اخلاص وللہیت،مسلسل محنت،بلند
ہمتی، ادب واحترام
اللہ کی صفات میں سے ایک صفت علم ہے، اللہ کی ذات ازلی تو اس کی صفت بھی
ازلی، اس کا کچھ حصہ اللہ نے مخلوق کو عطا کیا، اور اس میں انسان کو برتر
رکھا، بلکہ بعض حضرات کی تحقیق کے بموجب صفت علم انسان کا خاصہ اور امتیاز
ہے لہٰذا علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا، اور علم سے انسان کو
متصف کرنے کی غرض عمدہ صفات، حسن اخلاق ،اور سیرت اور کردار میں خوبی، اور
بہتری پیدا کرنا ہے ، اللہ رب العزت کی ذات،تمام صفات حمیدہ کو جامع ہے ،
اس لیے کہ اس کا علم ”علم محیط“ ہے، اللہ نے اپنی اس صفت کا پرتو انسان میں
اسی لیے رکھا تاکہ تخلقوا بأخلاق اللّٰہ والی حدیث پر عمل در آمد ہو سکے،
اور بندہ اپنے اندر بھی کمال پیدا کرے ،حضرت آدم علیہ السلام کو جو برتری
اورخصوصیت دی گئی اس کی وجہ بھی تو علم ہے لہٰذا علم کا تقاضہ یہ ہے کہ
جتنا علم ہو انسان اتنا ہی بااخلاق ہو، حضرت انبیاء کرام علیہم الصلوة
والسلام کو اللہ نے” علم وحی“ سے نوازا تو ساری انسانیت کے لئے نمونہ ثابت
ہوئے۔
حضرات صحابہ بھی جب علم الٰہی اور علم نبوی سے سرشار ہوئے تو انکی زندگیوں
میں عجیب انقلاب بر پا ہوگیا، اور وہ بھی رہتی دنیا تک انسانوں کے لیے أسوہ
بن گئے،معلوم ہوا علم دین اپنے اندر انقلابی تاثیر رکھتا ہے مگر آج کل ہم
دیکھ رہے ہیں ہمارے اہل علم حضرات بھی انتہائی نازک حالات کے شکار ہیں تو
آئیے ہم کو شش کریں کہ اس بدترین صورت حال کے اسباب وعلل کیا ہیں؟
تعلیم کی موجودہ ابتر حالات کا ذمہ دار صرف کسی ایک طبقہ کو نہیں قرار دیا
جاسکتا، بلکہ امت کا اجتماعی وانفرادی طور پر ہر طبقہ اس کا ذمہ دار ہے،
مگر زیادہ ذمہ دار طلبہ ہیں لہٰذا ہم چونکہ انہی سے مخاطب ہے اس لیے انہی
کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔
(۱)اخلاص وللہیت
آگے بڑھنے سے پہلے ہم چند سوالات جو ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں اس کی
نشاندہی کرتے ہیں، سب سے پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انحطاط علمی کا
سبب کیا ہے؟ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ طلبہ کیوں محنت نہیں کرتے؟ پھر سوال
پیدا ہوتا ہے کیوں زندگی میں علم پر عمل نہیں ؟ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ
طلبہ وعلماء کو کیوں آخرت کی فکر اور امت کا درد نہیں، اور کیا ان سوالات
کے جوابات ممکن ہے تو آئیے ہم اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔
ہمیں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے یہ دنیا دار الاسباب ہے ،اور
اللہ کی ذات مسبّب الاسباب ہے ،لہٰذا ہمارا یہ کہنا کہ اب قیامت قریب آگئی
حالات ایسے بدل گئے ہیں کہ اب محنت کر کے کوئی فائدہ نہیں اس بات کو ذہن سے
نکال دینا چاہئے، اور اسباب کی طرف توجہ دینی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ
ارشاد فرماتے ہیں: ” إن اللّٰہ لا یضیع أجر المحسنین“ اللہ اخلاص کے ساتھ
محنت کرنے والوں کی محنت ضائع نہیں کرتے، اب آپ ذرا غور کیجئے” محسنین “کا
لفظ استعمال کیا ،” مجتہدین “یا ”عاملین “نہیں کہا ،یا”مخیرین“ یا”ساعین“
یا ”شاغلین“ کا لفظ استعمال نہیں کیا ،آخرایساکیوں۔اس لیے کہ یہ تمام الفاظ
کسی ایک حقیقت اور معنی کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،جبکہ” احسان “کا لفظ
انتھائی معنی خیز اور جامع ومانع ہے ،کیوں کہ احسان کے لغوی معنی تو خوب
اچھا کرنا اور خوب اچھا کرنے کے لیے جہد وجہد، سعی عمل، شغل، سب ضروری ہے،
اصطلاح ِ شرع میں” احسان“ کہتے ہے اخلاص اور للہیت کو ،اب محسنین کا معنی
ہو ا خوب جدوجہد اور سعی پیہم کے ساتھ محض اللہ کے لیے کرنے والے ۔
اب آئیے ہم اپنے طالب علمانہ کردار پر ایک نظر ڈالیں اور فیصلہ کریں، کہ
کیا واقعتا ہم محسنین میں ؟کیا ہم محنت اور جد جہد اور سعی پیہم میں لگے
ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے اندر اخلاص و للہیت ہے؟تو جواب نفی میں ہو گا اولاً تو
اکثر وبیشتر طلبہ میں محنت اورلگن کا جذبہ نہیں ، اور کچھ میں ہے تو عام
طور پر محنت کے ساتھ جو مطلوبہ صفات ہے وہ نہیں، یعنی اخلاص ،تواضع، ادب،
حسن ا خلاق، معصیت سے دوری، وغیرہ۔
لہٰذا طلبہ عزیز سے لجاجت کے ساتھ گذارش ہے کہ اللہ کے واسطے سستی اور غفلت
کو پس پشت ڈال کر خوب لگن اور محنت سے تحصیل علم میں لگ جائیں، تاکہ دنیا
اور آخرت کی کامیابی حاصل ہوسکے ، ساتھ تکبر سے حسد سے کذب بیانی سے سوء
اخلاق سے بے ادبی سے چاہے کتاب کی ہو ، چاہے استاذ کی ہو، چاہے درس گاہ کی
ہو، چاہے ادارہ کی اس سے مکمل اجتناب کریں۔
حاصل یہ کہ سب سے پہلے ضرورت ہے اخلاص اور للہیت کو پیدا کرنے کی ”إنما
الأعمال بالنیات“ جب ہم یہ نیت کریں گے کہ اللہ کی رضا کے لیے علم حاصل
کرنا ہے،تو محنت کی توفیق کے راستے من جانب اللہ کھل جائیں گے، ہم آغاز سال
میں یہ نیت کرلیں کہ ”اللہ ہمارے یہاں آنے کا مقصد علم کو حاصل کرکے اس پر
عمل کرنا اور تیری ذات اقدس کو راضی کرنا ہے“۔
(۲)مسلسل محنت
عزیز طلبہ! کیا آپ نے صحابہ کے حالات پڑھے اور سنے نہیں ان پر کوئی نگراں
اور ذمہ دار نہیں مگر ان میں اخلاص تھا تو ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی صحبت میں حاضر ہو کر علم حصول کی انہیں توفیق ہوتی تھی، کیا
آپ نے اصحاب صفہ کے حالات نہیں پڑھے، بھوکے ہوتے کپڑے نہ ہوتے مگر برابر
محنت میں لگے رہتے، حضرت ابوہریرہ بھی انہیں میں سے ایک تھے، اللہ نے انہیں
کیسا چمکایا،حضرات تابعین کی زندگیوں کا مطالعہ کیجئے اس زمانہ میں نہ کوئی
درس گاہ ہوتی تھی نہ کوئی کمرہ نہ کوئی ہاسٹل اور رہائش گاہ نہ لائٹ نہ
کھانے پینے کاانتظام ، نہ کوئی زور زبردستی وہ تو اپنا سب کچھ لگاکر اخلاص
کے ساتھ تن من دھن کی بازی لگا دیتے تھے، انہیں کے مجاہدات کی برکت سے آج
