وسیلہ کیا ہے؟ مفہوم، اقسام و شرعی احکام - 3
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
وسیلہ کیا ہے؟ مفہوم، اقسام و شرعی احکام - 3
ازعثمان احمد حفظہ اللہ
February 6, 2016
دليل نمبر ۳
﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا
اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا
رَّحِيمًا﴾ (النساء 64:4))
”اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو
آپ کے پاس آئیں، پھر اللہ سے معافی مانگیں اور ان کے لیے اللہ کا رسول بھی
معافی مانگے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور نہایت
رحیم پائیں گے۔“
تبصرہ : اس آیت مبارکہ سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ گناہ گار لوگ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ خود اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی
مانگیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے
معافی کی سفارش کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا۔ ہم بتا چکے ہیں
کہ زندہ لوگوں سے دعا کرانا تو مشروع وسیلہ ہے۔ اس میں کسی کو کوئی اختلاف
ہی نہیں۔ اس آیت کریمہ میں فوت شدگان کا وسیلہ پیش کرنے سے متعلق کوئی دلیل
نہیں۔ یہ آیت کریمہ تو ہماری دلیل ہے جو وسیلہ کی مشروع صورت پر مبنی ہے،
نہ کہ ان لوگوں کی جو وسیلہ ’’بالذوات و بالاموات ‘‘ کے قائل و فاعل ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والا یہ معاملہ تو آپ کی زندگی تک محدود
تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی صحابہ، تابعی یا ثقہ امام
نے آپ کی قبر مبارک پر آ کر آپ سے سفارش کرنے کی درخواست نہیں کی۔ صدیوں
بعد بعض لوگوں نے یہ بدعت گھڑلی اور اس کے ثبوت پیش کرنے کے لیے قرآن کریم
میں تحریف معنوی شروع کر دی۔
ان کی کارروائی ملاحظہ ہو:
(1) ابن حجر ہیتمی (م : ۹۰۹۔ ۹۷۴ ھ) اس آیت کے متعلق کہتے ہیں:
دلت على حث الأمة على المجيء إليه صلى الله عليه وسلم، والاستغفار عنده
والاستغفار لهم، وهذا لا ينقطع بموته، ودلت أيضا علي تعليق وجدانھم الله
توابا رحيما بمجيئھم، واستغفار ھم، واستغفار الرسول لھم
”یہ آیت کریمہ امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے اور آپ کے پاس آ کر
استغفار کرنے کی ترغیب دیتی ہے اور بتاتی ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں۔
یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے منقطع نہیں ہوا۔ اس سے یہ بھی
معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ آپ کے پاس آئیں گے، اپنے گناہوں کی معافی مانگیں
گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لیے استغفار کریں گے تو ہی اللہ ان
کی توبہ قبول کر کے ان پر رحم فرمائے گا۔“
(الجوھر المنظم، ص : 12)
(2) حنفی مذہب کی معتبر ترین کتاب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر
مبارک کی زیارت کے آداب کے ضمن میں لکھا ہے:
ويبلغه سلام من أوصاه، فيقول : السلام عليك يا رسول الله ! من فلان بن
فلان، يستشفع بك إلی ربك، فاشفع له ولجميع المسليمن
” (قبرمبارک کی زیارت کےلیےآنےوالا) آپ کو سلام بھیجنے والے کا سلام
پہنچاتے ہوئے کہے: یا رسول اللہ ! یہ فلاں بن فلاں کی طرف سے ہے۔ وہ اللہ
تعالیٰ کے دربار میں آپ کی سفارش کا طلب گار ہے۔ آپ اس کے لیے اور تمام
مسلمانوں کے لیے سفارش فرما دیجیے۔“
الفتاوي الھندية المعروف به فتاوي عالمگيري : 282/1، طبع مصر))
(3) دارالعلوم دیوبند کے بانی جناب محمدقاسم نانوتوی (م : ۱۲۴۸۔ ۱۲۹۷ ھ) اس
آیت کریمہ کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں، آپ کے ہم عصر ہوں یا بعد کے امتی ہوں
