احترام مسلم
(یہ بیان امیر اہلسنت (دامت برکاتہم العالیہ) نے تبلیغ قرآن و سنت کی
عالمگیر غیر سیاسی تحریک، دعوت اسلامی کے تین روزہ بین الاقوامی اجتماع
(11، 12، 13 شعبان المعظم 1423ھ بروز ہفتہ مدینۃ الاولیاء ملتان) میں
فرمایا۔ ضروری ترمیم کے ساتھ تحریراً حاضر خدمت ہے۔ عبیدالرضا ابن عطار)
درود شریف کی فضیلت
سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تقرب نشان ہے، “قیامت
کے روز لوگوں میں میرے نزدیک تر وہ ہوگا جس نے مجھ پر زیادہ دورد شریف پڑھے
ہوں گے۔“ (جامع ترمذی، رقم الحدیث 484، ص27، مطبوعۃ دارالفکر بیروت )
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم
کھوٹا سکہ
حضرت سیدنا شیخ ابو عبداللہ خیاط رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پاس ایک آتش
پرست کپڑے سلواتا اور ہر بار اجرت میں کھوٹا سکہ دے جاتا، آپ اُس کو لے
لیتے۔ ایک بار آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی غیر موجودگی میں شاگرد نے آتش
پرست سے کھوٹا سکہ نہ لیا۔ جب حضرت سیدنا شیخ عبداللہ خیاط رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ واپس تشریف لائے اور اُن کو یہ معلوم ہوا تو آپ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ نے شاگرد سے فرمایا، تو نے کھوٹا سکہ کیوں نہیں لیا ؟ کئی سال
سے وہ مجھے کھوٹا سکہ ہی دیتا رہا ہے اور میں بھی چپ چاپ لے لیتا ہوں تا کہ
یہ کسی دوسرے مسلمان کو نہ دے آئے۔ (احیاء العلوم، ج3، ص77، دارالکتب
العلمیۃ بیروت)
دعوت اسلامی کیا چاہتی ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! پہلے کے بزرگوں میں احترام مسلم
کا جذبہ کس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا تھا۔ کسی انجانے مسلمان بھائی کو
اتفاقی نقصان سے بچانے کیلئے بھی اپنا خسارہ گوارا کر لیا جاتا تھا، جبکہ
آج تو بھائی اپنے بھئای کو ہی لوٹنے میں مصروف ہے۔ تبلیغ قرآن و سنت کی
عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی دور اسلاف کی یاد تازہ کرنا چاہتی ہے۔
“دعوت اسلامی“ نفرتیں مٹاتی اور محبتوں کے جام پلاتی ہے۔ ہر اسلامی بھائی
کو چاہئے کہ عاشقانِ رسول کے مدنی قافلوں میں سنتوں کی تربیت کیلئے سفر اور
روزانہ فکرِ مدینہ کے ذریعے مدنی انعامات کے کارڈ پُر کرکے ہر مدنی ماہ کے
ابتدائی دس دن کے اندر اندر اپنے یہاں کے ذمہ دار کو جمع کروانے کا معمول
بنائے۔ انشاءاللہ عزوجل بطفیلِ مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
احترام مسلم کا جذبہ بیدار ہوگا۔ اگر ایسا ہو گیا تو انشاءاللہ عزوجل ہمارا
معاشرہ ایک بار پھر مدینہء منورہ کے دلکش و خوشگوار، خوبشودار و سدا بہار
رنگ برنگے پھولوں سے لدا ہوا حسین گلزار بن جائے گا۔
طیبہ کے سوا سب باغ پامال دفنا ہونگے
دیکھو گے چمن والو جب عہدِ خزاں آیا
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم
تین شخص جنت سے (ابتداءً) محروم
والدین و دیگر ذوالارحام (یعنی جن کے ساتھ خونی رشتہ ہو درجہ بدرجہ) معاشرہ
میں سب سے زیادہ احترام و حُسن سلوک کے حقدار ہوتے ہیں، مگر افسوس کہ اس کی
طرف اب دھیان کم دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ عوام کے سامنے اگرچہ انتہائی
منکسرالمزاج و ملنسار گردانے جاتے ہیں مگر اپنے گھر میں بالخصوص والدین کے
