قریش کا ردعمل
پیغمبر اکرم کی نبوت کی خبر جیسے ہی مکہ کی فضا میں گونجی ویسے ہی قریش کے
اعتراضات شروع ہوگئے، چنانچہ جب انہیں یہ محسوس ہوا مسئلہ سنگین صورت
اختیار کر گیا ہے اور ان کے خس و خاشاک جیسے دینی عقائد اور مادی مفاد کے
لیے خطرہ ہے تو انہوں نے آپ کے پیش کردہ آسمانی دین و آئین کے خلاف محاذ
آرائی شروع کر دی۔ ہم یہاں ان کی بعض وحشیانہ حرکات کا ذکر کر رہے ہیں:
(الف) مذاکرہ
مشرکین قریش کی شروع میں تو یہی کوشش رہی کہ وہ حضرت ابوطالب اور بنی ہاشم
کے مقابلہ میں نہ آئیں بلکہ انہیں مجبور کریں کہ وہ پیغمبر اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی حمایت و پشت پناہی سے دست بردار ہو جائیں تاکہ وہ آسانی
سے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مشن کو ناکام بناسکیں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے پہلے تو یہ کوشش کی کہ حضرت ابوطالب کو یہ
کہنے پر مجبور کر دیں کہ ان کے بھتیجے کی تحریک نہ صرف ان (مشرکین قریش) کے
لیے ضرر رساں ہے بلکہ قوم و برادری میں انہیں جو عزت و حیثیت حاصل ہے اس کے
لیے بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
مشرکین قریش نے عمار بن ولید بن مغیرہ ایسے خوبرو، تنومند اور وجیہ و جمیل
جوان شاعر کو حضرت ابوطالب کی فرزندی میں دینے کی کوشش کی تاکہ پیغمبر اکرم
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں اور آپ کو ان کے
حوالے کر دیں۔
حضرت ابوطالب نے ان کی ہر بات کا نفی میں جواب دیا اور اس کام کے لیے کسی
بھی شرط پر آمادہ نہ ہوئے کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت سے
دست بردار ہو جائیں۔
(ب)لالچ
سردارانِ قریش کو جب پہلے ہی مرحلے میں شکست و ناکامی ہوئی تو انہوں نے
فیصلہ کیا کہ چراغِ نبوت کو خاموش کرنے کے لیے داعی حق کو مال و دولت کا
لالچ دیا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کے تحت پہلے وہ حضرت ابو طالب کے پاس پہنچے
اور یہ شکوہ و شکایت کرتے ہوئے کہ ان کے بھتیجے (حضرت محمد صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم) نے ان کے دیوتاؤں کے خلاف جو رویہ اختیار کیا ہے وہ بہت ہی
نازیبا ہے۔ لہٰذا اگر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہمارے دیوتاؤں سے
دست کش ہو جائیں تو ہم انہیں دولت سے مالا مال کر دیں گے۔ ان کی اس پیشکش
کے بارے میں رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا:
خداوند تعالیٰ نے مجھے دنیا اور زر اندازی کے لیے انتخاب نہیں فرمایا ہے
بلکہ مجھے اس لیے منتخب کیا ہے کہ لوگوں کو اس کی جانب آنے کی دعوت دوں اور
اس مقصد کی طرف ان کی رہبری کروں۔
یہ بات آپ نے دوسری جگہ ان الفاظ میں فرمائی:
چچا جان! خدا کی قسم اگر وہ سورج کو میرے داہنے ہاتھ اور چاند کو بائیں
ہاتھ میں رکھ دیں تو بھی میں نبوت سے دست بردار ہونے والا نہیں۔ اس خدائی
تحریک کو فروغ دینے کے لیے میں جان کی بازی تو لگا سکتا ہوں مگر اس سے دست
کش ہونے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
سردارانِ قریش نے اگلے مرحلے پر یہ فیصلہ کیا کہ وہ براہِ راست پیغمبر اکرم
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کریں گے، چنانچہ اس مقصد کے تحت انہوں نے
اپنا نمائندہ آپ کی خدمت میں روانہ کیا اور آپ کو اپنے مجمع میں آنے کی
دعوت دی۔ جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں میں پہنچ گئے تو کفار
قریش نے آپ کے رویئے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو مال و دولت کی
تمنا ہے تو ہم اتنا مال و متاع دینے کے لیے تیار ہیں کہ آپ دولت مندوں میں
سب سے زیادہ مالدار ہو جائیں، اگر آپ کو جاہ و امارت کی خواہش ہے تو ہم آپ
کو اپنا امیر و سردار بنانے کے لیے تیار ہیں اور ایسے مطیع فرمانبردار بن
کر رہیں گے کہ آپ کی اجازت کے بغیر معمولی سا بھی کام نہ کریں گے اور اگر
آپ کے دل میں حکومت اور سلطنت کی آرزو ہے تو ہم آپ کو اپنا حکمراں و
فرمانروا تسلیم کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ یہ سن کر رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا:
میں مال و دولت جمع کرنے، تمہارا سردار بننے اور تخت سلطنت پر پہنچنے کے
لیے منتخب نہیں کیا گیا ہوں، خداوند تعالیٰ نے مجھے پیغمبر کی حیثیت سے
تمہارے پاس بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے، مجھے تمہارے پاس
جنت کی خوشخبری دینے اور عذاب دوزخ سے ڈرانے کے لیے مقرر کیا ہے، جس پیغام
کو پہنچانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی ہے، اسے میں نے تم تک پہنچا دیا ہے۔
اگر تم میری بات مانو گے تو تمہیں دنیا و آخرت کی خوشیاں نصیب ہوں گی، اور
اگر تم میری بات کو قبول کرنے سے انکار کرو گے تو میں اس راہ میں اس وقت تک
