قَبر کا امتحان

قَبر کا امتحان
شیطان لاکھ سُستی دلائے امیرِ اہلسنّت کا یہ بیان مکمّل پڑھ لیجئے
اِنشاء اللہ عزّوجل آپ اپنے دِل میں مَدَنی انقِلاب برپا ہوتا محسوس فرمائیں گے۔
یہ بیان امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوتِ اسلامی کے ۶۱۴۱ ھ کے تین روزہ سنّتوں بھرے اجتماع مدینۃ الاولیاء ملتان شریف میں فرمایا۔ عبیدالرضا ابن عطّار عفی عنہ

دُرودشریف کی فضیلت
سرکارِنامدار، مدینے کے تاجدار، حبیبِ پروَردگار ، شفیعِ روزِشُمار، جنابِ احمدمختار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاارشادِ نور بار ہے، ’تم اپنی مجلسوں کو مجھ پر دُرودِ پاک پڑھ کرآراستہ کرو کیونکہ تمہارا دُرودِپاک پڑھنابروزِ قِیامت تمہارے لئے نور ہوگا۔‘
(مجمعُ الزوائد حدیث۲۲۰۷۱ ج۰۱ ص ۳۶۱ دارالفکر بیروت)
صَلُّوا عَلی الَحَبِیب! صَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحمَّد!

یاد رکھ ہر آن آخِر موت ہے
بن تُو مت انجان آخر موت ہے
مرتے جاتے ہیں ہزاروں آدمی
عاقِل و نادان آخر موت ہے
کیا خوشی ہو دِل کو چندے زِیست سے
غمزدہ ہے جان آخر موت ہے
ملکِ فانی میں فنا ہر شی کو ہے
سن لگا کر کان آخر موت ہے
بارہا علمی تجھے سمجھا چکے
مان یا مت مان آخر موت ہے

قَبر کی ڈانٹ
حضرتِ سیّدُنا ابوالحُجّاج ثُمالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے ، سرکارِمدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِقلب و سینہ، فیضِ گنجینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’جب میِّت کو قبر میں اُتاردیا جاتا ہے۔ توقبر اُس سے خطاب کرتی ہے، ’اے آدَمی تیرا ناس ہو! تونے کس لئے مجھے فراموش کر رکھا تھا؟ کیا تجھے اتنابھی پتا نہ تھا کہ میں فتنوں کا گھر ہوں، تاریکی کاگھرہوں، پھر تو کس بات پر مجھ پر اکڑا اکڑا پھرتا تھا؟‘ اگروہ مُردہ نیک بندے کا ہو تو ایک غیبی آواز قبر سے کہتی ہے، ’اے قبر! اگر یہ ان میں سے ہو جو نیکی کا حکم کرتے رہے اور بُرائی سے منع کرتے رہے تو پھر!‘ (تیرا سلوک کیا ہوگا؟) قبر کہتی ہے، ’اگر یہ بات ہو تو میں اس کے لئے گلزار بن جاتی ہوں۔‘ چُنانچِہ پھر اس شخص کا بدن نور میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اس کی روح ربُّ العٰلمین عزّوجل کی بارگاہ کی طرف پرواز کرجاتی ہے۔‘ (مُسندِ ابی یعلیٰ حدیث ۵۳۸۶ ج۶ ص۷۶ دارالکتب العلمیہ بیروت)

مُبارَک ہو!
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اس حدیثِ پاک پر غور فرمائیے کہ جب بھی کوئی قبر میں جاتا ہے چاہے وہ نیک ہو یا بد اس کو قبر میں ڈرایا جاتا ہے ۔ دعوتِ اسلامی کے مُبلِّغوں! ، فیضانِ سنّت کا درس دینے والوں! ، عَلاقائی دَورے میں نیکی کی دعوت پیش کرنے والوں !، اپنی اولاد کو سنّتوں کے مطابِق تربیّت کرنے والوں !، اور سنّتیں سکھانے کیلئے اِنفرادی کوشش کرنے والوں کومبارک ہو کہ قبر میں ایک غیبی آواز ایسوں کی تائید و حمایت کرے گی اور اس طرح قبر اُن کے لئے گلزار بن جائے گی۔

تمہیں اے مُبلِّغ یہ میری دُعا ہے
کئے جاﺅ طے تم ترقّی کا زینہ

میرے بال بچے کہاں ہیں!
یاد رکھئے ! قبر میں صِرف عمل جائے گا، آپ کی بلند کوٹھیاں ، مَحلات ، مکانات، آپ کی دولت، آپ کا بینک بیلینس ، آپ کا وسیع کاروبار، آپ کے بڑے بڑے پلاٹ، آپ کے لہلہاتے کھیت اور خوشنما باغات، یہ آپ کے ساتھ قبر میں نہیں آئیں گے۔ چنانچہ حضرتِ سیّدنا عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، ’جب مَیِّت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کا عمل آکر اسکی بائیں ران کو حَرَکت دیتا ہے اور کہتا ہے میں تیرا عمل ہوں۔وہ مُردہ پوچھتا ہے، ’میرے بال بچے کہاں ہیں؟ میری نعمتیں، میری دولتیں کہاں ہیں؟‘ تو عمل کہتا ہے، ’سب تیرے پیچھے رہ گئے اور میرے سِوا تیری قبر میں کوئی نہیں آیا۔‘ (شرح الصدور ص۱۱۱ دارالکتب العلمیہ بیروت)

