تحریر : پروفیسرراجہ محمدعثمان عارف
‘‘ 16۔ نومبر 2015ء کو ریاست جموں وکشمیر کی اولین سیاسی جماعت آل جموں و
کشمیر مسلم کانفرنش عرصہ ، قیام کے لحاظ سے 83سال ایک ما ہ کی عمر کو پہنچ
گئی ۔ یہ ریاستی جماعت 15، 16،17اکتوبر 1932ء کو سرنیگر میں موجود اﷲ کے
گھر پتھر مسجد میں قائم کئی گئی ۔ یہ مسجد1032ہجری میں مغل بادشاہ ہند
جہانگیر نے اپنی ملکہ کی یاد میں تعمیر کروائی تھی ۔ اس سیاسی جماعت کے
قیام کے مقام یعنی مسجد اور اس میں مسلسل تین اور تک بحث و غور وخوذ کے بعد
ریاستی سیاسی جماعت کے اغراض اور مقاصد کا تعین او ر برصغیر کے بدلتے ہوئے
حالات کے پیش نظر بننے والی سیاسی جدو جہد کی حدودکار ، ریاستی مسلمانوں کے
مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاسی بیداری پید اکرنے کے لیے مسلمان ریاستی
اکابرین کے ظاہری اور باطنی خلوص نیت ، بے لوث سیاسی شخصیات کا خدا کے گھر
میں بیٹھ کر سیاسی جماعت سازی اور اس پر عہد و پیمان کرنا ، سب کچھ ملا کر
ریاستی مسلمانوں کی خصوصی اور عام عوام کی عمومی طورپر ہما گیر بہتری شناخت
، ڈوگرہ کے ظلم و ستم سے نجات ، ریاست میں بنیادی انسانی حقوق کا حصول ، سچ
حق اور نیک نیتی کے دائرہ میں رہ کر ہی سیاسی منصوبہ و لالحہ ء عمل سے ہی
ممکن تھا ۔یہی وجہ ہے کہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس قیام سے آج تک
تروتازہ قائم ودائم ، بدلتی ہوئی اور منتقل ہوتی ہوئی قیادت اور گزرتے ہوئے
وقت کے ساتھ بتسلسل موجود ہ ہے ۔ قدرت کا تخلیق کے پیچھے ایک ہی اصول یا
مقصد کا ر فرما نظر آتاہے ۔ جو شے عد م وجود سے معرض وجو د میں لائی جاتی
ہے ۔ وہ تب تک قائم و موجود رہتی ہے ۔ جب تک اس کی تخلیق کے مقاصد کی تکمیل
نہیں ہو جاتی ہے ۔ سرینگر ، پتھر مسجد خدا کے گھر میں قائم ہونے والی آل
جموں وکشمیر مسلم کانفرنس سے قبل ریاست کی ہزاروں سالہ تاریخ میں کسی سیاسی
جماعت کا وجود نہ تھا ۔ یہ نئی تخلیق تھی یہ تاریخ کا ایک سنگ میل تھا ،
ریاست جموں وکشمیر میں ، ریاستی اکابرین نے اس سیاسی جماعت کے قیام کے لیے
جو مقاصد مقرر کیے ، ان کی تکمیل تک یہ ریاستی سیاسی جماعت باقی رہے گی ۔
83واں سالانہ کنونشن کا انعقاد بمقام مظفرآباد انتہائی نامسا حالات میں ہوا
۔چونکہ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس حضرت علامہ اقبال اور حضرت قائد اعظم
کے دوقومی نظریے پر قائم ہوئی تھی ۔ یہ نظریہ نریندر مودی کے آباواجداد کے
لیے ناقابل برداشت تھا ۔ اور آج بھی آل جموں وکشمیر کانفرنس ،ریاست جموں و
کشمیر جو پاکستان کے صوبہ سر حد /خیبر پختونخواہ سے ڈیڑھ گنا زیادہ رقبہ
زمینی رکھتی ہے ۔ اور اب تک اس کی آبادی 2کروڑ تک پہنچ چکی ہے ۔ میں
پاکستان کی اصل شکل میں موجود ہے ۔ جو پاکستان کی بقاء کی جنگ کشمیر
میں83سال سے مسلسل لڑرہی ہے ۔ بدقسمتی سے 16دسمبر1971ء کو ڈھا کہ فال ہوا
تب سے پاکستان کے نا اہل حکمران ہندوستان کے زیر اثر ہیں ۔شملہ معاہدہ کے
بعد بھٹو نے اندرہ گاندھی سے جو وعدہ کیا تھا ۔ کہ ہندوستان کی خواہش کے
مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو صوبہ بنائیں گے ۔ جب وہ عوامی مزاحمت
اور مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان کی موجودگی میں ایسا نہ کر سکے تو سب سے
پہلے انھوں نے سازش کرکے مجاہد اول کو صدارت سے ہٹایا اور جیل میں بند کر
دیا ۔ تب سے آج تک آزادجموں و کشمیر میں پاکستانی حکمرانوں کا پیدا کر دہ
انتشار تھم نہیں سکا ۔ جس طرح ہندوستانی سیاسی جماعتیں کانگرس اور بی جے پی
نے مقبوضہ ریاست میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔ اسی شکل میں آج پیپلز پارٹی اور
مسلم لیگ ن نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں کشمیریو ں کو تقسیم کرنے کا
انتشار ڈالا ہوا ہے۔ سردار عتق احمد خان اور ان کی جماعت آل جموں وکشمیر
مسلم کانفرنس 83سالانہ کنونشن کے لیے انتہائی مشکل اور نامساعد حالات
کااندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ میثاق جمہوریت کے تحت مئی 2011کے
انتخابات میں منظوروٹو وزیر ا مو ر کشمیر نے ٹھپہ، جھر لو سے بذریعہ رضوان
قریشی فریال تالپور پی پی پی کی حکومت قائم کی ۔ اور اس حکومت کے دوران ہی
جنا ب میاں نواز شریف نے مظفر آباد میں آکر مسلم لیگ ن قائم کر دی تاکہ
میثاق جمہوریت کے مطابق ہندوستان کی خوشنودی اور خواہش کے مطابق 2016کے
انتخاب کے ذریعے بعد پی پی پی کے بعد دوسری پاکستان جماعت مسلم لیگ ن کی
حکومت بذریعہ برجیس طاہروزیر امور کشمیر قائم کی جا سکے ۔ تاکہ ہندوستانی
ایجنڈے کے مطابق ریاست جموں وکشمیر میں پاکستانی کے حامیوں کو دیوار سے
لگایا جائے ۔، اور ان کا ضمیر خرید کر ان کا حق خود ختیاری چھین لیا جائے ۔
جناب نوازشریف نے کسی اخباری بیان ، اپنی کابینہ کی کسی میٹنگ میں یا قومی
اسمبلی میں بھی یہ عندیہ نہیں دیا کہ موصوف نے قائد اعظم کی کشمیر پالیسی
ترک کر دی ہے ۔ کشمیریوں اور پاکستانی قوم کو یہ بھی بتائے بغیرکے چوہدری
غلام عباس ، مجاہداول سردار عبدالقیوم خان اور صدر مسلم کانفرنس سردار عتیق
احمد خاں نے ریاست پاکستان کو کشمیر میں کیا نقصان پہنچایا یہ بھی کسی بیان
یا تقریر میں عوام کو نہیں بتایا گیا کہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم نے
ہندوستان کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ طے کر دیا ہے ۔ یا ہندوستانی خواہش کے
مطابق ریاست جموں وکشمیر کوپاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں ۔ یا پھر ہندو و
تواکے حامی بن کر ریاستی شہدا کو تاریخ میں غدار لکھوانا چاہتے ہیں ۔ جناب
