عصر حاضر میں مکالمہ بین المذاہب کی ضرورت واہمیت

پس منظر:

یہ بات پوشیدہ نہیں کہ گلو بلائز یشن (Globalization) کے اس دورمیں بین المذاہب مکالمہ (Dialogue Inter-Faith) کی ضرورت و اہمیت پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے، باہمی مکالمہ ہی وہ واحد آپشن ہے جس سے کسی بھی مذہب کا داعی مخاطب کو اپنی دعوت کی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔باہمی مکالمہ دعوت کا ایک ایسا اسلوب ہے جس کے ذریعے مخاطب کو زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے ساتھ سوچنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ۔

مکالمہ بین المذاہب کی تعریف:

گفتگو کا یہ ایسا طریقہ ہے جس میں متکلم اور سامع کے درمیان براہ راست گفتگو ہوتی ہے اور حقائق پوری طرح نکھر کر سامنے آتے ہیں، اب یا تو مخاطب مدِّ مقابل کےموقف کو قبول کر لیتا ہے یا پھر دلائل کی بنیاد پر رد کردیتا ہے ، یہ مکالمہ افراد کے درمیان بھی ہوسکتا ہے ، تہذیبو ں اور مختلف مذاہب کے درمیان بھی ۔

مکالمہ بین المذاہب قرآن پاک کی روشنی:

قرآن مجید نے ایک داعی کے لئے مکالمے کے جو بنیادی اصول بیان کئے ہیں وہ یہ ہیں:
(ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ)
" آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اپنے پروردگار کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت سے بلایئے اور ان کے ساتھ پسندیدہ طریقہ سے بحث کیجئے"۔
( النحل 125۔16)
اسلام واحد مذہب:

مذاہب عالم میں اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے نہ صرف عالمگیری سطح پر دعوت تبلیغ کا حکم دیا ہے بلکہ دوسری تہذیبوں ، قوموں اور افراد کے ساتھ گفتگو او رمکالمے کے باقاعدہ اصول بھی بیان کیے ہیں ۔

دعوتی و تبلیغی خطوط:

قرآن و حدیث کے مطالعہ سے واضح طور پر امت محمد یہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔ شاہانِ عالم کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی و تبلیغی خطوط جہاں مذاہب اور تہذیبوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکالمہ کی ایک خوبصورت مثال ہیں وہی خطوط اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اسلام اصلاً دینِ دعوت ہے اور اس کی دعوت کا دائرہ کار تمام عالم پر محیط ہے، اس لئے اس کے عالمی پیغام کو دوسروں تک منتقل کرنا مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے۔

عالم گیر دعوت اور اشاعت:

مذاہب ِ عالم میں عملی طور پر صرف عیسائیت اور اسلام ہی تبلیغی مذاہب ہیں ، دیگر تمام مذاہب کا دائرہ کار کسی خاص علاقے یا نسل تک محدود ہے ، جب کہ عیسائیت کی عالم گیر دعوت اور اشاعت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کے منافی ہے کیونکہ ان کی بعثت خاص بنی اسرائیل کی طرف ہوئی تھی ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بیان ہے:
“میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا"۔
( انجیل متّی ،24:15)
بارہ نقیب :

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جب بارہ نقیب مقرر فرمائے اور ان کی مختلف علاقوں کی طرف دعوت و تبلیغ کے لیے روانہ فرمایا تو بطور خاص ان کی تلقین فرمائی :
“غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔"
( انجیل متی، 6:10)

مکالمے کے بنیادی اصولوں کی تعلیم:

الغرض یہ صرف یااسلام ہی ہے جس نے اپنے پیروکاروں کو نہ صرف دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت کا حکم دیا ہے بلکہ دیگر مذاہب او ر تہذیبوں کے ساتھ مکالمے کے بنیادی اصولوں کی تعلیم بھی دی ہے۔
داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نےمختلف اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ جو مکا لمہ فرمایا، سیرتِ طیبہ سے اس کے کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ایک طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کی مشرکانہ تہذیب کے نمائندہ افراد، سردار انِ قریش اور ان کے وفود سے انفرادی اور اجتماعی سطح پرمکالمہ کیا، اور دوسری طرف ورقہ بن نوفل سے لے کر عیسائی علماء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمکالمہ کیا۔ اِسی طرح مدنی دور میں میثاق مدینہ، جس کے بڑے فریق یہودی قبائل تھے، یہود سے مکالمہ ہی کی ایک صورت تھی۔