قبر میں ڈرانے والی چیزیں
رات کے اندھیرے میں ڈَر جانے والوں! بِلّی کی میاﺅں پر چونک پڑنے والوں! کتّے کے بھوکنے پر راستہ بدل دینے والوں! سانپ اور بچھّو کا صِرف نام سن کر تھر تھر کانپ اُٹھنے والوں! سلگتی ہوئی آگ کو دُور سے دیکھ کر گھبرانے والوں! بلکہ فقط دھوئیں سے بے چین ہوجانے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے، حضرتِ سیّدنا علاّمہ جلالُ الدین سُیوطی الشّافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ شرحُ الصُّدور میں نقل فرماتے ہیں، ’جب انسان قبر میں داخِل ہوتا ہے تو وہ تمام چیزیں اُس کو ڈَرانے کے لئے آجاتی ہیں جن سے وہ دُنیا میں ڈرتا تھا اور اللہ عزّوجل سے نہ ڈرتا تھا۔‘ (شرحُ الصُّدور ، ص۲۱۱ دارالکتب العلمیہ بیروت)

کیا اللّٰہ عزّوجل سے ڈرنے والا گناہ کر سکتا ہے؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! کےااللہ عزّوجل سے ڈرنے والا نَمازروزہ قضا اور زکوٰۃ ادا کرنے میں کوتاہی کرسکتا ہے؟ کیا خوفِ خدا عزّوجل رکھنے والا ڈنڈی مار کر سودا چلاسکتا ، حرام روزی کماسکتا ، سودورِشوت کا لین دَین کرسکتا ہے؟ داڑھی مُنڈوانا ،یا ایک مٹھی سے گھٹانا دونوں حرام ہے تو کیا خوفِ خدا رکھنے والا داڑھی مُنڈواسکتا ،یا خشخشی رکھواسکتا ہے؟ کیا اللہ عزّوجل سے ڈرنے والا T.V ، V.CR اور Internet پرفِلمیں ڈِرامے دیکھ سکتا ہے اور گانے باجے سُن سکتا ہے؟ کیا خوفِ عزّوجل رکھنے والا ماں، باپ، بھائی، بہنوں، رِشتے داروں بلکہ عام مسلمانوں کادِل دُکھا سکتا ہے؟ کےا اللہ عزّوجل سے ڈرنے والا گالی گلوچ، جھوٹ، غیبت، چُغلی، وعدہ خِلافی ، بدنگاہی ، بے حیائی، بے پردَگی اور بداَخلاقی وغیرہ وغیرہ جرائم کرسکتا ہے؟ کیا اللہ عزّوجل سے ڈرنے والا چوری ،ڈاکہ ،دہشت گردی اور قتل و غارت گری جیسی گھناﺅنی وارِدتیں کرسکتا ہے؟طرح طرح کے گناہوں میں مُلوَّث رہنے والے ایک بار پھر کان کھول کر سن لیں کہ ’جب انسان قبر میں داخل ہوتا ہے تو وہ تمام چیزیں اُس کو ڈرانے کیلئے آجاتی ہیں جن سے وہ دُنیا میں ڈرتا تھا اور اللہ عزّوجل سے نہ ڈرتا تھا۔‘ (شرحُ الصُّدور ، ص۲۱۱ دارالکتب العلمیہ بیروت)

پڑوسی مُردوں کی پُکار
بے نَمازیوں ،بِلاعذرِ شرعی ماہِ رمضان کے روزے قضا کرڈالنے والوں، فلمیں ڈِرامے دیکھنے والوں، گانے باجے سننے والوں، ماں باپ کا دِل دُکھانے والوں، داڑھی منڈانے والوں، یا ایک مٹھی سے گھٹانے والوں، انگلش لباس اور انگلش فیشن پر مَر مٹنے والوں اور طرح طرح کی نافرمانیاں کرنے والوںکیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ حُجَّۃ الاسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد غزالی علیہ رحمہ اللہ الوالی نَقل فرماتے ہیں، ’جب (گنہگار) مُردے کو قبر میں رکھ دیتے ہیں اور اُس پر عذاب کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے تواُس کے پڑوسی مُردے اس سے کہتے ہیں ، ’اے اپنے پڑوسیوں اور بھائیوں کے بعد دُنیا میں رَہنے والے! کیا تیرے لئے ہمارے مُعامَلے میں کوئی عبرت نہ تھی؟ کیا ہمارے تجھ سے پہلے چلے جانے میں تیرے لئے غوروفِکر کا کوئی مقام نہ تھا؟ کیا تو نے ہمارے سلسلہ اعمال کا ختم ہونا نہ دیکھا؟ تجھے تو مہلت تھی تو نے وہ نیکیاں کیوں نہ کرلیں جو تیرے بھائی نہ کرسکے۔‘ زمین کا گوشہ گوشہ اسے پکار کر کہتا ہے، ’اے دُنیائے ظاہِر سے دھوکہ کھانے والے! تجھے ان سے عبرت کیوں حاصل نہ ہوئی جو تجھ سے پہلے یہاں آچکے تھے اور انہیں بھی دُنیا نے دھوکہ میں ڈال رکھا تھا۔‘

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! حقیقت یہ ہے کہ ہرمرنے والا خاموشی کے ساتھ یہ پیغام دیتا چلاجاتا ہے کہ جس طرح میں دُنیا سے رخصت ہوا ہوں آپ کو بھی رُخصت ہوناپڑجائے گا ۔جس طرح مجھے مَنوں مِٹی تَلے دَفن کیا جانے والا ہے اسی طرح تمہیں بھی دَفن کیا جائے گا۔
جنازہ آگے بڑھ کر کہہ رہا ہے کہ اے جہاں والو!
مِرے پیچھے چلے آﺅ تمہارا رہنما میں ہوں