علوم اسلامیہ صفحات کتب کی صورت میں موجود ہے، اگر وہ ہم لوگوں کی طرح راحت
پسند اور عیش پرست ہوتے ، یقینا آج ہمارے پاس علمی ذخائر نہ ہوتے نہ کتابیں
ہوتیں اور نہ یہ مدارس ہوتے، دنیا کی تاریخ میں علماء اسلام نے جتنا لکھنے
پڑھنے کا کام کیا ، یقینا کسی نے نہیں کیا، جیسا شیخ عبد الفتاح ابو غدہ نے
اس پر مستقل ایک تحریر کی ہے، ”العلماء العذاب الذین آثروالعلم الزواج“
یعنی وہ علماء جو علم کے خاطر شادی سے کنارہ کش رہے، جن میں مشہور یہ ہیں:
(۱) ہناد بن سری کوفی محدث تھے، (۲) ابوجعفر محمدابن جریر طبری مفسر محدث
اور موٴرخ تھے بے شمار ضخیم کتابیں تصنیف فرمائی،(۳)ابوبکر ابن الانبادی
نحوی اور مفسر تھے، (۴) ابو علی الفارسی جلیل القدر امام النحو تھے ،
(۵)ابوبکر الاندلسی محدث تھے،(۶)محمود ابن عمر زمخشری مفسر تھے، (۷)محی
الدین زکریا النووی فقیہ محدث تھے مسلم شریف کے مشہور شارح اور بے شمار
کتابوں کے مصنف تھے، (۸)ابوالحسن ابن النفس دمشقی، (۹)ابن تیمیہ حرانی محدث
فقیہ مفسر اور بے شمار کتابوں کے مصنف تھے، (۱۰)عز الدین محمد ابن جماعة
مصری فقیہ اور اصولی تھے،(۱۱)محمد ابن طولون مشہور موٴرخ گذرے
ہیں،(۱۲)سیلمان ابن عمر الجمل جلالین کے مشہور شارح، (۱۳) ابوالمعالی محمود
شکری الوسی بہت بڑے ادیب تھے،(۱۴)ابوالوفاء ا لافغانی ہندی فقیہ اور محدث
تھے ، وغیرہ بے شمار ایسے علماء گذرے ہیں اللہ امت مسلمہ کی جانب سے انہیں
بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
ان لوگوں نے اپنا مال اپنا وقت اپنی خواہشات سب کچھ علم دین کے لیے قربان
کردیا، تو آج اللہ نے یہ مقام دنیا ہی میں عطا کیا صدیاں گذر جانے کے
باوجود آج بھی جب ان کا تذکرہ ہوتا ہے تو مسلم عقیدت سے رحمة اللہ علیہ
کہتا ہے۔
ہمارے متقدمین ومتأخرین علماء نے اتنی جدوجہد اور محنت کی کہ شیخ عبدالفتاح
ابوغدہ کو اپنی بے مثال تالیف ”صَفَحَاتٌ مِنْ صَبْرِ العُلَمَاءِ عَلٰی
شَدَائِدِ العِلْمِ وَتَحْصِلِہِ،، کے مقدمہ میں لکھنا پڑا۔
”اگر تم ہمارے علماء کے احوال کا تتبع اور مطالعہ کرو گے تو اندازہ ہوگا وہ
کیا تھے؟ اور اپنوں نے کیا کیا؟ وہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے محض علم کے خاطر
لمبے لمبے اسفار کئے بھوک اور پیاس پر صبر کیا راتوں کو سونا چھوڑ دیا اپنے
آپ کو خوب مشقت میں ڈالا یہاں تک کہ تاریخ ان کی قربانیوں کی نظیر پیش کرنے
سے عاجز ہے میں اپنی کتاب میں اس کااحاطہ، اور استیعاب کرنا نہیں چاہتا
ہوں، بلکہ نمونے کے طور مشت از خروارے کے ہر پہلو سے متعلق چند واقعات بیان
کروں گا، کیوں کہ ان کی قربانیاں اتنی ہے کہ اس کو یکجہ کرنا دشوار ہے، علم
کے خاطر صبر آزمانی کے ایسے حیرت انگیز واقعات ہے کہ انسان کا ذہن اسے قبول
کرنے کے لیے بھی تیار نہ ہو مگرحقیقت یہ ہے کہ یہ تمام واقعات سو فیصدی
صحیح ہے ، کیوں کہ سندوں کے ساتھ معتبر کتابوں میں منقول ہے ، اگر آپ کو وہ
سمجھ میں نہ آئے تو نہ آئے ، بعض حیرت انگیز عجائبات میں آپ کے سامنے بیان
کرتا ہوں آپ کی عقل اس کو تسلیم کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں ہوگی ، مگر
اتنی مستند اور صحیح روایات اور معتبر لوگوں سے مروی ہے کہ آپ کو صحیح
ماننا ہی پڑے گا، مثلاً محدث عظیم إمام ابوداوٴد سلیمان بن الاشعث
السجستانی اپنی کتاب ”سنن أبی داوٴد“ کے باب ”صدقة الزرع“ میں خود اپنا
مشاہدہ نقل کرتے ہے کہ میں نے مصر کے سفر کے دوران ایک ککڑی دیکھی جس کی
لمبائی تیرہ بالشت تھی، اور ایک اتنا بڑا نارنگی دیکھا کہ اس کو کاٹ کر
اونٹ پر اس طور پر لادا گیا تھا کہ ایک حصہ اونٹ کی کوہان کی داھنی جانب
اوردوسرا بائیں جانب کیا کوئی اس کی تصدیق کرسکتا ہے؟ مگر ایک ایسے محدث اس
کو بیان فرما رہے ہیں جن کی صداقت پر امت کا اجماع ہے لہٰذا عجوبہ سمجھ کر
ماننا پڑے گا۔
ایسا واقعہ محمد بن رافع نے ذکر کیا ہے جو امام بخاری، مسلم، ابوداوٴد،
ترمذی،نسائی، ابوزرعہ، تمام کبار محدثین کے استاذ اور شیخ ہیں کہ میں نے
انگور کا ایک گچھا دیکھا جو ایک خچر کے برابر تھا۔
اسی طرح کے دسیوں عجائبات کو شیخ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں ذکر کیا اور
پھر کہا کہ جس طرح ان واقعات کے حیرت انگیز ہونے کے باوجود آپ کو تسلیم
کرنا پڑا کہ یہ صحیح ہے ، بس بالکل اسی طرح ہمارے اسلاف کے علم کے خاطر صبر
آزمائی کے حیرت انگیز واقعات کو بھی آپ کو تسلیم کرنا ہوگا۔
طلب علم کیے لیے اسلاف کی قربانیاں:
اسلام نے انسان کو پہلا درس ہی علم کا دیا، اللہ نے آدم علیہ السلام کو علم
عطا کیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی پہلی وحی علم سے
متعلق نازل کی گئی، اس کا اثر یہ ہوا کہ اس امت کے افراد نے اپنے آپ کو علم
کے لیے کھپا دیا، شیخ عبد الفتاح ابوغدہ فرماتے ہیں: ہمارے علماء اسلاف میں
اکثر وبیشتر فقر وفاقہ کے شکار تھے، مگر ان کا فقر تحصیل علم کے لیے کبھی
رکاوٹ نہ بنا، اور انہوں نے کبھی کسی کے سامنے اپنی محتاجی کو ظاہر بھی
نہیں کیا۔
انہوں نے علم کی خاطر نہایت جاں گسل اور ہولناک مصائب وآلام جھیلے اور ایسے
صبر وضبط کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان کی طاقت اور برداشت کے سامنے خود ”صبر“ بے
چین اور بے قرار ہوگیا۔
اسی کے ساتھ وہ اپنی دل کی گہرائیوں کے ساتھ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے اور
حمد وثنا میں مصروف رہتے ، ہر وقت شکر گذاری ان کا امتیازی وصف تھا، ان کی
قربانیوں نے انہیں دنیا میں بھی سرخ رو کیا، اور قیامت تک آنے والے طالبان
علوم کے لئے بہترین نمونہ بتا دیا، سب کچھ انہوں نے صرف اور صرف کتاب وسنت
کی خدمت اور اللہ کی رضاء کے لئے کیا ۔
ان کی قربانیوں سے یہ بات عیاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ اسلامی علوم کی تدوین
