نیکیوں کا موسم ِ بہار

تمام پاکستانیوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو نیکیوں کے موسم بہار کی آمد کی بہت بہت مبارک باد۔رمضان المبارک کے بارے میں قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے۔ترجمہ: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘ (سورہ البقرہ آیت ۱۸۳)

روزے کی فرضیت کا یہ حکم نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وسلم کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد دیا گیا۔ مولانا مودودی ؒ تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں کہ ابتداء میں پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہر ماہ کے تین روزے رکھنے کا حکم دیا تھا لیکن یہ حکم فرض نہ تھا، پھر ۲ ہجری کو روزوں کو رمضان کے روزوں کا حکم نازل کیا گیا۔

روزے کو عربی میں صوم اور روزہ دار کو صائم کہتے ہیں۔اس صائم اس خاص گھوڑے کو بھی کہا جاتا ہے جس کو بھوکا پیاسا رکھ کر اس کی تربیت کی جاتی ہے ، اسے سخت حالات سے گزارا جاتا ہے اور اپنے مالک کا وفادار اور مطیع بننے کی تربیت دی جاتی ہے، جب وہ تربیت یافتہ ہوجاتاہے، سخت حالات کا عادی اور اپنے مالک کا مطیع و وفادار ہوجاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اب صائم ہوگیا ہے یعنی مالک کا وفادار ہوگیاہے۔یہی کیفیت روزہ دار کی ہوتی ہے کہ ایک ماہ کی بھوک پیاس اور حلال چیزوں سے بھی پرہیز، فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل عبادات کا اہتمام ، ریاضت اور صدقہ و خیرات کے ذریعے اپنی جسمانی تربیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی روح کو بھی ترو تازہ کرکے اپنے مالک ، اپنے آقا ربِّ کائنات کی فرمانبرداری کی تربیت بھی حاصل کرتا ہے۔

ایک حدیثِ مبارکہ میں روزے کو ڈھال قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح ڈھال انسان کو دشمن کے وار سے بچاتی اور دشمن سے بچاتی ہے ٹھیک اسی طرح روزہ بھی شیطانی وار، برائیوں سے انسان کی حفاظت کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ روزہ از خود کسی برائی کو روک لے گا ، بلکہ انسان اپنے روزے کو برائیوں اور شیطان کے وسوسوں کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کرے گا۔ اس کی وضاحت ایک اور حدیث پاک سے ہوتی ہے ۔ متفق علیہ حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’ اگر کوئی شخص روزہ دار سے گالی گلوچ کرے یا لڑے تو وہ اس سے کہہ دے کہ بھائی میں روزے سے ہوں‘‘۔ لیکن اگر روزہ دار خود بھی جھگڑے، گالی گلوچ کرے یا اسی طرح کا جواب دے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے از خود اپنی ڈھال پھینک دی ۔

رمضان کو نیکیوں کا موسم بہار کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینے میں بندہ ٔ مومن پورے سال سے زیادہ نیکیاں کرتا ہے ، انفرادی اور اجتماعی نیکیاں بھی اسی مہینے میں سب سے زیادہ ہوتی ہیں ۔ لیکن اس کی کیا وجہ ہے ؟۔ وجہ بہت سادہ ہے ، چونکہ رمضان المبارک روزوں اور تراویح کا اہتمام تمام دنیا کے مسلمان بیک وقت کرتے ہیں۔ ساری قوم ایک ہی وقت میں روزہ رکھتی اور افطار کرتی ہے، سارے لوگ ایک ہی وقت میں سحری کا اہتمام کرتے ہیں اور تراویح پڑھتے ہیں اور انفرادی عبادات و نوافل کا بھی اہتمام کرتے ہیں ۔ اس طرح سارا معاشرہ مجموعی طور پر نیکی اور فلاح کی جانب راغب ہوتا ہے اور ایسا موحول پیدا ہوجاتا ہے جس میں نیکی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس ماہ میں زکوٰۃ اور فطرہ بھی ادا کِیا جاتا ہے، جب کہ روزہ دار کو روزہ کرانے کا اجر الگ ہے۔ اس ماہ میں تمام عبادات خواہ و فرض ہو نفل ان کا اجر عام دنوں کی نسبت 70گنا بڑھادیا جاتا ہے۔

