قبول اسلام کی چند درخشندہ مثالیں۔۔۔۔حصہ دوم
(munawar ahmed khurshid, LONDON)
حضرت عبد اللہ بن سلامؓ
آنحضرت ﷺ کی ہجرت مد ینہ کے وقت یہاں پر یہود کے تین قبائل آباد تھے ۔تاریخ
اسلام میں ان یہودی قبائل کے خدا تعالی کے پیارے حبیب ﷺ کے خلاف ظلم وستم
اور ریشہ دوانیوں کی ان گنت داستانیں محفوظ ہیں۔اہل یہود سے بہت ہی کم
لوگوں کو اپنے علم وفجل اور مال ودولت کے تکبر کے باعث قبولیت اسلام کی
سعادت ملی۔
یہود میں سے حضرت عبداللہ بن سلام وہ خوش نصیب ہیں۔جن کو خدا تعالی نے محض
اپنے فضل سے اس نعمت عظمیٰ سے مالا مال کیا۔کیونکہ آپ ایک نہایت ہی نیک
فطرت انسان تھے۔
آپ اپنے قبول اسلام کا واقعہ کچھ یو ں بیان کرتے ہیں۔
جب مجھے آنحضو ر ﷺ کے دعوی ٰکے بار ے میں علم ہوا۔تو میں بہت خوش ہوئے۔لیکن
خاموش رہا۔پھر جب آپ ﷺ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے آئے۔اور قبا کے مقام پربنی
عمر بن عوف کے ہاں مقیم تھے۔میں اس وقت مدینہ میں اپنے ایک باغ میں ایک
کھجور پر چڑھ کر کوئی کام کررہا تھا۔اور میرے ساتھ میری پھوپھی بھی تھیں۔اس
وقت کسی شخص نے آکر آنحضرت ﷺ کی آمد کی خبر دی۔میں نے یہ خبر سنتے ہی زور
نعرہ تکبیر بلند کیا۔جس پر میری پھوپھی کہنے لگی کہ خدا تجھ کو خراب کرے
۔واللہ اگر تو موسی بن عمران کے آنے کی خبر سنتا تب بھی اس قدر خوش نہ
ہوتا۔میں نے کہا اے پھوپھی مجھے خدا کی قسم ہے یہ بھی موسیٰ کے بھائی
ہیں۔اور انہی کے دین پر ہیں۔جیسے کہ خدا نے انہیں مبعوث کیا تھا۔ان کو بھی
مبعوث کیا ہے۔میری پھوپھی نے کہا کہ اے بھتیجے کیا یہ وہی نبی ہیں جن کی
خبر ہم کو دی گئی ہے۔کہ قیامت کے قریب مبعوث ہونگے۔میں نے کہا ہاں وہی
ہیں۔کہنے لگی بس ٹھیک ہے۔میں فوری طور پر رسول پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا
اورآنحضو ر ﷺ کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کر لیا۔
اس پر میں نے آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کی یا رسول ا للہ میں اپنی قوم کی زہنیت
اور عادات سے خوب واقف ہوں۔بہت دروغگو اور بہتان طراز ہیں ۔اس لیئے جب وہ
آپ کے پاس حاضر ہوں ۔تو مجھے اند رچھپادیں۔اور ان سے میرے بارے میں
پوچھیں۔تو دیکھیں کہ وہ آپ کو کیا جواب دیتے ہیں۔کیونکہ ان کو ابھی میرے
اسلام لانے کی خبر نہیں۔
حضور نے یہود کی آمد پر ان سے استفسار فرمایا ۔کہ تم میں حصین کون ہے۔انہوں
نے کہا ہمارا سردار ہے۔اور ہمارے سردار کا فرزند ہے۔اور ہم میں ماہر اور
عالم ہے۔جب وہ میری تعریف سے فارغ ہوئے۔میں باہر نکلا اور اپنی قوم سے
کہا۔اے گروہ یہود خدا سے ڈرواور اس دین کو قبول کرو۔جورسول لائے ہیں۔واللہ
تم جانتے ہو کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ان کے نام اور انکی صفات کے ساتھ تم ان
کوتورات میں لکھا پاتے ہو۔میں تو گواہی دیتا ہوں۔کہ بیشک یہ خدا کے رسول
ہیں۔میں ان پر ایمان لایا ہوں۔اور ان کی تصدیق کرتا ہوں۔اور ن کو پہچانتا
ہوں۔
اس پر یہود بول اٹھے کہ تو جھوٹا ہے۔اور مجھے برا بھلا کہنے لگے۔میں نے
رسول پاک ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ دیکھئے میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں یہ لوگ
بہتان باز ہیںِاور جھوٹے اور فاجر ہیں۔
اس کے بعد میں اپنے گھر چلا گیا اور اپنے اہل خانہ اور اپنی پھوپھی کی
اسلام کی حقانیت کے بارے میں بتایا۔جس پر اللہ تعالی نے انہیں انشراح صدر
دیا اور داخل اسلام ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عمربن العاصؓ
عاص بن وائل دشمنان اسلام میں سے تھا۔ ایک روز رؤساء مکہ نے آنحضور ﷺ کے
خلاف ایک میٹنگ منعقد کی ۔جس میں اسلام کی شب روزترقی پراپنے غم وغصہ کا
اظہار کیا۔اور اب از سر نو اس کے سد باب کے لئے تجاویز اور مشور ے کیے گئے۔