و تالیف پر فضا وشاداب مقامات نہروں کے کناروں اور سایہ دار درختوں کے
چھاؤں میں بیٹھ کر نہیں ہوئی، بلکہ یہ کام خون جگر کی قربانی دیکر ہوا ہے،
اس کے لیے سخت گرمیوں میں پیاس کی ناقابل برداشت تکالیف اٹھانی پڑی، اور
رات رات بھر ٹمٹاتے چراغ کے سامنے جاگنا پڑا، بلکہ طلب علم کی راہ میں جان
عزیز کے قربان کو بھی انہوں کوئی بڑا کام تصور نہ کیا، آئیے اب میں انکی
جدوجہد اور قربانیوں کے چند نمونہ آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں تاکہ ہمیں بھی
ان کی راہ پر چلنے کا شوق پیدا ہو۔
(۱) حضرت عبداللہ بن عباس جو ترجمان القرآن کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ
ایسے ہی قرآن کے عظیم مفسر نہیں بن گئے بلکہ خوب محنت اور جدوجہد کی وہ خود
فرماتے ہیں:
”حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ میں صحابہ کرام سے پوچھنے اور احادیث
معلوم کرنے میں لگ گیا، مجھے(کبھی) پتہ لگتا کہ فلاں صحابی کے پاس حدیث
موجود ہے تو میں ان کے مکان پر پہونچتا، وہاں آکر معلوم ہوتا کہ وہ آرام
کررہے ہیں، تو میں اپنی چادر ان کے دروازہ کے سامنے بجھا کر لیٹ جاتا،
دوپہر کی گرمی میں ہوا چلتی تو تمام گردوغبار میرے اوپر آتا۔
جب صاحب خانہ باہر آکر مجھے دیکھتے تو حیرت زدہ ہو کر استفسار کرتے عم
زادہٴ رسول! (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچیرے بھائی) کیسے آناہوا؟
اور آپ نے یہ زحمت کیوں فرمائی، کسی کو بھیج کر مجھے کیوں نہ بلوالیا؟ میں
کہتا: نہیں جناب! مجھے ہی آنا چاہئے تھا، پھر میں ان سے حدیث معلوم
کرتا۔(صبر واستقامت ، ص:۵۰)
(۲) عبد الرحمن بن قاسم جوامام مالک کے ممتاز شاگر د تھے وہ کیسے اتنے بڑے
فقیہ اور محدث ہوئے۔
قاضی عیاض نے ”ترتیب المدارک“ میں عبدالرحمن بن قاسم عُتقی (متوفی ۱۹۱ ھ)کے
حالات میں لکھا ہے (یا د رہے موصوف کا شمار امام مالک رحمة الله عليه اور
لیث رحمة الله عليه وغیرہ کے مایہٴ ناز شاگردوں میں ہوتا ہے)۔
”ابن قاسم کہتے تھے: میں امام مالک رحمة الله عليه کے پاس، آخر شب کی
تاریکی میں پہونچتا، اور کبھی دو، کبھی تین یا چار مسئلے دریافت کرتا اس
وقت امام محترم کی طبیعت میں کافی انشراح محسوس ہوتا، ایک دفعہ ان کی چوکھٹ
پر سر رکھے سوگیا، امام مالک رحمة الله عليه نماز کے لئے مسجد تشریف لے
گیے، لیکن مجھے نیند کے غلبہ میں کچھ بھی پتہ نہ چل سکا، آنکھ اس وقت کھلی
جب ان کی ایک کالی کلوٹی باندی نے میرے ٹھوکر مارکر یہ کہا: تیرے آقا چلے
گئے، وہ تیری طرح غافل نہیں رہتے، آ ج ۴۹ سال ہونے کو آئے، انہوں نے فجر کی
نماز کبھی کبھار کے علاوہ ہمیشہ عشاء ہی کے وضو سے پڑھی ہے۔(اس کلوٹی نے آپ
کو امام صاحب کے پاس اکثر آتے جاتے دیکھ کر ان کا غلام سمجھا)۔
امام مالک کے پاس ۱۷/ سالہ قیام:
ابن قاسم کہتے ہیں:میں امام مالک کے پاس مسلسل سترہ سال رہا، لیکن اس مدت
میں نہ کچھ بیچا اور نہ کچھ خریدا۔ (ذرا ہمارے وہ طلبہ غور کریں جو اکثر
وبیشتر بازاروں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں، کہ سترہ سال میں کبھی خیرید وفروخت
نہیں کیا)۔
باپ اور بیٹے کی ملاقات:
وہ کہتے ہیں: ایک روز میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، اچانک ایک نقاب پوش نوجوان
جو مصر سے حج کرنے کے لیے آیا تھا، مجلس میں پہونچا، اور امام مالک کو سلام
کر کے پوچھا، کیا آپ یہاں ابن قاسم موجود ہیں؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ
کیا، وہ آیا اور اسنے میری پیشانی کا بوسہ لیا، میں نے اس میں ایک نہایت
عمدہ خوشبو محسوس کی،(جس کا بیان لفظوں میں کرنا مشکل ہے) در حقیقت وہ میرا
بیٹا تھا، اور یہ خوشبو اسی سے آرہی تھی، میں جس وقت گھر سے چلا تو رحم
مادر میں تھا، میں اس کی ماں سے جو میری بیوی ہونے کے ساتھ ساتھ چچیری بہن
بھی ہوتی تھی، یہ کہہ کر آیا تھا کہ لمبی مدت کے لیے جارہا ہوں واپسی کا
کچھ پتہ نہیں کہ کب ہو، اس لیے تمہیں اختیار ہے چاہے میری ہی نکاح میں رہنا
چاہے آزاد ہوکر دوسری جگہ چلی جانا لیکن اس اللہ کی بندی نے آزاد ہونے کے
بجائے، میرے ہی نکاح میں رہنے کو اختیار کیا۔(صبر واستقامت کے پیکر، ص:۵۱
تا ۵۲)
(۳) محمد بن طاہر مقدسی کے بارے میں آتا ہے کہ طلب حدیث کے خاطر سخت گرمی
اور چلچلاتی دھوپ میں لمبی لمبی مسافت طے کرنے کی وجہ سے بارہا خون کا
پیشاب ہو گیا۔(وفیات الاعیان)
(۴) ابونصر سنجری کا مخلصانہ طلب علم کا دور:
حافظ ذہبی ”تذکرة الحفاظ“ میں ابو نصر سنجری کے بارے میں فرماتے ہیں ”عبد
اللہ بن سعید بن حاتم، ابونصر سنجری(متوفی ۴۴۴ھ) فن حدیث میں ”حافظ“ کے
مرتبہ پر پہونچے ہوئے ہیں، (یہی نہیں بلکہ) آپ اپنے دور میں حدیث پاک کے سب
سے بڑے حافظ،امام وقت اور مینارہٴ سنت کی حیثیت رکھتے تھے، موصوف حدیث کی
طلب میں زمین کے اس کنارہ سے اس کنارہ تک چکر لگا کر آئے ہیں“۔
ایک عورت کی پیشکش:
ابو اسحاق حبال کہتے ہیں: ”میں ایک روز ابونصر سنجری کے پاس بیٹھا ہوا تھا،
کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے اٹھ کر اسے کھول دیا، اب میں نے دیکھا کہ
ایک عورت مکان میں داخل ہوئی اور اس نے آکر ایک تھیلی نکالی جس میں ایک
ہزار دینار تھے، اور اسے شیخ کے سامنے رکھ کر بولی: “ انہیں جس طرح آپ کا
دل چاہے خرچ فرمائیں۔ شیخ نے پوچھا آخر مقصد کیا ہے، اس نے کہا ”میں یہ
چاہتی ہوں کہ آپ مجھ سے نکاح کرلیں ،اگرچہ مجھے شادی بیاہ کی کوئی خواہش
نہیں،لیکن اس طرح میں آپ کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔
آپ نے کہا: ”تھیلی اٹھاکر یہاں سے چلی جاؤ“جب وہ چلی گئی تو انھوں نے مجھ
سے کہا: ”میں اپنے ملک سجستان سے صرف حصول علم کی نیت سے نکلا ہوں،اب اگر
میں اس سفر میں شادی بیاہ کے جھمیلے میں پڑوں تو پھر میں ”طالب علم“ کہاں