اور تخصیص ہو تو کیونکر ہو، آپ کا وجود تربیت تمام امت کے لیے یکساں رحمت
ہے کہ پچھلے امیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی
متصور ہے کہ قبر میں زندہ ہوں۔“
(آب حیات، ص : 40)
(4) جناب ظفر احمد عثمانی تھانوی دیوبندی (م : ۱۳۹ ھ) لکھتے ہیں:
فثبت أن حكم الآية باق بعد وفاته صلي الله عليه وسلم
”ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد
بھی باقی ہے۔“
(إعلاء السنن 330/10)
(5) علی بن عبدالکافی سبکی (م : ۶۸۳۔ ۷۵۶ھ) بھی لکھتے ہیں : ”کہ یہ آیت اس
بارے میں صریح ہے۔“
شفاء السقام، ص : 128))
(6) علی بن عبداللہ بن احمد سمہودی (م : ۸۴۴۔ ۹۱۱ ھ) نے لکھا ہے:
والعلماء فھموا من الآية العموم بحالتي الموت والحياة، واستحبوا لمن أتي
القبر أن يتلوھا ويستغفر الله تعالیٰ، وحكاية الأعرابي في ذلك تقلھا جماعة
من الأئمة عن العتبي
”علماء نے اس آیت سے موت اور زندگی دونوں حالتوں کا عموم سمجھا ہے اور
انہوں نے قبر مبارک پر جا کر اس آیت کی تلاوت کرنے اور اللہ تعالیٰ سے
استغفار کرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بدوی والی حکایت کو
ائمہ کی ایک جماعت نے عتبي سےنقل کیا ہے۔“ (وفاء الوفا: 411/2)
سلف صالحین میں سے تو کوئی بھی ایسا نہیں کہتا، بعد کے لوگوں کی تفسیر، فہم
دین میں کوئی مقام نہیں رکھتی۔ سلف میں کون سے علماء نے اس آیت سے وفات
نبوی کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغفار کرانے کا فہم لیا ہے؟
علامہ سبکی نے بھی یہی بات کی تھی۔ ان کا ردّ کرتے ہوئے ان کے ایک ہم عصر
عالم، حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (م : ۷۰۴۔ ۷۴۴ ھ) فرماتے ہیں:
من فھم ھذا من سلف الأمة وأئمة الإسلام، فاذكر لنا عن رجل واحد من الصحابة
أو التابعين أو تابعي التابعين أو الأئمة الأربعة، أو غيرھم من الأئمة وأھل
الحديث والتفسير أنه فھم العموم بالمعني الذي ذكرته، أو عمل به أو أرشد
إليه، فدعواك علي العلماء بطريق العموم ھذا الفھم دعوي باطلة ظاھرة البطلان
”اسلاف امت اور ائمہ اسلام میں سے کس نے اس آیت سے یہ سمجھا ہے؟ ہمیں صحابہ
کرام، تابعین عظام، تبع تابعین، ائمہ اربعہ یا اہل حدیث و تفسیر میں سے کسی
ایک شخص سے بھی دکھا دو کہ اس نے اس آیت سے وہ عموم سمجھا ہو جو تم نے ذکر
کیا ہے یا اس نے اس پر عمل کیا ہو یا اس کی طرف رہنمائی کی ہو۔ تمہارا سارے
علمائے کرام کے بارے میں اس آیت میں یہ عموم سمجھنے کا دعویٰ کرنا صریح
باطل اور جھوٹا دعویٰ ہے۔“
(الصارم المنكي في الرد علي السبكي، ص : 321)
رہی بدوی والی حکایت تو اسے علمائے کرام نے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے
کے لیے ذکر کیا ہے، نہ کہ حجت اور دلیل بنانے کے لیے۔ بہت سے علمائے کرام
نے اس من گھڑت قصے کی قلعی کھولی ہے۔ اس کی حقیقت اسی مضمون میں واضح کر دی
گئی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۶۶۱۔ ۷۲۸ ھ) اس بارے میں فرماتے ہیں:
فدعا ھم سبحانه بعد ما فعلوه من النفاق إلي التوبة، وھذا من كمال رحمته
بعباده يأمرھم قبل المعصية بالطاعة، وبعد المعصية بالاستغفار، وھو رحيم
بھيم في كلا الأمرين۔۔۔ فأما مجيء الإنسان إلى الرسول عند قبره وقوله
استغفر لي أو سل لي ربك، أو ادعو لي، أو قوله في مغيبه : يا رسول الله صلى
الله عليه وسلم ادع لي، أو استغفر لي، أو سل لي ربك كذا وكذا، فهذا لا أصل
له، ولم يأمر الله بذلك، ولا فعله واحد من سلف الأمة المعروفين في القرون
الثلاثة، ولا كان ذلك معروفا بينهم ولو كان هذا مما يستحب لكان السلف
يفعلون ذلك، ولكان ذلك معروفا فيهم بل مشهورا بينهم ومنقولا عنهم، فإن مثل
هذا إذا كان طريقا إلى غفران السيئات وقضاء الحاجات لكان مما تتوفر الهمم
والدواعي على فعله وعلى نقله، لا سيما فيمن كانوا أحرص الناس على الخير،
