کرکٹ کا جنوں اس وقت پوری دنیا
بالخصوص برِ صغیر ہندو پاک میں ہر وقت اس کے شائقین پر سر چڑھ کر بولتا ہے۔
زن ومرد صغیر و کبیر اس کھیل کے جادوئی اثر سے مسحور ہیں ۔ آجل کل تو یہ
جنوں عالمی کرکٹ کپ کے پیش ِ نظر پورے جوبن پر ہے۔سلام و کلام اور حال و
احوال سے قبل لوگ ایک دوسرے سے کچھ اس طرح کے سوال پوچھتے ہیں کہ اسکور کیا
ہوا؟کتنے آوٹ ہوئے ؟ فلاں بلے باز نے کتنے رن جوڑے۔۔۔وغیرہ وغیرہ ۔دلچسپ
بات یہ ہے ۔کہ یہ جنوں خاص و عام پر یکساں طور پر طاری ہے ۔ امیر و غریب
،حاکم و محکوم غرض ہر طبقے سے وابسطہ اشخاص اس مرض لا دوا میں مبتلا ہیں۔اس
سلسلے میں راقم الحروف کے لئے دماغی لحاظ سے کافی کمزور ایک شخص دلچسپی کا
باعث ہے ۔ دنیا و مافیھا سے بے نیا ز یہ شخص مقامی کرکٹ شائقین میں سے الگ
پہچان رکھتا ہے۔ اور کرکٹ کی دنیا سے وابسطہ ہر چھوٹی بڑی خبر سے نہ صرف
بھر واقف ہے ۔بلکہ اپنی پسندیدہ ٹیم کے تعلق سے کافی جذباتی بھی ہے ۔یوں تو
یہ جناب ایک فارسی ضرب المثل’’دیوانہ باش تا غمِ تو دیگراں خورند‘‘کاچلتا
پھرتا نمونہ ہے۔اور اپنے تمام فکریں اس نے دوسروں کے سرمنڈھ دئے ہیں ۔ مگر
کر کٹ کے حوالے سے وہ ’’دیوانہ بکارِ خویش ہوشیار‘‘کا مصداق ہے۔ایک اورنا
خواندہ شخص جو اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی بھی زبان سے مانوس نہیں
ہے،انگریزی اور اردو میں کومنٹری سننا اس کا مشغلہ ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے
کہ اسے انگریزی اور اردو کومنٹری کے اکثر الفاظ ازبر ہیں۔یہاں بر ِ صغیر ِ
ہندوپاک میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ جن سے لوگوں کا اس کھیل کے ساتھ
والہانہ لگاو ظاہر ہوتا ہے۔ کسی بھی چیز کے ساتھ والہانہ اور جذباتی لگاو
بسا اوقات اس کے مدعا و مقصد پر بھی اثر انداز ہوا کرتا ہے۔ اور اثر پزیر
افراد اس کے بنیادی مقصد سے منحرف ہو کر کسی اور سمت چل نکلتے ہیں۔جہاں تک
کوئی بھی کھیل کھیلنے یا دیکھنے کا تعلق ہے ۔اسے جسمانی کثرت کے ساتھ ساتھ
تفریح کا سامان بھی بہم ہوتا ہے۔جسمانی کثرت کے بے شمار فوائد ہیں جس کا
کوئی منکر نہیں ہو سکتا ہے۔ اور تفریح روزمرہ کے بوجھل پن کو زائل کر دیتی
ہے ۔تفریح کی عدم موجودگی میں اعصا ب شکن پریشانیاں ذہنی تناو کو جنم دیتی
ہیں۔ یقینا تفریح جسمانی اور ذہنی خستگی کو دور کرکے پھر سے تر و تازگی
لوٹا دیتی ہے۔ایک بات تو طے ہے کہ کھیل اسی صورت میں ہر دو مثبت فوائد کا
حامل ہو سکتا ہے کہ جب کھیل کو محض کھیل سمجھ کر کھیلا یا دیکھا
جائے۔بالفاظ دیگر کھیل براے زندگی ہو نہ زندگی براے کھیل۔لیکن یہاں کا تو
باوا آدم ہی نرالا ہے ۔جذباتیت کا کھیل میں اس قدر عمل دخل ہے کہ جیسے دو
ٹیموں کے درمیان میچ نہ ہو بلکہ دو قوموں یا ملکوں کے مابین بقا کی جنگ ہو
۔لہٰذا جو جیت جائے وہی سکندر !اور جو ہار جائے وہ اس کی مثال اس بادشاہ کی
سی ہے کہ جس نے اپنی سلطنت و حکومت جنگ میں گنوائی ہو ۔یہی وجہ ہے کہ جو
کھیل نفسیاتی خلفشار اور ذہنی تناوسے نبرد آزما ہونے کا بہترین وسیلہ تھا
وہی کھیل کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ شائقین کے لئے مختلف قسم کی پریشانیوں کا