رہو گا؟ اللہ نے طلب علم پر جو اجر وثواب رکھا ہے اس پر میں کسی بھی چیز کو
ترجیح نہیں دینا چاہتا۔(صبر واستقامت کے پیکر،ص:۴۴)
(۵)حافظ ابن مندہ اپنے وطن عزیز سے بیس سال کی عمر میں طلب علم کے لیے نکلے
اور مسلسل ۴۵/ سال تک سفر کرتے رہے، اور علم حاصل کرتے رہے ،۶۵/ سال کی عمر
میں اپنے وطن واپس ہوئے، جب گھر سے نکلے تو چہرہ پر ایک بال نہ تھا، اور جب
لوٹے تو داڑھی کے بال سفید ہو چکے تھے، مگر اتنے عرصے میں کتنا علم حاصل
کیا ، تو جعفر مستغفری فرماتے ہیں کہ میں نے حافظ ابو عبد محمد بن اسحق ابن
مندہ سے، ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ نے کتنا علم حاصل کیا ، تو کہا پانچ ہزار
من وزن کے برابر، اللہ اکبر۔(تذکرہ الحفاظ)۔
امام شعبی عامر بن شراحیل کوفی ہمدانی بڑے پائے کے محدث گذرے ہیں ان سے کسی
نے پوچھا کہ آپ کو اتنا علم کیسے حاصل ہوا،تو فرمایا چار باتوں کے التزام
کی وجہ سے(۱) کبھی کسی کتاب یا کاپی کے بھروسہ پر نہ رہا یعنی جو سنا سب
یاد کرلیا۔ (۲) طلب علم کے لئے دربہ در سفر کرتا رہا۔ (۳) جمادات کی طرح
صبر کرتا رہا یعنی جمادات کو پانی دو یا نہ دو کھاد دو یا نہ دو خاموش رہتا
ہے، میں بھی بھوک اور پیاس پر صبر کرتا رہا،(۴) کوّے کی مانند صبح سویرے
اٹھتا رہا یعنی بہت کم سوتا رہا تب جاکر اتنا علم حاصل ہوا۔(تذکرة الحفاظ)
(۳)بلند ہمتی
میرے عزیز طالب علم ساتھیوں: یہ تھا ہمارے اسلاف کا بے مثال مجاہدہ معلوم
ہوا علم دین کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد اور محنت اور بلند ہمتی ضروری ہے،
علامہ زرنوجی فرماتے ہیں کہ اگر” محنت خوب“ ہو اور ”بلند ہمتی “نہ ہو تو
بھی علم زیادہ حاصل نہیں ہوتا، اور” ہمت“ تو ہو مگر”محنت“ نہ ہو تو بھی علم
حاصل نہیں ہوتا، آج ہمارے طلبہ میں یہ ہی بیماری کسی میں ”محنت“ کا جذبہ
نہیں اور اگر” محنت“ کا جذبہ ہے تو” بلند ہمتی“ نہیں، یعنی کسی بھی کتاب کو
جب کچھ محنت کے بعد سمجھ میں نہ آئے تو مشکل سمجھ کر نا امید ہو جاتے ہیں،
یہ بہت بڑی غلطی ہے، جیسا کہ ابھی آپ نے ہمارے اسلاف کی محنت اورجدوجہد پر
چند حیرت کن حالات پڑھے، ان کی بلند ہمت کے بھی دو تین نمونے پیش خدمت ہیں۔
امام ابن القیم فرماتے ہیں: کہ مجھے تعجب ہے طلبہ پر اس لیے کہ وہ دیکھتے
ہیں کہ ہر قیمتی چیز کو حاصل کرنے کے لیے بلند ہمتی وجدوجہد در کار ہوتی ہے
،مگر علم کے بارے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے ہی حاصل ہو جائے، تو یہ کیسے
ممکن ہے جبکہ علم دین تو دنیا کی چیزوں میں سب سے زیادہ قیمتی ہے، تو ذرا
غور کیجئے اس کے لیے کتنی ہمت اور محنت درکار ہوگی، مسلسل محنت مسلسل تکرار
راحتوں اور لذتوں کو چھوڑنے سے علم حاصل ہوتا ہے۔
ایک فقیہ فرماتے ہیں: میں ایک مدت تک ہریسہ(عربوں کاایک لذیذ کھانا) کھانے
کی تمنا کرتا رہا مگر کبھی نہ کھا سکا، اس لیے کہ ہریسہ اس وقت بازار میں
فروخت ہوتا تھا، جب درس کا وقت ہوتا تھا، میں نے کبھی بھی درس چھوڑنے کو
پسند نہیں کیا۔
ابن کثیر فرماتے ہیں جسم کی راحت کے ساتھ علم حاصل ہوہی نہیں سکتا۔
امام مزنی فرماتے ہیں کہ کسی نے امام شافعی سے دریافت کیا ، آپ کے حصول علم
خواہش کیسی ہے؟ تو فرمایا جب میں کوئی نیا علمی نقطہ یا نئی علمی بات سنتا
ہوں تو مجھے اتنی خوشی ہوتی اور لذت ہوتی ہے کہ میرے خواہش ہوتی ہے کہ میرے
بدن کے ہر عضو کو قوة سماعت ہو اور وہ بھی لذت محسوس کرے۔
پھر کسی نے پوچھا آپ علم پر کتنی حرص رکھتے ہیں جس قدر ایک مال و دولت کو
جمع کرنے والا مال کو حاصل کرنے کے کی حرص رکھتا ہے۔
پھر پوچھا کہ آپ کے علم کی طلب کی کیفیت کیا ہے تو کہا جیسے اس ماں کی جو
اپنے گمشدہ بچے کی تلاش میں ہوتی ہے اور اسے اس کے علاوہ کسی چیز کی پرواہ
نہیں ہوتی۔
امام ثعلبہ فرماتے ہیں کہ میں علم کے خاطر ابراہیم حربی کے پاس پچاس سال
مسلسل قیام کیے رہا۔
امام النحوخلیل فراہیدی فرماتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ شاق وہ وقت لگتا ہے
جب میں کھا رہا ہوتا ہوں کیوں کہ اس وقت کوئی علمی فائدہ نہیں ہوتا۔
عمار ابن رجا فرماتے ہیں کہ تیس سال تک میں اپنے ہاتھ سے کھانا نہ کھا سکا
میں حدیث لکھتا تھا اور میری بہن میرے منہ میں لقمے دیتی تھی۔
بقی ابن مخلد کا حیرت انگیز واقعہ:
یہ واقعہ ایک ایسے علم کے شیدائی کا ہے جس نے مغرب بعید سے مشرق تک کئی
ہزار میل کا پیدل سفر محض اس لئے طے کیا کہ وہاں کے مسلمانوں کے ایک زبردست
امام اور عالم جلیل کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے دامن کو ”علم حدیث“ کی
دولت سے بھرے لیکن جب وہ علم کا جویا وہاں پہونچا تو معلوم ہوا کہ جس کی
خاطر اس نے یہ طویل وعریض سفر پیدل چل کر کیا ہے، وہ ایک سخت آزمائش میں
مبتلاء ہے، اور درس وتدریس اور لوگوں سے ملنے جلنے پر حکومت کی جانب سے کڑی
پابندی عائد ہے، مگر وہ بھی علم کا متولا اور طالب حقیقی تھا، اس نے حصول
علم کے لئے ایک ایسی راہ اختیار کی جس کا تصور بھی ہر کس وناکس کے لیے مشکل
۔
بقی بن مخلد کا پیادہ پا سفر بغداد:
علمی دنیا کی قابل قدر تصنیف ”منہج احمد فی تراجم اصحاب امام احمد“ میں
امام بقی بن مخلد اندلسی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ”حافظ حدیث ابو
عبد الرحمن بقی بن مخلد اندلسی،۲۰۱ ھ میں پیدا ہوئے، آپ نے اندلس سے بغداد
تک سفر پیدل چل کر طے کیا ،مقصد امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه کی خدمت
میں حاضر ہوکر علم حدیث حاصل کرنا تھا۔
وحشت ناک خبر:
خود موصوف سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”جب میں بغداد
کے قریب پہونچا اس آزمائش اور امتحان کی خبر ملی جس سے ان دنوں امام احمد
بن حنبل دو چار تھے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ان ملنے اور حدیث سننے کی سرکاری
طورپر پابندی ہے، یہ سننا تھا کہ رنج وملاں کا پہاڑ میرے اوپر ٹوٹ پڑا، میں
