حضرت سخی سرورؒ
(پیرآف اوگالی شریف, khushab)
حضرت سخی سرورؒ
ضلع ڈیرہ غازیخان سے 35کلو میڑ دور کوہ سلیمان کے دامن میں قصبہ سخی سرور میں حضرت سخی سرورؒ کا 835واں سالانہ عرس آج کل جاری ہے۔آپؒ کا اصل نام سید احمد سلطان تھا ۔آپ ؒکا شجرہ نسب گیارہویں پشت پر خلیفہ چہارم حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے۔آپ کے والد بزگوار کا نام سید زین العابدین تھا جو مدینہ منورہ کے رہائشی تھے۔حضرت زین العابدین کو خواب میں بشارت ہوئی کہ ہندوستان جا کر تبلیغ اسلام کا کام |
|
ضلع ڈیرہ غازیخان سے 35کلو میڑ دور کوہ
سلیمان کے دامن میں قصبہ سخی سرور میں حضرت سخی سرورؒ کا 835واں سالانہ عرس
آج کل جاری ہے۔آپؒ کا اصل نام سید احمد سلطان تھا ۔آپ ؒکا شجرہ نسب
گیارہویں پشت پر خلیفہ چہارم حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے۔آپ کے والد بزگوار
کا نام سید زین العابدین تھا جو مدینہ منورہ کے رہائشی تھے۔حضرت زین
العابدین کو خواب میں بشارت ہوئی کہ ہندوستان جا کر تبلیغ اسلام کا کام
کرو۔آپؒ فوراً ہندوستان پہنچے ۔ملتان کے قریب سرور شاہ کوٹ کو اپنا مسکن
بنایا ۔یہیں سید عبدالخالق بخاری کی لڑکی بی بی عائشہ سے نکاح کیاجن سے
اللہ تعالیٰ نے دوفرزند عطاء کئے۔سید احمد اور سید عبدالغنی ۔سید احمد
سلطان المعروف لکھ داتاؒ سخی سرور 14ذوالحج 511ہجری کو پیدا ہوئے۔آپؒ نے
بچپن ہی میں قرآن پاک حفظ کرلیااور ابتدائی دینی و دنیاوی تعلیم اپنے والد
بزگوار سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپؒ حجاز مقدس چلے گئے۔کچھ عرصہ قیام کے بعد
بغداد تشریف لے گئے وہاں پر آپؒ نے حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ، شیخ شہاب
الدین سہروردیؒ،حضرت خواجہ موددود چشتی ؒاور حضرت خواجہ خضرؒ سے علیحدہ
علیحدہ فیض حاصل کیا۔ آپؒ نے کچھ عرصہ بغداد میں بطور قاضی بھی کام کیا ۔آپؒ
خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے ہم عصر تھے۔ وہ بھی حضرت عبدالقادر
جیلانیؒ کے مرید تھے۔ولایت کی تکمیل کے بعد حضرت عبدالقادر جیلانیؒ نے
خواجہ معین الدین چشتی ؒاور حضرت سخی سرورؒ کو تبلیغ اسلام کیلئے ہندوستان
بھیجا۔خواجہ معین الدینؒ دہلی سے جنوب مشرق اور حضرت سخی سرورؒ کو دہلی سے
شمال مغرب کی طرف روانہ کیا۔حضرت سخی سرورؒ کا پہلا پڑاؤ موجودہ وزیر آباد
کے قریب ’’سو دہرا‘‘میں تھا۔ایک عرصہ تک آپؒ وہاں عبادت الٰہی میں مصروف
رہے۔اس تمام علاقے میں آپؒ نے اسلام کی روشنی پھیلائی۔ اس کے بعد آپؒ دہو
نکل تشریف لے گئے، وہاں بھی آپؒ نے اسلام کا بول بالا کیا۔پھر آپؒ واپس
سرور شاہ کوٹ تشریف لائے۔ آپؒ نے ملتان سے 140کلو میٹر مغرب میں پہاڑوں کے
دامن میں واقع ایک چھوٹی سے غیر معروف گاؤں میں تشریف لے گئے جس کا نام اس
وقت ’’مقام‘‘ تھا۔وہ اس وقت افغانستان ،ملتان اور دہلی کے تجارتی روٹ کے
درمیان آتا تھا‘ اب اس قصبے کا نام آپؒ کی مناسبت سے سخی سرور ہے۔اس وقت
یہ اور اس کے قرب و جوار کے علاقے کفر کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے۔یہاں
پر آپؒ نے اسلام کا نور پھیلا یا اور کئی علاقوں کے لوگوں کو دائرہ اسلام
میں داخل کیا ۔ آپؒ انسانیت سے محبت کرتے تھے اور کسی بھی مذہب کے لوگوں
کی دل آزادی نہ کرتے تھے۔ ہر کسی سے شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے۔بچوں
سے آپ کو خصوصی محبت تھی۔کوئی بھی آپؒ کے ہاں سے خالی نہ جاتا تھا۔
لاکھوں لوگوں کی حاجت روائی کی‘ اس لئے آپؒ کو لکھ داتا سخی سرور کہا جاتا
ہے۔آپؒ کے خالہ زاد بھائی آپؒ کی شہرت سے جلتے تھے۔بالآخر ان کو موقع
ملا تو 22رجب 577ہجری کو انہوں نے آپؒ کو بمعہ اہل و عیال شہید کردیا۔آپ
ؒکے چار دوست، جن کے نام اسحاق، عمر،عثمان اور نور شاہ تھے، وہ بھی شہید ہو
گئے۔ آپؒ کو بمعہ اہل و عیال چلہ گاہ کے قریب دفن کر دیاگیااور چارو ں
دوستو ں کو پہاڑ پر دفن کیا گیا۔ آپؒ کا ابتدائی مقبرہ عیسیٰ خان نے بنایا۔
اس کے بعد دو ہندو بھائیوں لکھپت اور چسپت نے آپؒ کا مزار تعمیر کرایا
لیکن موجودہ دربار اور مسجد کی تعمیر کا سہرا مغل بادشاہ بابر کو جاتا ہے۔
آپؒ کا عرس15 فروری سے30 اپریل تک منایا جاتاہے۔ آپ کے عقیدت مندوں میں
مسلمانوں کے علاوہ سکھ اور ہندو بھی شامل ہیں ۔پاکستان کے علاوہ انڈیا اور
افغانستان میں بھی عرس منایا جاتا ہے۔ عرس کے دوران تین بڑی جمعراتیں لگتی
ہیں جن کو چنہاں، دوآبہ ، اور بیساکھی والی جمعراتیں کہا جاتاہے۔ میلے کے
دوران پورے شہر میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔عرس حضرت سخی سرورؒ سرائیکی
اور پنجابی ثقافت کا مشترکہ نمونہ ہے۔ عرس کے دوران ایک طرف سرائیکی جھمر
ہوتی ہے تو دوسری طرف پنجابی بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں۔ میلے کے پہلے حصے میں
فیصل آباد ، لاہور ،سرگودھا اور گوجرانوالہ ڈویژن کے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔اس
کے بعد پورا صوبہ سندھ کے لوگ آتے ہیں ۔ بیساکھی والی جمعرات سرائیکی بیلٹ
کے لوگوں کی ہوتی ہے اور آخری جمعرات میں بلوچستان کے لوگ آتے ہیں اور
روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ ٭…٭…٭
|
|