امتِحان سر پر ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! آج کل جب اسکول یا کالج کا امتحان قریب آتا ہے تو طلبہ اس کی تیّاریوں میں بہت زِیادہ مشغول ہوجاتے ہیں۔ رات دِن ان پر یہ دُھن سوار ہوتی ہے کہ امتحان سر پر ہے امتحان کے لئے محنت بھی کرتے ہیں، دُعائیں بھی مانگتے ہیں پھر بعض نادان تو مُمتَحِن کو رِشوتیں بھی دیتے ہیں۔ بس یہی آرزو ہوتی ہے کہ کسی طرح دُنیا کے امتحان میں اچھّے نمبروں سے پاس ہوجاﺅں ۔ اے دُنیا کے امتحان کی مشغولیت میں کھوجانے والو! کان کھول کر سن لیجئے! ایک امتحان وہ بھی ہے جو قبر میں ہونے والا ہے ۔ اے کاش! قبر کے امتحان کی تیاری ہمیں نصیب ہوجاتی۔آج اگر اِمکانی سُوالات (Importants) مل جائیں تو طالبِ علم اُس پر ساری ساری رات محنت کرتے ہیں ،اگر نیند کُشاگولیاں کھانی پڑجائیں تووہ بھی کھاتے ہیں ۔ اے دُنیا کے امتحان کی فکرکرنے والو! حیرت ہے کہ تم اِمکانی سُوالات پر بہت زیادہ محنت کرتے ہو۔ کاش! آپ کو اس بات کا اِحساس ہوجاتا کہ قَبر کے سُوالات امکانی نہیں بلکہ یقینی ہیں جو ہمیں اللہ عزّوجل کے رسول ، رسولِ مقبول،بی بی آمِنہ کے مہکتے پھول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پیشگی ہی بتادیئے ہیں ہائے افسوس! قبر کے سُوالات و جوابات کی طرف ہماری کوئی توجہ ہی نہیں۔ آہ! آج ہم ُدنیا میں آکر دُنیا کی رنگینیوں میں کچھ اس طرح گُم ہوگئے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہ رہا کہ ہمیں مرنا بھی پڑے گا۔

دِلا غافِل نہ ہو یک دم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے
بَغیچے چھوڑ کر خالی زمین اندر سمانا ہے
ترا نازک بدن بھائی جو لیٹے سَیج پھولوں پر
یہ ہوگا ایک دن بے جان اُسے کیڑوں نے کھاناہے
تُو اپنی موت کو مت بھول کر سامان چلنے کا
زمین کی خاک پر سونا ہے اینٹوں کا سِرہانا ہے
نہ بَیلی ہو سکے بھائی نہ بیٹا باپ تے مائی
تو کیوں پھرتا ہے سَودائی عمل نے کام آنا ہے
عزیزا یاد کر جس دن کہ عِزرائیل آویں گے
نہ جاوے کوئی تیرے سنگ اکیلا توں نے جانا ہے
جہاں کے شَغل میں شاغِل خدا عزّوجل کی یاد سے غافِل
کرے دعویٰ کہ یہ دنیا مِرا دائم ٹھکانہ ہے
غلام اِک دم نہ کر غفلت حَیاتی پر نہ ہو غُرّہ
خدا کی یاد کر ہر دم کہ جس نے کام آیا ہے

نَقل کرنے والا ہی کامیاب
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنا فضل و کرم فرمائے اللہ تَبارَکَ وَتعالیٰ آپ سب کو مدینہ منوّرہ میں زیرِگنبدِ خضراجلوہ محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں ایمان و عافیَت کے ساتھ شہادت نصیب کرے اور یہ ساری دُعائیں خاکِ مدینہ کے صَدقے میں مجھ سگِ مدینہ عفی عنہ کے حق میں بھی قبول فرمائے ۔یہ سبھی جانتے ہیں کہ دنیا کے امتحا ن میں نقل کرنا جُرم ہے اور قبروآخِرت کا امتحان بھی خوب ہے کہ اس میں نَقل کرنا ضَروری ہے اور اللہ عزّوجل نے ایساپاکیزہ نمومہ عطافرمادیا ہے کہ جومسلمان اُس نُمونے کی جتنی اچھی نقل کرے گا اُتنا ہی وہ اعلیٰ کامیاب ہوگا ۔چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ اُس مقدّس نُمونے کا اعلان پارہ ۱۲، سورہ الاحزاب کی ۱۲ویں آیتِ کریمہ میں اس طرح فرماتاہے۔:
لَقد کانَ لکم فی رَسُول اللّٰہِ اسوۃحسنَہ
میرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت، وَلی نعمت، عظیمُ البَرَکت، عظیمُ المرتبت، پروانہ شمعِ رسالت، مُجدِدِ دین و ملّت، حامی سنّت، ماحی بدعَت، عالمِ شریعت، پیرِ طریقت، باعثِ خیروبَرَکت، حضرتِ علاَّمہ مولانا الحاج الحافظ القاری الشّاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اپنے شہرہ آفاق ترجمہ قرآن، کنزالایمان میں اس کا تَرجمہ یوں کرتے ہیں،
’بیشک تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم )کی پیروی بہتر ہے۔‘
تو اس نُمونے کی جو نقل کرےگا وہی کامیاب ہوگا اور اللہ عزّوجل کے اس عطا کردہ بے مثل نمونہ کو چھوڑ کرجو شیطان کی پیروی کرے گا، یہودونصاریٰ کی پیروی کرے گا ، جوکُفّار کے طورطریقے اپنائے گا وہ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔

بدنصیب دولھا سویا ہی رہ گیا !
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اللہ تعالیٰ آپ پر فضل و کرم کرے، ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے کسی کے بارے میں یہ شور برپا ہوجائے کہ رات کو تو یہ بھلا چنگا سویا تھا لیکن صبح جب نوکری کیلئے جگایا گیا تو معلوم ہوا کہ آج تو وہ ایسا سویا ہے کہ قِیامت تک سویا ہی رہے گا یعنی اس کی رُوح پرواز کرچکی تھی۔ ہاں ہاں یہ بابُ المدینہ کراچی میں ہونے والا ایک دِل خَراش واقِعہ ہے ایک نوجوان کی شادی ہوئی.... رُخصتی کی تاریخ بھی آگئی .... کل رُخصتی ہونی ہے ،رات کو شکرانے کے نوافِل اور شکرانے میں صَدَقہ و خیرات کرنے کے بجائے یہودونصاریٰ کی پیروی میں ناچ رنگ کی محفِل برپا کی گئی خاندان کی بہو بیٹیاں طبلے کی تھاپ پررَقص کر رہی ہیں اور مَرد بھی بے ڈھنگے پن کے ساتھ ناچ ناچ کراپنے فن کا مُظاہَرہ کر رہے ہیں رات بھر اُودھم مچا کر جب فجر کی اذانیں شروع ہوئیں تو بجائے مسجِد کا رُخ کرنے کے سب لوگ سونے کے لئے چلے گئے۔ دُولہا بھی اپنے بستر پر لیٹا ، رات بھر تھکن کی وجہ سے آنکھ لگ گئی۔ پیارے اسلامی بھائیو! ذراکلیجہ تھام کر سنئے! جمعہ کادِن تھا ماں نے دوپہر کے بارہ بجے کسی کو بھیجا کہ میرے لال کو اُٹھا دو آج جمعہ کا دن ہے جلدی جلدی غسل کرلے اور تیاری کرے کہ آج اس کی دلہن گھر آنے والی ہے۔ جگانے کے لئے گھر کا ایک عزیز پہنچتا ہے آوازیں دیتا ہے، لیکن دولہے میاں جواب نہیں دے رہے، اوہو! آخِر رات کی اتنی بھی کیا تھکن کہ آنکھ ہی نہیں کھُل رہی! مگر جب ہلا جُلا کر دیکھا تو اُ س کی چیخیں نکل گئیں کہ یہ تو ہمیشہ کیلئے سوگیا ہے۔ کُہرام مچ گیا ، شادی کا گھر ماتم کدہ بن گیا، جہاں ابھی رات کو خوشی کے شادیانے بج رہے تھے وہاں اب آہ و بُکا کا شور برپا ہوگیا۔ جہاں ہنسی کے فوارے اُبل رہے تھے وہاں آنسوﺅں کے دھارے بہنے لگے۔ تَجہیز و تکفین کی تیاریاں ہونے لگیں بدنصیب دولہے کوجنازے کی ڈولی میں سَوار کردیا گیا آہ! صدآہ! چند گھنٹوں کے بعد جسے سر پر مہکتے پھولوں کا سہرا پہنا کر نہایت ہی سج دھج کے ساتھ سجی ہوئی کار میں سَوار کرکے بجلی کے قُمقُموں سے جگمگاتے معطّر معطّر حُجرہ عروسی میں لے جایا جانا تھا۔ اسے کندھوں پر سَوار کرکے لوگ چل پڑے ہیں۔ آہ ! اب وہ جگمگ جگمگ کرتے حجرہ عروسی کے بجائے اندھیری قبر کی طرف بڑھتا چلاجارہا ہے، اب اسے رنگ برنگے پھولوں سے سجے ہوئے اور روشنیوں سے جگمگاتے حجرہ عروسی میں نہیں بلکہ کیڑے مکوڑوں سے اُبھرتی ہوئی وَحشتناک قبر میں رکھا جائے گا۔ اب اس کے بدن پر شادی کا خوشنما، رنگ برنگا، مہکتا جوڑا نہیں بلکہ کافور کی غمگین خوشبو میں بساہواکفن ہے اور....اور.... دیکھے ہی دیکھتے اُسے قبرمیں اُتاردیاگیا۔ آہ!
تو خوشی کے پھول لے گا کب تلک؟
تو یہاں زِندہ رہے گا کب تلک؟

