علم و ہنر کی اہمیت
(Sajjad Ali Shakir, Lahore)
نوجوان قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ وہ معمار
قوم ہیں۔ انہیں علم و ہنر سے منور کرنے سے ان کی خداداد صلاحیتوں سے بھرپور
استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے بلکہ ان میں خودکفالت سے خوداعتمادی پیدا ہوتی
ہے۔ علم و ہنر کی اہمیت قرآن مجید میں بھی واضح کی گئی ہے ۔ علم کی دنیا
میں سب سے زیادہ اہمیت اور فوقیت فنی تعلیم کو حاصل ہے۔ چینی زبان میں مثال
ہے کہ آدمی کو مچھلی نہ دو بلکہ اسے مچھلی پکڑنا سکھاؤ۔ اس سے وہ خودکفیل
ہو گا۔پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیا ء الحق جاپان کے سرکاری دورے پر گئے
انکی حیرت انگیز ترقی سے متاثر ہو کر انہوں نے جاپانیوں سے اس ترقی کا راز
دریافت کیا جاپان کے ترجمان نے بتایا کہ پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کے
دوران کسی وقت چند جاپانی چین اور جاپان کے درمیان ساڑھے پانچ سو کلو میٹر
سمندری سفر کر کے چین پہنچے۔ چین کے فنی ماہراستادوں سے ہنر کی نزاکتیں ،
باریکیاں اور نفاست سیکھی جدید ٹیکنالوجی مغرب سے حاصل کی۔دونوں کے امتزاج
سے ہنر مندی کی انتہائی بلندیوں تک پہنچے۔یہ وہی دور ہے جب پیغمبر اسلام
صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی امت کو فرمایا علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا
پڑے۔ ہمارے ملک کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس میں 15 سے 32 سال
کے نوجوانوں کی کثیر تعداد ہے لیکن ملک کے حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشانہ
پالیسی کی وجہ سے ملک کی آمدنی کا صرف 1.7 فیصد رقم تعلیم پر خرچ کی جاتی
ہے جبکہ دیگر ممالک میں یہ 7 سے 9 فیصد ہے۔ ہمارے ملک کے 51 فیصد بچے
پرائمری سے آگے تعلیم حاصل نہیں کرتے اور صرف 6 سے 7 فیصد نوجوان فنی تعلیم
کی دسترس رکھتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک بمعہ جرمنی میں ان کی تعداد ساٹھ
فیصد ہے۔اگر پاکستان میں تعلیمی اور معاشی اجتماعی صورتحال پر نظر ڈالیں تو
یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں 17 سے تئیس سال تک کی عمر کے
نوجوانوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے جن میں سے صرف چار فیصد کالج جاتے جبکہ
چھیانویں فیصد اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں، باقی چار فیصد میں سے ستر فیصد
آرٹس اور تیس فیصد سائنس مضامین رکھتے ہیں۔ ڈگری ہولڈرز میں سے چالیس فیصد
سے زائد بیروزگار ہیں، اور جو برسرِ روزگار ہیں ان کی آمد ن بھی اخراجات کی
نسبت لگ بھگ ستر فیصد کم ہے۔ ہمارے سترلاکھ افراد دوسرے ممالک میں ملازمتیں
کررہے ہیں جن میں سے کم از کم ساٹھ فیصد تعداد نوجوانوں کی ہے۔ یہ نوجوان
زیادہ تر فنی تعلیم کے کم مدت دورانیے کے کورس کرکے بیرون ممالک اپنی خدمات
سرانجام دے رہے ہیں۔ اگر ہم اس سرمائے کو محفوظ بنانے کے اقدامات کرتے ہوئے
پاکستان میں ہی ان کیلئے راہیں کھولیں اور مواقع پیدا کریں تو ان کی کم از
کم چالیس فیصد تعداد یہیں بسیرا کرنے کو ترجیح دے گی۔ نوجوانوں کی فنی
تعلیم و تربیت سے نہ صرف ملک کی صنعت و حرفت اور زراعت کی ترقی میں قابل
قدر اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ نوجوانوں کو فنی تعلیم سے اندرون اور بیرون ملک