حق میں نہایت ہی تند مزاج و بداخلاق ہوتے ہیں۔ ایسوں کی توجہ کیلئے عرض ہے،
حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے، سرکار دو
عالم، نورِ مجسم، شاہ بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ
معظم ہے، تین شخص جنت میں نہیں جائیں گے، ماں باپ کو ستانے والا اور دیوث
اور مردانی وضع بنانے والی عورت۔ (مجمع الزوائد، رقم الحدیث13431، ج8،
ص270، دارالفکر بیروت)
دیوث کی تعریف
بیان کردہ حدیث مبارک میں ماں باپ کو ایذاء دینے والے کے ساتھ ساتھ دیوث کے
بارے میں بھی وعید ہے کہ وہ جنت سے محروم کر دیا جائے گا۔ “دیوث“ اُس نادان
مرد کو کہتے ہیں جو اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اُس کی بیوی، کس کس غیر
مرد سے ملتی ہے۔
یاد رکھئے! دیگر نامحرموں کے ساتھ ساتھ تایازاد، چچازاد، ماموں زاد، خالہ
زادم پھوپھی زاد، چچی، تائی، ممانی، بہنوئی، خالو اور پھوپھا نیز دیور و
جیٹھ اور بھابھی کے درمیان بھی شریعت نے پردہ رکھا ہے۔ اگر بیوی ان سے بے
تکلف رہے گی اور ان سے شرعی پردہ نہیں کریگی تو جہنم کی حقدار ہے اور شوہر
اپنی استطاعت کے مطابق بیوی کو اس گناہ سے نہیں روکے گا تو شرعاً وہ “دیوث“
ہے اور دیوث جہنم کا مستحق ہے۔ لٰہذا وہ ابتداءً جہنم سے محروم رہے گا۔ جو
علانیہ دیوث ہے وہ فاسق، معلن، ناقابلِ امامت و مردود الشہادت ہے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشقانِ رسول کے مدنی قافلوں میں سنتوں کی
تربیت کیلئے سفر اور روزانہ فکرِ مدینہ کے ذریعے مدنی انعامات کے کارڈ پُر
کرکے ہر مدنی ماہ کے ابتدائی دس دن کے اندر اندر اپنے یہاں کے ذمہ دار کو
جمع کروانے کا معمول بنائیے۔
انشاءاللہ عزوجل نے حیائی کا انتہائی درجہ کا مرض دیوثی اور دیگر گناہوں کے
امراض بھی اُن میٹھے میٹھے مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے صدقے
میں دور ہوں گے جن کی حیاء سے جھکی ہوئی مبارک نگاہوں کا واسطہ پیش کرتے
ہوئے، میرے آقا اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہِ رب العزت میں عرض
کرتے ہیں۔
یاالٰہی رنگ لائیں جب مری بے باکیاں
اُن کی نیچی نیچی نظروں کی حیاء کا ساتھ ہو
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم
مردانہ لباس والی جنت سے محروم
حدیث پاک میں مردانی وضع بنانے والی عورت کو بھی جنت سے محروم قرار دیا گیا
ہے۔ تو جو عورت مردانہ لباس، یا مردانہ جوتا پہنے یا مردانہ طرز کے بال
کٹوائے وہ بھی اس وعید میں داخل ہے۔ آج کل بچوں میں اس بات کا کوئی لحاظ
نہیں رکھا جاتا، لڑکے کو لڑکی کا لباس پہنا دیا جاتا ہے جس سے وہ لڑکی
معلوم ہوتا ہے جبکہ لڑکی کو معاذاللہ عزوجل لڑکے کا لباس مثلاً پینٹ شرٹ،
لڑکے کے جوتے اور ہیٹ وغیرہ پہنا دیتے ہیں، بال بھی لڑکے جیسے رکھوائے جاتے
ہیں کہ دیکھنے میں بالکل لڑکا معلوم ہوتی ہے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو گنہگار
ہونگے۔ مہندی لگانا چاہیں تو صرف بچی کے ہاتھ پاؤں میں لگائیے بچے کے ہاتھ
مہندی سے نہ رنگئے کہ یہ بھی گناہ ہے۔ (ردالمحتار، ج9، ص522، دارالکتب
العلمیۃ بیروت)
اپنے بچوں کو ایسے بابا سوٹ بھی مت پہنائیے جن پر انسان یا جانور کی تصویر
بنی ہو، بچوں کو نیل پالش بھی نہ لگائیے اور بچوں کی ماں بھی ہرگز نہ لگائے
کہ اس سے وضو و غسل نہیں ہوتا۔
بڑے بھائی کا احترام
والدین کے ساتھ ساتھ دیگر اہل خاندان مثلاً بھائی بہنوں کا بھی خیال رکھنا