قوموں کی زبانیں سیکھنے کا حکم دیا:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مکالمہ بین المذاہب کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو دوسری قوموں کی زبانیں سیکھنے کا حکم دیا، کیونکہ دعوت و تبلیغ اور باہمی مکالمہ میں تاثیر اور قوت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب پیغام کی زبان آسان، نرم اور قابل فہم ہو، ایک جیسی زبان سے اُنسیت میں اضافہ ہوتا ہے، اجنبیت دور ہو جاتی ہے اور گفتگو کامقصد آسانی سے سمجھا اور سمجھایا جاسکتا ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (م 44 ھ) کو سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا ، تاکہ یہود سے انہی کی زبان میں گفتگو کی جاسکے اور انہی کی زبان میں ان کے خطوط کا جواب دیا جاسکے۔
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ ایک ایرانی عورت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (م 58 ھ) کی خدمت میں استغاثہ لے کر آئی کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب مجھ سے میرا بیٹا بھی چھینا چاہتا ہے اس عورت نے یہ ساری گفتگو فارسی زبان میں کی اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے اسی زبان میں گفتگو کی اور پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بچہ عورت کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔
ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دوسری قوموں کی زبانیں صرف اس غرض سے سیکھ رکھتی تھی تاکہ ان سے براہِ راست تبادلہ خیال کر کے اس کے مسائل کو حل کیا جاسکے ۔

سفراء کا معجزانہ طور پر قوموں کی زبان میں گفتگوکرنا:

شاہان عالم کی طرف بھیجے جانے والے سفراء کا معجزانہ طور پر انہیں قوموں کی زبان میں گفتگو کرنے لگ جانابھی دعوت و تبلیغ او رمکالمے میں زبان کی یکسانیت کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔

مختلف قوموں کی طرف داعی او رمبلغ بنا کر روانہ کرنا:

اس کے علاوہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف قوموں کی طرف داعی اورمبلغ بنا کر روانہ فرمایا اس میں بھی یہ چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمتِ عملی کا حصہ نظر آتی ہے کہ وہ مبلغ اسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں بصورتِ دیگر وہ اس قوم کی زبان، رسم و رواج اور کلچر سے آگاہ ہوں۔
بہر حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بین المذاہب مکالمے کو اس قدر اہمیت حاصل تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی باقائدہ تربیت فرمائی ۔

اسلام کی ترجیح امن او رمکالمہ :

سیرت طیبہ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ او رامن میں سے کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے کا موقع ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ امن کی ترجیح دی، یہی وجہ ہے کہ صلح حدیبیہ 6 ھ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ پر امن کو ترجیح دی اور ایسی شرائط پر بھی صلح کو قبول کرلیا جن سے بظاہر مسلمانوں کو پسپائی کا واضح تاثر ملتاتھا ، اگر چہ ان شرائط کے قبول کرنے سے مسلمانوں کی دل شکنی ہوئی اور صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس پر احتجاج بھی کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ پر امن کو ترجیح دی ۔
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نور بصیرت سے دیکھ رہے تھے کہ امن کی صورت میں جب اسلامی اور مشرکانہ تہذیب کے درمیان آزادانہ ماحول میں مکالمہ ہوگا تو قریش اور دیگر قبائل کو مسلمانوں کو بہتر طو رپر سمجھنے میں مدد ملے گی اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب مسلمان اور قریش باہم ایک دوسرے سے آزادنہ طور پر ملنے لگے اور انہیں دوسرے کے موقف کو سننے اور سمجھنے کاموقع ملا تو صرف دوسال کے عرصہ یعنی فتح مکہ 8 ھ تک اتنے کثیر لوگ مسلمان ہوئے جتنے پہلے تمام عرصے میں نہیں ہوئے تھے ۔

مکالمے کاایجنڈا مقرر ہونا چاہیے:
پاکستان میں پہلی بین المذاہب کانفرنس کاانعقاد عمل میں لایا گیا۔ اس کے بعد سے یہ سلسلہ مسلسل جاری و ساری ہے۔ یقیناً یہ ساری کوششیں بہت اچھی اور قابل قدر ہیں ، لیکن ا س ساری تگ و دو کےمثبت اور دور رس نتائج اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب ہم بعض باتیں طے کرلیں سب سے پہلی بات تو ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ آج کی عالمی صورت ِ حال میں اس مکالمے کے اصل فریق کون ہیں؟ اور دوسرا، یہ کہ اس مکالمے کاایجنڈا کیا ہے ؟ اس طرح ہمارے لئے یہ ممکن ہوگا کہ ہم علمی حلقوں میں اپنا موقف واضع طور پر پیش کرسکیں۔