وہیں رک گیا، اور سامان ایک سرائے کے کمرے میں رکھ کر بغداد کی عظیم الشان
جامع مسجد پہونچا، میں چاہتا تھا کہ لوگوں کے پاس جاکر دیکھوں کہ وہ آپس
میں امام موصوف کے بارے میں کیا کیا تبصرے کر رہے ہیں؟ اور ان میں کیا کیا
چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں؟؟۔
ایک مہذب حلقہ:
اتفاق سے وہاں بہت ہی عمدہ اور مہذب حلقہ لگا ہوا تھا، اور ایک شخص راویان
حدیث کے حالات بیان کررہا تھا، وہ بعض کو ضعیف اور بعض کو قوی قرار دیتا،
میں نے اپنے پاس والے آدمی سے پوچھا: یہ کون صاحب ہیں؟ اس نے کہا: یحی بن
معین! مجھے آپ کے قریب تھوڑی سی خالی جگہ نظر آئی، میں وہاں جاکر کھڑا ہو
گیا اور عرض کیا: شیخ ابوزکریا! میں ایک پردیسی آدمی ہوں جس کا وطن یہاں سے
بہت دور ہے، میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں، آپ میری خستہ حالی کی بنا پر
مجھے جواب سے محروم نہ فرمائیں انہوں نے کہا: پوچھو کیا پوچھنا ہے؟
چند سوالات:
میں نے چند ایسے محدثین کے بارے میں دریافت کیا جن سے میری ملاقات ہو چکی
تھی، انہوں نے بعض کو صحیح اور بعض کو مجروح بتایا، آخر میں ہشام بن عمار
کے متعلق پوچھا موصوف کے پاس میری حاضری بار ہا ہوئی ہے، اور ان سے حدیث کا
ایک بڑا حصہ حاصل کیا ہے، آپ نے موصوف کا نام سن کر فرمایا: ابوالولید ہشام
بن عمار، دمشق کے رہنے والے، بہت بڑے نمازی، ثقہ بلکہ اس سے بڑھ کر ہیں۔
میرا اتنا پوچھنا تھا کہ حلقہ والے چیخ پڑے ”جناب بس کیجئے دوسروں کو بھی
پوچھنا ہے“ میں نے کھڑے کھڑے عرض کیا ”میں آپ سے احمد بن حنبل کے بارے میں
پوچھنا چاہتا ہوں ”یہ سن کر یحی بن معین نے بڑے حیرت سے مجھے دیکھا اور
کہا: ہم جیسے احمد ابن حنبل کے بارے میں تنقید کریں گے؟ وہ مسلمانوں کے
امام، ان کے مسلمہ عالم اور صاحب فضل وکمال، نیز ان میں سب سے بہتر شخص
ہیں“۔
امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه کے مکان پر:
اس کے بعد میں و ہاں سے چلا آیا، اور پوچھتے پوچھتے امام احمد بن حنبل کے
مکان پر پہونچ گیا، میں نے دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹائی، آپ تشریف لائے اور
دروازہ کھول دیا، انہوں نے مجھ پر نظر ڈالی، ظاہر ہے میں ان کیلئے ایک
اجنبی تھا، اس لئے میں نے کہا:حضرت والا! میں ایک پردیسی آدمی ہوں، اس شہر
میں پہلی بار آنا ہوا ہے طالب حدیث ہوں،اور یہ سفر محض آپ کی خدمت میں
حاضری کی وجہ سے ہوا ہے!! انہوں نے فرمایا:”اندر آجاوٴ، کہیں تمہیں کوئی
دیکھ نہ لے“۔
سوال وجواب:
جب میں اندر آگیا تو انہوں نے پوچھا : تم کہاں کے رہنے والے ہوں؟ میں نے
کہا مغرب بعید!! انہوں نے کہا: افریقہ؟ میں نے کہا: اس سے بھی دور ہمیں
اپنے ملک سے افریقہ تک جانے کے لیے سمندر پار کرنا پڑتا ہے میں اندلس کا
رہنے والا ہوں!! انہوں نے کہا: واقعی تمہارا وطن بہت دور ہے، تمہارے جیسے
شخص کے مقصد کو پورا کرنا اور اس پر ہر ممکن تعاون کرنا مجھے سب سے زیادہ
محبوب ہے، لیکن کیا کروں، اس وقت آزمائش میں گرفتار ہوں، شاید تمہیں اس کے
بارے میں معلوم ہوگیا ہو!! اس نے کہا جی ہاں، مجھے اس واقعہ کی اطلاع راستہ
میں شہر کے قریب پہونچنے پر ہوئی۔
میں بھکاری بن کر آجایا کروں گا!:
میں نے عرض کیا: ابو عبد اللہ! میں پہلی بار اس شہر میں آیا ہوں، مجھے یہاں
کوئی نہیں جانتا، اگر آپ اجازت دیں تو میں روزانہ آپ کے پاس فقیر کے بھیس
میں آجایا کروں گا، اور دروازے پر ویسی ہی صدا لگا یا کروں گا جیسی وہ
لگاتے ہیں، آپ یہاں تشریف لے آیا کریں، اگر آپ نے روزانہ ایک حدیث بھی سنا
دی تو وہ میرے لیے کافی ہے، آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ تم
لوگوں کے پاس آمد ورفت نہیں رکھو گے، اور نہ محدثین کے حلقوں میں جاوٴگے،
میں نے کہا: آپ کی شرط منظور ہے۔
میرا معمول:
الغرض میں روزانہ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیتا، سر پر بھیکاریوں کا سا کپڑا
باندھتا، اور کاغذ دوات، آستین کے ا ندر رکھ کر آپ کے دروازے پر جاکر صدا
دیتا ”خدا بہت سادے بابا!!! وہاں مانگنے کے یہی دستور تھا آپ تشریف لاتے
اور جب میں اندر ہو جاتا دروازہ بند کر کے کبھی دو،کبھی تین یا اس سے زیادہ
حدیثیں بیان فرماتے۔ (صبر و استقامت کے پیکر،ص:۱۸۱تا۱۸۵)
طلبہ عزیز! ذار دیکھو تو سہی بقی ابن مخلد کی بلند حوصلگی اورعلو ہمت کو،
کہ ہزاروں میل کا پیادہ سفر کیا اور بھیکاری کے بھیس میں ۱۳/سال تک حدیث
حاصل کی اسی بلند ہمتی نے انہیں ہمیشہ ہمیش کے لیے ذکر خیر سے یاد کرنے کے
لیے بعد والوں کو مجبور کردیا ہے، اللہ تو ہمارے اسلاف کو امت کی جانب سے
بہتر بدلہ اور صلہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا
فرمائے۔
(۴)ادب
مسلسل محنت کے ساتھ بلند ہمتی اور اس کے ساتھ استاذ، کتاب، اور آلات علم کا
ادب، بھی انتھائی ضروری ہے جیسا کہ امام طبرانی نے روایت نقل کی،”وتواضعو
لمن تعلمون منہ“۔
”جس سے علم سکھو اس کے ساتھ ادب اور تواضع سے پیش آوے“۔
حضرت تھانوی فرماتے ہیں جس قدر استاذ سے محبت ہو گی اور جتنااستاذ کا ادب و
احترام ہوگا اسی قدر علم میں برکت ہوگی، یہ عادة اللہ ہے کہ استاذ راضی نہ
ہو تو علم نہیں آسکتا۔ (اصلاح انقلاب امت)
حضرت تھانوی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ استاذ کا ا دب تقوی میں داخل ہے، جو
اس میں کو تاہی کرے گا، وہ متقی نہیں ہو گا، حالاں کہ تقوی کی زیادتی علم
میں زیادتی کاسبب ہے۔ (التبلیغ)
اساتذہ کرام کے آداب:
طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ اپنے استاذوں کا غایت احترام کرے، مغیرہ کہتے
ہیں کہ ہم استاذ سے ایسا ڈرتے تھے جیسے لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں، حدیث
پاک میں بھی یہ حکم ہے کہ جن سے علم حاصل کرو ان سے تواضع سے پیش آوٴ۔