باعث بنتا جا رہا ہے۔ہمارے معاشروں میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے کہ جنہیں
بارہا کرکٹ میچ دیکھنا کافی مہنگا پڑا۔بہت سے کرکٹ پریمی تو حرکتِ قلب بند
ہونے سے اﷲ کو پیارے ہو گئے۔چند ایک تواسی سبب ہسپتال منتقل ہوگئے۔پسندیدہ
ٹیم کی ہار کے غم میں ہزاروں آنکھیں اشک بارہوئیں۔جنوں کی اس سے بڑھ کر
انتہا ء اور کیا ہو سکتی ہے کہ تامل ناڈو کے ایک نوجوان کرکٹ شائق نے
بھارتی ٹیم کی فتح یابی کے لئے اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہی زبان کاٹ لی۔اس نے
یہ انوکھا بلیدان(قربانی) دیوتا کو خوش کرنے کے لئے دیا تا کہ بھارتی ٹیم
آسٹریلیا سے سمی فائنل جیت جائے۔
یورپی ممالک میں کرکٹ کا یہ جنوں بنسبت ایشیائی ممالک کافی کم پایا جاتا ہے
۔ خصوصاًشائقین اس لت سے بہت حد تک مبرہ ہے۔ان کے لئے کھیل کے میدا ن میں
جنگ کا سما نہیں بندھتاہے۔اس کی تازہ مثال ہندوستان اور آسٹریلیا کے مابین
سڈنی آسٹریلیاء میں کھیلے گئے سمی فائنل ہے۔ جس میں بھارتی تماشاہیوں کا
تناسب ستر(۷۰)فی صد تھا۔حالانکہ آسٹریلیائی شائقین کی تعداد عین توقع زیادہ
ہونی چاہئیے تھی بھارتی شائقین کا جوش وجذبہ دیکھ کر نیوزی لینڈ ٹیم کے
کپتان میک میلم سے رہا نہ گیا اس نے بھارتی شائقین کے نام ایک کھلے خط میں
یہ درخواست کی کہ وہ اسی جوش وخروش کے ساتھ عالمی ورلڈ کپ کے فائنل میں بھی
شرکت کریں ۔ اور نیوزی لینڈ کی حمایت کریں۔بالفرض اگر قومی اور ملکی وقار
کو دوبالا کرنے کا واحد ذریعہ ورلڈ کیپ جیتنا ہی ہے تو کیا وہ ترقی یافتہ
اور باوقار ممالک و اقوام یہ واحدا فتخارحاصل کرنے سے رہ جاتے ہیں جن کی
عالمی کپ میں سرے سے کوئی نمائندگی ہی نہیں ہے؟حالانکہ ترقی کے جس زینے پر
وہ اس وقت براجمان ہیں اس کا ہمیں اندازہ بھی نہیں ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ
اس ملک کا وزیر اعظم ورلڈ کپ حاصل کرنے کے بعد کس طرح پھولے نہیں سماتا ہے
جس کے ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اس سائنٹفک دور میں بھی روٹی ،کپڑا
اورمکان جیسے قبل تاریخ ضروریات ِ زندگی سے محروم ہوں۔اس ملک کے حکمران
ورلڈ کپ حاصل کرنے کے خوابوں سے کس طرح اپنا دل بہلاتے ہیں۔ جن کے ہزاروں
دیش باسی بوسیدہ چادر تان کر کھلے آسمان تلے گلی کوچوں اور فٹ پاتھوں پر اس
امید کے ساتھ سو جایا کرتے ہیں کہ شاید خواب میں انہیں اپنایک خیالی مکان
نظر آئے جس میں دیدہ زیب لباس پہن کر عزت کی روٹی کھانے کو ملے۔
بہر حال اس طرح کی صورت حال کے منفی اثرات معاشرے کے ہر طبقے پر عیاں ہے
۔نوجواں نسل نسبتاً کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئی ہے۔ جسے ان کی تعلیمی سرگرمی
بھی بعض دفع سرد پڑتی ہے۔ ان ہاتھوں میں قلم کیسے تھما دیا جائے جو چار پہر
کرکٹ کابیٹ رکھ چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔وہ عقابی نگاہ جو افلاک کو سر
کرنے والے عظیم انسانوں کے نقوشِ سیر و سلوک ڈھونڈ نکالنے کی قوت رکھتی
تھی، ایک تصویری فریم کی مانند ہو گئی ہے جس میں چند ایک عالمی شہرت یافتہ
کھلاڑیوں کی بے جان تصویروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس طرح کی نگاہوں میں
بصیرت کی رمک پھر سے انڈھیل دینا کارے دارد والامعاملہ ہے۔اس لئے بے جان