زرداری اور جناب نواز شریف آ ل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور اس کی موجودہ
قیادت سردارعتیق احمد خان کے خلاف جوڑ توڑ کشمیر ی قیادت سے ذاتی نفرت
انتقام کا نشانہ بنا کر ا ن ہی کے پروردہ لوگوں کواقتدار کے لالچ میں ضمیر
خرید کر ان سے الگ کر کے صدر آل جموں و کشمیر سردار عتیق احمد خان کو
تنہاکرنے کا کوئی حربہ نہیں چھوڑا ۔ ان حالات میں 83واں کنو نشن منقعد ہوا
۔ آل جموں و کشمیر کانفرنس کا یہ تنظیمی کنونش جس کی مظفر آباد شہر، جو
لاکھوں نفوس کی آبادی پر مشتمل ہے نے میزبانی کر کے تاریخ رقم کی ۔ ریاستی
عوام نے اپنی ما ضی کی تاریخ کو روایتی طور پر دہرایا اور نئی دھلی اور
پاکستان کے حکمرانوں کو لاکھوں کی تعداد میں کنونشن میں موجودہو کر یہ واضح
پیغام دیا ہے کہ ریاستی عوام کو دیوار سے نہ لگایا جائے دوسرا اہم پیغام یہ
دیاکہ مظفرآباد پوری ریاست جموں و کشمیر گلگت بلتستان جموں وادی کشمیر ،
لداخ ، اکسائے چن، سمیت پوری ریاست میں ڈھاکہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہاں قائد
کشمیر سردار عتیق احمد خان اور آل جموں وکشمیرمسلم کانفرنس موجود ہے ۔
منظورو ٹواور برجیس طاہر مظفرآبا کو 16دسمبر 1971والا ڈھاکہ نہیں بنا سکتے
جیسے نریند مودی چاہتا ہے۔ صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس سردار عتیق
احمد خان سخت جان بن کر ریاست جموں و کشمیر میں ان تمام دیدہ و نا دیدہ
قوتوں کا تنہا مقابلہ کر رہے ہیں جو پاکستان توڑنا چاہتی ہیں ۔ نظریہ
پاکستان ریاستی عوام سے چھین لینا چاہتی ہیں ۔ اور جو شیطان قوتیں ریاست
میں مسلح افواج پاکستان کے مقابلہ میں ہندوستانی افواج کو سلوٹ کرنا چاہتی
ہیں ۔ اس تاریخ ساز کنونشن میں سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق
احمدخان پانچویں مرتبہ مسلسل بلا مقابلہ صدر منتخب ہوئے موصوف آل جموں
وکشمیر مسلم کانفرنس کے نویں صدر ہیں ۔ اس سے قبل اس سیاسی جماعت کے
صدورمیں شیخ محمد عبداﷲ ، چوہدری غلام عباس ، میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ
، میاں ، احمد یار خان ،راجہ حید ر خان ، غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان
، مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان ، سردار سکندر حیات خان کے نام شامل
ہیں ۔ آل جموں و کشمیر کانفرنس ریاست جموں وکشمیر میں اپنی جدوجہد اور اس
کی قیادت عزائم کے لحاظ سے خطے میں ایک جدوجہد کی ہماجہتی طویل تاریخ رکھتی
ہے ۔ یہ سواداعظم سے ریاست جموں وکشمیر میں آل جموں و کشمیر کے سیاسی افق
سے آل جموں و کشمیر کانفرنس اور اس کی قیادت کو الگ کر دیا جائے توریاست
اور ریاستی عوام گھٹا ٹوپ اندھیر وں میں ڈوب جاتی دکھائی دے ۔ اس مختصر
مضمون میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور اس کی قیادت کے کردار کو قرطا
س پرکلی طور پر نہیں لایا جا سکتا کہ اس کام کے لیے کئی زخیم کتب درکار
ہیں۔ تاہم مختصرا کچھ علامتی طورپر عنوانات قائم کر کے ریاست میں آل جموں و
کشمیر مسلم کانفرنس اور ا سکی قیادت ہندوستان ، پاکستان ، چین اور اس طرح
کے دیگر ممالک اور وہاں کی سیاست اور حیثیت سے متاثر ہوئے ۔۔ یا ان کو
متاثر کیا کامختصر تذکرہ قارئین کی نظر کیا جائے ۔
آل جموں کشمیر کانفرنس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی تخلیق میں مماثلت
یکم اکتوبر 1906ء کو 35مسلمان رہنماوں کا ایک نمائندہ ودفد سرآغا خان کی
قیادت میں شملہ کے مقام پر واسرائے ہند لارڈ منٹو سے ملا ، ا س وفد میں ایک
بھی غیر مسلم نہ تھا ۔ 20سال قبل قائم ہونے والی آل انڈیا نیشنل کانگرس جو
ایک مسڑہیوم ریٹائرڈ انگریز ڈ سول ملازم نے قائم کی تھی تاکہ اس سیاسی
جماعت کے ذریعہ ہندوستانیوں کے جذبات انگریز حکومت تک پہنچتے رہیں اور
دوبارہ 1857ء جیسے غدر/ جنگ آزادی کا انگریز حکومت کو سامنا نہ کرناپڑے ۔
اس پلیٹ فارم سے کٹرمتعصب ہندونیشنل کانعرہ بلند کر کے ملت اسلامیہ ہندکو
ہر محاذمیں کچل رہی تھی ۔ اور مسلمانوں کی اپنی علیحد ہ کوئی سیاسی جماعت
نہ تھی ۔ آل انڈیا محمڈن ایجو کیشن کانفرنس بھی مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی
کر نے کے لیے نہ کافی تھی۔ تقسیم بنگال1905ء سے بنگالی مسلمانوں کو جو کچھ
فائدہ ہونا تھا ۔ پورا ہندوستان اس کے خلاف اٹھ کھڑ ا ہو ا۔ کانگریس پہلے
نمبر تھی ۔ برطانیہ میں وزیر ہند جان مورلے 1909ء کی دستوری اصلاحات کے لیے
اعلان کر چکا تھا ۔ برطانیوی ہند کی منتخب کانسلزمیں مسلمان اپنی الگ جماعت
کے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت پر سوالیہ نشان
لگ چکا تھا ۔ اردو ہندی تنازعہ ، متعصب ہندو ،اروندا گھوش، بی پی پال ،
لجپت رائے، دھر تلک اور سریندر ناتھ نے عملا محاربیت ( militanacy ( کے
ذریعہ دوقومی نظریہ کو مکمل طور پر تخلیق کر دیا تھا ۔ برہموسماج ، آریر ہ
سماج اور پرارتھنا سما ج کی تحریکوں کی مسلم دشمنی واضح تھی 30دسمبر 1906 ء
کو ڈھاکہ میں آل انڈیا محمڈن ایجوکشنل کانفرنس کے اجلاس ہوا نواب وقار
الملک مولوی مشتاق نے صدارتی تقریر میں مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے
اپنی علحید ہ سیاسی جماعت بنانے کی تجویز پیش کی ۔ نواب سلیم اﷲ خان آ ف
ڈھاکہ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کی باقاعدہ کاروائی عمل میں لائی ۔
تاکہ مسلمانوں اور حکومت کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کیا جائے ۔ مسلمانوں
کے سیاسی مفادات کا تحفظ اور ضروریات اور خواہشات کو حکومت کے سامنے پیش
کیاجا سکے اور ہندوستان کی دوسری قوموں کے ساتھ دوستی اس طرح کرنا کہ اپنے
