خزاں کے پتوں کی طرح گرتی وکٹیں ۔۔۔ ذمہ دار کون ؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ ہو تو دونوں ممالک کے عوام میں ایک اعصابی جنگ شروع ہو جاتی ہے ۔روایتی حریفوں کے میدان میں اُترتے ہی شائقین ِ کرکٹ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ہر طرف ایک جوش،ایک ولولہ،اور ایک خوشگوار جزبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔میچ کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے مطابق عوام کی ذہنی و جسمانی کیفیت میں تبدیلی نمایاں انداز میں دیکھی جا سکتی ہے اگر میچ سنسنی خیزلمحات میں پہنچ جاے تو کرکٹ کے شائقین جائے نماز بچھا کر ٹیم کی کامیابی کے لیے وظائف اور دعائیں مانگنے لگتے ہیں کاروبار ا ور دیگر مصروفیات ترک کر کے ٹی۔وی سکرین کے سامنے بیٹھنااپنا فرض ِاولین سمجھتے ہیں ایشا کپ ٹی۔ٹوئنٹی ٹورنا منٹ میں آج دونوں حریف میدانِ کھیل میں اُترے ۔انڈیا نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے کھیلنے کی دعوت دی ۔پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوے انتہائی مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ایک دل شکن داستان رقم کرتے ہوے ۸۳ رنز کے حقیر ترین سکور پہ ڈھیر ہو گئی ۔ میچ کے آغاز سے ہی پاکستانی ٹیم خزاں کے پتوں کی طرح بکھرتی گئی اور کھلاڑی یکے بعد دیگر یوں اپنی وکٹوں سے محروم ہوتے گئے جیسے کبھی ان کا کھیل سے کوئی واسطہ نہیں پڑا۔ ویسے تو وطنِ عزیز پاکستان میں موسمِ بہار کا آغاز ہو چکا ہے مگر پاکستانی ٹیم پر پورے میچ کے دوران خزاں کے بادل چھائے رہے۔ پاکستانی ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ یہ قومی ٹیم نہیں ہے بلکہ کسی گاؤں کی ٹیم غلطی سے ٹورنامنٹ میں ا ٓ گئی ہے ۔کیونکہ کوئی بھی کھلاڑی جم کر نہیں کھیل سکا۔مخالف ٹیم کا پلڑ اا ٓغاز سے ہی بھاری دیکھائی دینے لگا جو اختتام تک بھاری رہا۔بھارت نے۸۴ رنز کا آسان ہدف صرف سولویں اوور میں پانچ وکٹ کے نقصان پر پورا کر کے پاکستان کو ذ لت آمیز شکست سے دو چار کر دیا۔پاکستانی ٹیم کی شرم ناک کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقرہ پورے بیس اوور بھی نہیں کھیل سکی۔اس مایوس کن اور ذلت آمیز شکست کا ذمہ دار کون ہے ؟؟ اس کا تعین کبھی نہیں ہو پائے گا۔کیونکہ پاکستان میں کبھی بھی کسی سا نحہ،کسی حادثے یا کسی نا خوشگوار واقعہ کے ذمہ دارکا تعین نہیں ہوا تو کرکٹ کی تباہی و بربادی کی ذمہ داری کا تعین کس طرح ہو پائے گا ؟؟ بہرحال کرکٹ کے شائقین کو پاکستانی ٹیم کی کارکردگی سے بہت مایوسی ہوئی ہے۔اور ہر طرف کرکٹ کے شائقین کے چہرے افسردگی سے اُترے ہوے ہیں۔ مگر ابھی ابتداء ہے اگر تھوڑی سی محنت ،توجہ ،لگن اور یکسوئی سے کام لیا جائے تو افسردہ چہروں پر خوشی لائی جا سکتی ہے-
Rasheed Ahmed Naeem
About the Author: Rasheed Ahmed Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmed Naeem: 126 Articles with 122349 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.