نگاہ میں کاروانِ حیات کو روانی بخشنے والی متحرک شخصیت سمائے تو سمائے
کیسے؟جس وسیع قلب و ذہن کے آگے کائنات کی وسعت ہیچ ہے وہی اب کھیل کے میدان
میں کھو چکا ہے۔نوجوانوں کی عالی ہمتی بازیچہء اطفال کے نذر ہو رہی ہے۔اور
تماشہ بینی کو حقیقت بینی کا متبادل ٹھرایا جارہا ہے ۔ پس کون ہے جو غالب
کے اس شعر کا مصداق بنے؟
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے
عوامی سطح پر تو جو مظاہرہ اس سلسلے میں دیکھنے کو مل رہا ہے اس کا
اظہارہمارے ان ایشیائی ممالک میں سرکاری سطح پربھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ کھیل
کے تئیں جو وارفتگی عوام میں ہے اسے فروغ دینے میں حکومت بھی پیش پیش ہے۔ہم
سے اگر پوچھا جائے کہ کھیل کود زیادہ اہم ہے یا تعلیم و تربیت ؟تو کیا دل
پر ہاتھ رکھ کر تعلیم پر کھیل کو مقدم کہہ سکتے ہیں؟ہرگز نہیں!اپنی جگہ تو
دونوں شعبے اہمیت کے حامل ہیں لیکن تعلیم و تربیت کو بہر حال تقدم و تقدس
حاصل ہے ۔بلکہ کھیل کود تو تعلیم و تربیت کا ہی ایک جزو ہے۔اب اگر آپ نظام
ِ تعلیم و تربیت کے تئیں مخلص ہیں تو آپ کُل (تعلیم وتربیت)کو نظر انداز کر
کے ایک مخصوص جُز(کھیل کود) کو پروان چڑھانے پر ہی سارا زور صرف نہیں کر
سکتے ہیں یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی انسان کی متوازن نشو نما روک کر کسی
ایک عضو کو ہی بڑھنے دیا جائے۔ مثال کے طور پر تمام بدن میں سے صرف ناک یا
کان بڑتا رہے اور باقی اعضا ء وہی کے وہی رہیں۔ہر دو شعبوں (کھیل کود اور
تعلیم و تربیت )کے حوالے سرکاری حکمت عملی کو دیکھ کرکہا جا سکتا ہے ۔یہاں
بھی ایک ہی جز کی پرورش اور پرداخت ہو رہی ہے۔تعلیمی ورثہ ایک نسل سے دوسری
نسل تک منتقل کرنے کے لئے ایک استاد کے انتخاب کا معیاری نظام ناپید ہے ۔جس
کا اہتمام کھیل کود کے اعتبار سے بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔حقیقاً ایک
پرائمریری کے استاد کو منتخب کرنا ایک انٹرنیشنل کرکٹ کھلاڑی کو منتخب کرنے
سے بھی زیادہ اہم اور حساس ہے۔لیکن یہاں تو گنگا ہر معاملے میں الٹی ہی
بہتی ہے۔ جس حساسیت کا اظہار کھلاڑی کے انتخاب کرنے میں ہو رہا ہے کیا اس
کا عشرِعشیر بھی استاد کے انتخاب کے دوران بروئے کا ر نہیں لایا جاتا ہے؟اب
اگر ایک قدم آگے بڑھ کر تنخواہ اور دیگر مراعات کی بات کی جائے تو یہاں خدا
ہی حافظ ہے۔مقامی ،قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیلوں کے فروغ کے لئے جو
کچھ ہو رہا ہے وہ قابل ِذکر ہے لیکن دوسری جانب ہماری قومی ناؤ کے کھیون
ہار(استاد) سے یہی توقع ہے کہ وہ بحر ِحیات میں بھوکا پیاسا ہی قوم کی کشتی
کو کھینچنے میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔راقم الحروف اس سلسلے میں اپنی
ریاست سے ایک مثال پیش کرنے جا رہا ہے کہ جسے یہ بات پایہ ٔ ثبوت تک پہنچتی
ہے کہ ایشیائی ممالک میں مغربی ممالک کے برخلاف کھیل تماشے کو تعلیم و
تدریس جیسے بنیادی اور اہم شعبے پر کئی اعتبار سے فوقیت دی جا رہی ہے
۔ہمارے یہاں تعلیمی اخراجات کو کم کرنے کے لئے نہ جانے کس افلاطونِ زماں کے
دماغ میں ’’رہبرِ تعلیم ‘‘ جیسا نادر خیا ل ذہن میں آگیا ۔واضح رہے اس سکیم
