نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!
لیجئے حرم شریف کا صحن پاک کا دیدار ہوگیا۔ اس بقعہ نور میں لوگ مختلف
اطراف سے جو ق درجوق آرہے تھے۔ سب کی ایک ہی فکر سب کاایک ہی مقصد کہ اللہ
کے دامن رحمت میں آبادہوں۔ میں سوچ رہاتھا کہ جب آدھی سے زیادہ دنیانیند
میں مست ومحو ہے، اللہ کے بندے یہاں جاگ رہے تھے تاکہ اللہ سے لو لگائیں،
کلام اللہ پڑھیں ، ذکراللہ کریں، نوافل کی ادائیگی میں مستغرق ہوجائیں ،
دیدہ تر سے صفائی باطن کاکام لیں ، قاضی الحاجات کے سامنے دامنِ طلب
پھیلائیں،وحدہ لاشریک سے سرگوشیاں کریں۔ یہ دل خوش کن فضا دیکھی تو جی چاہا
اللہ کی ان گلیوں میں عمر بھر کھوجاوں کھوتا ہی جاوں یہاں تک کہ اپنا نام
وپتہ بھی یاد نہ رہے اور کبھی اگرہوش آئے بھی تو صرف اللہ کی یاد میں
دوبارہ مد ہوش ہو نے کے لئے ۔یہاں بندے کی حالت وہی ہو جانی چاہیے جس کی
ایک تصویر حضرت مسعود بک چشتی نظامی نے نقل کر کے کھینچی ہے:
اے عزیز عشق صیاد خود است، صید خوداست، دام خود است، قید خود است، مرغ خود
است ،دانہ خود است، شمع خود است ،سوز خود است، ساز خود است ، ناز خود است،
نیاز خود است، آئینہ خودا ست، جمال خوداست، عین خود است، خیال خود است،
بینائی خود است، زیبائی خود است، بند خود است ، رہائی خود است ، لیلی خود
است، مجنوں خودا ست، فتنہ خود است ، مفتون خوداست، شاہد خوداست ، مشہود خود
است۔۔۔! بقول عزیز الحسن مجذوب
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
حرم پاک میں آدھی رات کو چاروں طرف نمازِ تہجد کے لئے ذوق وشوق سے آنے
والوں کاتانتا بندھا ہوادیکھا توحریم قلب سے دعا نکلی اے کاش !اس اجتماعِ
کثیرہ کی یہ نماز مسلمانانِ عالم کو ہزار سجدوں سے نجات دلائے۔ قربِ الہی
میں سرشاران خوش خصال بندوں کایہ عظیم الشان قافلہ دیکھ کردل میں روحانی
کیف وسرور کی بجلیاں کو ند گئیں، ایمان تروتازہ ہوا،حرم مبارک کی جلالتِ
شان رگ رگ میں اللہ سے محبتوںکا لہو دوڑاگئی۔ بیشک مکہ ٹاور کا فلک بوس
سراپا بھی تھوڑی دیر نگاہوں کو حیرہ کرگیا مگر اس سے نظریں یک بارہٹ گئیں
کیونکہ یہ محض سیمنٹ اور سلاخوں پر اٹھی عمارت ہے جو اللہ کے اس پسندیدہ
سادہ سے گھر کے سامنے ہیچ ہے اور صرف اسی گھر کی ہر روحِ مضطرب کو صدیوں سے
تلاش ہے،تعظیم ہے،توقیر ہے اوریہ ہرمومن کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل
کاسرورہے ،اس کے درودیوارسے اللہ کی صناعی کاپرتوٹپکتا ہے۔ صحنِ حرم اور
سڑک کو تقسیم کر تے ہوئے تقریبا چار ساڑھے چار فٹ فولادی کھمبے ایک ودسرے
سے کچھ دوری پر نصب پائے جو اس بات کی علامت تھی کہ آہنی کھمبے کے اس پار