(۲) اپنے شیخ کوسب سے فائق سمجھے، حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا مقولہ
ہے کہ جو اپنے استاذ کا حق نہیں سمجھتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
(۳) استاذ کی رضاء کا ہر وقت خیال رکھے، اس کی ناراضگی سے پرہیز کرے، اتنی
دیر اس کے پاس بیٹھے بھی نہیں، جس سے اس کو گراں ہو۔
(۴) استاذ سے اپنے مشاغل میں اور جو پڑھنا ہے اس کے بارے میں خاص طور سے
مشورہ کرتا رہے۔
(۵) اس سے نہایت احترازکرنا چاہئے کہ شرم اور کبر کی وجہ سے اپنے ہم عمر یا
اپنے سے عمر میں چھوٹے سے علم حاصل کرنے میں پس وپیش کرے، حضرت اصمعی کہتے
ہیں کہ جو علم حاصل کرنے کی ذلت نہیں برداشت کرے گا وہ عمر بھر جہل کی ذلت
برداشت کرے گا۔
(۶) یہ بھی ضروری ہے کہ استاذ کی ستخی کا تحمل برداشت کرے(یہ نہایت اختصار
سے مقدمہ ”اوجز المسالک“ سے چند اصول نقل کیے گیے ہیں)۔
(۷) اور یہ تو نہایت مشہور مقولہ اور نہایت مجرب ہے کہ استاذ کی بے حرمتی
سے علم کی برکات سے ہمشہ محروم رہتا ہےالخ۔(آپ بیتی:۲/۴۶)
(۸)اور عادت اللہ ہمیشہ یہی رہی ہے کہ اساتذہ کا احترام نہ کرنے والا کبھی
بھی علم سے منتفع نہیں ہو سکتا، جہاں کہیں ائمہ فن طالب علم کے اصول لکھتے
ہیں اس چیز کو نہایت اہتمام سے ذکر فرماتے ہیں، اور محدثین نے تو مستقل طور
پر آداب طالب کا باب ذکر کیا ہے جو ”اوجز المسالک“ کے مقدمہ میں مفصل مذکور
ہے اس میں اس چیز کو خاص طور سے ذکر کیا ہے۔امام غزالی رحمہ اللہ نے بھی
”احیاء العلوم“ میں اس پرمفصل بحث فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ طالب علم کے
لئے ضروری ہے کہ استاذ کے ہاتھ میں کلیتہ اپنی باگ دے دیں، اور بالکل اسی
طرح انقیاد کرے جیسا کہ بیمار مشفق طبیب کے سامنے ہوتاہے، حضرت علی رضی
اللہ عنہ کا ارشاد کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑہادیا میں اس کا غلام ہوں
چاہئے وہ مجھے فروخت کردے یا غلام بنادے۔(ص:۶۰)
(۹) میرا تو تجربہ یہاں تک ہے کہ انگریزی طلبہ میں بھی جو لوگ طالب علمی
میں اساتذہ کی مار کھاتے ہیں وہ کافی ترقیاں حاصل کرتے ہیں، اونچے اونچے
عہدوں پر پہنچتے ہیں، جس کی غرض سے وہ علم حاصل کیا تھا وہ نفع پورے طور پر
حاصل ہوتا ہے ،اور جو اس زمانہ میں استاذوں کے ساتھ نخوت وتکبر سے رہتے
ہیں، وہ بعد میں ڈگریاں لئے ہوئے سفارشیں کراتے ہیں ، کہیں اگر ملازمت مل
بھی جاتی ہے تو آئے دن اس پر آفات ہی رہتی ہیں، بہرحال جو علم ہو ا س کا
کمال اس وقت تک ہو تا ہی نہیں اور اس کانفع حاصل ہی نہیں ہوتا جب تک کہ اس
فن کے اساتذہ کا ادب نہ کرے، چہ جائے کہ ان سے مخالفت کرے۔(ص:۶۱)
(۱۰) کتاب ”ادب الدنیا و الدین“ میں لکھا ہے کہ طالب علم کے لیے استاذ کی
خوشامد اور اس کے سامنے تذلل(ذلیل بننا)ضروری ہے، اگر ان دونوں چیزوں کو
اختیار کرے گا تو نفع کمائے گا اور دونوں کو چھوڑدے گا تو محروم رہے گا۔
ارشاد فرمایا: ”قوت حافظہ کے جہاں اور بہت سے اسباب ہیں، ان میں اہم سبب
اپنے اساتذہ کے لیے دعا کرنا بھی ہے جتنا بھی اس کا اہتمام کیا جائے گا قوت
حافظہ میں اسی قدر اضافہ ہوتا رہے گا۔(ص:۶۶)
دارالعلوم کے ایک فاضل مہمان نے زیادہ حافظہ کے وظیفہ کی درخواست کی تو
ارشاد فرمایا:
”آپ حضرات کو جو اپنی مادرعلمی اور اساتذہ سے گہرا ربط اور تعلق ہے یہ بھی
قوت حافظہ کے اسباب سے ایک ہے، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جو تبحر
علمی اللہ پاک نے عنایت فرمایا تھا اس کے یقینا بہت سے وجوہ ہونگے، ان میں
ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے تمام زندگی اپنے استاذ کے گھر کی طرف
پاوٴں نہیں پھیلائے ،اور نہ ادہر پاوٴں کرکے سوئے، آج جو شیخ مدنی رحمہ
اللہ کا جگہ جگہ ذکر خیر ہے اور ان کے علوم و فیوضات کا سلسلہ روز افزوں ہے
اور اب جو ایک صاحب نے بتایا ہے کہ گوجرا نوالہ میں ”الجمعیة شیخ الاسلام
نمبر“ دو بارہ شائع کیا جارہا ہے اس کی وجہ وہی ہے کہ شیخ مدنی رحمہ اللہ
نے اپنے استاذ شیخ الہند رحمہ اللہ کی خدمت کی، مالٹا جیل میں گئے اور ساتھ
رہے اور کسی ممکن خدمت سے دریغ نہیں کیا۔ (ص:۸۱)
ارشاد فرمایا: ”جب تحصیل علم کے تین آداب کو ملحوظ رکھا جائے تب صلاحیت
نکھر تی، استعداد جلا پاتی، اور علمی وروحانی ترقیاں حاصل ہوتی
ہیں۔(۱)استاذ کا ادب(۲)مسجد اور درس گاہ کا ادب(۳)کتاب کا ادب“۔(ص:۱۴۱)
ارشاد فرمایا: ا دب قلبی کیفیت اور باطنی محبت کا مظہر ہوتا ہے اس لیے تحصل
علم کے دوران طالب علم کو چاہئے کہ اپنے استاذ کی محبت کو دل کی اتھاہ
گہرائیوں میں جگہ دے، ا ور اس کا دل وجان سے عاشق بن جائے، یا اعمال ا ور
خلوص ومحبت کا ایسا مظاہرہ کرے کے استاذ کے دل میں جگہ پالے اور استاذ کا
محبوب بن جائے۔
مگر پہلی صورت کہ اپنے استاذ سے عشق ومحبت اور وارفتگی میں دیوانگی وجنون
کی حد تک پہنچ جائے، دوسری صورت کی نسبت بے حد نافع اور مفید ہے، ایسے طلبہ
علم بھی حاصل کرلیتے ہیں اور ان کا فیض بھی زیادہ پھیلتا ہے۔
ارشاد فرمایا کہ: ”والدین کی خدمت سے عمر میں برکت ہوتی ہے اور اساتذہ کی
خدمت سے علم میں برکت ہوتی ہے، مقصد یہ ہے کہ ان خدمات کے یہ خاصیتی اثرات
ہیں جوان پر مرتب ہوتے ہیں،چینی کی اپنی لذت ہے،گڑ کا اپنا ذائقہ ہے،
مٹھائی کی اپنی چاشنی ہے جو چیز کھائی جائے گی اس کی ذاتی خاصیت کی بناء پر
اس کے اثرات وثمرات اور نتائج مرتب ہونگے، تو والدین کی خدمت سے زیادہ عمر
اور اساتذہ کی خدمت سے زیادہ علم اور خدمت علم کے اثرات اور نتائج مرتب
ہوتے ہیں۔(ص:۲۵۹)
استاذ کی روک ٹوک اگر پڑھنے میں ہوتو اس کو برا نہ سمجھے اور نہ چہرے پر
شکن پڑے نہ ملال ظاہر کرے، اس لیے کہ اس سے استاذ کے دل میں انقباض پیدا
ہوجائے گا، اور دروازہ نفع کا بند ہوجائے گا، کیونکہ یہ موقوف ہے انشراح دل
اور مناسبت پر،اور صورت مذکورہ میں دونوں باتیں نہیں ہیں، بہت بڑا فائدہ