کے تحت ایک استاد کو پانچ سال کے لئے نہایت ہی کم (ڈیلی ویجر سے بھی کم)
تنخواہ کے عوض بھرتی کیا جا تا ہے اور اس عجیب و غریب سکیم کے تحت پڑھے
لکھے نوجوانوں کوبہت ہی کم تنخواہ کے عوض بحیثیت ِ رہبر تعلیم بھرتی کیا جا
رہا ہے۔ تاکہ تعلیم بہت زیادہ سستی ہو ۔ابتدائی طور ان کی تنخواہ صرف پندرہ
سوماہانہ تھی اور اب سرکار نے دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پچیس سو ماہانہ
کر دی گئی ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ قوم کے ان معماروں کو گزشتہ آٹھ مہینے سے
بغیر تنخواہ وینٹیلٹر(vantilator) پر رکھا گیا ہے جیسے انسان نما فرشتے ہیں
کہ جنہیں کھانے پینے ،اور گھر گرہستی کا کوئی کھٹکا ہی نہ ہو۔’’انسان نما
ان فرشتوں‘‘سے اچھی کارکردگی کی توقع کرنا عبث ہے ۔غیر معمولی کارکردگی (
out stnading performance)پر حوصلہ افزائی کا معاملہ ہو تو یہاں بھی ان
انسان ساز طبقے سے سوتیلی ماں کا سلوک ہو رہا ہے ۔جہاں کھلاڑی کے ہنر(
tailent)کو پروان چڑھانے اور اچھی کارکردگی کے لئے تمام خزانوں نے دہانے
واہ ہیں وہاں قومی معماروں کی غیر معمولی کارکردگی کو سراہنے کے تئیں سرکار
کی مٹھی بند کیوں ہے جو فی الوقت کھلنے کا نام نہیں لے رہی ہے؟ایک بلے باز
کی سینچری کا ایک ایک رن دکھانے کے لئے ہزاروں کیمرے لگے ہیں جن کے ذریعے
کروڑوں آنکھیں اس کی ہر چھوٹی بڑی حرکت دیکھنے کے لئے بے تاب رہتی ہیں۔مگر
اس استاد کو دیکھنے بالنے والا کون ہے کہ جو اپنی عمرِ عزیزاور تمام تر
صلاحیتیں کھپا کر سو آدمی کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے انسان
بنا تا ہے۔یہاں تو جنگل میں مور ناچے کس نے دیکھا والا معاملہ درپیش ہے یہ
ترجیحات میں الٹ پھیر نہیں تو اور کیا ہے کہ کھلاڑی کو ایک ایک رن کے عوض
شائقین کی جانب سے بے حد داد تحسین ملے اور سرکار کی طرف سے بے شمار انعام
و اکرام بھی۔اور ایک قومی معمار(استاد) کی بے لوث خدمات درک کرنے کا کوئی
آلہ آج تک ایجاد ہی نہیں ہوا ہے۔اب اگر ایسا کوئی چمتکار ہو اور کسی پروفسر
،اسکالر ،یا مدرس کو انعام سے نوازے بھی جاے تو اس کی زندگی بھر کی محنت و
مشقت کا سلہ بلے باز کی ایک رن کے معاوضے کے سامنے شرمسار ہو تا ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر سطح پر اپنی اجتماعی فکر کو تنقیدی نگاہ سے
دیکھیں ۔اور اس فکر کو تبدیل کر کے ایک نئی حکمت عملی وضع کریں ۔کیونکہ
معاشرتی انصاف کا اولین تقاضایہی ہے کہ تمام شعبہ ٔ ہاے زندگی کو ان کی اصل
اہمیت و قدروقیمت کے مطابق پزیرائی ملے ۔ہر چیز اس کے اصل اور شایان شان
جگہ پرہو یہی ایک متوازن اور مطلوب انسانی معاشرے کی نشانی ہے ۔پیروں کی
جوتی جتنی چاہے قیمتی ہو اسے اپنے سرہانے رکھنا احمقانہ فعل ہے ۔نہ ہی ان
قیمتی جوتیوں کی مالا پہن کر اپنی بڑھائی ظاہر کرنا عقلمندی کی علامت
ہے۔اورمعمولی سی معمولی ٹوپی بھی سر کی ہی زینت ہوتی ہے نہ کہ پیروں
کی۔ہماری ترجیحات کے پیمانے مبنی بر اصول ہوں نہ کہ فرضی ۔ یہ بنیادی اور
سیدھی سادھی بات جس دن ہمارے پلے پڑ جائے تو معاشرتی افکار و خیالات میں
انقلاب پیدا ہو نا لابدی ہے۔اور پھر عین ممکن ہے کہ ہمارے سرکاری اور غیر
سرکاری اداروں کے اونٹ کی ہر کل سیدھی ہو۔۔۔ |