رمضان کو قرآن کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ سورہ قدر میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ ہم نے اس( قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہت ہے‘‘۔( سورہ القدر) شب قدر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات کو کہتے ہیں۔ اسی رات میں قرآن پاک نازل ہوا، رمضان المبارک میں ہی اجتماعی اور انفرادی طور پر سب سے زیادہ قرآن پاک پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں حفاظِ کرام تراویح میں قرآن سناتے ہیں اور کروڑوں مسلمان سنتے ہیں ۔ اسی ماہ میں مسلمان انفرادی طور پر قرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کم از کم ایک بار تو پورے قرآن کی تلاوت کرلی جائے۔

پھر یہ بات دیکھیں کہ جس رات میں قرآن نازل ہوا اس کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رمضان کا مہینہ آیا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ یہ مہینہ تمارے اوپر آیا ہے اور اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے، جو اس سے محروم رہ گیا وہ تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہتا ہے جو ہے ہی بے نصیب ( ابنِ ماجہ ) مولانا مودوی ؒ ہزار مہینوں سے افضل رات کی تشریح کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں ماہ میں بھی بنی نوع انسان کی بھلائی کا وہ کام نہیں ہوا جو کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک نازل فرما کر انسانوں کے لیے کیا ہے۔

روزے کا مقصدہ محض انسان کو بھوکا پیاسا رکھنا نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد انسان کے اندر تقویٰ اور پرہیز گاری کی صفات پیدا کرنا ہے ، اگر کوئی فرد روزے کا مقصد صرف صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہنا ہے تو وہ بہت بڑی غلطی کرتا ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اﷲ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ وہ پنا کھانا اور پینا چھوڑ دے۔ ( بخاری)یعنی اگر کوئی فرد روزے کی حالت میں جھوٹ بولنے اور اس پر عمل کرنے اور دیگر برائیوں سے باز نہیں آتا تو اﷲ کو محض اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرما یا کہ کتنے ہی روزہ دار اسے ہیں کہ جنھیں اپنے روزوں سے سوائے پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہیں راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کرنے والے ایسے ہیں کہ جنھیں اس عبادت سے نیند کی محرومی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔( دارمی) اس کا مطلب یہ ہو اکہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اعمال کو نہیں بلکہ ہمارے اخلاص اور نیت کو دیکھتے ہیں ۔ اب اگر ایک شخص بظاہر پورا دن کچھ کھائے پیے نہیں اور بھوکا پیاسا رہے اور ساتھ ہی راتوں کو جاگ جاگ کر نوافل اور ذکر و اذکار بھی کرتا رہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ہر قسم کے ناجائز اور غلط کام کرتا رہے تو اس کا روزہ اور ساری عبادات ظاہری طور پر تو پوری ہوجائیں گی لیکن درحقیقت اس کو بھوک اور پیاس اور رت جگے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا ۔

آخری بات:
سکتہ کے مریض کا آخری امتحان اس طرح لیا جاتا کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں ۔ اگر اس آئینے پر کچھ دھندلاہٹ پیدا ہوتو تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے ، ورنہ اس کی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی بھی کسی بستی کا تمہیں امتحان لینا ہوتو اسے رمضان کے مہینے میں دیکھو۔ اگر اس مہینے میں اس کے اندر کچھ تقویٰ ، کچھ خوفِ خدا ور کچھ نیکی کے ابھار کا جذبہ نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے۔ اور اگر اس مہینے میں نیکی کا بازار سرد ہو، فسق و فجور کے آثار نمایاں ہوں اور اسلامی حِس مردہ نظر آئے تو انّا للّٰہ وَ انّاا لیہ راجعون پڑھ لو۔ اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس مسلمانوں کے لیے مقدر نہیں ہے۔ (سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ)

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس ماہ مبارک میں سچے دل سے توبہ کرنے ، جہنم سے نجات اور جنت حاصل کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں ریا کاری سے بچاتے ہوئے خالص اﷲ ہی کے لیے عبادات کرنے کی توفق عطا فرمائے اور اس ماہ مبارک کی برکت سے امتِ مسلمہ بالخصوصبرما، فلسطین اور کشمیر کے مسلمانوں کی مشکلات اور پریشانی کا خاتمہ فرمائے۔ آمین
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520258 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More