مسلم لیگ کے مقاصد کو نقصان نہ پہنچے اس طرح برطانیوی ہند کے مسلمانوں
کوایک الگ سیاسی جماعت میں پرو دیاجائے تاکہ وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنا
سکیں ۔ آل انڈیا مسلم لیگ اپنے قیام سے 14اگست 1947قیام پاکستان تک
32سالانہ اجلاس منعقد کر سکی اور قائد اعظم کی قیادت میں اپنے عظیم مقصد کے
حصول میں کامیاب ہوئی ۔ جب کہ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس آزادی کشمیر
ااور اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی جدو جہد میں 83سالانہ اجلاس کر
چکے ہیں ۔ جس طرح ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیا م کے وقت ایک بھی غیر
مسلم نمائندہ موجو د نہ تھا ۔ اسی طرح سرینگر پتھر مسجد میں آل جموں وکشمیر
مسلم کانفرنس کے قیام کے وقت مسلمان نمائندوں کے علاوہ ایک بھی غیر مسلم
موجود نہ تھا کیو نکہ کے مسجد میں غیر مسلم کا داخل ہو کر بیٹھنا بھی تصور
میں نہیں آتا گویا ریاستی جماعت قیام کے وقت کی پاکیزگی اور ایمان داری اس
کی بنیاد یں تھیں -
بالکل ایسے ہی پس منظر میں برطانیوی ہند سے باہر ڈوگرہ خاندان کی ملکیتی
زرخرید ریاست جموں و کشمیر جس کی جغرافیائی سرحد یں برطاینوی ہند کے صوبہ
پنجاب اور سرحد سے ملتی تھیں/ہیں اس وقت 32 لاکھ مسلمان اس میں آباد تھے ۔
اقلیتی غیر مسلم ڈوگرہ حکمرانوں نے ان پر مظالم کی انتہا کر دی تھی جن کی
مثال تاریخ میں موجو دنہ ہے۔ ریاست سے باہر آل انڈیا نیشنل کانگریس اور آل
انڈیا مسلم لیگ نے جنوبی ایشیا سیاسی بیداری پیدا کردی تھی ۔ ملت اسلامیہ
ہند کی بیداری کا اثر قدرتی طور پر ملت اسلامیہ ریاست جموں و کشمیر پر پڑا
۔ 1921ء کو جموں کے چند نوجوانوں نے چوہدری غلام عباس کی قیادت میں ینگ
مینز مسلم ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی ۔ تاکہ اس کے پلیٹ فارم سے ریاستی
مسلمانوں کی فلاح و بہود کو پیش نظر( young men muslim association)ینگ مین
مسلم ایسوسی ایشن رکتھے ہوئے ۔ کارکردگی دکھائی جائے پھر اس کی شاخ شیخ
عبداﷲ کا اصرار پر سر ینگر میں بھی قائم کی گئی لیکن جن حالات نے فوری طور
پر اورسرُعت کے ساتھ ریاستی مسلمانوں کو تحریک آزادی کا راستہ دکھایا اور
جرات پیدا کی ۔ 1931ء کو انجمن اسلامیہ کے زیر اہتمام جموں میں میونسپل
کمیٹی کے باغ میں امام صاحب عید کی تقریر کر رہے تھے حضرت موسی علیہ السلام
اور فرعون کا قصہ سنا رہے تھے ۔ پولیس انسپکٹر نے جو تقریر کے نوٹس لے رہا
تھا اٹھ کھڑا ہا اور للکار کر خطبہ بند کرنے کا حکم دیا ۔ ریئس الحر ار
اپنی نو عمری میں اس دن کو ریاستی مسلمانوں کو یوم نجات قرار دیتے ہیں ۔
کیونکہ یہ مداخلت فی الدین تھی ۔ ینگ مین مسلم ایسوی ایشن نے احتجاج کی ۔
اس پر جلتی پر تیل کام اسی سال جموں سنٹرل جیل میں تو ہین قرآن کے مسئلہ نے
کیا ۔ روزنامہ انقلاب لاہورنے توہین قرآن پر اہم مضامین شائع کیے ۔
مسٹرویکفلیڈ وزیر ہری سنگھ کے ذریعے مہاراجہ سے ملاقات اور ریاستی مسلمانوں
کے مطالبات کا میمورنڈم پیش کیا گیا ۔ 13جولائی 1931کو سنٹر جیل سرینگر میں
21مسلمانوں بلاوجہ گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا ۔ چوہدری غلام
عباس نے لکھا کہ اگریہ دن کلینڈ ر میں موجود نہ ہوتا تو 1931ء سے ریاستی
مسلمانوں سیاسی تاریخ شروع ہوئی اور اب تک جارہی ہے اورآئندہ بھی جاری رہے
گی۔بالکل مختلف ہوتی عبدالقدیر کی ولولہ انگیز تقریر نے مسلمانوں کے دل میں
حریت کی آگ لگادی ۔ مسٹرویکفلیڈکے بعد راجہ ہری کرشن کول وزیر مقرر ہو ا۔
اس کے ساتھ کشمیر ی مسلمانوں کا ایک معاہد ہ ہوا اس معاہدے کی روسے کشمیر
یوں کو پہلی بار مہاراجہ اور وزیر ہری کر شن کول نے ایک فریق کے طور
پرتسلیم کر لیا ۔ اگست 1931کو سرینگر میں کشمیر ی مسلمان کے وفد کی مہاراجہ
سے ملاقات اور میمورنڈم کا پیش کرنا 3نومبر 1931ء کو جموں و کشمیر پہلا ہند
و مسلم فساد ڈوگرہ پولیس کی موجودگی میں ہوا جس میں سات مسلمان شہید ہوئے ۔
جس پر مڈلٹن کمیشن مقرر ہوا اور پھر ریاستی مسلمانوں پیش کر دو میمورنڈم پر
برجر دلال کمیشن مقرر کیا گیا ۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے مظلوم ریاستی
مسلمانوں کی مدد کی گلانسی کمیشن کا تقرر ہو اور اس کی رپورٹ بھی آئی پنڈت
پریم ناتھ بہزاز کا کردار بھی تاریخ کا حصہ ہے ۔ آل انڈیا کانگریس نے بھی
غیر مسلم ڈوگرہ بادشاہ کی وجہ سے ریاست میں مداخلت شروع کر دی 1931کے سال
تک ریاستی مسلمانوں کو یگ مین ایسوسی ایشن اس قابل بنا چکی تھی کہ وہ اپنی
سیاسی جماعت تشکیل دیں اب ریاست کی پرجھا سبا میں اپنی الگ نمائندے منتخب
کر کے بھیجیں جس کے لیے پہلے ریڈنگ روم جموں اور بعد میں ینگ مین ایسوسی
ایشن نے ریاستی مسلمانوں کو سیاستی طور پر بیدار کر دیا ۔ کرنل کالون ،
وجاہت حسین اور برجر دلال اقتدار میں آئے جو متعدل تھے ۔ان حالات میں ریاست
جموں وکشمیر میں مختلف صوبوں کو منتخب نمائندوں کو آئینی طور پر یکجا کرنا
ضروری تھا میں تحریک کشمیر ایک اسلامی تحریک کے طور پر نمایا ہوئی ۔ آل
انڈیا کانگریس کی کشمیر میں مداخلت کر رہی تھی۔
ریاست میں مندرجہ بالا تمام واقعات مراحل پر 32 لاکھ کشمیری مسلمانوں کی
نمائند گی کے لیے میں ایسوسی ایشن ہی اپنے الگ نمائندے منتخب کر کے بھیجیں
۔ جس کے لیے ریڈنگ روم جموں سے ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن نے جموں و سرینگر
ان کو تیار کر لیا تھا ۔ اب یہ ریاستی مسلمانوں کی بنیادی سیاسی تنظیم
نمائندگی کے لیے ناکافی ہو چکی تھی ۔ کیونکہ ینگ مین مسلم ایسوسی ایشن عملا
ًریاستی صوبوں کے مسلمان نمائندوں کو آئینی طور پر یکجا کر لیا تھا مہاراجہ