چاہئیے۔ والد صاحب کے بعد دادا جان اور بڑے بھائی کا رتبہ ہے کہ بڑا بھائی
والد کی جگہ ہوتا ہے۔ تاجدار رسالت، صاحب جود و سخاوت، محبوب رب العزت
عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ بڑے بھائی
کا حق چھوٹے بھائی پر ایسا ہے جیسے والد کا حق اولاد پر۔ (شعب الایمان، رقم
الحدیث 7929، ج6، ص210، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اولاد کو ادب سکھائیے
والدین کو بھی چاہئیے کہ اپنی اولاد کے حقوق کا خیال رکھیں۔ انہیں ماڈرن
بنانے کے بجائے سنتوں کا چلتا پھرتا نمونہ بنائیں، ان کے اخلاق سنواریں،
بُری صُحبت سے دور رکھیں، سنتوں بھرے مدنی ماحول سے وابستہ کریں۔ فلموں
ڈراموں اور بُرے رسم و رواج والے گانوں سے بھرپور، یادِ الٰہی سے دور کرنے
والے فحش فنکشنوں سے بچائیں۔ آج کل شاید ماں باپ اولاد کے حقوق یہی سمجھتے
ہیں کہ ان کو صرف دنیوی تعلیم، ہنر اور مال کمانا آجائے۔ آہ! لباس اور بدن
کو تو میل کچیل سے بچانے کا ذہن ہوتا ہے مگر بچے کے دل اور اعمال کی
پاکیزگی کا کوئی خیال نہیں ہوتا۔ اللہ کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن
العیوب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کوئی شخص اپنی
اولاد کو ادب سکھائے وہ اس کیلئے اس صاع (یعنی تقریباً پونے تین کلو) صدقہ
کرنے سے افضل ہے۔ (جامع ترمذی، رقم الحدیث 195،ج3، ص38 ) اور ارشاد ہے کہ
کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی چیز ایسی نہیں دی جو اچھے ادب سے بہتر ہو۔
(جامع ترمذی، رقم الحدیث 1959، ج3، ص383 )
گھروں میں مدنی ماحول نہ ہونے کی ایک وجہ
افسوس! آج کل ہم میں سے اکثر کے گھروں میں مدنی ماحول بالکل نہیں ہے۔ اس
میں کافی حد تک ہمارا اپنا بھی قصور ہے۔ گھر والوں کے ساتھ ہماری بے انتہا
بے تکلفی، ہنسی مذاق، تو تڑاق، اور بد اخلاقی اور حد درجہ بے توجہی وغیرہ
اس کے اسباب ہیں، عام لوگوں کے ساتھ تو ہمارے بعض اسلامی بھائی انتہائی
عاجزی اور مسکینی سے پیش آتے ہیں مگر گھر میں شیر ببر کی طرح دہاڑتے ہیں،
اس طرح گھر والوں میں دقار قائم ہوتا ہی نہیں اور وہ بے چارے اصلاح سے اکثر
محروم رہ جاتے ہیں۔ خبردار! اگر آپ نے اپنے اخلاق نہ سنوارے، گھر والوں کے
ساتھ عاجزی اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرکے ان کی اصلاح کی کوشش نہ فرمائی
تو کہیں جہنم میں نہ جا پڑیں۔ اللہ تبارک و تعالٰی پارہ 28، سورۃ التحریم
کی آیت6 میں ارشاد فرماتا ہے:-
یایھاالذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا وقودھا الناس والحجارۃ۔ (پارہ28،
سورۃ التحریم6)
ترجمہء کنزالایمان:- اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اُس
آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
اہل خانہ کو دوزخ سے کیسے بچائیں
اس کے تحت خزائن العرفان میں ہے، اللہ تعالٰی اور اُس کے رسول عزوجل و صلی
اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی فرمانبرداری اختیار کرکے، عبادتیں بجا لاکر،
گناہوں سے باز رہ کر اور گھر والوں کو نیکی کی ہدایت اور بدی سے ممانعت
کرکے اور انہیں علم و ادب سکھاکر (اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو جہنم
کی آگ سے بچاؤ۔)
رشتہ داروں کا احترام
تمام رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئیے۔ حضرت سیدنا عاصم رضی اللہ
تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا، “جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی اور رزق میں فراخی ہو
اور بُری موت دفع ہو وہ اللہ تعالٰی سے ڈرتا رہے اور رشتہ داروں سے حُسن
سلوک کرے۔“ (المستدرک۔ رقم الحدیث، 7280، ص97، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
مصطفٰے جانِ رحمت، محبوب رب العزت عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا، “رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔“ (صحیح بخاری، رقم
الحدیث5984، ج7، ص97، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
ناراض رشتے داروں سے صلح کر لیجئے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ان احادیث مبارکہ سے اُن لوگوں کو عبرت حاصل
کرنی چاہئیے جو بات بات پر اپنے رشتہ داروں سے ناراض ہو جاتے اور ان سے
مراسم توڑ ڈالتے ہیں، ایسوں کو چاہئیے کہ اگرچہ رشتہ داروں ہی کا تصور ہو
صلح کیلئے خود پہل کریں اور خندہ پیشانی کے ساتھ مل کر ان سے تعلقات سنوار
لیں۔ ہاں اگر کوئی شرعی مصلحت مانع ہے تو بیشک صلح نہ کریں۔ عاشقانِ رسول
کے مدنی قافلوں میں سنتوں کی تربیت کے لئے سفر اور روزانہ فکرِ مدینہ کے
ذریعے مدنی انعامات کے کارڈ پُر کرکے ہر مدنی ماہ کے ابتدائی دس دن کے اندر
اندر اپنے یہاں کے ذمہ دار کو جمع کروانے کی برکت سے انشاءاللہ عزوجل
بطفیلِ مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم احترامِ مسلم کا آپ کے اندر
وہ درد پیدا ہوگا کہ تمام رشتہ داروں سے نہ صرف صلح ہو جائے گی بلکہ وہ سب
کے سب انشاءاللہ عزوجل دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو جائیں گے۔
سب شکر رنجیاں
دور ہوں گی میاں
قافلے میں چلیں
قافلے میں چلو
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی فضیلت
جس بچے یا بچی کا باپ فوت ہو جائے اُس کو یتیم کہتے ہیں۔ جب بچہ یا بچی
بالغ ہو گئے تو اب یتیم کے احکام ختم ہوئے۔ یتیموں کے ساتھ حُسن سلوک کا
بھی بڑا ثواب ہے۔ چنانچہ رسول کریم، رءوف رحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا، “جو شخص یتیم کے سر پر محض اللہ عزوجل کیلئے ہاتھ پھیرے تو
جتنے بالوں پر اُس کا ہاتھ گزرا ہر بال کے مقابل میں اُس کیلئے نیکیاں ہیں
اور جو شخص یتیم لڑکی یا یتیم لڑکے پر احسان کرے میں اور وہ جنت میں (دو
انگلیوں کو ملا کر فرمایا) اس طرح ہونگے۔“ (مسند امام احمد، رقم الحدیث
22215، ج8، مطبوعۃ دارالفکر بیروت )
یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے اور مسکین کو کھانا کھلانے سے دل کی سختی دور
ہوتی ہے۔ سنت یہ ہے کہ یتیم لڑکے کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہوا آگے کی طرف لے
آئے اور بچے کا باپ ہو تو پاتھ پھیرتا ہوا گردن کی طرف لے جائے۔ (المعجم
الاوسط للطبرانی، رقم الحدیث 1279، ج1، ص351 دارالفکر بیروت)
ٹیڑھی پسلی کی پیداوار
مرد کو چاہئیے کہ اپنی زوجہ کے ساتھ حُسن سلوک کرے۔ اور اُس کو حکمتِ عملی
کے ساتھ چلائے چنانچہ میٹھے میٹھے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا
فرمانِ حکمت نشان ہے،“بیشک عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے تمہارے لئے کسی طرح
سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تم اس سے نفع چاہتے ہو تو اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ
ہی نفع حاصل کر سکتے ہو اور اگر اس کو سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ ڈالو گے
اور اس کا توڑنا طلاق دینا ہے۔“ (صحیح مسلم، ج1، ص475، افغانستان)
زوجہ کے ساتھ نرمی کی فضیلت
معلوم ہوا کچھ نہ کچھ خلافِ مزاج حرکتیں اس سے سرزد ہوتی ہی رہیں گی۔ مرد
کو چاہئیے کہ صبر کرتا رہے۔ نبیوں کے سرور، حُسن اخلاق کے پیکر، محبوب رب
اکبر عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ روح پرور ہے، “کامل
ایمان والوں میں سے وہ بھی ہے جو عمدہ اخلاق والا اور اپنی زوجہ کے ساتھ سب
سے زیادہ نرم طبیعت ہو۔“ (جامع ترمذی، رقم الحدیث 2621، ج4، ص278، مطبوعۃ
دارالفکر بیروت)
پرلے درجے کی نامردی
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس حدیث پاک میں اُن لوگوں کے لئے دعوتِ فکر ہے
جو بات بات پر اپنی زوجہ کو جھاڑتے بلکہ مارتے ہیں۔ ایک صنف نازک پر قوت کا
مظاہرہ کرنا اور خواہ مخواہ رعب جھاڑنا مردانگی نہیں بلکہ پرلے درجے کی
نامردی ہے۔ اگرچہ عورت کی بھول ہو تب بھی درگزر سے کام لینا چاہئیے کہ جب
عورت سے کثیر منافع بھی حاصل ہوتے ہیں تو اُس کی نادانیوں پر صبر بھی کرنا
چاہئیے۔ نبیء رحمت، شفیع امت، محبوب رب العزت عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا، کہ “مومن مرد مومنہ عورت سے دشمنی نہیں رکھ سکتا۔ اگر
اس کی ایک خصلت بُری لگے گی تو دوسری پسند آ جائے گی۔ “ (صحیح مسلم، ج1،
ص475، افغانستان)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشقانِ رسول کے مدنی قافلہ میں سفر کی سعادت
اور ہر ماہ مدنی انعامات کا فارم جمع کروانے کی برکت سے انشاءاللہ عزوجل
بطفیل مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم گھریلو شکر رنجیاں دور ہوں گی
اور آپ کا گھر خوشیوں کا گہوارہ بنے گا اور انشاءاللہ عزوجل آپ کے خاندان
کو مدینہء منورہ کا نظارہ نصیب ہوگا۔
سویا ہوا نصیب جگا دیجئے حضور
میٹھا مدینہ مجھ کو دکھا دیجئے حضور
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم
شوہر کے حقوق
بیوی کو بھی چاہئیے کہ اپنے شوہر کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ چنانچہ میٹھے میٹھے
آقا، مدینے والے مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ خوشبودار
ہے، “قسم ہے اُس کی جس کے قبضہء قدرت میں میری جان ہے، اگر قسم سے سر تک
شوہر کے تمام جسم میں زخم ہوں جن سے پیپ اور کچ لہو (یعنی پیپ ملا خون)
بہتا ہو پھر عورت اُسے چاٹے تب بھی حق شوہر ادا نہ کیا۔“ (مسند امام احمد،
رقم الحدیث 12614، ج4، ص318، دارالفکر بیروت )
ظالم شوہر کا بھی گھر نہ چھوڑے
بات بات پر روٹھ کر میکے چلی جانے والی عورت اس حدیث پاک کو بار بار اپنے
کانوں پر دوہرائے اور دل کی گہرائیوں میں اتارے، سرکار مدینہ صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے، “اور (بیوی) بغیر اجازت اُس
(یعنی شوہر) کے گھر سے نہ جائے اگر ایسا کیا تو جب تک توبہ نہ کرے یا واپس
نہ لوٹ نہ آئے اللہ عزوجل اور فرشتے اُس پر لعنت کرتے ہیں۔ عرض کی گئی،
اگرچہ شوہر ظالم ہو ؟ سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
اگرچہ ظالم ہو۔“ (کنزالعمال، رقم الحدیث 44801، ج16، ص144 صدرالکتب العلمیۃ
بیروت )
اکثر عورتیں جہنمی ہونے کا سبب