قَبر کا ہولناک منظر
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اسی طرح ایک دِن ہمیں بھی قَبر کے ہولناک گڑھے میں اُتاردیا جائے گا ، ہاں ، ہاں ! ہم اپنے دفن کرنے والوں کو دیکھ اور سُن رہے ہونگے، جب وہ مِٹی ڈال رہے ہوں گے یہ دردناک منظر بھی نظر آرہاہوگا، لیکن بول کچھ نہیں سکیں گے، دَفن کرنے کے بعد ہمارے ناز اُٹھانے والے رُخصت ہورہے ہوں گے، قبر میں ان کے قدموں کے چاپ سنائی دے رہی ہوگی، دِل ڈوباجارہا ہوگا، اتنے میں لمبے لمبے دانتوں سے قبر کی دِیواروں کو چیرتے ہوئے خوفناک شکلوں والے مُہَیب کالے بالوں کو لٹکاتے ہوئے دو فِرشتے منکر نکیر قبرمیں آموجود ہوں گے، ان کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہوں گے اور وہ سختی کے ساتھ بٹھائیں گے اور کَرَخت (یعنی سخت) لہجے میں سُوالات کریں گے، دُنیا کی رنگینیوں میں گم صِرف دُنیوی امتحان ہی کی فکر کرنے والوں، فلمیں ڈِرامے دیکھنے والوں، گانے باجے سننے والوں، داڑھی منڈوانے والوں، داڑھی کو ایک مُٹّھی سے گٹھانے والوں،حرام روزی کمانے والوں، سُود اور رِشوت کا لَین دَین کرنے والوں، اپنے عُہدے اور مَنصب سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر مظلوموں کی آہیں لینے والوں، جھوٹ بولنے والوں، غیبت اور چغل خوری کرنے والوں، ماں باپ کا دِل دُکھانے والوں، اپنی اولاد کو سُنّتوں بھرے مَدَنی ماحول اور دعوتِ اسلامی کے اجتِماع سے روکنے والوں،اپنی اولاد کو داڑھی اور زلفوں اور عِمامہ سجانے سے روکنے والوں، بے پردگی کرنے والیوں اور کھُلے بال لے کر گلیوں اور بازاروں میں گھومنے والیوں، میک اپ کرکے شاپنگ سینٹروں اور رِشتہ داروں کے گھروں پربے پردہ جانے والیوں اور دلیری کے ساتھ طرح طرح کے گناہوں سے رچے بسے رہنے والوں سے اگر اللہ عزّوجل ناراض ہوگیا اور اس کے پیارے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم روٹھ گئے اور گناہوں کے سبب معاذَاللہ عزّوجل اگرایمان بربادہوگیا تو کیا بنے گا؟ بڑے سخت لہجے میں سُوالات ہو رہے ہیں، مَن رَّبُّکَ ؟ ’تیرا ربّ کون ہے؟‘ آہ! ربّ عزّوجل کو کب یادکیاتھا! جواب نہیں بن پارہا جو ایمان برباد کربیٹھا اُس کی زبان سے نکل رہا ہے، ھَیھاتَ ھَیھاتَ لاَاَدری ’افسوس! افسوس! مجھے کچھ نہیں معلوم۔‘ پھرپوچھاجائے گا، مَادِینُکَ؟ ’تیرادین کیاہے؟‘ قبر میں مُردہ سوچ رہا ہے کہ میں نے تو آج تک ُدنیا ہی بسائی تھی ،قبر کے امتحان کی تیاری کی طرف کبھی ذِہن ہی نہیں گیا تھا،بس صرف دُنیاکی رنگینیوں میں کھویاہوا تھا، مجھے قبر کے امتِحان کاکہاں پتاتھا ! کچھ سمجھ نہیں آرہی اور زَبان سے نکل رہا ہے، ھَیھاتَ ھَیھاتَ لاَاَدری ’افسوس! افسوس! مجھے کچھ نہیں معلوم۔‘ پھر ایک حسین وجمیل نور برساتا جلوہ دکھایا جائے گا اور سُوال ہوگا، مَا کُنتَ تَقُولُ فِیحَقِّ ھٰذَا الرَّجُل؟ ’ان کے بارے میں توکیاکہتاتھا؟‘ پہچان کیسے ہوگی! داڑھی سے تواُنسِیَّت تھی ہی نہیں ،اِنگریزی بال اچھے لگتے تھے ،یہودیوں کا طریقہ عزیز تھا، داڑھی منڈوانے کا معمول رہا،یہ تو داڑھی شریف والی شخصیت ہے ،کبھی زِندگی میں عِمامے کاسوچا ہی نہیں تھا،یہ تو عِمامے والے صاحب ہیں ، بچّے نے زُلفیں رکھوائیں تھیں تو اُس کو مار مار کر کٹوانے پر مجبور کیا تھا، یہ بُزُرگ توزُلفوں والے ہیں اور اپنا محبوب لباس تو پینٹ شرٹ تھا اور شرٹ بھی جب تک اندر (In) نہ ہو مزا نہ آتا تھا،میں کیاجانوں یہ کون صاحِب ہیں؟ کی چَین (Key Chain) میں فلم ایکٹریس کا فوٹو رکھا تھا ،اپنی سُوزوکی کے پیچھے بھی فلم ایکٹریس کا فوٹو لگاکر دوسرے لوگوں کو بدنگاہی کی دعوت عام دے رکھی تھی، گھر میں ایکٹریس کی تصاویر آویزاں کررکھی تھیں، مجھے تو فنکاروں اور گُلوکاروں کی پہچان تھی معلوم نہیں یہ کون صاحِب ہےں ! آہ! جس کا خاتِمہ ایمان پر نہیں ہوا اُس کے مُنہ سے نکلے گا ھَیھاتَ ھَیھاتَ لاَاَدری ’افسوس! افسوس! مجھے کچھ نہیں معلوم۔‘ اتنے میں جنّت کی کھڑکی کھلے گی اور فورًا بند ہوجائےگی پھر جہنم کی کھڑکی کھلے گی اور کہاجائے گا اگر تُونے دُرُست جواب دیئے ہوتے تو تیرے لئے وہ جنّت کی کھڑکی تھی ۔ یہ سن کر اُسے حسرت بالائے حسرت ہوگی،کفن کو آگ کے کفن سے تبدیل کردیاجائے گا ،آگ کا بِچھونا قبرمیں بچھا یاجائے گا، سانپ اور بچھو لپٹ جائیں گے۔

