوں نے SPRIT OF ISLAMکتاب لکھی جس کے بارے میں خود مغربی
مصنفین یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اس طرح انگریزی میں ایک انگریز ادیب بھی
کتاب نہیں لکھ سکتاجس فصاحت و بلاغت سے انہوں نے یہ کتاب ترتیب دی۔دوسرے
علامہ اقبال جنہوں نے خودی و اسراربے خودی کا انگریزی میں ترجمہ لندن
یونیورسٹی کے پروفیسر مسٹر نکلسن نے کیا اور ان کی صد سالہ تقریب میں بتایا
گیا کہ علامہ کی کتب کی تعداد دوہزار سے متجاوز ہے ان میں اکثر تحریرں
انہوں نے انگریزی میں ترتیب دیئے۔اسی طرح تیسرے تحریک خلافت کے عظیم سپوت
اور کامریڈ کے ایڈیٹر مولانامحمد علی جوہر جنہوں نے آکسفورڈ میں ہی تعلیم
حاصل کی ہے۔یہ سب آٹے میں نمک کے برابر ہیں چونکہ ان کا اثر اتنا نہیں ہے
جس قدر ضرورت تھی مغرب کو اسلام کی دعوت سے متاثر کرنے کی حاجت تھی۔
موجودہ دور میں بھی نوجوان یورپ میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو وہ وہاں
اسلام کا پیغام منتقل کرنے کی بجائے ان سے متاثر ہوکر واپس لوٹتے ہیں
۔افسوس تو اس بات پر ہے آج کا نوجوان جو کہ جدید تعلیم یافتہ ہیں وہ مغرب
کی اندھی تقلید کو اپنی بقاو بالادستی سمجھتے ہیں اسی سبب سے انہوں نے مغرب
کی زبان انگریزی اور اس کے فنون کو سیکھنے کے ساتھ ہی مغرب کی تہذیب و
ثقافت کو اپنی عملی زندگیوں میں اپنا لیا ہے۔آج کا نوجوان اسلام کو پڑھنے
اور سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بجائے اپنا تمام وقت فضولیات ولغویات میں
ضائع کررہے ہیں جن میں رات کا اکثر حصہ فلم بینی میں ضائع کررہے ہیں یا پھر
انٹرنیٹ کا غلط و ناجائز استعمال کرنے میں وقت بسر کرتے ہیں اسی سبب سے ان
میں اسلام کی دعوت کی روح مردہ ہوچکی ہے ۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ
نوجوانان مسلم اپنی زندگیوں کاجائزہ لیں اور اسلام کو سیکھنے اور اس پر عمل
کرنے کے لئے اسلام کا مطالعہ کرے اور اسلام کی دعوت و پیغام کو دوسروں تک
منتقل کرنے کا فریضہ انجام دے سکے بصورت دیگر اس غیر ذمہ داری و غفلت و بے
پرواہی کے باعث ا ﷲ کے دربار میں ذلت ورسوائی کے ساتھ گرفتارہوگا۔اس مصیبت
و امتحان سے اﷲ ہم سب مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔( آمین) |
|