احاطہ حرم شروع ہوجاتا ہے۔ لکیر کے اس پار سنگِ سفید کا عالی شان فرش بچھا
ہوا ہے جو صحن پاک کے حسن وجمال اورجاذبیت کو چار چاند لگا رہاتھا۔ یہاں
پہنچاتو جیسے کھمبے نے بزبان حال رک جانے کا اشارہ دیا ، دفعتاپاوں سے چپل
نکال لی کیوںکہ اس مصلی کی تعظیم وتکریم کا تقاضایہ تھا کہ اس پر ننگے پاوں
چلا جائے۔ میری اہلیہ نے بھی اپنے پا پوش نکالے۔ میری حیرت کی انتہا ہی نہ
رہی جب دیکھا کہ اس بے مثل مصلی پر لگ بھگ سارے مرد وزن اور بچے چپلوں سمیت
بڑی بے اعتنائی سے آجارہے تھے۔ میں نہیں کہہ سکتا یہ موزوں تھا یا نہیں
مگرمجھ گناہ گار وعیب دار سے یہ برداشت نہ ہوا کہ چپل لے کے حرم کے جلیل
القدر فرش (مصلی )پر لاپروائی سے چپل سمیت قدم رکھوں۔ سری نگر کی مرکزی
جامع مسجد میں جب ہم صدر دروازے پر ہی جوتا نکالتے ہیں، یہاں کیوں
نہیں؟خیرہم نے گھرسے ہی دو چھوٹے سے جھولنے اسی غرض سے لائے تھے تا کہ ان
میں چپل بھرکر حرم کی حدود میں ننگے پاؤں آیاجایاکریں۔ ہمارے دیگر ساتھیوں
نے بھی اپنی چھوٹی تھیلیوں میں چپل بھر دئے۔
میں نے دیکھا کہ مکہ ٹاورکے لان اورخواتین کے لئے دیگر مخصوص جگہوں شرق و
غرب کی مستورات صفوں میں نوافل اداکر رہی تھیں،کچھ ایک کو دعاوں میں مشغول
پایا ،بعض قرآن خوانی میں مصروف تھیں۔ باب النساکی جانب سے مسجد حرام کا
حصہ خواتین کے لئے ہی مختص ہے ۔یہ قلب و جگر میں اترنے والا دلربا منظر
مجھے اپنی یادوں کی وادی میں کشاں کشاں لے گیا ۔ میری والدہ مرحومہ (
وفات۹فروری۲۰۱۳ء) کا زندگی بھریہ معمول تھا کہ علی الصبح وضو بناتے وقت
بآواز بلند کشمیری دعائیہ کلمات اس کے وردِ زبان ہوتے ۔ا ن سے اللہ کی ذات
پر یقین کامل،اس کی صفات کااعتراف،اپنوں اورپرائیوں کیلئے خیرخواہی ،پنڈتوں
اورمسلموں کے واسطے پراپت،آل واولاد کے حق میں نیک خواہشات، دنیا کے فتنہ و
فساد اور امراض و علل سے نجات اور لڑکیوں کے والدین کی مشکلات میں آسانی کی
بے ساختہ تمنائیں جھلکتی تھیں جو سامع کے کان میں رس گھولتیں اور دل میں
نیک جذبات کی لہریں اٹھاتیں۔ عرصہ سے ویسی دعائیں سننے کو کان ترستے ہیں،
دل تڑپتا ہے،شاید دنیا سے رخصتی تک یہ آرزو وجود کے نہاں خانہ میں ہی دب کر
رہے گی۔ حرم پاک کے صحن میں اس جان گداز منظرسے یہ گرہ کشائی بھی ہوئی کہ
دعاؤں اورمناجات میں خواتین فطرتاً کچھ زیادہ ہی رقیق القب ہوتی ہیں،ان کے
دست بدعاہونے کااندازاوراشک بار ہونے اسلوب اللہ کے ہاں لامحالہ شرفِ
قبولیت حاصل کرتاہوگا۔مزیدبرآں حرم پاک کے احاطے میں اورمسجد حرام کے ا
ندرمختلف قوموں اورملکوں سے آئیں متعدد ثقافتی پس منظر رکھنے والی با صلوۃ