آج مچھر کا بھی ڈنک آہ! سہا جاتا نہیں
قبر میں بچھو کے ڈنک کیسے سہے گا بھائی؟

جلوہ جاناں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
نَمازیوں، رَمَضان کے روزے رکھنے والوں،حج ادا کرنے والوں،پوری زکوٰۃ نکالنے والوں، فلموں ڈراموں سے دُور بھاگنے والوں، وعدہ خلافی، بداَخلاقی، بدنگاہی، جھوٹ، غیبت، چُغلی اور بے پردگیوں سے بچنے والوں، اللہ کی رَضا کیلئے میٹھے بول بولنے والوں، دعوتِ اسلامی کے مُبَلِّغوں، سنّتوں پر عمل کرکے دوسروں کو سنّتیں سکھانے والوں، فیضانِ سنّت کادرس دینے اور سننے والوں، نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے والوں، دعوتِ اسلامی کے سنّتوں کی تربیّت کے مَدَنی قافِلوں میں سفر کرنے والوں، اپنے چہرے کوایک مٹھّی داڑھی سے آراستہ کرنے والوں، اپنے سر پرعِمامہ شریف کاتاج سجانے والوں، سنّتوں بھرا لباس پہننے والوں کومُبارکَ ہو کہ جب مومِن قبر میں جائے گا اور اُس سے سُوال ہوگا مَن رَّبُّکَ ؟ ”تیرا ربّ کون ہے؟ ‘ وہ کہے گا، رَبِّیَ اللّٰہ ’میرا ربّ اللہ عزّوجل ہے۔‘ ما دِینُکَ؟ ’تیرا دین کیا ہے؟‘ زَبان سے نکلے گا، دِینِیَ الاِسلاَم ’میرادین اسلام ہے‘ (الحمدللہ عزّوجل اِسی اسلام کی مَحبت میں تو دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلے میں سفر کیا کرتا تھا ۔اسی اسلام کی محبت میں تومیں معاشرے کے طعنے سہتاتھا، سنّتوں پر عمل کرتا دیکھ کر لوگ مذاق اُڑاتے تھے ،مگر میں ہنسی خوشی برداشت کیاکرتا تھا ، اِسی دینِ اسلام کی خاطِرمیری زِندگی وَقف تھی ) پھر کسی کا رَحمت بھرا جلوہ دِکھایا جائے گا ، تو خوش نصیب نَمازیوں،روزے داروں، حاجیوں، پوری زکوٰۃ ادا کرنے والوں، سنّتوں پرعمل کرنے والوں، نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے والوں اورمَدنی قافلوں میں سفر کرنے والوں کا دِل خوشی سے جھوم اُٹھے گا۔ کیونکہ دُنیا میں بقولِ مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ رحمۃ المنّان کی یہ کیفیت ہوتی تھی

روح نہ کیوں ہو مُضطرب موت کے اِنتظار میں
سُنتا ہوں مجھ کو دیکھنے آئیں گے وہ مزار میں
اور اسی حسرت کو تو زندگی میں پروان چڑھارہاتھا کہ
قبر میں سرکار آئیں تو میں قدموں پر گروں
گر فِرشتے بھی اٹھائیں تو میں اُن سے یوں کہوں
اب تو پائے ناز سے اے فِرشتو کیوں اُٹھوں!
مَر کے پہنچا ہوں یہاں اِس دلربا کے واسطے

تو جب سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار، ہم غریبوں کے غمگسار، بے کسوں کے مددگار، شہنشاہِ والاتَبار، صاحبِ پسینہ ،خوشبودار، شفیعِ روز ِشمار جنابِ احمدِ مُختار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا جائے گا، ما کُنتَ تَقُولُ فِیحَقِّ ھٰذَا الرَّجُل؟ ’اس مَرد کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟‘ تو زَبان سے بے ساختہ جاری ہوگا، ھُوَ رَسُولُ اللّٰہِ عزّوجل و صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم ’یہ اللہ عزّوجل کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں ۔‘ یہی تو میرے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں جن کا ذِکر سن کر میں جھومتا تھا اور نامِ نامی اسمِ گرامی سن کر عقیدت سے انگوٹھے چومتا تھا ، یہ تو میرے وُہی میٹھے میٹھے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں کہ جن کی یاد میرے لئے سرمایہ حیات تھی، یہی تو میرے پیارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں کہ جن کا ذِکر میرے دل کا سُرور اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک تھا۔

تمہاری یاد کو کیسے نہ زندگی سمجھوں
یہی تو ایک سہارا ہے زندگی کے لئے
مرے تو آپ ہی سب کچھ ہیں رحمتِ عالم
میں جی رہا ہوں زمانے میں آپ ہی کے لئے

اور جب سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جلوہ دِکھاکر تشریف لے جانے لگیں تو اِن شَاء اللّٰہ عزّوجل قدموں سے لپٹ کر عرض ہوگی، یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

دل بھی پیاسا نظر بھی ہے پیاسی
کیا ہے ایسی بھی جانے کی جلدی
ٹھہرو ٹھہرو! ذرا جانِ عالم !
ہم نے جی بھر کے دیکھا نہیں ہے

ا ے کاش! ہمیشہ کے لئے ہماری قبر ہمارے میٹھے میٹھے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے جلوﺅں سے بسادیں۔ بقولِ مولانا حسن رضا خان علیہ رحمہ الرحمن پھرتو....

کیوں کریں بزمِ شبستان جِناں کی خواہش
جلوہ یار جو شمعِ شبِ تنہائی ہو

آخِری سوال کا جواب دینے کے بعد جہنم کی کھڑکی کھلے گی اور مَعاً (یعنی فوراً) بند ہوجائے گی اور جنّت کی کھڑکی کھُلے گی اور کہا جائے گا، اگر تُونے دُرُست جوابات نہ دیئے ہوئے تو تیرے لئے وہ دوزخ کی کھِڑکی تھی۔ یہ سن کر اُسے خوشی بالائے خوشی ہوگی، اب جنّتی کفن ہوگا، جنّتی بچھونا ہوگا، قبر تاحدِّ نظر وَسیع ہوگی اور مزے ہی مزے ہونگے۔

قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نور کے
جلوہ فرما ہوگی جب طلعت رسول اللہ کی
(حدائقِ بخشش)

جہنَّم کے دروازے پر نام
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! جھٹ پٹ اللہ عزّوجل کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرلیجئے۔ یادرکھئے! سرکارِمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان ہے، ’جوکوئی جان بوجھ کر ایک نَماز بھی قضاکردیتا ہے اس کا نام جہنم کے اس دروازے پر لکھ دیا جائے گا جس سے وہ جہنم میں داخِل ہوگا۔‘ (حِلیۃ الاولیاءحدیث ۰۹۵۰۱ ج۷ ص۹۹۲ دارالکتب العلمیہ بیروت)