نے 32لاکھ ریاستی مسلمانوں کورعایا کے طور پر ایک فریق تسلیم کرلیا تھا ۔
ریاستی مسلمان سیاسی طور پر بیدار ہو چکے تھے ۔ ہندوستان سیاسی جماعتوں کے
کردار کا اثر ریاستی مسلمانوں پر مرتب ہو چکا تھا ۔ بنیادی انسانی حقوق کو
جرات سے حاصل کر نے کا گرُان میں آچکا تھا ۔ بذریعہ منتخب اسمبلی ممبران
ریاستی مسلمانوں نے اپنی نمائند گی کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔ مذہبی ،
معاشی اور انسانی بنیادوں پر مظلوم ریاستی رعایا اپنے حقوق حاصل کرنے کے
قابل ہو چکی تھی۔ ریاست سے برطانیوی ہند کے صوبوں میں ملت اسلامیہ سے
ریاستی ملت اسلامیہ کے تعلقات کو گزرے ہوئے حالات کے پیش نظر مضبوط بنانے
کی ضرورت تھی ۔ اس لیے اب کل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے ایک
سیاسی جماعت کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئی ۔15 ،16، 17نومبر1932 ء کوریاستی
مسلمانوں اکابرین نے سرینگر میں واقع پتھر مسجد میں سیاسی جماعت تشکیل دی ۔
اس کے ابتدائی مقاصد میں ریاستی مسلمانوں کی شناخت کو بحال و برقرار رکھنا
،آئینی لحاظ سے پوری ریاست کے مسلمانوں نمائندوں کوایک ہی سیاسی لڑی میں
پرونا ۔ملت اسلامیہ ہند کے ساتھ اپنی وابستگی قائم رکھنا ۔ مہاراجہ ہری
سنگھ سے مکمل حکومت خوداختیاری کے حصول کی جدو جہد کرنا اور ان پرغور کرنا
۔اور تمام ریاستی مذہبی اکائیوں ، اقلیتوں کے لیے بادشاہ کشمیر سے بنیادی
انسانی حقوق کے حصول کی جدو جہد کرنا ۔ اور ان کو ایک جھنڈے کے تلے جمع
کرنا تھا ۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کا باہمی تعلق جسمانی اور
روحانی ہر لحاظ سے اس میں گہرا اور لا زوال رہا۔ ریاستی مسلمان ڈوگرہ گردی
میں دبے ہوئے تھے ۔ پہلی عالمگیر جنگ کے خاتمے کے بعد تحریک خلافت شروع
نہرو کی متعصب تجویز دہلی کے جواب میں قائد اعظم کے مشہور چودہ نکات خالصتا
جنوبی ایشیا کے مسلمانوں اور اقلیتوں کے حق میں سیاسی معاشی مطالبات تھے
۔1930 کو مصور پاکستان علامہ اقبال نے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے روشن
مستقبل کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ کے 21ویں سالانہ اجلاس میں بطورصدر تاریخی
خطبہ ارشاد فرمایا ۔ خطبہ آلہ آباد کے سالانہ اجلاس کو ایک سنگ میل کی
حیثیت حاصل ہے ۔ 1924ء ،1931(مشہوگومیز کانفرنس کے احوال ریاست میں ینگ مین
اسویسی ایشن بغور دیکھتی رہی )اوریہ سارے واقعات ریاست جموں و کشمیر کی ملت
اسلامیہ کو متاثر کرتے رہے ۔ جس طرح صدر آل جموں و کشمیر کانفرنس سردار
عتیق احمد خان آج مملکت خدا داد پاکستان کو طاقتور اور مستحکم بنانے کے
مطالبات کر رہے ہیں ۔ ینگ مین ایسوسی ایشن بھی غلامی تلے دبے کشمیری بھی
چاہتے تھے ،کہ آل انڈیا مسلم لیگ اور اس کی قیادت مضبو ط اور طاقتور ہو تو
ریاستی عوام کا مستقبل بھی محفوظ ہو گا ۔ نومبر 1932ء میں یہی ینگ مین
ایسوسی ایشن آ ل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس بن گئی ۔ اب ریاستی عوام کا
تاریک دور آئے روزختم ہو تا نظر آنا شر و ع ہو ا۔ 1934ء میں قائد اعظم وطن
واپس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی ۔ 54مسلم قائدین پر مشتمل آل
انڈیا مسلم لیگ کا پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا ۔ 1937ء میں مسلم لیگ اس وقت
ایک قو ت بن گئی ۔ جب پنجاب، بنگال اور آسام کے وزرائے اعلی سردار سکندر
حیات ، مولوی فضل الحق اور سرسعید اﷲ خان نے جناح کو اپنا متفقہ قا ئد
تسلیم لیا ۔ اس سے کشمیر یوں کے حوصلے بلند ہوئے ۔ جولائی 1937ء کو
برطانیوی ہند کے چھ صوبوں میں کانگریس نے حکومتیں قائم کیں ۔ ان چھ صوبوں
میں کانگریس نے جو عوام کے لیے سرکاری پالیسی اپنائی اور نافذکی ریاست جموں
وکشمیر میں ڈوگرہ حکمران کی پالیسیوں نقشہ تھا ۔ گائے کے گوشت پر پابندی
آذان اور عیدین کے خطبوں پر پابندی مسجد وں کی بے حرمتی کرنا ،تاریخ میں
پیر پوررپورٹ میں اس کا نقشہ پیش کیا گیا ۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفر نس
نے ان سب کا جائزہ و موازنہ کرتی رہی ۔ یہا ں تک کہ مارچ 1940ء کو آل انڈیا
مسلم لیگ کا سالانہ کنونشن قائد اعظم کی صدارت میں لاہور میں منعقد ہوا۔ تب
تک جنوبی ایشیا میں قائد اعظم کو تمام مسلمانوں طبقوں نے اپنا رہنما تسلیم
کر لیا تھا ۔ ریاستی مسلمان کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ اس تاریخی اور ولولہ
انگیز اجلاس میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفر نس کے ممتاز نمائندوں نے جن
میں سردار گل احمد کوثر ،سید حسین شاہ گردیزی اور دیگر اکابرین نے منٹو
پارک لاہور میں قرارداد پاکستان کے جلسے کی کاروائی خود دیکھی ۔ اس اجلاس
کے بعد اس قرارداد کو ہنداوں نے قرارداد پاکستان بنادیا ۔ اور مسلمانوں کی
زبان پر نعرہ تھا ۔ " بن کے رہے گا پاکستان " لے کے رہیں گے پاکستان " آل
جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور آل انڈیا مسلم لیگ کا باہمی رشتہ اور مقام
کا اگر درست تعین کیاجائے ۔ تو 1944ء میں بابائے قوم حضرت قائداعظم کا
تاریخی کشمیر ی دورہ اور موسم گرما ء کی تعطیلات کا دورانیہ جو اڑھائی ماہ
پر مشتمل تھے۔ قیام پاکستان کے لیے جب دوقومی نظریہ واضح دلائل کے ساتھ
تسلیم کیاجانے والا تھا ۔ دوسری جنگ اختتام کے قریب تھی ۔ اور انگلستان میں
چر چل کی حکومت کا خاتمہ سامنے تھا ۔ 1946ء میں برطانیوی ہند کے صوبوں میں
مرکزی اور صوبائی اسمبلی کے انتخاب کی مہم چل چکی تھی ۔ آل انڈیا مسلم لیگ
کو اپنی حریف آل انڈیا نشنل کانگریس سے سخت جان مقابلہ درپیش تھا ۔ ایسے
حالات میں ممکن حد تک قائد اعظم کو برصغیر کی ایک وارڈ کی حد تک بھی آل
