قبول اسلام کی چند درخشندہ مثالیں۔۔۔۔حصہ اوّل
(munawar ahmed khurshid, LONDON)
بسم اللہ الرحمان الرحیم
خداتعالی صاحب دانا وحکمت بنی نوع انسان کے دین حق کی شناخت اور پھر اس کے
قبول کرنے کے لیئے مختلف اسباب پیدا فرماتا ہے۔بعض دلوں کی زمین بڑی زرخیز
ہوتی تھوڑی سی محنت کرنے سے ہی سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے۔اور کچھ ایسی زمینیں
ہوتی ہیں جو بظاہر بنجر اور سنگلاخ ہوتی ہیں مگر مرور زمانہ کے ساتھ خدائی
قدرتوں کے زیر اثر ان میں اس قدر حیرت انگیز تغیرات جنم لیتے ہیں کہ انسانی
عقل ورطہ حیرت میں پڑ جاتی ہے۔یہی امر اصحاب رسول ﷺ کے قبول اسلام کے
واقعات میں نمایاں ہے۔ان کی چند مثالیں بطور نمونہ سپرد قلم ہیں۔
وما توفیقی الا باللہ
ؓ
حضرت طفیل بن عمر دوسیؓ
ارشاد باری تعالی بلغ ما أنزل ا لیک کے تحت آنحضرت ﷺ کا یہ مبارک طریق تھا
۔کہ کسی بھی جگہ پر کوئی مناسب موقعہ ملتا توآپ وہاں دعوت الی اللہ کے لیئے
ضرورتشریف لے جاتے ۔اور حسب حالات خداتعالی کا پیغام پہنچاتے۔
حضرت طفیل دوسی آپنے قبیلہ دوس کے ایک معزز سردار اورشاعر بھی تھے ۔اس دور
میں شاعرہونا بھی ایک بہت بڑی عظمت و فضیلت شمار ہوتا تھا۔
ایک دفعہ حضرت طفیلؓ کسی تقریب کے سلسلہ میں مکہ تشریف لائے ۔ قریش مکہ میں
سے آپ کے ملنے والوں نے آپ کوبتایا، کہ آپ ہمارے شہر میں اس حال میں آئے
ہیں ۔کہ ہمارے ہاں ایک ایساشخص ہے جو ہمارے بتوں کو برا بھلا کہتا ہے۔اس کی
وجہ سے ہمارے ہاں خاندانوں میں انشقاق وافتراق پیدا ہوچکا ہے۔باپ بیٹے کا
اور بیٹا باپ کا دشمن بن رہا ہے۔اس لیئے آپ کو اس صورت حال بہت محتاط رہنا
چاہیے۔
ان کفار کی باتیں سن کر آپ بہت پریشان ہوگئے۔اور اس قدر احتیاط برتنی شروع
کی کہ اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی۔تاکہ کہیں اتفاق سے آپ کے کانوں میں
آنحضو ر ﷺ کی آواز نہ پڑھ جائے۔
لیکن ایک روز عجیب اتفاق ہوا کہ نبی کریم ﷺ مسجد حرام کے ایک کونہ میں نماز
ادا فرما رہے تھے۔اور طفیل دوسیؓ بھی قریب ہی عبادت کے لیئے کھڑے ہوگئے۔آپ
ﷺ قدرے اونچی آواز میں تلاوت فرمارہے تھے جس کی وجہ سے باوجود کانوں میں
روئی ہونے بھی آنحضور ﷺ کی آواز مبارک ان کے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔آپ کی
رقت آمیز اوردلنشین آواز اور حسین کلام نے وہ اثر کیا۔کہ اپنے آپ سے خود ہی
کہنے لگے۔میری ماں مجھے کھوئے۔میں ایک عاقل وبالغ اورباشعور انسان ہوں اور
اچھائی اور برائی میں خوب تمیز کرسکتا ہوں۔تو پھر میں نے کیوں اپنے کانوں
میں یہ روئی ڈال رکھی ہے۔فوراً اپنے کانوں سے روئی باہر نکال پھینکی۔اور
بڑے غور سے آپ ﷺ کے کلام کو سننا شروع کیا۔پھر کیا تھا ۔خدا تعالی کے اس
روح پرور کلام کی پاک تاثیر نے حضرت طفیل کے دل کے سارے زنگ دور
کردیے۔اوراس میں ایمان کی شمعیں فروزاں کردیں۔آنحضور ﷺ کی پاک صحبت میں
حاضر ہوئے اور اپنے ایمان وایقان کا اظہار فرمادیا۔
اس کے بعد اپنی قوم میں واپس تشریف لے گئے۔پہلے اپنے والد بزرگوار اور اپنی
اہلیہ محترمہ کو پیغام حق پہنچایا۔دونوں نور سعادت کے حامل تھے۔اس لیئے
دونوں ایمان لے آئے۔اس کے بعد اپنی قوم کے پاس تشریف لے گئے اور اس کویہ
عظیم الشان خوشخبری دی۔ مگر مع الاسف قوم نے انکار کردیا۔قوم کی اس سعادت
سے محرومی پر آپ کو سخت تکلیف ہوئی۔