مذاہب عالم:

فی الوقت دنیا میں اسلام کے علاوہ عیسائیت، یہودیت، ہندومت، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت وغیرہ ہی کو دنیا کےبڑے اور زندہ مذاہب کی صف میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ وحی، الہام اور خدا پر یقین رکھنے والے زیادہ تر لوگوں کا تعلق انہی مذاہب سے ہے، اپنی غیر فطری اور غیر عقلی تعلیمات کی وجہ سے ان مذاہب کا ماضی میں بھی انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات سے کوئی زیادہ تعلق نہیں رہا ہے، لیکن عقل پرستی (Rationalism ) کے موجودہ دور میں مذہب کا لوگوں کی ذاتی زندگی سے عمل دخل بھی بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہو رہا ہے۔
اس وقت عملی طور پر مسلمانوں کے علاوہ انسانوں کی غالب اکثریت لادین اور سیکولر ہے اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ اسلام کے بعد اس وقت بلاامتیاز رنگ ونسل پوری دنیا میں مغربی سیکولر ازم مقبول ترین مذہب کی حیثیت اختیار کرچکا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ اس وقت جب کہ دنیا کے تمام مذاہب ایک تاریخی یادگار کی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں ، یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ دورِ حاضر میں مغربی فکری و فلسفہ کی بنیاد پر پروان چڑھنے والا سیکولر ازم ہی اسلام کا اصل مدِّ مقابل ہے۔

سیکولر ازم اور اسلام:

حالات کے سرسری جائزے سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس وقت مغرب او ر مسلمانوں کے درمیان جو علمی فکری اور تہذیبی کشمکش جاری ہے اس کے اصل مدِّمقابل وہ لوگ ہیں جو مغرب کے مذہب سے منحرف سیکولر حلقے اور مذہب پر پختہ یقین رکھنے والے مسلمان ہیں، جب کہ عیسائی علما اس مکالمے کےاصل فریق نہیں ہیں کیونکہ مغرب کے عیسائی رہنما جس مذہب کی نمائندگی کرتے ہیں اس کا مغرب کی اجتماعی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اس لئے موجودہ کشمکش میں عیسائی علماء سے مکالمہ کی افادیت محدود ہے۔

عیسائی مذہبی رہنماؤں سے گفتگو کا موضوع:

اس واضح حقیقت کے باوجود ہمیں عیسائیت او ر دیگر مذاہب سے گفتگو او رمکالمے سے انکار نہیں ہے تا ہم روایتی عیسائی حلقے سے ہماری گفتگو اس موضوع پر ہونی چاہیے کہ عیسائی مذہبی رہنما اپنے معاشرے کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپس لانے کے لیے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں ؟ جب کہ وہ اصولی طور پر یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور انسان کی اجتماعی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اس وقت جب کہ پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی بنی نوع انسان کو وحی الہٰی اورمذہب کی طرف واپسی کی کوشش کررہے ہیں، سوال یہ ہے کہ مغرب کے مذہبی حلقے اس حوالے سے مسلمانوں کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟
عیسائی علماء کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ واقعی وحی اور آسمانی تعلیمات کی صداقت پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور انسانی معاشرے پر اس کی علمبردار ی کے خواہش مند ہیں تو انہیں سیکولر حلقے کی تائید کی بجائے وحی اور آسمانی تعلیمات کے معاشرتی کردار کی کوشش کرنی چاہیے ۔

روایتی مذہبی حلقے سے مکالمے کے بنیادی اصول:

بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ کونسل انسانی کی فلاح او ربہتری کے لیے مسیحیت کے ساتھ مکالمہ میں مشترک صفات پر زور دیں ، دینِ ابراہیمی کی مشترک روایت حضرت عیسیٰ علیہ اسلام او رمریم علیہا السلام کااحترام اور ہمارے مشترک سماجی بندھن وغیرہ عیسائیت کے ساتھ مکالمے کی بنیا د بن سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاہانِ عالم کے نام خطوط ہمارے لئے بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
ہر قل اور دیگر عیسائی حکمرانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابذریعہ خطوط جو مکالمہ ہوا اس میں درج ذیل آیت مقدسہ کامکر ر استعمال ہمارے لئے قابل توجہ ہے:

(قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا )
" آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب ایسے قول کی طرف آجاؤ ج وہم میں اور تم میں مشترک ہے وہ یہ کہ ہم اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کریں او رکسی کو اس کاشریک نہ ٹھہرائیں۔"
( آل عمران ،3:64)

مغرب کے تحفظات پر مکالمے کا اسلوب:

جو لوگ خدا، رسول اور آخرت پر اعتقاد رکھتے ہوں ان کے ساتھ مکالمہ نسبتاً آسان ہے، اگر چہ اہل مغرب کااب بھی چرچ کےساتھ کمزور سا تعلق باقی ہے لیکن مغرب کی اکثریت بالخصوص اہل یورپ عیسائیت کی بنیادی تعلیمات سے دست بردار ہوچکے ہیں اس لئے مسلمان مبلغین کو مغرب میں تمام خرابیوں کی ذمہ داری عیسائیت کے سر نہیں ڈال دینی چاہیے ، بلکہ ان کے ساتھ مکالمے میں ان کے موجودہ نظریات ہی کو پیش نظر رکھنا چاہیے ، جیسا کہ میں نے عرض کیا موجودہ علمی اور فکری کشمکش میں اسلام کے ساتھ مکالمے کا اصل فریق اور مدِّ مقابل مغرب کاموجودہ دانشور اور سیکولر طبقہ ہے، لیکن اس کے ساتھ ہمارا مکالمہ اسی وقت مفید ہوسکتا جب ہم مغربی فکر و فلسفہ کے تاریخی ارتقا، پس منظر اور اس کے اصل فکری سر چشموں سے آگاہی رکھتے ہوں اور مغربی افکار کا تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔


بے شمار غلط خدشات:

اہل مغرب میں اسلام کے بارےمیں پائی جانے والی ان بے شمار غلط فہمیوں کو ہم اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تحریک استشراق کے مقاصد ، محرکات او رعالم مغرب پرا س کا اثرات کابھرپور تجزیہ نہ کرلیں، کیونکہ بد قسمتی سے مستشرقین کی مرتب کردہ تاریخ نہ صرف زندہ ہے بلکہ ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت بھی پوری دنیا میں الیکٹرونک او رپرنٹ میڈیا کے ذریعہ اسلام کی جو تصویر کشی کی جارہی ہے اس کا بڑا ماخذ مستشرقین کی وہی تحقیقات ہیں جن کا اسلام کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ۔
مغرب کے ساتھ با ہمی مکالمہ کی صورت میں تیسری بات جس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں قرآن و حدیث سے راہنمائی تو ضرور لینی چاہیے تاہم مغرب کی نفسیات کے مطابق ہمیں سب سے پہلے اسلامی تعلیمات کےعقلی جواز پر بات کرنا ہوگی اور مغرب کے موجودہ سماجی علوم کے ساتھ تقابلی مطالعہ کے بعد اسلامی احکام کی افادیت پر دلائل پیش کرنا ہوں گے اور اسلامی تعلیمات کی سماجی اور معاشرتی اہمیت واضح کرنا ہو گی ۔
بد قسمتی سے اسلامی احکام کے اسرار و حکم پر حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (م 1176 ھ) کی کتاب ‘‘ حجۃ اللہ البالغہ’’ کے بعد کوئی بھی قابلِ قدر کتاب سامنے نہیں آئی ۔

مغرب کےاسلام او رمسلمانوں کے بارےمیں تحفظات:
مغرب ، اسلام او رمسلمانوں کے بارےمیں جو تحفظات رکھتا ہے وہ دو طرح کے ہیں ۔ مغرب کے پہلی قسم کے تحفظات تو وہ ہیں جن کا تعلق اسلامی تاریخ اورنظامِ معاشرت سے ہے۔ اسلامی تعلیمات کا یہ وہ حصہ ہے جس کابراہِ راست ٹکراو مغرب کےموجودہ طرزِ معاشرت سے ہے۔
دوسری قسم کے تحفظات وہ ہیں جن کا تعلق دین کی اساس او ربنیاد ہے۔ مغرب کےساتھ ہمارا مکالمہ اس وقت تک مفید نہیں ہوسکتا جب تک ہم کھلے ذہن او رمکمل تیاری کے ساتھ ان کے تمام تحفظات پر بات کرنے کے لیے تیارنہ ہوں ۔ سب سے پہلے تو ہمیں مغرب سے اس موضوع پر مکالمہ کرنا ہوگا کہ وہ دین اسلام پر ایک نظامِ حیات اور طرز معاشرت کے طور غورکرے۔
انسانی حقوق اور اسلام:

