ملک گیر مہم؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
بات پھر جگالی پر آجاتی ہے، بنیادی طور پر
تو یہ جانوروں کا کام تھا، اب جانوروں کی دیکھا دیکھی حضرت انسان نے بھی یہ
شغل اپنا لیا ہے۔ صرف جگالی پر ہی کیا موقوف ، انسان نے جانوروں جیسے بہت
سے دیگر کام بھی شروع کررکھے ہیں، حتیٰ کہ کئی کاموں میں جانوروں سے بھی
آگے نکل گیا ہے۔ مگر کالم نگار کیا کرے، کہ معاشرے اور ماحول کے مزاج کے
مطابق ہی تخیل کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ جب پورا معاشرہ، حکومتیں اور دیگر
طبقات اپنے اعمال کے لحاظ سے ہر روز جگالی کرتے ہیں، دس برس قبل کے اخبار
اٹھا لیں، وہی خبریں، وہی کالم، ویسے ہی تجزیے۔ سب کچھ وہی، بس چہرے اور
مقام تبدیل ہوتے ہیں۔ قوم کو بتایا جاتا ہے کہ ملک بھر میں دو کروڑ سے زائد
بچے سکولوں سے باہر ہیں، یہ بھی سب کو علم ہے کہ ان میں سے تقریباً اسّی
لاکھ بچوں کا تعلق پنجاب سے ہے، یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تعلیم
حکومت کی اولین ترجیح ہے، کون نہیں جانتاحکومت کا کُل ڈی جی پی کا دو فیصد
بھی مشکل سے تعلیم پر خرچ ہورہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ قوم کو یہ بھی بتایا جاتا
ہے کہ حکومت سکولوں سے باہر تمام بچوں کو سکول لانے کا عزم کر چکی ہے۔ تاہم
اس مرتبہ یہ عزم وزیراعظم یا وزیراعلیٰ یا کسی وزیر تعلیم نے نہیں دہرایا،
اب کے یہ فریضہ منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات کے وفاقی وزیر جناب احسن اقبال
نے نبھانے کے اعلان کیا ہے۔
یکم اپریل سے تیس اپریل تک پرائمری کی عمر کے تمام بچوں کو سکول لانے کے
لئے ملک گیر مہم کا فیصلہ کیا گیا ہے، وزیرموصوف نے از راہِ عقیدت اس مہم
کی قیادت کا عَلم وزیراعظم اور صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کے ہاتھ میں تھمایا
ہے۔ مہم میں ماہرینِ تعلیم، سول سوسائٹی، میڈیا، مقامی کمیونٹی اور
سیاستدانوں کو شامل کیا جائے گا۔ تمام صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کو
22مارچ تک ہوم ورک مکمل کرلینے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس
مہم کے ذریعے ملک کو جہالت کے اندھیروں سے چھٹکارا دلایا جائے گا ․․․․۔
حکومت اس ضمن میں کیا اقدامات کرتی ہے، یہ تو آنے والے چند روز میں ہی علم
ہوسکے گا، مگر اس موقع پر سابق تجربات سے روشنی حاصل کرنا بھی حکومت کا فرض
ہے، اگر صرف کاغذی کاروائی کرنا مقصود ہے، تو یہ عمل مستقل جاری ہے، حکومت
نے ہمیشہ سب اچھا ہی کہا، اور قوم کو یہی بتایا کہ اب جہالت کی تاریکی کے
بارے میں لوگ کتابوں میں ہی پڑھا کریں گے، کہ ایسا بھی کوئی زمانہ گزرا ہے،
مگر عملی طور پر کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس مہم میں
وزرائے تعلیم کا کوئی کردار دکھائی نہیں دیتا۔
سکول جانے کی عمر کے تمام بچوں کو سکول لانے کے لئے سروے کروائے جاتے ہیں،
اساتذہ کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے، کہ وہ گھر گھر جاکر بچوں کے والدین کو
قائل کریں کہ وہ بچوں کو سکول بھیجیں۔ رکاوٹ کیا ہے، حکومت بھی جانتی ہے،
بہت سے بچے ایسے ہیں جن کے والدین کے پاس وسائل ہی نہیں کہ وہ بچوں کی
تعلیم پر خرچ کریں، یا پھر وہ تعلیم کو اس قدر اہمیت ہی نہیں دیتے جس کے وہ
حقدار ہوتے ہیں۔ ذرا بڑی عمر کے بچے غریب والدین کے لئے کچھ نہ کچھ کما
لاتے ہیں، کچھ محنت مزدوری کرکے اور کچھ بھیک مانگ کر۔ سکول سے باہر بچوں
کو تلاش کرنا جوئے شیِرلانے کا قصہ نہیں، نہ ہی اس کارِ عظیم کے لئے کسی
فرہاد کی ضرورت ہے، شہروں کے مضافات میں ذرا جھانک کر دیکھئے تو ہزاروں بچے
سکولوں سے باہر دکھائی دیں گے۔ کوئی چائلڈ لیبر کا شکار ہیں تو کوئی کام
سیکھ رہے ہیں، کوئی گلیوں میں آوارہ پھر رہے ہیں تو کوئی جرم کی دنیا میں
قدم رکھ رہے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ جھوٹے سچے نام لکھ کر اپنے
افسروں کو خوش کردیتے ہیں کہ ہم نے اتنے داخلے کرلئے۔ چونکہ داخلے جعلی
ہوتے ہیں اس لئے سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں کمی کے تصور میں بھی رنگ
نہیں بھر ا جاتا۔ حکومت کے پاس سکولوں کی کہانی بھی عجیب ہے کہ بہت سوں کے
پاس نہ عمارت ہے نہ سہولتیں، یہ مہم چلا کر بچے داخل کہاں کئے جائیں گے؟
ہاں پنجاب حکومت کے پاس پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی صورت میں ایک کشش ضرور
ہے، جس طرح حکومت بہت سے سرکاری سکول فاؤنڈیشن کو دے رہی ہے، اس سے اسّی
لاکھ بچوں میں سے چند لاکھ مزید سکولوں میں آجائیں گے، تاہم یہاں حکومت کے
لئے بہتر ہے کہ وہ فاؤنڈیشن کو ایک خود مختار ادارہ ہی رہنے دے، سرکاری
ادارہ نہ بنائے۔ اس مہم کی کامیابی کے لئے پوری قوم کو اس مہم کا سرگرم حصہ
بنایا جانا بھی ضروری ہے۔ |
|