’’این ٹی ایس‘‘نیشنل ٹیسٹنگ سروس ایک نیم
سرکاری ادارہ ہے جو پاکستان میں سرکاری و غیر سرکاری یونیورسٹیز میں تعلیم
اور مختلف محکموں میں ملازمت حاصل کرنے کیلئے ’’ذہانت و قابلیت ٹیسٹ‘‘لیتا
ہے۔ہر محکمے میں بھرتی اور یونیورسٹیز میں داخلہ کیلئے ’’این ٹی ایس‘‘جزوِ
لازم بنتا جا رہا ہے جس کی فیس کم از کم 500روپے ہے ،جو مختلف ٹیسٹ کیلئے
بالترتیب چھے سو،آٹھ سو ،ہزار اور بارہ سو تک ہے۔جو کہ امیدوار کو فارم
بھرتے ہی ادا کرنا پڑتی ہے ،جس نے جتنی آسامیوں کیلئے اپلائی کرنا ہے وہ
اتنی دفعہ الگ الگ فیس ادا کرے گا۔اعلیٰ حکام نے محکمہ تعلیم اور دیگر
آسامیوں میں بھرتی کیلئے ’’این ٹی ایس‘‘ ٹیسٹ کی شرط عائد کرتے وقت یہ نہیں
سوچا کہ بے روزگار نوجوان جس نے گردشِ دوراں کا سامنا کرتے ہوئے حالات کی
چکی میں پِس کرتعلیم تو حاصل کر لی مگر بڑے بڑے اداروں سے لی جانے والی
ڈگریاں اُس کے کچھ کام نہ آسکیں،وہ اپنے گھر والوں کا پیٹ کاٹ کر ’’این ٹی
ایس‘‘کی فیس بھر رہے ہیں،ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد بھی نوکری نہیں ملتی اور
ٹھنڈی سانس بھر کر اگلی آسامیوں کی امید لگالیتے ہے۔
کچھ ایسے افراد کی درخواستیں بھی سامنے آئیں ہیں جنہوں نے نوکری کے حصول کی
غرض سے ’’این ٹی ایس‘‘کی بھاری بھرکم فیس ادا کر کے بروقت فارم بھی بھیجا
مگر ان کانام نہ تو منتخب امیدواران میں آیا اور نہ ہی مسترد امیدواران یا
اعتراض شدہ میں،ایسے امیدواربنک ادائیگی فیس اور ڈاکخانہ کی رسید تھامے اس
جواب کے منتظر ہیں کہ ان کے پیسے کہاں گئے؟
اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کسی امیدوار کو رزلٹ میں ا
عتراض کی صورت میں ’’ری چیکنگ‘‘ کی بھی سہولت میسر نہیں ہے۔مذیدازاں ٹیسٹ
کیلئے امتحانی سینٹر بھی دور دراز علاقوں میں قائم کیے جاتے ہیں،جس سے
خواتین امیدواروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پسماندہ اضلاع میں
رہنے والے افراہزاروں روپے کرایہ لگا کر سینکڑوں کلو میڑ دور امتحانی سینٹر
جانے پر مجبور ہیں۔
اس ضمن میں سب سے زیادہ لوٹ بازاری ایجوکیٹرز کی ملازمت میں کی جاتی ہے،ہر
سال آسامیوں کی تعداد ضلعی سطح پر بتائی جاتی ہے،جبکہ تقرری کیلئے میرٹ
تحصیل لیول پر بنایا جاتا ہے ، اس طرح امیدواروں کی آنکھوں میں دھول جھونک
کر کروڑوں روپیہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور جب تحصیل لیول پرآسامیاں سامنے آتی
ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ متعلقہ تحصیل میں تو اس مضمون کیلئے کوئی سیٹ ہی
نہیں یا پھر چند سیٹوں کیلئے ہزاروں درخواستیں ہوتی ہیں۔اس ناانصافی اور
بددیانتی کے خلاف متعدد احتجاج بھی سامنے آئے مگر این ٹی ایس حکام ٹس سے مس
نہیں ہوئے اور حالیہ آسامیاں بھی ضلعی سطح پر آئیں ہیں مگر تقرری کا میرٹ
تحصیل ہی ہوگا۔اس صورتِ حال میں اس بات کا تعین کرنا مشکل نہیں کہ اس ادارے
کے قیام کا مقصد ذہانت یا اہلیت جانچنا ہرگز نہیں بلکہ سادہ لوح اور پہلے
سے معاشی طور پر پِسے ہوئے عوام کا مال ہڑپنا ہے۔آج ایجوکیٹرز کی اسامیوں
کیلئے اپلائی کرنے والا ہر پڑھا لکھا بے روزگار نوجوان اس وسوسے کا شکار ہے
کہ وہ تین پوسٹوں پر الگ الگ فیس ادا کرکے اپلائی تو کر لیتا ہے مگر ایک