اس وقت مغرب میں مساوات ، آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے بڑی حساسیت پائی جاتی ہے بد قسمتی سے اسلام کے بارے میں یہ غلط تاثر پھیل گیا ہے کہ اسلام میں بنیادی انسانی حقوق اور خاص طور پر عورتوں کے حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا، ہمیں اہل مغرب پر واضح کرنا ہوگا کہ اسلام تمام انسانی حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور اس کے عطا کردہ حقوق ہی فطری بنیادوں پر مبنی ہیں ۔ مثلاً جب اسلام ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے تو کیا یہ حرمتِ انسان کا بہترین قانون قرار نہیں پائے گا؟ اسی طرح اسلام کی بیان کردہ دوسری تمام سزائیں بھی" انسانی حق "کے اثبات ہی کے لیے ہیں ۔ اسی طرح عورتوں کے حقوق میں بھی ان کے فطری دائرہ کا ر اور نفسیات کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔

اسلام کا تصور جہاد:
اسلام کے بارے میں اہل مغرب کو جو غلط فہمیاں ہیں ان میں سے ایک اسلام کا تصورِ جہاد ہے،مغرب میں یہ تاثر عام ہے کہ اسلام تلوار کے زرو پر پھیلا ہے اور اگر اب بھی مسلمانوں کو موقع ملا تو وہ بز ورِ شمشیر اسلام کو تمام دنیا پر غالب کر کے دم لیں گے۔
اسلام کے تصور ِ جہاد کے حوالے سے اہل مغرب کے ساتھ ہمارا مکالمہ دو پہلو وں پر ہوناچاہیے ، پہلی بات تو ہمیں یہ واضح کرنا ہوگی کہ ابتدائی ایک دو صدیوں میں اسلام کے اسپین ، وسطی ایشیا ء اور
برصغیر تک پھیلنے کی بڑی وجہ اسلامی تعلیمات کی کرشمہ سازی اور مسلمان مبلغین کی انتھک کوششیں ہیں۔
دنیا کے کتنے ہی علاقے ایسے ہیں جہاں اسلامی فوجوں کا کبھی بھی داخلہ نہیں ہو ا لیکن اسلام وہاں بھی موجود ہے، انڈونیشیا او رملائیشیا پر بھلا کون سی اسلامی فوجیں حملہ آور ہوئی تھیں ؟ لیکن کیا وہاں مسلمان اکثریت میں نہیں ہیں؟ ۔ اس لئے تاریخ کا کوئی بھی سنجیدہ طالب علم اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اسلامی تاریخ کے کسی بھی دور میں اسلام کو دوسری اقوام پر ٹھونسنے کے لیے تلوار سے کبھی مدد نہیں لی گئی ۔

خلافت او رجمہوریت:

اسلام کے حوالے سے مغرب میں ایک اور غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اگر مسلمان طاقت میں آگئے تو وہ پوری دنیا میں خلافت کانظام نافذ کریں گے اور طالبان طرز کاکوئی نظامِ حکومت نافد کر کےلوگوں کی شخصی آزادیاں اور حقوق سلب کرلیں گے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلئیر کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ مسلمان خلافت کا نظام واپس لانا چاہتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
اصل میں مغرب نے اسلام کے نظام خلافت کوبھی یورپ کے دورِ تاریک میں اپنے ہاں پائی جانے والی مذہبی حکومتوں پر قیاس کر رکھا ہے۔ مغرب نے صدیوں کی کشمکش کے بعد جو سیاسی اور شخصی آزادیاں حاصل کیں ہیں وہ اب انہیں کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا ۔
اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم مغرب پر یہ بات واضح کریں کہ اسلام کے تصورِ خلافت ایسا نہیں جس کی کسی بات کو نہ تو چیلنج کیا جاسکتا ہے اور نہ رد کیاجاسکتا ہو۔کیونکہ مسلمانوں کا خلیفہ عیسائیوں کے پوپ کی طرح خدا کا نمائندہ نہیں ہے، جس کی کسی بات کو نہ تو چیلنج کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی دلیل کا پابند ہے۔