میں روزگار کے مواقع میں بے حد وسعت پیدا ہو سکتی ہے۔آج جن قوموں نے فنی
تعلیم کی قدر و منزلت اور اہمیت کے پیش نظر اسے لازمی قرار دیا ہے ان میں
جرمنی 78 فیصد ، کوریا ، ہنگری اور فن لینڈ سو فیصد فنی تعلیم کو لازمی
قرار دے چکے ہیں۔ چین میں بھی فنی تعلیم کی اوسط کسی صورت میں سو فیصد سے
کم نہیں۔ان ممالک کا طالبعلم کسی بھی شعبہ حیات میں تعلیم حاصل کر رہا ہو
اس نے فنی تعلیم ہر حال میں حاصل کرنی ہے۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ملک
میں سترفیصد جہالت ہے اور جو تیس فیصد تعلیم یافتہ ہیں ان میں فنی تعلیم نہ
ہونے کے برابر ہے۔اسلام نے معاشرے کے تمام افراد کیلئے حصول تعلیم پر زور
دیا ہے۔ تمام مرد و خواتین ، بچوں اور بالغان تک کسی لالچ کے بغیر تعلیم کا
ابلاغ بلا امتیاز کرنا چاہیے۔پاکستان میں تعلیم کا موضوع سب سے اہم حیثیت
اختیار کر چکا ہے۔تمام افراد کو تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع ملنے
چاہئیں لیکن تعلیم کو کاروبار بنا لیا گیا ہے۔فنی تعلیم کسی بھی معاشرے کے
تعلیمی اور نتیجتاً معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے لیکن پاکستان میں فنی
تعلیم پر توجہ عمومی تعلیم سے کہیں کم ہے، جس کا اندازاہ اس سے لگایا جا
سکتا ہے کہ پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح صرف چار سے چھ فیصد جبکہ ترقی
یافتہ ممالک میں یہ شرح چیاسٹھ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔بلاشبہ جن ممالک نے فنی
تعلیم کو اپنی عمومی تعلیم کا حصہ بناکر اس پر توجہ دی وہاں معاشی ترقی کی
رفتار زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں بھی ارباب اقتدار و اختیار اس امر کا اعتراف تو
کرتے ہیں کہ ’’پاکستان کا مستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہے اور نوجوان نسل کو
فنی علوم سے آراستہ کرکے نہ صرف بے روزگاری کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا
ہے بلکہ ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر بھی گامزن کیا جاسکتا ہے‘‘ لیکن
اس کے فروغ کیلئے قابل ذکر پیش رفت نہیں کر پائے۔پنجاب آٹھ کروڑ آبادی کا
صوبہ ہے اس میں گیارہ تعلیمی بورڈ ہیں جن میں فنی تعلیمی بورڈ صرف ایک ہے
اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک میں فنی تعلیم نہ ہونے کے برابر
ہے۔دنیا میں مسلمانوں کی آبادی چوبیس فیصد اور وسائل چالیس فیصد ہیں۔
اگرمسلم ممالک کے حکمران ایماندار ، محنتی اور ذہین ہوتے تو مسلمان دنیا
میں امیر ترین قوم ہوتی۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمان دیگر قوموں کے مقابلے میں نہ
صرف پستی کے عالم میں ہیں بلکہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور امریکہ کی
ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں۔ہمارے ملک میں ڈیڑھ سو سالہ نوآبادیاتی دور کے ورثہ
کی وجہ سے ہاتھ سے کام کرنے والوں کو تاحال کمی سمجھا جاتا ہے۔ وقت کا
تقاضہ ہے کہ ان فنی کاریگروں کی محنت کی قومی و صنعتی سطح پر ہرممکن حوصلہ
افزائی کی جائے تاکہ نوجوانوں کوپٹواریوں کی تعلیم حاصل کرنے کی بجائے فنی
تعلیم و تربیت کے حصول کا شوق بڑھے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس نیک مقصد میں کامیاب
فرمائے۔ آمین! |
|