انڈیا مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کے لیے عوامی رابطہ مہم کی ضرورت تھی ۔
برصغیر کی سیاسی گہما گہمی عروج پر تھی ۔ آل انڈیا نیشنل کانگریس بھی ریاست
میں ہندوبادشاہ کی وجہ سے مداخلت کر رہی تھی ۔ نہروریاست میں اپنی پارٹی
قائم نہیں کر سکتا تھا ۔ کیونکہ یہاں اکثریت مسلمانوں کی تھی ۔ اس کانفرنس
میں مولانا آزاد اور سرحدی گاندھی کے ذریعہ شیخ عبداﷲ کو نیشنل تو بنایا
لیکن کانگریسی نہ بنا سکتا تھا ۔ اسکے کے مقابلہ میں دو قومی نظریہ سچ اور
حقیقت ہے ۔ آج نایندر مودی ،ہندو توا ، شیوسنہا اور راشر یا سیوں سنگھ،
ہندوستان میں اقلیتوں کا جو حشر کر رہے ہیں۔ بابائے قوم کے الفاظ آج بھی سچ
اور حقیقت ہیں ۔ مئی 1944ء کا قائد اعظم بحیثیت صدر آل انڈیا مسلم لیگ
ریاست جموں و کشمیر میں سوچیت گڑھ سے داخل ہوئے ۔ اور تیسرے روز سرینگر
پہنچ پائے ۔ اور پھر روانگی کے لیے براستہ مظفرآباد قیام کے بعد کوہالہ سے
26 جولائی کو ہندوستان میں داخل ہوئے سوچیت گڑھ سے سرینگر تک بابائے قوم کا
جو استقبال ہوا۔ ریاست کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی ریاستی
جغرافیہ نے ماضی میں کسی بھی شخصیت کے استقبال کی جھلک دیکھی ہو ۔ جموں میں
لوگوں کے سمند ر امنڈآ یا اور وادی میں کوئی بھی شخص اپنے گھر میں نہ رہا ۔
اس استقبال کودیکھ کر قائد اعظم نے فرمایا ، کشمیر یو آپ نے میرا شاہی
استقبال کیا ہے ۔ (Royal Welcome) ریاست میں مہاراجہ ہری سنگھ کے باپ
داداوں کی تا پر جوش کے موقع پر ایسا استقبالی منظر نہیں دیکھا گیا ۔ ریاست
میں صدر آ ل انڈیا مسلم لیگ کی موجودگی میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس
کا سالانہ اجلاس چوہدری غلام عباس کی صدارت میں دو یوم جاری رہا ۔ جب پہلی
رات والے اجلاس میں غلام عباس نے خطاب کیا تو قائد اعظم نے جانے کے لیے
اپنی موٹر کار پر بیٹھتے ہوئے چوہدری صاحب کو مبارک باد پیش کی ۔ اور
انگریزری میں فرمایا I congratulate you on your prsidential speech. it
was excellent. دوسرے روز رسمی کاروائی سے قبل آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس
کی وسا طت سے اسلامیاں ریاست کی جانب سے صدر آل انڈیا مسلم لیگ کی خدمت میں
ایک سپاس نامہ پیش کیا گیا ۔ 1936ء کے بعدانیس الحرار کو یہ دوسرا موقع ملا
کہ قائد اعظم کو سپاس عقیدت پیش کریں ۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے
86وا ن سالانہ کنونشن چوہدری غلام عباس کوصدارت کی بجائے سردار عتیق احمد
خان کی صدارت میں منعقد ہو ا۔ اس کنونشن کی قرار دادوں کی زبان اور قائد
اعظم کی خدمت میں انیس الحرار کا پیش کردہ سپاس نامہ ایک ہی ہے ۔ فرق 1944ء
اور 2015ء کے ز مانہ کا بے مماثلت ان ہر دو کنونشنز کی شرکاء کی تعداد کے
لحاظ سے یکسا ہے ۔ ایک لاکھ سے زائد افراد نے کنونشن شرکت کی ۔ ویسا ہی
جذبہ آج بھی اسلامیا ں ریاست مظفرآباد میں دیکھنے کو ملا ۔ اسلامیاں ریاست
نے صدر آل انڈیا مسلم لیگ کا جس طرح استقبال کیا ۔ بابا ئے قوم اگر غیر
سنجیدہ ہوتے ، ہندولابی کے زیر اثر ہوتے تو ریاستی عوام سے بعض اور ذاتی
لالچ اور شہرت کا جذبہ ہوتا تو فوری طور پر میاں نواز شریف کی طرح مسلم لیگ
ن کے قیام کا اعلان کر تے کہ اس کی اسی وقت بہت ضرورت تھی ۔ اور اگر ریاست
جموں وکشمیر کے حالات مخصوص نہ ہوتے تو مسٹر شیخ عبداﷲ کے ذریعے آ ل انڈیا
نیشنل کانفرنس بنا لیتے کیونکہ آ ل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ہی اس وقت
اور آج ریاست جموں وکشمیر ہی ہے ۔ مسلم کانفرنس کے سالانہ کنونشن میں قائد
اعظم نے اردومیں تقریر فرمائی تھی ۔ آ خر میں جس جملے پر بابائے قوم نے
تقریر ختم کی ۔ اس میں فرمایا "میں چوہدری عباس صاحب اور مسلمانان ریاست کو
یقین دلاتا آل انڈیا مسلم لیگ اور ہندوستان کے مسلمانوں کی خدمات ان کے
قدموں میں ہیں" ۔ ایک موقع پر چوہدری غلام عباس کی مخاطب ہو کر فرمایا کہ
چوہدری صاحب ریاستی عوام کا تحفظ کرنا آپ کی ذمہ داری ہے ۔ سرچیت گڑھ سے
ریاست کا سفر شروع کر کے اڑھائی ماہ بعد کوہالہ سے ریاست چھوڑ کر ہندوستان
میں داخلے تک قائد اعظم نے ریاست جموں وکشمیر میں آل انڈیا مسلم لیگ کے
قیام کے لیے کوئی اشارہ نہ کیا ۔ کوئی واضح بات نہ کی کوئی واضح اندیا نہ
دیا ۔کہ آل انڈیا مسلم لیگ بھی ریاست کشمیر میں قائم کی جائے ۔ بلکہ 32لاکھ
مسلمانوں کو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے ایک جھنڈے ، ایک نعرے اورایک
پارٹی اور ایک رہنما کی قیادت کے سائے تلے متحد ہ ہو جانے کی صلاح دی تھی۔
بابائے قوم نے اسلامیاں ریاست کو واضح وارن کیا کہ مہاراجہ کشمیر سے آپ جو
حقوق مانگ رہے ہو۔ یہ کوئی کیک نہیں کہ مہاراجہ آپ کے سامنے رکھ دے گا ۔
اور آپ کا ٹ کر کھاتے جائیں گے ۔ اس کے لیئے آپ کو متحد ہو کر قربانی دینا
پڑے گی ۔ کشمیری آج تک قربانی دے رہے ہیں کہ بابا نے کہا تھا 6لاکھ سے زائد
افراد شہید ہو چکے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے
مسلمان تسلسل کے ساتھ قربانی دے رہے ہیں ۔ بدقسمتی سے پاکستان کے حکمران کو
متحد نہیں ہونے دیتے ۔ 1947وزیر بے محکمہ نواب مشتاق گرمانی نے چوہدری غلام
عباس اور سردار ابراہیم خان کے درمیان اختلاف ڈالاتقسیم کرو اور حکومت کرو
کی پالیسی اپنائی زرداری کا منظور وٹو اور جناب نواز شریف کا برجیس طاہر
آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں کرو اور حکومت کرو کی کشمیر کی قاتل پالیسی
پر کامزن ہیں۔ برجیس طاہر کشمیر کو پاکستان سے کاٹ دینا چایتے ہیں۔ نہ ایک