حضرت عمروبن العاصؓ اسلام کے عظیم المرتبت ہیرو ہیں اور ایران کے فاتح
حضرت عمروبن العاصؓ
جنگ خندق میں ناکامی ونا مرادی کی وجہ سے کفار مکہ میں سخت مایوسی پیدا
ہوگئی۔خاص طور پرسرداران مکہ کے لیئے یہ بات بڑی باعث ننگ تھی کہ ان کی
سالہا سال کی مخالفت کے باوجود اسلام کا بال بھی بیکا نہ کر پائے بلکہ اس
کے برعکس اسلام کی عظمت دن دوگنی اور رات چوگنی اکناف میں پھیلتی جارہی ہے
۔
اب ان کو اس امر کا بخوبی احساس ہونے لگا کہ عنقریب مکہ کی سرزمین پر
مسلمانوں کا غلبہ ہوجائے گا۔اس لیئے اپنے سیاہ کارناموں کی وجہ سے اپنے ذلت
ناک انجام سے خائف تھے۔ایک دن حضرت عمروبن العاص نے اپنے دوستوں سے کہا
۔ہمیںیہاں سے ہجرت کرجانی چاہیے۔تاکہ اپنے عبرت ناک انجام سے بچ سکیں۔
اور کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہم شاہ حبشہ نجاشی لیئے کچھ قیمتی تحائف لے کر
وہاں جائیں۔اور پھر وہیں سکونت اختیار کرلیں کیونکہ میرے نزدیک محمد ﷺکے
تابع رہنے کی نسبت نجاشی کے تحت رہنا بہت بہتر ہے۔اس طرح آپ حبشہ کو روانہ
ہوگئے ۔
حضرت عمروبن امیہ ضمریؓ کو ان دنوں رسول پاک ﷺ نے مہاجرین حبشہ حضرت جعفر
بن ابی طالب وغیرہ کے پاس کسی غرض سے بجھوایا ہوا تھا۔اتفاق سے جب عمروبن
العاص دربار میں داخل ہورہے تھے۔جب انہوں حضرت عمر بن امیہ کو دیکھا تو
اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے۔میں اس کو نجاشی سے مانگ لوں گا اور اسے قتل
کرلوں گا۔پھر اگر قریش محمد کو قتل کردیں گے تو مین بھی ان کے برابر ہو
جاؤں گا۔
اس کے بعد جب دربار میں حاضر ہوئے۔بادشاہ کو سجدہ کیا ۔بادشاہ ان سے مل کر
بہت خوش ہوا۔اور ان مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔
انہوں نے بادشاہ کی خدمت میں قیمتی تحائف پیش کیے۔بادشاہ ان تحائف سے بہت
خوش ہوا۔ موقعہ کو غنیمت جانتے ہو ئے �آپ نے بادشاہ کی خدمت میں عرض کی کہ
ہمارے دشمن کا سفیر ابھی آپ کے دربار سے باہرگیا ہے اگر اجازت فرمائیں تو
میں اس کو قتل کردوں ۔
جب نجاشی نے یہ کلمات سنے۔ تو غصہ سے اس کا چہرہ متغیر ہوگیا۔اور اس نے بڑے
زور سے اپنا ہاتھ اپنے ناک پرمارا۔
حضرت عمر وبن العاص کہتے ہیں ۔مجھے بادشاہ کے اس رویہ کی وجہ سے اسقدر
شرمندگی ہوئی کہ میرا دل چاہتا تھا کاش زمین پھٹ جائے اور میں اس میں
سماجاؤں۔
آپ نے بادشاہ سے معذرت کی اور ساتھ عرض کیا۔ کہ اگر مجھے یہ احساس ہوتا کہ
آپ کو میری یہ بات اسقدر ناگوارگزرے گی ۔تو میں کبھی بھی ایسی بات نہ کرتا۔
اس پر بادشاہ نے کہا ۔ تم اس شخص کے سفیر کو قتل کرنا چاہتے ہو جس کے پاس
موسیٰ کی طرح خدا تعالی کافرشتہ آتا ہے۔
اس پرحضرت عمروبن العاصؓ نے حیرانگی کیساتھ کہا ۔اے بادشاہ !کیا یہ بات
ہے۔اس پربادشاہ نے اثبات میں جواب دیا ۔اس پرآپ نے کہا پھر مجھے کیا کرنا
چاہیے۔ تم میری اطاعت کر اورمحمد ﷺ کی بیعت کرلے۔ بے شک وہ حق پر ہیں اور
عنقریب وہ اپنے تمام مخالفین پر غالب آجائیں گے۔جیسے کہ موسی فرعون کے لشکر
پر غالب آگئے تھے۔اس پر آپ نے بادشاہ سے کہا کیا آپ مجھ سے اسلام کے نام پر
بیعت لیتے ہیں۔نجاشی نے کہا کہ میں بیعت لیتا ہوں۔
اس کے بعد آپ حبشہ سے مدینہ کوروانہ ہوگئے۔تاکہ خود حاضر ہر کر بیعت کا شرف
حاصل کرسکیں۔راستہ میں حضرت خالد بن ولیدؓ سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ان سے
پوچھا کدھر جارہے ہیں ۔حضرت خالد بن ولید نے کہا کہ اب کہاں تکہم مخالفت
کریں گے۔واللہ بیشک وہ سچے نبی ہیں۔ میں تو اسلام قبول کرنے کے لیئے مدینہ
جارہا ہوں۔حضرت عمروبن العاص نے کہا میں بھی اسی غرض سے مدینہ جارہا ہوں اس
پر دونوں دوست اکٹھے مدینہ پہنچے اور اپنے اسلام کا اعلا ن کیا۔
صادفتھم قوماً کروث ذلۃ فجعلتھم کسبیکۃ العقیان |
|