اسلام، عیسائیت اور یہودیت کی نئی صورت ہے:

مغرب میں اسلام کےبارےمیں صرف عوام ہی نہیں بلکہ خواص کےذہن میں بھی یہ تصور موجود ہے کہ اسلام کوئی مستقل دین نہیں بلکہ یہ عیسائیت اور یہودیت ہی کا نیا روپ ہے اس خیال کی اشاعت میں بنیادی کردار تحریک استشراق کا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے تقابلی مطالعہ ہی اہل مغرب کی اس غلط فہمی کو دور کرسکتا ہے۔

اقلیتوں کے حقوق کاکوئی تصور نہیں ہے:

اہل مغرب میں اسلام کے بارے میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ اسلامی سوسائٹی میں اقلیتوں کے حقوق کاکوئی تصور نہیں ہے۔ اس لئے مغرب سے مکالمہ میں اس نکتہ کو اجاگر کرنا ضروری ہے کہ عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے بعد اسلامی دنیا بالخصوص مصر، لبنان ، انڈیا اورعثما نی ترکوں کے دور میں ہمیشہ قرآنی اصول کے مطابق لوگوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل رہی ہے۔ اسلامی دنیا میں مذہبی تکثیریت کو وجود ہمارے موقف کی واضح شہادت مہیا کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن مجید کی اصولی تعلیم :

(لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ)
“دین میں کوئی زبردستی نہیں، ہدایت تو گمراہی سے صاف صاف کھل چکی ہے"
(البقرۃ ، 2:256)
کی نظری اور عملی تبلیغ اور اشاعت کی جائے ۔ اس کے علاوہ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ،عہد خلافت ِ راشد ہ اور مسلم عروج کے ان تاریخی معاہدات سے بھی استشہاد کیا جاسکتا ہے ، جن میں مذہبی آزادی کے تحفظ کا وعدہ کیا گیا ہے۔

خاصہ بحث:

کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے رجالِ کارکی تیاری بڑی اہمیت رکھتی ہے، چونکہ اسلام کی اشاعت کاتمام انحصار دعوت وتبلیغ اور دوسری قوموں سےمکالمے پر ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف بین المذاہب مکالمے کی عملی مثال قائم کی بلکہ ایسے افراد بھی تیار کیے جو دوسری قوموں سے مکالمے کی صلاحتیوں سے مالا مال تھے ۔
لیکن ہمارا المیہ یہ ہے اب جب کہ حالات کے جبر نے ہمیں بین المذاہب مکالمے کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے، ہمارے پاس ایسے افراد کی شدید کمی ہے جن کی مغربی فکر و فلسفہ پر تنقیدی نظر ہو اور جو اہل مغرب کی ذہنی ساخت ان کی نفسیات ، پس منظر اور تکنیک سے واقف ہوں، اس وقت ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو لوگ علمی رسوخ رکھتےہیں وہ مغربی زبان و ادب اور مغرب کی نفسیات سے واقف نہیں اور جو لوگ مغربی زبان اور محاورے کو جانتے ہیں وہ علمی طور پر کمزور ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دینی مدارس اور جامعات کےنصابِ تعلیم میں مغربی فکر و فلسفہ کو بطور لازمی مضمون کے شاملِ نصاب کیا جائے، تاکہ ایسے رجال کار کی تیاری ممکن ہو جو مغرب کے دانشور طبقے سے پورے اعتماد کے ساتھ بات کر سکیں ۔
ایک اور چیز جس کاہمیں خاص طور سے لحاظ رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ مغرب کے ساتھ مکالمہ میں ہمارا رویہ معذرت خواہانہ اور دفاعی کی بجائے اقدامی ہوناچاہیے ، ہمیں اسلام کے بنیاد ی عقائد اور نظریات کی ایسی تاویل سے اجتناب کرنا چاہیے جس کا اسلام کےساتھ کوئی تعلق نہ ہو ۔


 

Hafiz Irfan Ullah Warsi
About the Author: Hafiz Irfan Ullah Warsi Read More Articles by Hafiz Irfan Ullah Warsi: 19 Articles with 283476 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.