جھنڈے تلے جمع ہونے دیتے ہیں اور نہ ہی ایک رہنماکے ساتھ اسلامیان ریاست کو
کھڑ ا دیکھنا چاہتے ہیں ۔شملہ معاہدے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور
پھرپاکستان مسلم لیگ نے ایک درجن تک مسلم لیگیں قائم کی رکھی ہیں ۔ کیا یہ
قائد اعظم کی کشمیر پالیسی ہے ؟ ریاست جموں و کشمیر میں آل جموں و کشمیر
مسلم کانفرنس کو تقسیم کر کے جناب نوا ز شریف ریاست کی کیا خدمت کر رہے
ہیں؟کیا یہ قائد اعظم کی کشمیر پالیسی یہی ہے ؟ یو ۔ این ۔ او کے فورم پر
جناب نواز شریف سب کیا یہ منافقت اور جھوٹ قائد اعظم کی کشمیر پالیسی ہے ۔
ریاست جموں وکشمیر ابھی تک آزادی کے دورے پر کھڑی ہے ۔ جس کا فیصلہ ریاستی
عوام نے کرنا ہے ۔ ان کی تحریک کو کچلنے کے لیے ہندوستان کی کانگریس اور
بھارتی جنتا پارٹی کافی نہ تھی ۔ کہ اسی ایجنڈے پر جناب میاں نواز شریف بھی
چل پڑے کیا ہندوستان کشمیر کو متنازعہ تسلیم کر لیا تھا ۔ جناب نواز شریف
جھوٹ کے بجائے سچ بولیں ۔ اور کشمیر یوں کو بتائیں کہ انہوں نے بحیثیت
حکمران مسئلہ کشمیر دفن کر دیا ہے ؟ کیا انہوں نے قائد اعظم کی کشمیر
پالیسی ترک کر دی ہے ؟ موصوف نے کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ دینے والی
سیاسی جماعت کو کسی کی خوشنودی کے لیے تقسیم کر کے یہاں ن لیگ قائم کی ؟
وادی میں نعرہ لگا رہے ہیں ۔ ـ"تیر ی جان میری جان پاکستان پاکستان اور سپہ
سالار مسلم افواج پاکستان جناب جنرل رحیل شریف (اﷲ ان کی زندگی میں برکت دے
)کی 8لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں جان ہتھیلی پر رکھ کر تصاویر آویزاں
کر رہے ہیں ۔ جناب نواز شریف یہ تو بتا دیں کہ انتیس اعرار چوہدری غلام
عباس مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس
سردار عیتق احمد خان نے نظریہ پاکستان اور پاکستان سالمیت کے خلا ف ریاست
جموں وکشمیر میں کسی غلطی کے مرتب ہوئے ؟ وزیر امور کشمیربرجیس طاہر کا یہ
کہنا کہ ریاست میں کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگتا ہے تو ہمیں اس کی
بھاری قیمت چکاناپڑتی ہے ۔ صرف ریاست کے شمالی ضلع کپواڑہ میں بیوہ ہونے
والی مسلمان خواتین کی طرح برجیس طاہر کی بیو ی بیوہ ہوتی ہے ۔ کیا برجیس
طاہر کی بیوی بیوہ ہوتی ہے ۔ ( یا برجیس طاہر کا بیٹا بھارتی فوجیوں کے
ہاتھوں ہلاک ہو جاتا ہے ؟ یہ سب قربانی ریاستی عوام دے رہے ہیں۔ پاکستان کی
خاطر ریاست جموں وکشمیر میں آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اور کانفرنسی
قیادت کے خلاف وزیر امو ر کشمیر اور کشمیر کونسل سازشیں کیوں ۔ کشمیر کو
پاکستان سے توڑنے کے اقدامات ریاستی عوام اور قیادت کو دیوار کے ساتھ لگانا
کیا پالیسی ہے ؟ وزیر امور کشمیر کو معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر کو پاکستان
سے توڑنا پاکستان کو توڑنے کے مترادف ہے کہ 2کروڑ کشمیر ی قوم اور پاکستان
کے صوبہ خیبر پختونخواہ سے ڈیڑھ گنا بڑی ریاست کو ابھی پاکستان کا حصہ بننا
ہے ۔ یہ اسی لیے کہاجناب کمانڈر احیل شریف مسلح افواج پاکستان نے یوم دفاع
کے موقع پر واضح اور بر ملا کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان کی تکمیل کا نامکمل
ایجنڈا ہے ۔وزیر امور کشمیر جناب برجیس طاہر اور کشمیر کونسل اپنے طرز عمل
سے کشمیر کو پاکستان سے توڑنا چاہتے ہیں تو اچھا ہے ۔ آل جموں وکشمیر مسلم
کانفرنس اور قائد کشمیر صدرآل جموں وکشمیر سردار عتیق احمد خان مظفرآباد کو
ڈھاکہ نہیں بننے دیں گے ۔ جموں کوچٹا گانگ اور سیلٹ نہیں بننے دیں گے ۔
وادی کشمیر اور مدرخ کو راجشاہی اور کو میلا نہیں بننے دیں گے ۔ گلگت اور
بلتستان کو بار سال اور میمن سنگھ نہیں بننے دے گئے ۔ مراکسلہ نئے میں اور
سیا چین کو دریائے برہم پتر ڈیلٹا نہیں بنے دیں گے ۔ پاکستان کے بزدل ،
کرپٹ حکمرانوں کویہ تو معلوم ہو نا چاہیے کہ وہ آل جموں و کشمیر مسلم
کانفرنس اور اس کی قیادت کے مقابلے میں ضعیف اور کمزور ہیں ۔ ان کے خلاف
سندھ میں بلوچستان میں عنصر پایاجاتا ہے ۔ کے پی کے ان کے خلاف نفرت ہے
کشمیر میں ان کے خلاف صرف ایک پتلا جلایا جائے تو اسلام آباد ان کے تنگ ہو
سکتا ہے ۔صدر آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس سردار احمد خان کی سیاسی بصیر ت
اور جرات کو کشمیر خراج تحسین پیش کر تے ہیں ۔ ریاست تاریخ کو دہرایا اور
تازہ کیا ہے۔ جہنوں نے اپنی اور غیر و کی دشمنی کے درمیان 16نومبر 2015ء کو
آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کا 83 سالانہ کنونشن بنا کہ ریاست میں
اسلامیان ریاست تاریخ کو دہرایا اور تازہ کیاہے ۔ یہ کونشن 1938ء کو جموں
میں منعقد ہونے والے آل جموں و کشمیر کانفرنس کے کنونشن کی یاد تازہ کر
دینے والا تھا۔ پھر 7تا 9اپریل کو جموں میں عظیم کنونشن جس میں پہلی دفعہ
پاکستان زندہ باد ، قائد اعظم زندہ باد کا نعرہ ریاست کی سرزمین پر بلند
ہوا۔ 83وین کنونشن مظفرآباد جولائی 1944ء کو سرینگر میں قائد اعظم کی
موجودگی میں منعقد ہونے والے کنونشن کی یاد تازہ کر دی ۔ جنرل رحیل شریف نے
خود اس کنونشن کشمیر بنے گا پاکستان ، پاکستان زندہ باد ، مسلح افواج
پاکستان زندہ باد اور نعرہ تکبیر اﷲ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے وادی
مظفرآباد کونج اٹھے یہ کنونشن تاریخی تھا۔
آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اور مسلح افواج پاکستان
ریاست میں ہندووں کی انتہاپسند دہشت گرد تنظیمیں ار۔ ایس ۔ ایس ۔ شیوسہنا
اور جن سنگی غنڈے ریاست کو بروز ہندوستان میں شامل کرنے اور اسلامیان ریاست
کو ہراساں کرنا، قتل کرنا ،ریاست چھوڑنے پر مجبو ر کر نا ان کا وطیرہ تھا ۔