آپ حضرت اقدس میں حاضر ہوئے۔اور قوم کی صورت حال سے آپ ﷺ کو آگاہ
فرمایا۔اور ان کے اس افسوس ناک رویہ سے بددل ہوکر اپنی قوم کے خلاف، حضو ر
ﷺ کی خدمت میں درخواست دعا کی۔ مگرآپ رحمۃ العالمین ﷺ نے بددعا کرنے کے
بجائے بڑی رقّت سے خداتعالی کے حضور ان الفاظ میں التجا کی۔ (سیرت ابن ہشام
)
آخر خداتعالی کے پیارے نبی کی دعا کے صدقے فتح خیبر کے زمانہ میں اس قبیلہ
کو قبول حق کی سعادت نصیب ہوئی۔اور پھر ان میں سے ستر خاندان ہجرت کرکے
مدینہ آگئے اور پھر وہیں دیار حبیب میں اپنا مسکن بنا لیا۔
حدیث کے معروف راوی حضرت ابو ھریرہؓ بھی انہی خو ش نصیبوں میں سے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عداسؓ
جب اہل مکہ کے ظلم وستم حد سے بڑھ گئے ۔اور انہوں نے تبلیغ اسلام کے سب
دوازے بند کردیئے۔تو حضرت نبی کریم ﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کے ہمراہ طائف
کا تاریخی سفر اختیار کیا ۔جس میں اہل طائف نے بھی اپنے قریش کفار بھائی
بندوں کی طرح نبی معصوم ﷺ کیساتھ نہایت ناروا اور ظالمانہ رویہ اختیار کیا
۔ رؤساء طائف نے اپنے اوباش نوجوانوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا جوآپ کوگالی
گلوچ کرتے ہوئے آپ کے پیچھے ہولیئے۔ اور کئی میل تک آپ پر پتھر برساتے رہے۔
جس سے آپ کا جسد اطہر زخمی ہو کر لہولوہان ہوگیا۔
اس اذیت ناک صورت حال میں بڑی مشکل کے ساتھ طائف سے تین میل کے فاصلہ پر
ایک باغ میں پہنچے ۔
یہاں ایک سایہ کے نیچے آپ نے کھڑے ہوکر یہ دعا کی۔
یعنی اے میرے رب میں اپنے ضعف قوت اور قلت تدبراور لوگوں کے مقابلہ میں
اپنی بے بسی کی شکایت تیرے ہی پاس کرتا ہوں۔اے میرے خداتوسب سے بڑھ کررحم
کرنے والا ہے۔اور کمزوروں اور بے کسوں کا تو ہی نگہبان و محافظ ہے۔اور تو
ہی میرا پروردگار ہے۔۔۔۔میں تیرے ہی مونہہ کی روشنی میں پناہ کا خواستگار
ہوں کیونکہ تو ہی ہے۔جو ظلمتوں کو دور کرتا اور انسان کو دنیا اور آخرت کی
حسنات کا وارث بناتا ہے۔
یہ باغ مکہ کے ایک رئیس ربیعہ کے دوبیٹوں عتبہ اور شیبہ کا تھا۔اگر چہ یہ
دونوں شخص اسلام کے بڑے دشمن تھے۔مگر آپ ﷺ کی اس تکلیف دہ حالت کو دیکھ کر
ان کے دل میں بھی آپ کے لیئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوگئے۔۔انہوں نے اپنے
ایک غلام کے زریعہ کچھ انگور آپ کی خدمت میں بجھوائے۔
جب وہ غلام آپ کے پا س انگور لے کر آیا۔آپ نے کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھا
۔اس پر عداس بڑا حیران ہوا۔اور پوچھا میں نے آج سے پہلے کبھی کسی کو یہ
الفاظ کہتے ہوئے نہیں سنا ہے۔ اس پر آپ نے اس سے پوچھا کہ آپ کہاں کے رہنے
والے ہیں اور کس مذہب کے پابند ہیں۔اس نے کہا میں نینوا کا رہنے والا
ہوں۔اور ذہباً عیسائی ہوں۔اس پر آپ نے فرمایا ! کیا وہی نینوا جہاں جو خدا
کے صالح بندے یونس بن متی کا وطن تھا۔اس نے کہا۔ہاں مگر آپ کو یونس کا حال
کیسے معلوم ہوا۔ آپ نے فرمایا وہ میرا بھائی تھا۔کیونکہ وہ اللہ کا نبی
تھا۔ اور میں بھی اللہ کا نبی ہوں۔پھر آپ نے اسے اسلام کی تبلیغ کی۔جس کا
اس پر بڑا اثر ہوا۔ اور اس نے جوش عقیدت واخلاص سے آپ کے دست مبارک چوم
لیئے۔اور اس طرح خدا تعالی نے اس کو بھی دولت ایمان سے مالا مال کردیا۔
نیک دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں
اک نشان کا فی ہے گر دل میں ہو خوف کردگار |
|