بعض خواتین اپنے شوہروں کی سخت نافرمانیاں اور ناشکریاں کرتی ہیں اور ذرا
کوئی بات بُری لگ جائے تو پچھلے تمام احسانات بھلا کر کوسنا شروع کر دیتی
ہیں۔ جو اسلامی بہنیں بات بات پر لعنت ملامت کرتی اور پھٹکار برساتی رہتی
ہیں ان کو ڈر جانا چاہئیے کہ سرکار نامدار، مدینے کے تاجدار صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ایک بار عید کے روز عید گاہ تشریف لے جاتے ہوئے
خواتین کی طرف گزرے تو فرمایا، “اے عورتو! صدقہ کیا کرو کیونکہ میں نے اکثر
تم کو جہنی دیکھا ہے۔“ خواتین نے عرض کیا، یارسول اللہ! عزوجل و صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس کی وجہ ؟ فرمایا، “اس لئے کہ تم لعنت بہت کرتی ہو
اور اپنے شوہر کی ناشکری ہوتی ہو۔“ (صحیح بخاری، رقم الحدیث304، ج1، ص163،
دارالکتب العلمیہ بیروت )
پڑوسیوں کی اہمیت
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہر ایک کو چاہئیے کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا
برتاؤ کرے اور بلا مصلحت شرعی ان کے احترام میں کمی نہ کرے۔ ایک شخص نے
حضور سراپائے نور، فیض گنجور، شاہ غیور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی
خدمت باعظمت میں عرض کی، یارسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم مجھے یہ کیونکر معلوم ہو کہ میں نے اچھا کیا یا بُرا ؟ فرمایا، “جب تم
پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیا، تو بیشک تم نے اچھا کیا اور جب
یہ کہتے سنو کہ تم نے بُرا کیا، تو بیشک تم نے بُرا کیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ،
رقم الحدیث 4223، ج4، ص479، دارالمعرفہ بیروت)
اعلٰی کردار کی سند
اللہ اکبر! عزوجل پڑوسیوں کی اس قدر اہمیت کہ کیریکٹر سرٹیفکیٹ ان کے ذریعے
ملے۔ افسوس! پھر بھی آج پڑوسیوں کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا۔ عاشقانِ رسول
کے مدنی قافلہ میں سفر کی سعادت اور ہر ماہ مدنی انعامات کا فارم جمع
کروانے کی برکت سے انشاءاللہ عزوجل بطفیل مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم پڑوسیوں کی اہمیت دل میں پیدا ہوگی اور ان کے احترام کا ذہن بنے گا
اور انشاءاللہ عزوجل آپ کا محلہ باغ مدینہ بن جائے گا۔
بہار آئے محلہ میں مرے بھی یارسول اللہ
ادھر بھی تو جھڑی برسے کوئی رحمت کے بادل سے
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم
امیر قافلہ کیسا ہو ؟
سفر میں جو امیر قافلہ ہو اُس کو اپنے رفقاء کا احترام اور ان کی بہت زیادہ
خدمت کرنی چاہئیے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے، “سفر میں وہی امیر ہے جو اُن کی
خدمت کرے، جو شخص خدمت میں بڑھ گیا تو اس کے رفقاء کسی عمل میں اس سے نہیں
بڑھ سکتے ہاں اگر ان میں سے کوئی شہید ہو جائے تو وہی ہی بڑھ جائیگا۔“ (شعب
الایمان، رقم الحدیث840، ج6، ص334، دارالکتب العلمیۃ بیروت )
بچی ہوئی چیزیں دوسروں کو دینے کی ترغیب
ایک موقع پر سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے سفر میں ارشاد
فرمایا، “جس کے پاس فالتو سواری ہو وہ بے سواری والے کو عطا کردے اور جس کے
پاس بچی ہوئی خوراک ہو وہ بغیر خوراک والے کو کھلا دے۔“ اور اسی طرح دوسری
چیزوں کے متعلق ارشاد فرمایا۔ حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی
عنہ فرماتے ہیں، “آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح مال کی
مختلف اقسام ذکر فرمائیں حتٰی کہ ہم نے محسوس کیا کہ بچی ہوئی چیز میں سے
کسی کو اپنے پاس رکھ لینے کا حق ہی نہیں ہے۔“ (صحیح مسلم، ج2، ص81،
افغانستان)
ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا
ایک امیر قافلہ ہی نہیں، ہر ایک کو اپنے ماتختوں کے ساتھ حُسن سلوک کرنا
ضروری ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب صلی
اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ ہدایت نشان ہے، “تم میں سے ہر ایک
نگران ہے اور نگرانی کے متعلق سب سے پوچھ گچھ ہوگی، بادشاہ نگران ہے، اُس
کی رعایا کے بارے میں اُس سے سوال ہوگا اور مرد اپنے گھر کا نگران ہے اور
اس کی رعایا کے بارے میں اُس سے سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر میں
نگران ہے اور اس کی رعایا کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔“ (صحیح البخاری،
رقم الحدیث2409، ج2، ص112، دارالکتب العلمیہ بیروت)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشقان رسول کے مدنی قافلے میں مسلسل سفر کی
سعادت اور مدنی انعامات کے ہر ماہ کارڈ جمع کروانے کی برکت سے انشاءاللہ
عزوجل بطفیلِ مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اپنے ماتختوں کے
احترام کا وہ جذبہ نصیب ہوگا کہ انشاءاللہ عزوجل ہر فرد خوش ہوکر آپ کو
دعائے مدینہ سے نوازا کرے گا۔
میں دنیا کی دولت کا منگتا نہیں ہوں
مجھے بھائیو ! دو دعائے مدینہ
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
کاموں کی تقسیم
دورانِ سفر کسی ایک پر سارا بوجھ ڈال دینے کے بجائے کاموں کی آپس میں تقسیم
ہونی چاہئیے۔ چنانچہ ایک مرتبہ کسی سفر میں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے
بکری ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور کام تقسیم کر لیا، کسی نے اپنے ذمہ ذبح کا
کام لیا تو کسی نے کھال ادھیڑنے کا نیز کوئی پکانے کا ذمہ دار ہو گیا،
سرکار نامدار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، لکڑیاں جمع کرنا
میرے ذمہ ہے۔ صحابہء کرام علیہم الرضوان عرض گزار ہوئے، آقا! یہ بھی ہم ہی
کر لیں گے۔ فرمایا، “یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ آپ حضرات بخوشی کر لیں گے۔
مگر مجھے یہ پسند نہیں کہ آپ لوگوں میں نمایاں رہوں اور اللہ عزوجل بھی اس
کو پسند نہیں فرماتا۔ (اتحاف السادۃ المتقین، ج8، ص210، دارالکتب العلمیہ
بیروت)
دوسروں کو اپنی نشست پر جگہ دیجئے
ٹرین یا بس وغیرہ میں اگر نشستیں کم ہوں تو یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ بعض
بیٹھےہی رہیں اور بعض کھڑے کھڑے ہی سفر کریں۔ ہونا یہ چاہئیے کہ سارے باری
باری بیٹھیں اور تکلیفیں اٹھا کر ثواب کمائیں۔ چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہء بدر میں فی اونٹ افراد
تھے۔ چنانچہ حضرت ابو لبابہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہما سرکار
مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سواری میں شریک تھے دونوں حضرات
کا بیان ہے کہ جب سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پیدل چلنے کی
باری آتی تو ہم دونوں عرض کرتے کہ سرکار! آپ سوار ہی رہئے، حضور کے بدلے ہم