خواتین کا مردوں کے شانہ بشانہ اللہ کے حضور سربسجودہونے سے یہ بات بھی ذہن
نشین ہو ئی کہ یہ جو مغرب لٹھ لے کرواہیات بکتا ہے کہ دینِ فطرت میں خواتین
کو دوسرے درجے کا انسان مانا جاتاہے، مسجدمیں ان کی رسائی پر پابندی عائد
ہے،وہ عبادت ودعاکے حق سے محروم رکھی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ،یہ سب سراسرجھوٹ
کاپلندہ اورجاہلانہ تعصب کی دین ہے۔اگراہلِ مغرب روئے زمین پرواقع اس محترم
ترین اسلامی معبد کی یہ پاکیزہ جھلکیاں ایک باردیکھیں گے کہ مردوخواتین حرم
کے اندرا ور باہراللہ کی یادمیں مساوی طورمحوہوتی ہیں تووہ خوداپنے ضمیر کے
کہے پر اسلام مخالف پرو پیگنڈے کا بطلان کریں گے۔ حرم پاک کے یہ راہ کشا
مناظر بزبان حال بتا رہے تھے کہ اسلام میں خواتین کو عبادات اور ذکراللہ کے
وہی حقوق اور اختیارات حاصل ہیں جو مردوں کو حاصل ہیں مگر ہاں،ایک شرط ضرور
ہے کہ مردو زن کے باہم دگر اختلاط کا فتنہ پرور باب اسلام نے سدا کے لئے
بند کیاہواہے۔یہی تودین فطرت کی شان اورعظمت ہے۔ا ختلاط مردوزن کی تمام
قبیح صورتوں کاقلع قمع کر نے کیلئے حرم پاک میں سعودی پولیس (شرطہ) کی چاق
وچوبند نفری اور مذہبی پولیس کا موجود ہونا ایک ایسی بے پایاں رحمت ہے جس
کیلئے خدامانِ حرمین کے بے انتہااجروثواب پررشک آناچاہیے۔ پولیس فورس میں
پردہ پوش خواتین بھی شامل ہیں ۔
اب ہم مسجدحرام کے اندرباب ملک عبدالعزیز سے داخل ہواچاہتے تھے،مگر میرے
ذہن میں یہ کشمکش چل رہی تھی جھولنے کو اندر کیسے لے جاؤں، میرے خیال سے یہ
صریحاًبے ادبی ہوتی۔ یکایک مجھے اپنے مرحوم مربی ومشفق مرحوم ومغفورمحمد
مظفر خادم صاحب( وفات۸مارچ۲۰۱۵) یاد آگئے۔ عمرہ پر روانہ ہونے سے پہلے میں
نے باتوں باتوں میں ان سے یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا حرم کے اندرپاپوش
لینامناسب ہوگا؟انہوں نے مدبرانہ اورمومنانہ جواب دیالوگ کہتے ہیں کوئی ہرج
نہیں مگرمیرامانئے توانہیں باہر ہی رکھ آئیے،حزم واحتیاط کا تقاضا یہی ہے،
زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ گم ہوجائیں گے، نیالانابہتررہے گا، بہ نسبت اس
کے انہیں ہاتھوں میں لئے اندر جایاجائے ۔ مرحوم خادم صاحب نے تین بارعمرے
کئے تھے مگر حج کی سعادت حاصل کر نے کی ان کی د یرینہ آرزوپوری ہونے سے قبل
ہی یہ مر دِ مومن اللہ کوپیارے ہوگئے۔اللہ تعالی میرے ماں باپ ، قارئین کے
اموات سمیت ان کی مغفرت فرمائے ۔ بہرحال ہم سب نے اپنی تھیلیاں باہر ہی
رکھیں ۔ دل دھک دھک کر رہاتھا ، آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں، ذہن میں عجیب
طرح کی ہلچل چل رہی تھی کہ ظلوما جہولا ہوں ، نہیں جانتا کہ کس سمت اپنے
