مسلمانوں کا عروج و زوال

عروج و زوال دنیا کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ نہ عروج کو دوام حاصل ہے اور نہ ہی دوام زوال کولازم ہے۔ ہر زوال کے کئی اسباب ہوتے ہیں اور ہر عروج کچھ بنیادیں رکھتا ہے۔ انسان عروج و زوال کے قانون کے پابند اور قومیں اسی راہ کی مسافر ہےں۔ ہر قوم عروج کی خواہش مند ہوتی ہے، لیکن جو قوم قانون قدرت اور اس کے پس پردہ اسباب و علل کو سمجھ لیتی ہے، وہ عروج کی منزلیں جلد اور آسانی سے طے کرتی ہے۔ ان کے اقبال کا زمانہ طویل اور زوال قدرے دور ہو جاتا ہے۔ عروج کسی قوم کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ جو بھی قوم جدوجہد، عقلمندی اور مہارت سے کام لے، وہی دنیا میں سپر پاﺅر ٹھہرتی ہے۔ جو قوم اپنے دور تشکیل سے گزرتے وقت حالات کو پلٹ دے، وہ بحران کی کیفیت سے باعافیت گزر کر اپنی تعمیر کے ہنگامہ خیز سفر کا مقابلہ کرتی ہے اور کامیابی اسی کے قدموں کی دھول بنتی ہے، جو دور تعمیر میں سینہ تان کر چیلنجز سے نبرد آزاما ہوتی ہے۔ تعمیر کے پرپیچ اور ناہموار راستوں سے گزرنے کے بعد استحکام کا وہ ہموار دور آتا ہے، جس میں زندگی کی گاڑی انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ آگے کی سمت دوڑتی ہے اور قوم سرخ رو ہوجاتی ہے۔

جب عروج مل جائے تو اسے برقرار رکھنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ دور عروج میں قوم کے افراد سہولت پسند، کاہل اور سست ہوجاتے ہیں اور بلند نظر افراد کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ دراصل عروج کا لازمی نتیجہ رفاہیت اور معاشی استحکام سیاسی غلبے کو لازم ہے۔ معاشی فراوانی سے قوموں کی توانائیاں اور صلاحیتیں عیش و عشرت کے ہاتھوں زنگ آلود ہونے لگتی ہیں اور ایک عظیم سلطنت کی بقا و استحکام کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ ناپید ہونے لگتی ہےں۔ مختلف قسم کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر قوم اپنا حاصل کیا ہوا مقام کھو بیٹھتی ہے اور اپنے دفاع کے لیے دوسری قوموں کی توانائیاں مستعار لیتی ہے۔ ممکن ہے اس عمل سے کسی قوم کی ڈوبتی نبض کو وقتی طور پر تو سہارا مل جائے، لیکن یہ قومی زوال کی سب بڑی علامت ہوتی ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ قوم دور استحکام میں جی رہی ہے، مگر حقیقت میں عروج کی چڑھائی کے بعد قوم کی گاڑی آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر زوال کی ڈھلان پر آجاتی ہے اور انحطاط کا دور بہت خاموشی سے دور زوال میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

مسلمانوں کا ماضی عروج و زوال کی ایسی ہی اک داستان سناتا ہے۔ مسلمان کم و بیش ایک ہزار سال تک شان و شوکت کے ساتھ دنیا پر حکومت کرتے رہے ہیں۔ علم و حکمت، تدبیر و سیاست اور دولت و حشمت میں کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ چند علاقوں کے سوا تقریباً ساری دنیا مسلمانوں کی مفتوح تھی۔ اس دور میں مسلمانوں نے علمی ترقی کی مضبوط بنیادیں ڈالیں۔ غرناطہ، قرطبہ، بغداد، دمشق، اشبیلیہ وغیرہ میں علمی اور تحقیقی مراکز کا قیام عمل میں آیا۔ یونان، ہندوستان اور چین کی معروف علمی تصانیف کے عربی تراجم مکمل کیے گئے۔ مختلف علوم کی ترویج کے لیے بھرپور کام کیا گیا۔ یہ دور سائنسی ترقی کا زبردست دور رہا ہے۔ اس دور میں قدم قدم پر کامیابی مسلمانوں کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی نظرآتی ہے، لیکن رفتہ رفتہ یہ کامیابی، ناکامی میں بدلنے لگی۔ مسلمانوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے ایک ایک کر کے تمام مسلم ممالک مسلمانوں کی دسترس سے نکلتے گئے اور مسلمانوں کی حالت دنیا میں لاوارث بچے کی طرح ہوگئی۔ تمام قدرتی وسائل کے باوجود مسلمان دنیا میں ذلیل و خوار ہونے لگے۔مسلمانوں کو کامیابی دی تو قدرت نے تھی، لیکن گنوائی خود مسلمانوں نے ہے، کیونکہ قدرت جب کسی قوم کو سرفرازی کے لیے منتخب کر لیتی ہے، تو یہ حالت اسی وقت تبدیل کرتی ہے، جب وہ قوم خود اپنے آپ کو پوری طرح پستی میں گرا دیتی ہے۔ کسی دانشور نے بہت قیمتی بات کہی ہے: ”کوئی شخص کسی کا چراغ نہیں بجھاتا، چراغ کے اندر تیل کی کمی چراغ کو بجھا دیتی ہے۔“ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ قدرت نے مسلمانوں کو دنیا میں عروج دیا، لیکن بہت سی خامیوں کا شکار ہوکر مسلمان اس عروج کو برقرار نہ رکھ سکے۔

