میڈل!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا
کانووکیشن تھا، مہمانِ خصوصی بہاول پور سے ہی تعلق رکھنے والے تعلیم کے
وزیر مملکت انجینئر بلیغ الرحمن تھے، ان کی معاونت کے لئے لاہور سے صوبائی
وزیرتعلیم رانا مشہود خاص طور پر تشریف لائے تھے۔ تاہم اصل مہمانِ خصوصی
گورنر پنجاب رفیق رجوانہ تھے، جو اپنی کسی مصروفیت کی بنا پر نہیں آسکے۔ ان
کی مصروفیت کیا تھی، یا انہیں کونسی ایسی ایمرجنسی ہوئی کہ وہ اپنے ہی
زیرنگرانی چلنے والی ایک جامعہ کی سالانہ تقریب میں نہ آئے، وہ تعلیم یافتہ
اور علم دوست شخص ہیں، یقینا انہیں اس کام سے بھی اہم کام ہوگا، ورنہ
رجوانہ صاحب سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ مہمان خصوصی کا اعلان ہونے کے
باوجود بھی نہ آئیں، کیا جانئے انہوں نے گورنر ہاؤس میں کسی اجلاس کی صدارت
کرنا ہو، ہو سکتا ہے وزیراعلیٰ سے ملاقات کرنی ہو، یا کوئی بھی مصروفیت
ہوسکتی ہے، جس نے انہیں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول جانے سے ان کے قدم روک لئے؟
اگر ہمارے گورنر ، کہ جو صوبہ بھر کی تمام جامعات کے چانسلر ہیں، ان کی اہم
ترین تقریبات میں نہیں جائیں گے تو پریشانی والی بات تو ہے، تاہم اگر گورنر
اس سے بھی اہم کسی پروگرام میں چلے گئے ہیں تو اور بات ہے۔
چانسلر کی عدم موجودگی میں یونیورسٹی انتظامیہ نے وفاقی وزیر مملکت برائے
تعلیم اور صوبائی وزیرتعلیم سے کام چلایا۔ خیر یہ بھی کوئی کم اہم لوگ نہیں
تھے، وزیر مملکت نے آخر وقت نکالا ہوگا، انہوں نے اسمبلی میں سوالوں کے
جواب دینے ہوتے ہیں، وزارتِ داخلہ کے بہت سے اہم معاملات پر اسمبلی میں
ممبران کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، اس کے علاوہ انہوں نے تقریبات میں شرکت کرنی
ہوتی ہے، سیمینارز میں تعلیم کے فروغ کے لئے امید افزا گفتگوکرنا ہوتی ہے،
لوگوں کو بتانا ہوتا ہے کہ اس وقت ملک میں ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر
ہیں، اورانہوں نے اسی قسم کی دیگر اہم ترین تقریبات میں جانا ہوتا ہے۔ ان
کی علم دوستی ہی ہے کہ انہوں نے اپنی ان گوں ناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر
طلبہ و طالبات کو میڈل دیئے۔ یہی کچھ صوبائی وزیر تعلیم کا معاملہ ہے۔
لاہوری وزیر تفریح کے لئے ہی لاہور چھوڑتے ہیں، موصوف چونکہ بہاولپور آئے
ہوئے تھے ، اس لئے انہوں نے از راہِ کرم ویمن یونیورسٹی کا دورہ بھی فرما
لیا، تاکہ سند رہے۔ اس یونیورسٹی پر حکومتی توجہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
کانووکیشن میں چونکہ سٹوڈنٹس کے لئے ڈرامہ سٹیج کرنا ہوتاہے، ڈسپلن کا
تقاضا ہے کہ میڈل کے حقدار تمام طلبا و طالبات کو ترتیب اور سلیقے سے میڈل
کے لئے لایا جائے، اس سے یہ اندازہ بھی ہوجاتا ہے کہ وقت کتنا لگے گا، کس
طرف سے آنا ہے، واپس کدھر سے جانا ہے۔ چنانچہ اسلامیہ یونیورسٹی میں بھی
ریہرسل کی گئی، تاکہ موقع پر پریشانی کاسامنا نہ کرنا پڑے۔ تازہ صورت حال
میں اگرچہ مہمانِ خصوصی اصل نہیں تھے، دوسرا ستم یہ ہوا کہ یونیورسٹی نے
اپنی دیگر مصروفیات کی بنا پرمیڈل کی تعداد شمار کرنے کا تکلف نہ کیا، جن
سٹوڈنٹس کو بلایا گیا، انہیں بھی میڈل نہیں مل سکے، بہت سے سٹوڈنٹس سے میڈل
واپس لے لئے گئے، کیونکہ کم تعداد کی بنا پر دوسروں کی خانہ پری کرنا مقصود
تھا، ریکارڈ رکھنے کے لئے مہمانوں کے ساتھ فوٹو بنانا بھی یونیورسٹی کی
مجبوری تھی۔ میڈل واپس لینے پر تو احتجاج ہونا ہی تھا، جن کو بلا کر دو روز
ریہرسل کروا کر میڈل سرے سے دیئے ہی نہیں گئے ان کا احتجاج اور بچیوں کا
رونا فطری بات تھی۔ دوسرے اضلاع سے آنے والی بچیوں کو میڈل نہ ملے تو ان کے
آنسو پونچھنے والا کوئی نہ تھا۔ اس صورت حال میں جب سٹوڈنٹس نے احتجاج کیا
اور سٹیج کی طرف لپکے تو دونوں وزراء نے انہیں صبر کی تلقین کی، انہیں
برداشت کرنے کا کہا، مگر ہنگامہ مچا رہا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اول تو
سٹوڈنٹس ذہن بنا کر آئے تھے، کہ انہیں میڈل ملے گا، وہ تصویر بنوائیں گے،
اس کو فیس بک پر بھی ڈالیں گے اور ریکارڈ میں بھی رکھیں گے اور اگر مہمانِ
خصوصی ذرا اہم آدمی ہو تو طلبا ان کے ساتھ لی گئی تصویر کو فریم کروا کے
بھی رکھ لیتے ہیں۔ ہنگامے اور احتجاج کی دوسری وجہ یہ تھی کہ شاید طلبا کو
یقین تھا کہ ان دونوں حضرات کے وعدے چونکہ سیاسی ہونگے، اس لئے ان پر عمل
ہونے کے امکانات کم ہی ہیں۔ بہرحال میڈل تو مل ہی جائیں گے، مگر یونیورسٹی
انتظامیہ کے انتظامات قابلِ غور ہیں، آخر اتنے بڑے پروگرام کے لئے اتنا
ناقص بندوبست کیوں کیا گیا؟ مہمانوں کی تکریم کیوں کم کروائی گئی؟ وائس
چانسلر صاحب مردم بیزار آدمی ہیں، ان کے ارد گرد بھی شاید اسی طرح کے مشیر
جمع ہیں، یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی رینکنگ میں نیچے سے نیچے جارہی ہے،
یونیورسٹی کوکسی علم دوست ، انسان دوست دور اندیش سربراہ کی ضرورت ہے، ورنہ
یونیورسٹی تماشا بنی رہے گی۔ |
|