اس طرح ایک اور حدیثِ پاک میں ارشادفرمایا، ’جوماہِ رَمَضان میں ایک روزہ بِلاعُذرِ شرعی ومرض قَضاکردیتا ہے تو زمانے بھرکے روزے اس کی قضا نہیں ہوسکتے اگرچہ بعدمیں رکھ بھی لے۔‘ (جامع ترمذی حدیث ۳۳۷ ج۲ ص۵۷۱ دارالفکر بیروت)

پچھلی نمازیں یا روزے باقی ہیں تو ان کا حساب کرلیجئے ، قَضاعُمری کرلیجئے اور تاخیر کی توبہ بھی کرلیجئے ۔ فلمیں ڈِرامے دیکھنے والوں اور بدنگاہی کرنے والوں کو ڈرنا چاہئے کہ مُکاشَفۃ القلوب میں ہے، ’جواپنی آنکھوں کو حرام سے پُر کرے گا اس کی آنکھوں میں قِیامت کے روز اللہ تعالیٰ آگ بھردے گا۔‘ (مُکاشفۃ القلوب، ص۰۱ دارالکتب العلمیہ بیروت)

ماں باپ کو ستانے والوں کیلئے دَردناک عذاب کی وعید ہے ۔چُنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے، ’معراج کی رات سرورِ کائنات ، شاہِ مَوجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک منظر یہ بھی دیکھا کہ کچھ لوگ آگ کی شاخوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ عرض کی گئی، ’ یہ ماں باپ کو گالیاں بکتے تھے۔‘ (الکبائر، للامام ذہبی صفحہ نمبر ۸۴ مطبوعہ اشاعت اسلام کتب خانہ پشاور)

داڑھی منڈانے والوں، یا ایک مٹھی سے گھٹانے والوں کیلئے مقامِ غور ہے کہ حدیثِ پاک میں آتا ہے، ’مونچھوں کوخوب پَست کرو اور داڑھیوں کو معافی دو (یعنی بڑھنے دو) اور یہودیوں جیسی صورت مت بناﺅ۔‘

سرکار کا عاشق بھی کیا داڑھی مُنڈاتا ہے؟
کیوں عشق کا چہرے سے اِظہار نہیں ہوتا؟

کالے بچھو
کوئٹہ کے ایک قریبی گاﺅں میں ایک لاوارث کلین شیو نوجوان مراہوا پایا گیا ،لوگوں نے مل جُل کر دفنادیا۔ اتنے میں مرحوم کے عزیز آپہنچے اور کہنے لگے کہ ہم اس کی لاش کو نکال کر لے جائیں گے اور اپنے گاﺅں میں دفنائیں گے۔ لہٰذا قبر دوبارہ کھودی گئی جب چہرے کی طرف سے سِل ہٹائی گئی تو لوگوں کی چیخیں نکل گئیں! کفن چہرے سے ہٹا ہوا تھا اور کلین شیو نوجوان کے چہرے پرکالے کالے بچھو کی کالی کالی داڑھی بنی ہوئی تھی گھبرا کر جلدی جلدی سِل رکھی مِٹی ڈالی اور لوگ بھاگ گئے۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! ہم سب کے چہرے کو اللہ تعالیٰ بچھوﺅں سے بچائے۔ آمین۔ جلدی جلدی پیارے پیارے اور شہد سے بھی میٹھے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنّت چہرے پر سجالیجئے اور جو اَب تک مُنڈاتے یا خَشخَشی کرواتے رہے ہیں وہ اِس گناہ سے توبہ بھی کرلیں ۔ یاد رکھئے! داڑھی منڈانابھی حرام ہے اور ایک مٹھی سے گھٹانا بھی حرام ۔

گیسو رکھنا سُنَّت ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! میرے مکی مدَنی آقا، میٹھے میٹھے مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیشہ آدھے کان مبارَک تک، یاکانِ پاک کی لَو تک ،یا گردن شریف تک بال مبارَک رکھے یعنی جو شانوں کو چُوم لیتے تھے۔ (ہاں حج و عمرہ کے احرام شریف سے باہَر ہونے کیلئے حلق فرمایا ہے۔) انگلش بال سنّت نہیں گیسو (زلفیں) سنّت ہیں ۔ برائے کرم! اپنے سَر پر سنّت کے مطابق گیسو سجالیجئے۔

عمامہ کی پیاری حکایت
میرے آقا امامِ اہلسنّت مولانا شاہ احمدرضا خان علیہ رحمہ الرحمن فرماتے ہیں، حضرتِ امیرالمومنین سیّدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے حضرتِ سیّدنا سالم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، میں اپنے والدِماجد حضرتِ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے حضور حاضِر ہوا اور وہ عمامہ باندھ رہے تھے، جب باندھ چکے، میری طرف اِلتِفات (یعنی توجُّہ) کرکے فرمایا، تم عمامہ کو دوست رکھتے ہو؟ میں نے عرض ، کیوں نہیں! فرمایا، اسے دوست رکھو عزّت پاﺅگے اور جب شیطان تمہیں دیکھے گا تم سے پیٹھ پھیرلے گا، میں نے رسول اللہ عزّوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ ’عمامہ کے ساتھ ایک نفل نَماز خواہ فرض بے عِمامہ کی پچیس نَمازوں کے برابر ہے اور عمامہ کے ساتھ ایک جمعہ بے عمامہ کے ستّر جمعوں کے برابر ہے۔‘ پھر ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا، اے فرزند! عمامہ باندھ کہ فِرِشتے جمعہ کے دِن عمامہ باندھے آتے ہیں اور سورج ڈوبنے تک عمامہ والوں پر سلام بھیجتے رہتے یں۔ (فتاویٰ رضَویہ جدید ج۶ ص۵۱۲ رضا فاونڈیشن)