پیدل چلیں گے۔ ارشاد ہوا، “تم مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو اور میں بہ نسبت
تمہارے ثواب سے بے نیاز نہیں ہوں۔“ (یعنی مجھ کو بھی ثواب چاہئے پھر میں
کیوں پیدل نہ چلوں!) (شرح السنۃ، رقم الحدیث 2680، ج5، ص566، دارالکتب
العلمیہ بیروت)
مدنی قافلے میں سفر کیجئے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشقانِ رسول کے مدنی قافلے میں مسلسل سفر کی
سعادت اور مدنی انعامات کا ہر ماہ کارڈ جمع کروانے کی برکت سے انشاءاللہ
عزوجل بطفیلِ مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اپنی سیٹ دوسروں کو
پیش کرنے کیلئے ایثار کا جذبہ پیدا ہوگا اور اس کی برکت سے انشاءاللہ عزوجل
سفرِ حج و دیدارِ مدینہ بھی نصیب ہوگا اور اثنائے سفر بھی مدینے کے مسافروں
کیلئے منٰی شریف، مزدلفہ شریف، عرفات شریف اور مکہء مکرمہ و مدینہ منورہ
میں دیوانگی کے ساتھ نشستیں پیش کرتے رہنے کی سعادت ملتی رہیں گی۔
یارب! سوئے مدینہ مستانہ بن کے جاؤں
اُس شمع دو جہاں کا پروانہ بن کے جاؤں
صلوا علی الحبیب! صلی اللہ تعالٰی علٰی محمد، صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم
زیادہ جگہ نہ گھیرئیے
اجتماعات وغیرہ میں جہاں لوگ زیادہ ہوں وہاں اپنی سہولت کیلئے زیادہ جگہ
گھیر کر دوسروں کیلئے تنگی کا باعث نہیں بننا چاہئیے چنانچہ حضرت سیدنا سہل
بن معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہما کا بیان ہے، میرے والد گرامی رضی اللہ
تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ ہم پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے
ساتھ جہاد میں گئے تو لوگوں نے منزلیں تنگ کر دیں (یعنی ضرورت سے زیادہ جگہ
گھیر لی) اور راستہ روک لیا۔ لٰہذا یارسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ یہ اعلان کرے، “بیشک جو منزلیں
تنگ کرے یا راستہ روکے تو اُس کا کچھ جہاد نہیں۔“ (سنن ابو داؤد، رقم
الحدیث 2629، ج2، ص388 دارالفکر بیروت )
آنے والے کیلئے سرکنا سنت ہے
جو لوگ پہلے سے بیٹھے ہوں اُن کیلئے سنت یہ ہے کہ جب کوئی آئے تو اس کیلئے
سرکیں اور جگہ کشادہ کریں۔ حضرت سیدنا واثلہ بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ
سے روایت ہے کہ ایک شخص تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما
تھے۔ رحمت دو عالم، نور مجسم، شاہ بنی آدم، رسول محتشم صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم اُس کیلئے اپنی جگہ سے سرک گئے۔ اُس نے عرض کی، یارسول
اللہ! عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جگہ کشادہ موجود ہے۔ آپ نے
سرکنے کی تکلیف کیوں فرمائی! فرمایا، “مسلمان کا حق یہ ہے کہ جب اُس کا
بھائی اُسے دیکھے اُس کیلئے سرک جائے۔“ (شعب الایمان، رقم الحدیث 8933، ج6،
ص468، دارالکتب العلمیۃ بیروت )
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشقانِ رسول کے مدنی قافلے میں مسلسل سفر کی
سعادت اور مدنی انعامات کے ہر ماہ کارڈ جمع کروانے کی برکت سے انشاءاللہ
عزوجل بطفیلِ مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تھوڑی سی جگہ میں برکت
ہو گی دوسروں کیلئے کشادگی اور آسانی دینے اور سرکنے کی سنت پر عمل کا ذہن
بنے گا اور انشاءاللہ عزوجل جنت البقیع میں کشادہ ترین جگہ نصیب ہوگی۔
زاہدین دنیا بھی رشک کرتے عاصی پر
میں بقیع غرقد میں دفن ہو اگر جاتا |