مسلمان کتاب الٰہی کے حامل بنائے گئے تھے، تاکہ اس کے قوانین پر عمل پیرا ہوکر عروج کی منازل طے کریں اور یہ کتاب جو فیصلہ صادر کرے، بے چون و چرا اسے قبول کر لیں، لیکن مسلمان بدقسمتی سے کتاب الٰہی کی یہ حیثیت اپنے علم و عمل میں برقرار نہ رکھ سکے۔ کتاب نازل تو اس لیے ہوئی تھی کہ مسلمان اس کے ذریعے اپنے اختلافات کو ختم کریں گے، لیکن مسلمانوں نے اسی کتاب کو بنیاد بنا کر اختلافات کو جنم دینا شروع کر دیا اور آج حالت یہ ہے کہ ساری دنیا میں مسلمان ہی آپس میں دست وگریباں نظر آتے ہیں۔ تمام ممالک میں مسلمان ہی مسلمان کا خون بہا رہا ہے۔ ماضی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جو قوم بھی تفرقہ کا شکار ہوئی، عنانِ حکومت اس کے ہاتھوں سے جاتی رہی۔ آٹھویں صدی میں جب دو گروہوں میں منقسم دنیائے عیسائیت تفرقے کا شکار ہوئی تو سلطان محمد فاتح نے بڑی آسانی کے ساتھ قسطنطینیہ کو فتح کرلیا۔ اس زمانے میں دونوں عیسائی گروہوں کے پادری ایک دوسرے پر اسی طرح کفر کے فتوے صادر کرنے میں مشغول تھے، جس طرح آج مسلمان مشغول ہیں۔

دنیا دارالاسباب ہے۔ یہاں جو کرو گے، وہی ملے گا۔ آج جو بوؤ گے، کل وہی کاٹو گے۔ دنیا میں موجودہ حکمران قوموں نے اپنی سابقہ غلطیوں کی اصلاح کر کے وقت کے تقاضوں پر عمل کیا، ان کو عروج مل گیا۔ انہوں نے سائنسی علوم میں مہارت پید کی، کیونکہ ان علوم پر مکمل گرفت اور مہارت ہی وقت کا تقاضا اور ضرورت ہے، جبکہ مسلمانوں نے اِن علوم سے پہلو تہی کی۔ آج پوری مسلم دنیا میں موجود یونیورسٹیوں کی تعداد اور ان کا معیار، مغرب کی یونیورسٹیوں کی تعداد اور ان کے معیار کے سامنے ہیچ معلوم ہوتا ہے۔ پوری مسلم دنیا میں عالمی معیار پر پورا اترنے والی شاید ہی کوئی یونیورسٹی ہو۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جدید اور سائنسی علوم سے عدم توجہی مسلمانوں کو عروج سے زوال کی گھاٹی میں گرانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ عروج و زوال کا قانون واضح ہے کہ جو وقت کے تقاضوں پر عمل کرتا ہے، وقت اس کے تقاضوں پر عمل کرتا ہے اور جو وقت کے تقاضوں کو نظر انداز کرتا ہے، وقت بھی اسے نظر انداز کردےتا ہے۔ مانا کہ مسلمانوں کا ماضی بہت ہی شاندار تھا، لیکن حال کیا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں۔ آج ہمیں درخشاں ماضی کے خمار سے نکل کر اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ہم ایک شکست خوردہ اور زوال کا شکار قوم ہیں اور پھر اپنے عروج کا سفر نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے جب ایٹم بم گرا کر جاپان کی ترقی کو نیست و نابود کردیا تو جاپان نے زمینی حقیقت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے اپنی شکست کو قبول کیا اور نئے سرے سے اپنی ترقی کے سفر کا آغاز کیا اور آج جاپان دنیا میں اپنی حیثیت منوا چکا ہے۔ مسلمانوں کے لیے زوال کی گھاٹی سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب الٰہی پر عمل پیرا ہوکر اپنے تمام اختلافات کو ختم کریں اور جدید علوم میں مہارت حاصل کریں اوراپنی ان تمام خامیوں سے کنارہ کشی اختیار کریں، جن کی وجہ سے مسلمانوں کا عروج زوال میں تبدیل ہوا ہے۔ یہی وقت کا تقاضاہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702607 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.