اگر سب اپنی مَدَنی سوچ بنالیں کہ آج سے ہم داڑھی زُلفوں اور عمامہ شریف کی سنّتیں اپنالیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ دَور آجائے گا کہ داڑھی، زُلفوں اور عمامہ شریف کا ایک بار پھر رَواج پڑ جائے گا۔ یعنی جس طرح آج لوگ بکثرت داڑھیاں مُنڈاتے ہیں اسی طرح کثیر مسلمان داڑھیاں سجانے لگیں گے اور ہر طرف داڑھی ، زلفوں اور عمامہ شریف کی بہار آجائے گی۔

ہم کو میٹھے مصطفےٰ کی سنّتوں سے پیار ہے
اِن شاءاللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے

ناجائز فیشن کرنے والوں کا انجام
سرکارِمدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’(معراج کی رات) میں نے کچھ مردوں کو دیکھا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، میںنے کہا، یہ کون ہےں؟ جبرئیل امین (علیہ الصَّلوٰۃ وَالسّلام) نے عرض کی، ’یہ لوگ ناجائز اشیاءسے زِینت حاصل کرتے تھے۔‘ اور میںنے ایک بدبودار گڑھا دیکھا جس میں شوروغوغابرپا تھا، میںنے کہا، یہ کون ہےں؟ تو عرض کی، ’یہ وہ عورَتیں ہیں جو ناجائز اَشیاءسے زِینت حاصل کرتی تھیں۔‘ (تاریخِ بغداد ج۱ ص ۵۱۴ دارالکتب العلمیہ بیروت)

یاد رکھئے! نَیل پالش کی تہ ناخنوں پر جم جاتی ہے، جس کی وجہ سے وُضو اور غسل نہیں ہوتا لہٰذا نماز بھی نہیں ہوتی۔

آؤ عہد کریں
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! آج سے عہد کرلیجئے (امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ بعض اجتماعات میں بیان کے بعد اپنے مخصوص انداز میں عہد لیتے ہیں جس کا جواب اجتماع میں موجود لاکھوں اسلامی بھائی ہاتھ لہرا لہرا کر اِنشَاء اللّٰہ کے فلک شگاف نعروں سے دیتے ہیں۔ (عبید الرضا ابنِ عطار)) کہ میری کوئی نماز قضا نہیں ہوگی.... آج کے بعد رَمَضان کاکوئی روزہ قضانہیں ہوگا.... فلمیں ڈِرامے نہیں دیکھیں گے.... گانے باجے نہیں سنیں گے.... داڑھی نہیں منڈائیں گے ....ایک مٹھی سے نہیں گھٹائیں گے ....ان شاء اللہ۔ اورمَردوں کے پاجامے کے پائنچے ٹخنوں سے اُوپر ہونے چاہئیں کہ جو تکبر سے کپڑا ٹخنوں سے نیچے گِرتا ہے وہ آگ میں ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ ایک شخص تکبر سے تہبند گھسیٹ رہاتھا زمین میں دھنسادیاگیا اور قِیامت تک وہ زمین میں دھنستا رہے گا۔ (صحیح بخاری حدیث ۷۸۷۵ ج۴ ص۶۴ دارالکتب العلمیہ بیروت)

آج کے بعد سارے اسلامی بھائی اپنے پاجامے ٹخنوں سے اوپر رکھاکریں گے.... اِن شاء اللّٰہ عزّوجل ....اِن شاء اللّٰہ عزّوجل

بدنام شرابی اور مَدَنی قافِلہ
ہند کا واقِعہ ہے، ’مُنّا بھائی‘ ایک بدنام شرابی تھے، عاشقانِ سول کی اِنفرادی کوشش سے مَدَنی قافِلے کے مسافر بن گئے۔ وہاں عاشقانِ رسول کی صحبت رنگ لائی، شراب سے تائب ہوکر دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے مُنسلک ہوگئے۔ مُنا بھائی کی توبہ سے عَلاقے میں دعوتِ اسلامی کی دھوم پڑگئی، دونوجوان آپس میں کچھ اس طرح گفتگو کر تے سنے گئے، ایک نے کہا، تم نے سنا، منّابھائی دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافلے میں گئے تھے اس میں ایک دَم تبدیلی آگئی ہے اور اس نے شراب پینا چھوڑدی ہے۔ دوسراکہنے لگا، چھوڑدویار! میں نہیں مان سکتا! اتنے پکّے شرابی اور اَوباش آدمی کو دعوتِ اسلامی والے کیا سُدھاریں گے! بِالآخِر تحقیق کرنے پر خبردُرست پاکر یہ دونوں بہت متاثِر ہوئے کہ دعوتِ اسلامی والوں نے کمال کردیا کہ مُنّابھائی جیسے کو سُدھاردیا! پھردونوں دوست بھی عاشقانِ رسول کی بَرَکتیں لوٹنے کیلئے اُن کے ساتھ مَدَنی قافِلہ پرروانے ہوگئے۔

جو شرابیں پئیں بدمُعاشی کریں
آکے توبہ کریں قافلے میں چلو
جو بُرے آئیں گے اچھّے بن جائیں گے
فضلِ ربّ سے سنیں قافلے میں چلو
اے گنہگار آ تو بھی بدکار آ
لوٹ لے رَحمتیں قافلے میں چلو
Muhammad Owais Aslam
About the Author: Muhammad Owais Aslam Read More Articles by Muhammad Owais Aslam: 97 Articles with 687697 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.