ہنداوں کو ڈوگرہ بادشاہ کی پالیسی کے تحت مسلح کرنا اور مسلمانوں کو اسلحہ
سے دور رکھنا تھا ۔ ریاست پونچھ کے4 لاکھ لوگوں کا غیر مشروط طور پر آل
جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں شامل ہونا سیاسیات کشمیر میں ایک نیاموڑ تھا
۔ دوسری عالمی جنگ نے صرف پونچھ میں 60,000(ساٹھ ہزار )سے زائد فوجی تیار
کیے ۔ جن میں مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم بھی شامل تھے ۔ جنگ کے دوران
موصوف فلسطین میں تعینات تھے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد و طن واپس آئے تو ڈوگرہ
حکمران ریاستی مسلمانوں کی فوجی قوت سے کچل رہا تھا ۔23سالانہ نوجوان سردار
محمد عبدالقیوم خان نے باقاعدہ مسلم جدوجہد کی کمان شروع کی ۔ باغ بریگیڈ
کی بنیاد ڈالی جو بعد میں عسا کر پاکستان کی ایک رجمنٹ آزادکشمیر رجمنٹ
فورس کی بنیاد بنا ۔جناب مجاہد اول نے نیلا بٹ سے باقاعدہ مسلح جہاد آزادی
کشمیر کا آغاز کی ا۔ ایک ملاقات میں مجاہد اول نے فرمایا کہ ان کی زندگی
میں فوج سے تعلق ایک روحانی تھا ۔ یہ وقتی تھا اورنہ ہی کسی مصلحت کی بنیاد
پر تھا ۔ ریاست جموں و کشمیر میں سوائے مسلح جہاد کے اور کوئی نہ رہا ۔ جس
سے ہند و بنیے کو سبق سکھا یا جا سکے ۔ ہندو فریب اور مکاری سے کا م لیتا
ہے ۔ کوئی سیدھی سادھی بات کسی غیر ہندو سے نہیں کرنا ۔ نہ کسی قول و قرار
کا پابند ہوتاہے۔ مجاہد اول مسلح افواج پاکستان کے ساتھ احترام اور محبت کے
جذبات رکھتے تھے۔ موصوف نے آزاد کشمیر میں اپنے دورحکومت میں تعلیمی اداروں
میں صبح ا سمبلی میں پاکستان زندہ باد اور مسلح افواج پاکستان زندہ باد اور
کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ دے کر پوری ریاست میں تحریک آزادی کشمیرکو
زندہ کیا ۔ صدر آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس سردار رعتیق احمد خان کا یہ
پختہ موقف ہے کہ پاکستا ن کمزور ہو تو مسئلہ کشمیر کا حل نا ممکن ہے ۔
اسلئے 1995ء سے پاکستان میں ملٹری ڈیموکریسی کی بات کرتے ہیں ۔ 16دسمبر
2015ء کو پشاور اے پی ۔ ایس میں شہدا کی یادمیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے
چیئر مین جائنٹ چیفس جنرل راشد محمود نے سردار عتیق احمد خان کے مو قف کی
وضاحت کر تے ہوئے کہا "حکومت اور فوج کسی مقابلے میں شریک نہ ہو۔ اپنے اپنے
دائرے میں مکمل سرگرم رہیں۔ او ر ایک دوسرے کی طاقت بنیں ۔ کہ اسی سے ملک
طاقتور ہو گا۔ اس سے صاف ظاہر ہو تا ہے کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے
پاکستان میں موجود ہر محب وطن شخص صدر آل جموں وکشمیر سردار عتیق احمد خان
کے موقف کی تائید کر تاہے ۔ ریاست میں آل جموں و کشمیر کانفرنس اور مسلح
افواج پاکستان ہندو ستان کو شکست دے کر پوری ریاست کو آزاد کر وا کر اس کا
الحاق پاکستان سے کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے صدر مسلم کانفرنس سردار عتیق
احمد خان جناب جنرل راحیل شریف قد آدم تصاویر اپنے کنونشن میں آویزاں کر تے
ہیں ۔ اور مسلح افواج پاکستان زندہ کا نعرہ بھی بلند کر تے ہیں۔ جناب
نوازشریف نے بطور وزیر اعظم جملہ کبھی نہیں ادا کیا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان
کی تکمیل کا نامکمل انجنڈا ہے ۔ بلکہ سپہ سالار مسلح افواج پاکستان جنا ب
جنرل راحیل شریف نے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار اہم تقریبات میں فرمایا ہے
کہ مسئلہ کشمیر تکمیل پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے ۔ 6 ستمبر 2015کو یوم
دفاع پا کستان کے موقع پر شام جی ۔ ایچ کیو میں ایک اہم تقریب میں اٹیمی
پاکستان کی افواج کے سربراہ نے بڑی پررعب آواز میں ہندو ستان کو للکارا ۔
او رکولڈ سٹارٹ ۔ ہاٹ سٹارٹ ، روایتی اور غیرروایتی کسی بھی جنگ کے لیے بات
صاف کی ۔ کہ ہم تیار ہیں ۔ ساتھ ہی دہرایا کو مسئلہ کشمیر تکمیل پاکستان
نامکمل انجیڈا ہے ۔ جنرل صاحب کی تقریر سے دو کروڑ کشمیر قوم کو نیا حوصلہ
ماہر ہے ۔ حقیقت میں 6ستمبر 2015 کو کشمیر کی آزادی کا اعلان ہو چکا ۔کیوں
کہ ہندوستان اب کشمیر کی وجہ سے پاکستان پر حملہ کرنے کی طاقت کھو چکا ہے ۔
کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کے مقابلے میں مسلح افواج پاکستان کی ٹیکٹیکل ہتھیاروں
کا ڈاکٹر ائن زیادہ موثر ، کارگر اور دشمن کے لیے تبا ہ کن ہے ۔ بڑے اور
چھوٹے ملک کے تصور کو ڈکٹر عبدالقدیر خان کی اٹیمی اسلحہ کی میزائل
ٹیکنالوجی نے مٹا دیا ہے ۔ گزشتہ دنوں خان کو ٹ بھارتی ایئر بیس پر حملہ
میں جن مسلح آزادی پسند گروپ نے حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے اس کے ترجمان
نے صاف کہا کے اس حملے میں پاکستان کو کوئی ہاتھ نا ہے ہم بھارت کو یہ
پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ریاست جموں وکشمیر میں اپنی آٹھ لاکھ مسلح افواج کے
ذریعے نہتے کشمیر یوں کا قتل عام بند کر دے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی
کمشنر عبدالباسط خان نے واضح طور پر کہا ہے کہ ریاست جموں وکشمیرمیں حریت
کانفرنس بااختیار اور قیادت اس وقت ریاست میں موجود پوری حریت کانفرنس کی
بنیاد ہے ۔ اس لیے ریاست جموں وکشمیر میں کسی بھی بڑے قومی اور ملی تنازعے
کی تصفیے اور فیصلے کے لیے آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اور حریت کانفرنس
ہی فیصلہ کن رول ادا کرے گی۔ کہ یہ ریاست میں ملت اسلامیہ کا مر کزی قومی
دھارا ہے ۔ (streamline) یہی وجہ ہے ۔ کہ آل جموں و کشمیر مسلم کا نفرنس کے
83، ویں سالانہ کنونشن میں مسلح افواج پاکستان ، جنرل راحیل شریف کی تصاویر
اور پور ی حریت کا نفرنس کی قیادت کے لئے خیر مقدمی پرچم ،تصاویر اور اس