اور جلد منفعت کی کنجی یہ ہے کہ جس سے نفع حاصل کرنا ہو خواہ خالق سے یا
مخلوق سے، اس کے سامنے اپنے کو مٹادے اور فنا کردے، اپنی رائے وتدبیر کو
بالکل دخل نہ دے، پھر دیکھئے کیسا نفع حاصل ہوتاہے، اور یہ بڑا کمال ہے۔
تو درو گم شو وصال این ست وبس
تو مباش اصلا کمال این ست وبس
اگر کسی مسئلہ میں استاذ کی تقریر ذہن میں نہ بیٹھے، تو کچھ دیر تک استفادہ
کی لہجہ میں خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی تقریر کرے ، اگر پھر بھی سمجھ میں نہ
آوے تو خاموش ہو جائے، اور دل میں یہ رکھ لے کہ اس کی تحقیق کروں گا،بعد
میں کتابوں سے اور علماء سے تحقیق کرے ، اور اگر اپنی رائے صحیح ہو اور
استاذ حق پسند ہو تو اس کتاب اوربڑے عالم کی تحقیق کو ان کے سامنے پیش
کردے، اگر استاذ کی تقریرصحیح ہو تو معذرت کر دے کہ آپ صحیح فرتے تھے میں
غلطی پر تھا ۔
استاذ کے مقابلہ میں مکا برہ، مناظرہ، مجادلہ کی صورت ہر گز نہ بنائے، یعنی
آنکھیں نہ چڑھیں، گفتگو میں تیزی نہ ہو پیشانی پر بل نہ ہو، بڑوں کے مقابلہ
میں یہ بے ادبی ہے۔ (ص: ۴۸-۴۸)
طالب علم سے اگر استاذ کی بے ادبی یا نافرمانی یا ایذاء رسانی ہو جائے تو
فوراً نہایت نیاز وعجز سے معافی چاہے اور الفاظ معافی کے ساتھ اعضاء سے بھی
عاجزی وانکساری وندامت ٹپکے، یہ نہیں کہ لٹھ ما ر دیا کہ ، اجی معاف کردو۔
اگر دل میں ندامت ہو گی تو اعضاء سے بھی ندامت ٹپکے گی، اگر یہ بھی نہ ہوتو
بناوٹ ہی کردے، اصل نہیں تو نقل ہی سھی، مگر تاخیر نہ کرے، کیونکہ اگر
استاذ دنیا دار ہوگا تو تاخیر کرنے سے اس کی کدورت بڑھ جائے گی اور تمہارا
نقصان ہوگا، اور اگر دیند ارہو گا تو گو وہ کدورت وغیرہ خرافات کو اپنے دل
میں جگہ نہ دے گا، کیوں کہ اس کا مشرب یہ ہوتا ہے۔
آئین ماست سینہ چو آئینہ داشتن بہ نشین در دل ویرانہ ام اے گنج مراد
کفرست در طریقت ما کینہ د اشتن کہ من ایں خانہ ویراں کردم
مگر رنج طبعی ہوگا اور یہ بھی طالب علم کے لیے مضر ہو گا کیونکہ اس حالت
میں انشراح قلب نہ رہے گا اور بغیر اشراح قلب نفع نہ ہوگا ،اور تاخیر کرنے
میں یہ بھی خرابی ہے کہ جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی حجاب بڑھتا جائے گا۔
(ص:۵۱۔ ۵۲)
حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(۱) علمی استعداد سات چیزوں پر موقوف ہے: (۱) ذہن (۲) حافظہ (۳) محنت
(۴)آلات علم یعنی کتاب، کاغذ، قلم اور تپائی وغیرہ کا ادب (۵) استاذ کا ادب
(۶) دعاء (۷) ترک منکرات۔
ان میں سب سے زیادہ اہم چیز ترک منکرات ہے ، اس لیے کہ علم دین اللہ تعالیٰ
کی طرف سے خاص عنایت اور اس کی بہت بڑی نعمت ہے ، وہ اتنی بڑی دولت صرف اسی
کو عطا فرماتے ہیں جو اس کی ہر نا فرمانی کو چھوڑ کر اس سے محبت کا ثبوت
پیش کرے ۔( جواہر الرشید،:۱ /۱۱۲)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه کا ادب واحترام:
حضرت والا کو اپنے اساتذہ سے اتنا شدید تعلق تھا کہ دوسرے کو نہ تھا، بس
یوں کہا جائے کہ عشق تھا ، چناں چہ فرمایا کرتے ہیں کہ میں نے پڑھنے میں
کبھی محنت نہیں کی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا اساتذہ اور بزرگوں کے
ساتھ ادب ومحبت کا تعلق رکھنے کی بدولت عطا فرمایا، اور الحمد اللہ! میں
کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے کسی بزرگ کو ایک منٹ کے لیے بھی ناراض نہیں
کیا اور جتنا میرے قلب میں بزرگان دین کا ادب ہے آج شاید ہی کسی کے دل میں
اتنا ہو۔
شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمہ اللہ:
حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں متعد د حضرات
نے بیان کیا کہ کوئی بات دریافت کرنی ہو تی یا کتاب کا مضمون سمجھنا ہوتا
تو اپنے استاذ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے مکان کے دروازہ پر
جا کر بیٹھ جاتے ،جب حضرت گھر سے باہر نکلتے اس وقت دریافت کرتے اور یہ
تقریباً روزانہ ہی کا معمول تھا۔(آداب المتعلمین: ص ۲۷)
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی صاحب رحمہ اللہ
مولانا گیلانی اپنے اساتذہ کا بڑا احترام فرماتے تھے ،اور سخت سے سخت وقت
پر بھی ان کے حکم سے سرتابی کی جرأت نہیں کرتے ،اور نہ بہانے تلاش کرتے تھے
بلکہ فوراً تعمیل حکم کے لیے حاضر ہو جاتے۔
۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوا، اور اس کے صدقہ میں ایک نئی مسلم مملکت
وجود میں آئی جو پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی، شیخ الاسلام حضرت مولانا
شبیر احمدعثمانی رحمہ اللہ نے چاہا کہ یہاں اسلامی دستور نافد ہو، اس
اسلامی دستور کو مرتب کر نے کے لیے بہت سے علماء کو مولانا عثمانی نے کراچی
میں جمع کرنے کی سعی فرمائی، ان میں حضرت مولانا گیلانی رحمہ اللہ کا بھی
نام تھا، اس وقت حالات ساز گار نہ تھے، مگر استاذ محترم کے حکم کے خلاف کسی
بہانہ کی جرأت نہیں فرمائی بلکہ فوراً تشریف لے گئے۔
مولانا نے خوداپنے ایک خط میں جو علامہ سید سلیمان ندوی رحمة الله عليه کے
نام ہے لکھتے ہیں:
” آپ کے اراد ہ عدم شرکت سے مطلع ہونے کے بعد خاکسار نے بھی قطعی فیصلہ
کراچی نہ جانے کا کر لیا تھا، لیکن مولانا عثمانی کی طرف سے تار اور خطوط
کے تسلسل نے فسخ عزم کو انسب خیال کیا ان سے تلمذ کی نسبت رکھتے ہوئے دل نے
آگے بڑھنے کی اجازت نہ دی ۔ (حیات گیلانی ،ص: ۲۹۴)
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ کا واقعہ
(۱) دنیا کا تجربہ اس بات پر شاہد عدل ہے کہ محض کتابوں کے پڑھ لینے سے کسی
کو علم کے حقیقی ثمرات اورکمالات حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے ”پیش مرد
کا ملے پامال شو“ پر عمل پیرا ہو نا پڑتا ہے، نیز استاذ کا ادب واحترام ہمہ
وقت ملحوظ رکھنا پڑتا ہے ، بے ادبی فیوضات کے حصول کی راہ میں سنگ گراں بن