استقامت و پائیداری سے کام لوں گا کہ خداوند تعالیٰ میرے اور تمہارے درمیان
فیصلہ کر دے۔
(ج) تہمت و افترا پردازی
پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے فرشتوں جیسے چہرہ مبارک کو داغدار
کرنے کے لیے قریش نے جو پست طریقے اختیار کیے، ان میں سے ایک احمقانہ حربہ
آپ پر تہمتیں لگانا بھی تھا، چنانچہ آپ کو دروغ گویا جنونی ہونے سے زیادہ
ساحر و جادوگر سمجھنے لگے تھے اور یہ کہتے پھرتے تھے کہ اس شخص کے پاس کوئی
ایسا جادو ہے جس کے ذریعے یہ شخص باپ، بیٹوں، بیوی و شوہر، دوستوں اور رشتہ
داروں کے درمیان جدائی پیدا کردیتا ہے۔
قرآن مجید نے ایسی تہمتوں کے بارے میں کئی جگہ اشارہ کیا ہے اور پیغمبر
اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکی متبرک و مقدس ذات کو اس قسم کے اتہامات و
الزامات سے منزہ و مبرہ قرار دیا ہے۔
ایک آیت میں پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی یہ کہہ کر دلجوئی کی ہے
کہ یہ پست شیوہ ان ہی کفار کی خصوصیت نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی دشمنان
انبیا اسی قسم کے حربے استعمال کرچکے ہیں۔
کذالک ما انی الذین من قبلھم من رسول الا قالوا ساحرا ومجنونا اتو صوابہ بل
ھم قوم طاغون (سورہ ذاریات)
”یوں ہی ہوتا رہا ہے ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں
آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون، کیا ان سب نے آپس
میں اس پر کوئی سمجھوتہ کرلیا ہے؟ نہیں بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں۔“
(د) شکنجہ و ایذاء رسانی
آپ کی طرف اتہامات و ناشائستہ حرکات کی نسبت دینے کے ساتھ ہی انہوں نے آپ
کو ایذاء و آزار رسانی بھی شروع کر دی اور انہوں نے ایذاء و آزار رسانی میں
کوئی کسر نہ چھوڑی۔ قریش کا یہ غیر انسانی طرز عمل نہ صرف پیغمبر اکرم صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا
رکھتے تھے۔
پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو ابولہب اس کی بیوی ام جمیل، حکم ابن
ابی العاص، عقبہ ابن ابی معیط اور ان کے ساتھیوں نے دوسروں کے مقابلے بہت
زیادہ ایذاء و تکلیف پہنچائی۔
ایک مرتبہ رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تبلیغ اسلام کے لیے ازار (عکاظ)
کی جانب تشریف لے جا رہے تھے کہ ابولہب بھی آپ کے پیچھے پیچھے ہولیا اور
چلا چلا کر کہنے لگا:
لوگو! میرا یہ بھتیجا جھوٹا ہے اس سے بچ کر رہنا۔
قریش آوارہ لڑکوں اور اپنے اوباش غلاموں کو پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے راستے پر بٹھا دیتے اور جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس راستے
سے گزرتے تو سب آپ کے پیچھے لگ جاتے۔ آپ کا مذاق اڑاتے، جس وقت آپ نماز کے
لئے کھڑے ہوتے تو آپ پر اونٹ کی اوجھڑی میں سے فضلہ انڈیل دیتے۔
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کے ہاتھوں ایسی سختیاں برداشت کیں
کہ ایک مرتبہ زبان مبارک پر آہی گیا۔
ما اوذی احدمثل مااوذیت فی اللہ
”راہ خدا میں کسی بھی پیغمبر کو اتنی اذیتیں نہیں دی گئی ہیں جتنی مجھے دی
گئی ہیں۔“
صحابہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بھی انہوں نے یہ فیصلہ کیا
کہ ہر نو قبیلہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کچلنے کے لیے انہیں ہر طرح کی ایذاء
و تکلیف پہنچائیں تاکہ وہ مجبور ہو کر اپنے نئے دین و آئین سے دست کش ہو
جائیں۔
یاسر، ان کی اہلیہ ”سمیہ“ اور فرزند ”عمار“ جناب ابن ارت، عار ابن فہیدہ
اور ”بلال حبشی“ نے دیگر مسلمانوں کے مقابل زیادہ مصائب و تکالیف برداشت
کیں۔
”سمیہ“ پہلی مسلم خاتون تھیں جو فرعون قریش ابوجہل کی طاقت فرسا ایذاء
رسانی و شکنجہ کے باعث اس کے نیزے کی نوک سے زخمی ہو کر شہید ہوگئیں۔ ان کے
شوہر یاسر دوسرے شہید تھے جو راہ اسلام میں شہید ہوئے (عمار نے گرتقیہ نہ
کیا ہوتا تو وہ بھی قتل کر دیئے جاتے)۔
امیہ ابن خلف اپنے غلام حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھوکا پیاسا مکہ
کی دوپہر میں تپتی ریت پر لٹا دیتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ کر کہتا تھا
کہ یا تو لات و عزیٰ کی پوجا کر، ورنہ تو اسی حالت میں مر جائے گا۔ مگر
حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سخت تکالیف میں بھی یہی جواب دیتے” احد
احد“۔
اس کے علاوہ بھی دیگر مسلمانوں کو قید و بند میں رکھ کر سخت زد و کوب کر کے
بھوک پیاس سے تڑپا کر اور گلے میں رسی باندھ کر جانوروں کی طرح کوچہ و
بازار میں گھسیٹتے اور ہر قسم کی ایذا و تکلیف پہنچاتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ ۔۔۔۔۔۔ آپ کی آرا راقم کے لئے باعث عزت افزائی و رہنمائی ہوگی ۔ |