فإذا لم يعرف أنهم كانوا يفعلون ذلك، ولا نقله أحد عنهم، علم أنه لم يكن
مما يستحب ويؤمر به، بل المنقول الثابت عنه ما أمر الله به النبي صلي الله
عليه وسلم من نھيه عن اتخاذ قبره عيدا ووثنا، وعن اتخاذ القبور مساجد
”اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو نفاق چھوڑ کر توبہ کرنے کی دعوت دی۔ یہ اللہ
تعالیٰ کی اپنے بندوں کے ساتھ کمال رحمت ہے کہ گناہ سے پہلے اپنی اطاعت کا
حکم دیتا ہے اور گناہ کے بعد معافی مانگنے کا۔ دونوں صورتوں میں اللہ اپنے
بندوں کے لیے نہایت مشفق ہے۔۔۔کسی انسان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی قبر مبارک پر آنا اور کہنا کہ میرے لیے استغفار کریں، میرے لیے رب سے
سوال کریں، میرے لیے دعا کریں، یا آپ کی غیر موجودگی میں اس کا کہنا کہ
اللہ کے رسول ! میرے لیے دعا کیجیے، میرے لیے مغفرت مانگيے، میرے لیے اپنے
رب سے فلاں فلاں سوال کیجیے۔ یہ ایسا کام ہےجس کی کوئی دلیل نہیں۔ قرون
ثلاثه کے معروف اسلاف امت میں سےکسی نے ایسا کام نہیں کیا، نہ اس کام کو ان
میں سے کوئی جانتا تھا۔ اگر یہ کام مستحب ہوتا تو سلف صالحین اس پر کاربند
ہوتے اور یہ ان کے ہاں معروف و مشہور ہوتا اور ان سے منقول ہوتا۔ جب اس طرح
کا کام گناہوں کی معافی اور حاجت روائی کا سبب ہو تو اس کو انجام دینے اور
اس کو روایت کرنے کے اسباب و وسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں، خصوصاً ان لوگوں
میں جو بھلائی کے کاموں کے بڑے حریص تھے۔ جب ان لوگوں سے ایسا کرنا معروف و
منقول نہیں تو معلوم ہو گیا کہ یہ کام نہ مستحب ہے، نہ فرض۔ اس کے برعکس
حکم الٰہی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قبر کو میلہ گاہ اور بت
بنانے اور قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کرنا ثابت ہے۔“
قاعدة في المحبة : 190/2، جامع الرسائل : 376، 375))
نیز فرماتے ہیں:
وأيضافإن طلب شفاعته ودعائه واستفاره بعد موته، وعند قبره ليس مشروعا عند
أحد من أئمة المسلمين، ولا ذكر ھذا أحد من الأئمة الأربعة وأصحابھم القدماء
”پھر یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی قبر کے پاس
آ کر سفارش، دعا اور استغفار طلب کرنا ائمہ مسلمین میں سے کسی کے ہاں جائز
نہیں۔ ائمہ اربعہ اور ان کے متقدمین شاگردوں میں سے کسی نے اس کا ذکر بھی
نہیں کیا۔“
مجموع الفتاوي : 241/1))
مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی صاحب (م : ۱۳۲۴۔۱۳۹۱ ھ) لکھتے ہیں:
”اس آیت میں ظلم، ظالم، زمان و مکان، کسی قسم کی قید نہیں۔ ہر قسم کا مجرم،
ہر زمانے میں، خواہ کسی قسم کا جرم کر کے تمہارے آستانہ پر آ جاوے اور
جاؤوك میں یہ قید نہیں کہ مدینہ مطہرہ میں ہی آئے، بلکہ ان کی طرف توجہ
کرنا بھی ان کی بارگاہ میں حاضری ہے۔ اگر مدینہ پاک کی حاضری نصیب ہو جائے
تو زہے نصیب۔۔۔"
نورالعرفان، ص : 138))
مفتی صاحب نے کلام الٰہی کا ایسا مطلب و معد بیان کیا ہے جو سلف صالحین کے
وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اپنی طرف سے کلام الٰہی کی تفسیر کرنا بہت
بڑا جرم ہے۔ مفتی صاحب کو نہ خوف الٰہی دامن گیر ہوا، نہ سلف کی مخالفت پر
انہیں کوئی پشیمانی ہوئی، نہ ان کو دیانت علمی کا ذرا بھی احساس ہوا۔ کیا
کیا جائے ؟!!!
اب آیت کریمہ کے متعلق ان لوگوں کی طرف سے شبہات کا تفصیلی جواب ذکر کیے
دیتے ہیں تاکہ قارئین کو مفید معلومات فراہم ہو سکیں۔
حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (م : ۷۰۴۔۷۴۴ ھ) اسی بارے میں فرماتے ہیں :
اب آیت کریمہ کے متعلق ان لوگوں کی طرف سے شبہات کا تفصیلی جواب ذکر کیے
دیتے ہیں تاکہ قارئین کو مفید معلومات فراہم ہو سکیں۔ |
|