ادارہ اتنا اباختیار کیوں ہے کہ وہ کروڑوں روپیہ بطور فیس کما کربغیر وجہ
بتائے ٹیسٹ منسوخ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔2014میں ’’اولڈ ایج بینیفٹ
انسٹیوٹ ‘‘کی ملازمت کیلئے نو سوروپے کی بھاری رقم بطور ٹیسٹ فیس بٹورنے کے
بعد پاس ہونے والے امیدواران سے ایک اور ٹیسٹ رکھ کہ مذید نوسوروپے ہتھیا
یے گئے۔بیروزگار نوجوانوں کے ساتھ یہ انتہائی شرمناک مذاق ہے کہ ایک پوسٹ
کیلئے دو دفعہ رقم بھی ہڑپ کر لی اور امیدوار کو سفری اور ذہنی صعوبت سے
بھی دوچار کیا گیا۔
یہ ٹیسٹ اول روز سے ہی متناضع رہاہے ۔22مارچ 2014کو لاہور ہائی کورٹ کے
جسٹس منصور علی شاہ نے پی ایچ ڈی کی طالب علم سیدہ انعام کی درخواست پر
تفصیلی فیصلہ دیتے ہوئے ’’این ٹی ایس‘‘ کی حیثیت کو غیر قانونی قرار دیا
،اپریل 2015میں وفاقی پولیس کی بھرتیوں کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ
کے جسٹس اطہر من اﷲ نے حکم امتناعی جاری کیا۔
’’این ٹی ایس ‘‘ کے اس بے تکے نظام کی بدولت تعلیم فروش جنکو ضمیر فروش کہا
جائے تو زیادہ بہتر ہو گا،ٹیسٹ کی تیاری کے نام پر منہ مانگی فیس وصول کر
مہینوں میں کروڑوں کما رہے ہیں۔ان نام نہاد اکیڈمیز کو ریگولیٹ کرنے کا
کوئی نظام کیوں موجود نہیں؟یا پھر نیچے سے اوپر تک سب کی جیبیں بھری جارہی
ہیں جو ارباب ِ اختیار نے چُپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔اکیڈمیز کے دعوے دیکھ کر
یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی کوئی بھی کالج اس قابل
نہیں کہ عوام کو ایسی تعلیم دے سکے جس سے وہ داخلہ و نوکری کا ٹیسٹ دینے کے
قابل ہوسکیں ۔
سوالیہ پرچہ جات تیار کرتے وقت کس معیار کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے کہ پوزیشن
ہولڈر طلباء طالبات بھی اپنے خواب شرمندہ تعبیر کرنے کی بجائے خود شرمندہ
ہوکر لوٹتے ہیں۔پاکستان کے متعدد پسماندہ اضلاع میں امتحانی مراکزنہ بنائے
جانے کی وجہ بھی سامنے لائی جائے۔ہمارے ملک میں جہاں پر اکثریت غربت سے بھی
پست سطح پر زندگی گزار رہی ہے،وہاں پر بے روزگاری الاؤنس کی بجائے ان نام
نہاد ٹیسٹوں کے نام پرمزید غربت اور بے چینی میں اضافہ کرنے والے استحصالی
طریقے کیوں؟راتوں رات ایک غیر سرکاری ادارے کو نیشنل ٹسیٹنگ سروس کے نام سے
رجسٹرڈ کر کے پاکستان میں اہم محکموں میں ملازمت اور اعلیٰ تعلیمی ادروں
میں داخلے کیلئے سیا ہ سفید کا مالک بنا دینا صاف ظاہر کرتا ہے کہ دال میں
کچھ نہیں سب کچھ ہی کالا ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو سمیت متعدد وفاقی اور صوبائی اداروں میں سویپر ،آفس
بوائے اور سیکورٹی گارڈ درجہ چہارم کی ملازمت کیلئے بھی ’’این ٹی ایس‘‘کی
جارہ داری ہورہی ہے،اس ضمن میں یہ گمان یقین میں تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے کہ
مذکورہ ادارہ جو کہ 374سے زائد سرکاری و غیر سرکاری محکماجات اور ادروں
کیلئے ٹیسٹ کا انعقاد کرتا ہے،اس کی بھاری بھرکم فیسوں میں سے ایک مخصوص
رقم بطور’’ہدیہ‘‘374پارٹنرز کو بھی پیش کی جاتی ہوگی۔حکومتی ارباب ِ اختیار
کو چاہیے کہ قابلیت ٹیسٹ کے نام پر لوٹ مار کا بازار بند کیا جائے اور اس
’’نِری ٹھگ سروس‘‘ سے نجات دلائی جائے۔ |