جاتی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی دل میں اساتذہ کا ادب واحترام اور
خدمت کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھا ،اور ان کی خدمت باعث صد افتخار
سمجھتے تھے، اگر چہ ان کے ہم سبق طلبہ اس سعادت کو بنظر حقارت دیکھتے تھے ،
جیسا کہ حضرت الشیخ رحمہ اللہ خود بیان فرماتے ہیں:
”میں خود دیوبند میں تھا تو زمانہ طالب علمی میں حضرت شیخ مدنی رحمہ اللہ
کے ہاں بعض اوقات ان کی خدمت کے لیے جایا کرتا اور پاوٴں دباتا، اور بعض
ساتھی ہنستے کہ یہ چاپلوسی کرتا ہے، مگر یہ ان بزرگوں کی توجہ کا نتیجہ ہے
کہ مجھ نالائق انسان سے بھی اللہ تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ دین کا کام لیااور
مزید توفیق دے رہے ہیں، ان میں سے کئی اور ساتھی ہیں جو اس راستہ کو چھوڑ
چکے ہیں تو علم سارا ادب ہی ادب ہے، دین کا ادب، اساتذہ کا ادب اور علم کا
ادب ۔“ (ماہنامہ”الحق“ حصرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحق نمبر : ص ۳۳۴)
آلات علم کاغذ، قلم، روشنائی کا ادب اور مجدد الف ثانی رحمة الله عليه کا
حال:
حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ ایک روز بیت الخلاء میں تشریف لے کئے،
اندر جاکر نظر پڑی کہ انگوٹھے کے ناخن پر ایک نقطہ روشنائی کا لگا ہو ا ہے
جو عموماً لکھتے وقت قلم کی روانی دیکھنے کے لئے لگایا جاتا ہے، فوراً
گھبرا کر باہر آگئے اور دھونے کے بعد تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ان نقطہ
کو علم کے ساتھ ایک تلبس ونسبت ہے۔ اس لئے بے ادبی معلوم ہوئی کہ اس کو بیت
الخلاء میں پنچاوٴں یہ تھا ان حضرات کا ادب جس کی برکت سے حق تعالی نے ان
کو درجات عالیہ عطاء فرمائے تھے آج کل تو اخبارو رسائل کی فراوانی ہے ان
میں قرآنی آیات، احادیث اور اسماء الہیہ ہونے کے باوجود گلی کوچوں، غلاظتوں
کی جگہوں میں بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔العیاذ باللہ العظیم، معلوم ہوتاہے کہ
اس وقت کی دنیا جن عالمگیر پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے اس میں اس بے ادبی
کا بھی بڑا دخل ہے۔(مجالس حکیم الامت:ص۲۸۱،۲۸۲)
حروف کلمات کا ادب:
ایک چمڑہ کا بیگ تھا، کسی مخلص خادم نے بنوایا تھا اور چمڑہ میں
لفظ(محمداشرف علی) کندہ کرادیا تھا، اس کا حضرت (تھانوی) اتنا ادب کرتے تھے
کہ حتی الامکان نیچے اور جگہ بے جگہ نہ رکھتے تھے۔ (حسن العزیز:۴/۳۲)
کتابوں کا ادب:
آج کل طبیعتوں میں ادب بالکل نہیں رہا، مولانا احمد علی سہارن پوری رحمة
الله عليه نے لکھا ہے کہ یہ جو بعض طلبہ بائیں ہاتھ میں دینی کتابیں
اوردائیں ہاتھ میں جوتے لے کر چلتے ہیں بہت مذموم ہے کیوں کہ خلاف ادب ہے
اور صورةً جوتوں کو فوقیت دینا ہے، کتب دینیہ پر۔ (الافاضات الیومیہ:۹/۳۲۴)
روشنائی کا ادب:
ایک لفافہ پر روشنائی گرگئی تھی تو اس پر یہ لکھ دیا کہ ”بلا قصد روشنائی
گرگئی“ اور وجہ بیان فرمائی کہ یہ اس لیے لکھ دیا کہ قلت اعتناء پر محمول
نہ کریں، جس کا سبب قلت احترام ہوتا ہے۔(الفصل للوصل:۱۹۷)
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز
ہوتی ہے
اگر آپ دنیا و آخرت میں عزت اور رضاء الٰہی کے طالب ہیں، تو اپنے اندر یہ
صفات پیدا کیجیے۔
(۱) اخلاص (۲)لغو اور بیکار امور سے اجتناب (۳)علم پر عمل (۴)اخلاق حسنہ کو
زندگی کا لازمی جز بنائیں (۵)تواضع اور عجز اپنے اندر پیدا کریں۔ (۶)وقت کی
قدر کریں۔ (۷)کھیل کود اور سیروتفریح میں اپنا وقت گذارنے سے اجتناب کریں۔
(۷)بلند ہمت کا مظاہرہ کریں ،اور علم و عمل میں درجہ کمال تک پہنچنے کی حتی
المقدور کوشش کریں۔ (۸)مسلسل رات دن ایک کرکے محنت کریں ۔(۹)مطالعہ کا شوق
پیدا کریں اور خوب دینی کتابوں کا مطالعہ کریں ،اور اپنے آپ کو مطالعہ کا
عادی بنالیں کہ مطالعہ کے بغیر چین نہ آئے۔(۱۰) نمازوں کا اہتمام تکبیر
اولی کے ساتھ کریں، امام ابویوسف سترہ سال امام ابوحنیفہ کے درس میں فجر سے
پہلے حاضر ہوتے تھے ، کبھی تکبیراولیٰ فوت نہیں ہوئی، امام اعمش کی ۷۰ ستر
سال تک تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی ، یہ لوگ ہمارے لیے نمونہ ہے۔(۱۱)غایت
درجہ استاذ ، کتاب ،آلات علم ،اور مسجد کا ادب واحترام کریں، علم نافع کے
آداب میں مسجد کا ادب بھی شامل ہے، مسجد میں باتیں کرنے سے بھی علم سے
محرومی ہوتی ہے۔(۱۲)نظر کی حفاظت کریں نظر بد سے حافظہ اور ذہانت کمزور
ہوتے ہیں۔ (۱۳)گناہوں سے مکمل بچتے رہیں، کیوں کہ علم کا نور گناہوں کی وجہ
سے حاصل نہیں ہوتا۔(۱۴) جھوٹ بولنے سے پرہیز کرے کیوں کہ وہ گناہ کبیرہ
ہے۔(۱۵) سبق میں بلا ناغہ حاضر رہیں، کیوں کہ ایک دین کی غیر حاضری بھی سبق
کی برکتوں کو ختم کردیتی ہے۔(۱۶)دعاوٴں کا ا ہمتام کریں کیوں کہ دعاوٴں سے
راستے کھل جاتے ہیں، خاص طورپر ادعیہ مأثورہ کو یاد کرنے کا اہتمام کریں،
اس لے کہ وہ سریع الاجابہ ہے ۔(۱۷)صبح سویرے جلدی اٹھنے کا اہتمام کریں،
کیوں کہ وہ برکت کا وقت ہے، دو گا نہ پڑھ کر دعاء کریں اور پھر سبق یاد
کریں انشاء اللہ بہت عمدہ اوربہت جلد یاد ہو جائے گا۔(۱۸)بازاروں کے چکر نہ
کاٹے کیوں کہ اس سے انسان پر شیطانی اثرات غالب آتے ہیں، اس لیے کہ بازار
شیاطین کے اڈے ہوتے ہیں۔(۱۹) پڑھنے کے ساتھ اپنے آپ کو لکھنے کا عادی
بنائیں، مضامین اور مقالات اردو اور عربی میں لکھنے کی مشق کریں، تاکہ علم
لوگوں تک پہچایا جاسکے، اور عصر حاضر میں یہ بہت ضروری ہے۔(۲۰) نحو ، صرف،
فقہ ، اصول فقہ، پر ابتدائی درجات کے طلبہ خاص توجہ دے اور فقہ ، حدیث، اور
تفسیرپر منتہی طلبہ توجہ دے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو علم نافع اور عمل صالح کی مکمل سعی پیہم کرنے کی
توفیق عطا فرمائے، اور ہمارے اسلاف کو بہترین صلہ عطا فرمائے، اور ہم سب کے
لیے علم کو نجات کا باعث بنائے ناکہ ہمارے اوپر حجت ۔ آمین یا رب العالمین |