قدم اٹھاؤں، چلنے کی جسارت کیسے کروں، مجھ عاصی و بے عمل سے اس نعمتِ عظمٰی
کا حق اداہوگا بھی؟ یہ سوچ سوچ کر تھرا گیا کہ اضطراب کے اسی عالم میں شوق
کے پنچھی نے اس فرمان الہی سے ڈھارس بندھائی:ہم نے بنی آدم کو (یعنی آدم
زادوں کو جس میں تائب بندے بھی شامل ہیں) کو عزت وتکریم بخشی ہے( بنی
اسرائیل۔۔۔)۔ عزت و تقدیس والے اس گھر کی دہلیز پر یہ آیت میرے لئے تریاق
بنی اورآبِ حیات ثابت ہوئی ۔ دفعتاً میرے لبِ اظہار پر یہ دعا حاوی ہوگئی
بسمہ اللہ والصلو والسلام علی رسول ا اللہ۔ بیم ورجا کی اس کیفیت نے اتنا
حوصلہ دیا کہ مجھے مسجد حرام کے اندر اپنا دایاں پاؤں رکھنے کی جسارت ہوئی۔
شاید لاشعور میں پوشدہ ندامتوں کی پونجی سے بیت اللہ سے معافی کاپروانہ
ملنے کی یہ آس ہی تھی جس نے یاس وقنوطیت کوامید ویقین میں بدل دیا ۔ چند
ثانیوں میں حرم کے انمول جلوتوں میں کھو کر ہر مخلص بندے کا یہ ارمان دعا
بن کر میرے گناہ گار وجود کے انگ انگ کی پکار بنی:اے کاش! اسی درِ رحمت پر
قفسِ عنصری سے میری جان پرواز کرجائے۔۔۔ سچ یہ ہے کہ جو بھی یہاں ایک بار
داخل ہواوہ روحانی آسودگی کی ایک ایسی جنت میں آگیا جہاں سے باہرنکلنے
کاخیال بھی غالباًخدا فراموشی شمارہوگا۔ میری حقیر رائے یہ ہے کہ جس کا سر
ایک بار یہاں سجدے میں جھک گیا مجال ہے وہ کسی اور کے سامنے گردن جھکائے،
جس نے ایک بار اپنی آنکھوں سے اس خانہ خدا کو دیکھا ممکن ہی نہیں وہ کسی
اور نظارے کا شوق دل میں بسالے۔ بہرحال اپنی کم مائیگی و گناہ گاری کے
احساس کودعاؤں کے قالب میں ڈھالتے ہوئے میری زبان بے ساختہ بول اٹھی:اے
مولا! میرے گناہ بخش دے اوراپنی رحمت کے دروازے مجھ پر کھول دے۔
واللہ میں یقین ہی کر نہ پارہاتھا کہ جیتے جی ایسی عنایت اورکرم فرمائی
ہوگی کہ احقر کو مسجدا لحرام کی جبہ سائی نصیب ہو۔ میں سرتاپاعصیاں اورمسجد
الحرام کی یہ عظمتیں!اب میں کیاکیادیکھتا؟یہ درزا قامت ستون، یہ محرابیں،یہ
مزئین درودیوار،یہ نقش ونگار،یہ جگمگاتے قمقمے، یہ روح پرورمناظر ۔۔۔ مگر
پھر بھی یہ سب تو مسجدالحرام کا انسانی تعارف تھا جب کہ تعریف وثناکی
سزاوار ہستی ۔۔۔ اللہ۔۔۔ ان اہتماموں سے ماوراہے۔ شوق کے پنچھی نے چاروں
طرف نظریں گھمائیں تو اسے اپنی نگاہوں کی سیدھ میں کچھ ہی فاصلے پرخانہ
کعبہ کابالائی حصہ حسین و جمیل غلاف میں ملبوس نظر آیا،دیدہ زیب غلاف
پرمنقش قرآنی آیات کی طلائی کشیدہ کاری صاف نظرآرہی تھی ۔ کعبہ شریف کی اس
جزوی جلوت نے مجھے مبہوت کردیا،اللہ اللہ! کہاں تصاویروالاخانہ کعبہ کا ناک
نقشہ اورکہاں بیت اللہ کے بے مثل حسن وجاذبیت اورسروروطمانیت کی کائنات!!