وقت ریاست جو مختلف ٹکڑ وں میں ہے کے اتحاد کے لئے بینرز اور فلک شگاف نعرے
اور سب کچھ ملا کر مسلح افواج پاکستان ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے ہے ۔
ہندوستان مشرق پاکستان توڑنے کے تجربے کو ریاست میں دہرا رہا ہے ۔ وہاں نئی
مکتی باہمنی کی شکل میں گاوں کی سطح پر دفاعی کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں ۔
(village Defence commettees) مسلمانوں سے اسلحہ چھین کرتھانوں میں جمع کر
نا یا اس کو غیر مسلموں میں تقسیم کر نا ہے ۔اسی طرح 1947ء میں ڈوگرہ
حکمران مسلمانوں سے ہتھیار چھین کر ہنداوں کو مسلح کر کے اور ان کے ہاتھوں
مسلمانوں کو تباہ کرنا شروع کر دیا تھا ۔ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اور
پوری حریت کانفرنس جموں وکشمیر میں مسلح افواج پاکستان کا ہر اول دستہ ہے ۔
اس لیے جنرل راحیل شریف کی 6ستمبر 2015کی تقریر کے بعد پوری مقبوضہ ریاست
میں جنرل صاحب کی تصاویر اور پاکستان کا سبز ہلا لی پرچم لہرایا جار ہا ہے
۔ حتی کہ مرحوم وزیر اعلی مفتی سعید کے مکان واقع بیجباڑہ پر بھی پاکستان
کا پرچم لہرایاگیا ، پاکستانی حکمرانوں کے تو کشمیر یوں کے خلاف بیانات اور
اقدامات ریکارڈ پرہیں ۔جناب آصف زرداری صاحب جب صدر پاکستان بنے تو فرمایا
کہ کشمیر میں دہشت گر د ہیں ۔ پھرکسی گرفت پر چیخ ماری کہ جنرل صرف 3سال کے
لئے ہے ۔ ہم نے یہاں ہی رہنا ہے پھر فرمایا کہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔
پھر فرمایا کہ مسلح افواج پاکستان مقدس گائے ہے ۔ پھر ایم ۔ کیو ۔ ایم کے
لیڈرز نے تو باقاعدہ اور مسلح افواج ہندوستان سے مدد مانگی ہے اور مسلح
افواج پاکستان کے خلاف بر سرے عام تقاریر کی ، پاکستا ن کے موجودہ وزیر
اعظم کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ ۔ واضح الفاظ میں کسی کی بھی تردید کر سکیں ۔
ایسے حالات میں صدر آل جموں وکشمیر مسلح کانفرنس سردار عتیق احمد خان مسلح
افواج پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں ۔ تو کیا پاکستان حکمرانوں اور
سیاسی رہنماوں کے مسلح افواج پاکستان کے خلاف ہر زہ سرائی قابل تعریف ہے ۔
یا پھر ملکی بقاء کے لیے کہاں تک فائدہ مند ہے۔ سردار عتیق احمدخان صدر آل
جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کا یہ موقف کتنا مضبو ط اور موثر ہے کہ پاکستان
میں مسلح افواج اور سول لیڈر شپ باہم اتحاد ، محبت اور احترام سے طاقتو ر
حکومتیں قائم کریں ۔ تاکہ ریاست جموں و کشمیر بھی آزاد ہو سکے ۔ سابق
پاکستان فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل ا محمد اصغر خان نے اپنی تصنیف (we
have learnt nothing from history ) میں سردار عتیق احمدخان کے موقف کے
مطابق تحریر کرتے ہیں۔ کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو جاتا پاکستان میں
سول و ملٹری قیادت کی گہری اور مضبوط دوستی ضروری ہے۔ مسلح افواج اور سول
لیڈر شپ کے باہمی داخلی جھگڑوں کا سب سے زیادہ فائدہ ہندوستان کو پہنچتا ہے
۔پاکستان میں ملٹری اور سیاسی لیڈر شپ کے باہمی جھگڑے کی ہی وجہ سے 16دسمبر
1971کو ڈھاکہ فال ہوا ہندو لابی ہی پاکستان کے داخلی انتشار سے بھر پو ر
فائدہ اٹھا کر مملکت خداداد پاکستان کو نقصان پہنچاتی ہے پاکستان کے
حکمرانوں کو خاص کر وزیر امو کشمیر کو کشمیر توڑنے کی پالیسی ترک کر دینی
چاہیے ۔ 2016 کے انتخابات کے لیے بھمبر سے جناب نواز شریف کے وزیر وں
مشیروں کی ایک فوج جو کشمیر کونسل کے پیسے سے لیس ہے مہم شروع کر چکے ہیں۔
یہی برجیس طاہر ہے جس نے بلوچ کے ضمنی انتخابات میں کشمیر یوں کو کیڑے
مکوڑے کہا تھا۔ اب وزیر اعظم آزادکشمیر کو بکرا کہہ رہے ہیں۔ راجہ فاروق
حیدر خان جس کو اب دلاسے دے کر وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں کل یہی پنجابی
انہیں کوہستانی گدھا پکارئیں گے۔ ریاستی تشخص عزت واحترام کا ان گجراتی
بیلوں نے جنازہ نکال دیا ہے۔ مسلح افواج پاکستان کو ریاست جموں وکشمیر میں
کمزور کرنے کے لیے یہ ہندوستانی ایجنٹ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں خانہ
جنگی شروع کروانا چاہتے ہیں۔ یہ ایسی خانہ جنگی ہوگی۔ جس پر مسلح افواج
پاکستان بھی قابو نہ پاسکیں گی۔ بھارت کی آلہ کار قوتیں ریاست جموں وکشمیر
کو اسی طرح توڑنا چاہتی ہیں ۔ جس طرح 16ستمبر1971کو مشرقی پاکستان کا ڈھاگہ
الگ ہوا تھا۔ مسلح افواج پاکستان آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اور پوری
حریت کانفرنس ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ مسلح افواج پاکستان کی قربانیوں سے
ہی ملک کی سلامتی اور بقاء ہے۔ ورنہ افغانستان ، مقبوضہ کشمیر ، عراق، شام
، لبییا کی مثالیں 2کروڑ کشمیری قوم کے افراد کے سامنے ہیں آل جموں وکشمیر
مسلم کانفرنس اور صدر آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان
مجاہد اول کے ویژن کے مطابق مملکت خدادداد پاکستان کی حفاظت کے لیے اپنی
جانوں کا نظرانہ پیش کرتی رہے گی۔ اور ملت اسلامیہ پاکستان کے لیے اپنے خون
کا آخری قطرہ تک پیش کرنے میں کوتائی نہیں کریگی۔
موجود ہ حالات میں مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں علامہ اقبال اور قائداعظم
کے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم سربراہ افواج پاکستان جناب جنرل راحیل شریف
کی تصاویر اور مجاہد اول سردار محمد عبد القیوم خان کا کشمیر بنے گا
پاکستان کا نعرہ بلند ہو رہا ہے۔ اس سے مسلح افواج پاکستان اور پاکستان کے
ساتھ آل جموں و مسلم کانفرنس کی وابستگی اور کیا ثبوت ہوگا۔ |