یہ امن وسلامتی کابے حدوکنارجہاں ہے( سورہ حجر15-46)۔ اب یہاں سے ہوش
وخردکی سرحدختم ہوئی،عشق ووارفتگی کامملکت آگئی،یہاں آنسوؤں اورعجز و
انکساری کے سوغات سے اللہ کے خزانے دودوہاتھوں لوٹنے کی صلائے عام ہے۔ اے
اللہ! یہ ناکارہ عمل تیراجتنابھی شکراداکرے،جبین نیازسے شکرانے میں کتنی
بھی سجد ہ ریزیاں ہوں، کعبہ شریف کی ایک جھلک دیکھنے کا بھی حق ادا نہ ہوگا
، یہ بس تیراکرم ہے کہ اپنے گھر کی زیارت حقیرکو نصیب کردی۔ خانہ کعبہ دنیا
میں روحانی بالیدگی کا مرکز اولیٰ ہے، یہ چشمہ فیض اورمبدارحمت ہے۔ اللہ
تعالی اس میں مکین نہیں کیونکہ وہ جہتوں مقید نہیں اورمحدودیتوں سے
وراالاوراہے، وہ کائنات کا نور ہے، لاشرقیہ ولاغریبہ ہے ۔ البتہ ہم
محدوداللسان اسے اپنے طورشہنشاہِ عالم کہتے ہیں اورسمجھتے ہیں وہ
ہمارامختارِمطلق ہم اس کی رعیت اورغلام ہیں حالانکہ لیس کمثل شئی(اس جیسی
کوئی چیز نہیں) کا عقیدہ اس بات پردلالت کرتاہے کہ ذاتِ خداوندی انسانی
تصورات کی تنگنائیوں میں سماہی نہیں سکتی۔ کعبہ اسی کاگھرہے۔ لفظ کعبہ کے
لغوی معنی چکوراور مدورکے ہیں۔ بظاہرکعبہ انسانی دل سے مشابہت رکھتاہے۔
حدیث قدسی ہے : میری زمین اور میرے آسمان کی وسعتوں میں میراسمانا ممکن
نہیں،میرامکان اگر ہوسکتاہے تووہ قلب مومن ہے معلوم ہواکہ بیت اللہ کی شکل
شاید اسی بنا پر دل کی صورت میں ڈھال دی گئی ہے ۔
قدم جوں جوں آگے بڑھتے گئے کعبہ شریف برستی آنکھوں کے سا منے اپنے بے مثل
ہیبت وجلال سے اپنی جلوتوں کا سایہ دارزکرتاگیا۔ ذرا یہ بھی غور فرمایئے کہ
کعبے کی سلامی کو اولیت دینے کی غرض اللہ نے معتمرین کو مسجدا لحرام میں
تحیالمسجد سے بے نیازرکھا ہے اورطوافِ کعبہ کوہی اس کامتبادل قراردیا ہے۔
لیجئے اب بیت اللہ کی بلائیں لیتے ہوئے ربِ کعبہ کے حضور یہ مسنون دعا دل
کے نہاں خانے سے ابھر کرلب پرآگئی:اے اللہ!اپنے اس مقدس گھرکی عظمت، شرافت
وہیبت میں اضافہ فرمااورحج وعمرہ کرنے میں جو اس کی تعظیم وتکریم کریں ان
کوبھی شرافت وعظمت اورنیکی عطا فرما۔ اے ا للہ!تیراہی نام سلام ہے،
اورسلامتی تیری ہی طرف سے ہے،تو ہم پرسلامتی بھیج۔ میں اس مقدس گھر کے رب
کی پناہ لیتاہوں قرضہ سے، محتاجی سے اور سینہ کی تنگی سے اور قبر کے عذاب
سے۔
یہ دعا بھی کیا مہتم بالشان مناجات ہے کہ بندے کے ٹوٹے ہوئے تار اللہ سے یک
قلم جوڑ دئے، اسے نہ صرف اللہ کے گھر کے عزت وحرمت کا دیوانہ بناڈالا بلکہ
یہ بھی ذہن نشین کرایا کہ ربِ کعبہ سے سلامتی چاہنے کے علاوہ خود فراموشی
میں نہ ڈوب جانا، ایک حسنِ اعتدال قائم رکھ کر اپنی آسائش وکشائش کا سامان
بھی طلب کر لینا کہ یہ وقتِ اجابت ہے ۔ بہرحال میراحال یہ تھا جس سمت میں
نے اب تک بن دیکھے ٹوٹی پھوٹی نمازیں پڑھی تھیں،دعائیں مانگی تھیں،دل کی
مرادیں اللہ تعالی کے سامنے رکھی تھیں،اس قبلہ قلب کی ساری جلوتیں اب
آنکھوں کی پتلی بن گئی تھیں ۔ یہاں مطاف جانے کے اشارے عربی ،ا نگریزی اور
ارود میں جابجا آویزاںتھے ۔ کعبہ شریف میں اردو کی چاروں اطراف میں اس
پذیرائی سے دل بہت مطمئن ومسرور ہو ا۔ ہم نے اب سیڑھی سے اتر کر مطاف کی
راہ لی ، ہم اتنے تیز گام تھے کہ مطاف میں آناًفاناً آگئے۔ امیرسفربیگ صاحب
نے ہمیں تہجد ادا کرنے کے بعدطوافِ کعبہ کی ہدایت دی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ
کعبہ شریف کے سا منے نفلی نمازادا کر نے کاکیامزاتھا، اسے لفظوں میں بیان
کرنے سے میں قاصرہوں۔ |