ورلڈ ٹی 20کرکٹ ٹورنامنٹ میں ویسٹ انڈیز کی
ٹیم نے بھارتی ٹیم کو سیمی فائنل میں شکست دے دی جبکہ انگلینڈ کی ٹیم نیوزی
لینڈ کو پہلے سیمی فائنل میں ہرا کر پہلے ہی فائنل میں پہنچ چکی
ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ٹورنامنٹ کے راؤنڈ میچز میں پہلا بنگلہ دیش کے
خلاف جیتا اور اس کے بعد انڈیا،نیوزی لینڈ اور آسڑیلیا سے تینوں میچ ہار کر
ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا۔بنگلہ دیش کے خلاف میچ جیتنے کے بعد باقی تینوں
میچوں میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی ناقص رہی اور بیٹنگ ،باؤلنگ،فیلڈنگ کی
فاش خامیوں سمیت ٹیم کے انتخاب اور کھلاڑیوں کی بیٹنگ کی ترتیب تبدیل کرنے
کی غلط حکمت عملی بھی کھل کر سامنے آگئی اور یہ تمام عوامل ٹیم کے میچ
ہارنے کی وجہ بنے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم اس سے پہلے بنگلہ دیش میں کھیلے جانے
والی ایشین ٹی 20 کرکٹ ٹورمنٹ میں بھی بری طرح ناکام رہی۔
پاکستان میں کرکٹ کے کھیل میں گہری دلچسپی پائی جاتی ہے اور بالخصوص بھارت
کے خلاف میچ کے حوالے سے پاکستانی عوام کو اپنے جذبات اور رجحان کے اظہار
کا ایک موقع مل جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں عمومی طور پر یہ بات ایک پیمانے
کے طور پر سمجھی جاتی ہے کہ پاکستان بھارت کرکٹ میچ میں کون کس کی حمایت
کرتا ہے؟ یعنی اس میچ میں کی جانی والی حمایت یہ ظاہر کر ہی دیتی ہے کہ کون
پاکستان کا حامی ہے اور کون بھارت کا۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ہار پر اتنا
افسوس پاکستانیوں کو نہیں ہوتا جتنا دکھ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے
مسلمانوں کو ہوتا ہے۔وادی کشمیر کے دورے کے موقع پر مختلف شعبوں کے اکثر
افراد نے مجھ سے کہا تھا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہارنے اور بالخصوص بھارتی
ٹیم سے ہارنے پر مقبوضہ کشمیر میں رہنے والوں کو اتنا دکھ پہنچتا ہے کہ
جیسے ان کے گھر میں کوئی فوت ہو گیا ہو۔ایک کشمیری نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیا
تھا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ہارنے پر مقبوضہ کشمیر میں جتنے ٹی وی سیٹ توڑ
دیئے جاتے ہیں،اس کا بل آپ کو واپس جاتے ہوئے حکومت پاکستان کے نام دیا
جانا چاہئے۔
پاکستان کی کرکٹ گزشتہ کئی سال سے مختلف پابندیوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے جس
وجہ سے پاکستانی کرکٹ کا معیاربہت خراب ہوا ہے۔دہشت گردی کے خطرات کے پیش
نظر کئی ملکوں کی کرکٹ ٹیموں کی طرف سے دورہ پاکستان سے انکار کیا گیا اور
سری لنکا کرکٹ ٹیم پر لاہور میں ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے بعد
پاکستان میں غیرملکی کرکٹ ٹیموں کی آمد کا سلسلہ بالکل ہی بند ہو گیا۔چند
سال قبل پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے دوران تین پاکستانی کرکٹر
بدعنوانی میں ملوث پائے گئے اور سزایاب ہوئے۔اس واقعے سے پاکستانی کرکٹ کو
بہت زیادہ نقصان سے دوچار ہونا پڑا اور ساتھ ایک اچھی اور سیٹ ہو جانے والی
ٹیم بکھر کر رہ گئی۔اصولی طور پر تو ٹیم کے کوچ وقار یونس کو دورہ لندن کے
موقع پر ہونے والی اس ہزیمت کے بعد ہی عہدے سے سبکدوش کر دینا چاہئے تھا
لیکن ان کی اور پاکستانی کرکٹ کی ناکامیوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ مزید کئی
سالوں سے اب تک جاری ہے اور موجودہ ورلڈ ٹی20کرکٹ ٹورنامنٹ میں ہماری کرکٹ
کی تباہ کن صورتحال سے متعلق تمام غلط فہمیاں دور ہو چکی ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی منیجمنٹ میں چیئر مین شہریار ایم خان اور نجم سیٹھی
چیئر مین ایگزیکٹیو کمیٹی سمیت 19اعلی عہدیدار،میڈیا سے متعلق 5،ٹیم
منیجمنٹ میں منیجر اور کوچ سمیت16عہدیدار،نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے 9،نیشنل
سلیکشن کمیٹی میں 4،جونیئر سلیکشن کمیٹی میں3،سیکورٹی کمیٹی میں5 جبکہ
الیکشن کمیشن اور ویمن ونگ کے عہدوں پر ایک ایک عہدیدار فائز ہے۔یوں
پاکستان کرکٹ بورڈ63افراد کے بھاری بھرکم اخراجات برداشت کر رہا ہے اور ان
کی کارکردگی قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی اور بحیثیت مجموعی ملکی کرکٹ کی
مجموعی حالت سے واضح ہو جاتی ہے اور ان افراد کو سالہا سال کام کرنے کا
موقع ملا ہے۔مختلف درجات میں تقسیم کھلاڑیوں کو بھی ایک خطیر رقم باقاعدگی
سے دی جاتی ہے۔
سابق حکومتوں میں ملک کے چیف ایگزیکٹیو کی طرف سے پاکستان کرکٹ بورڈ میں
منظور نظر افراد کی تعیناتی ایک معمول کی طرح دیکھا گیا ہے اور اب بھی یہ
سلسلہ جاری نظر آتا ہے۔یہ طے ہے کہ ہماری کرکٹ معیار کے لحاظ سے بھی
پسماندہ ہو چکی ہے لہذا ملک میں کرکٹ کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لئے پاکستان
کرکٹ بورڈ کے تمام شعبوں میں اس طرح کی بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہے کہ جس سے
پاکستانی کرکٹ کو عالمی معیار کے مطابق لایا جا سکے۔کرکٹ بورڈ کی منیجمنٹ
اور دوسرے شعبوں میں کرکٹ کی موجودہ شرمناک حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے
تبدیلیاں کی جانی چاہئیں۔خاص طور پر پاکستان نیشنل ٹیم منیجمنٹ اور سلیکشن
کمیٹی میں سابق مائیہ ناز کرکٹرز کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جانا
چاہئے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کو تینوں طرح کی ،یعنی ٹیسٹ ،ون ڈے اور ٹی 20کے
لئے نئے سرے سے تعمیر کرنے کی ضرورت بھی درپیش ہے۔ٹی 20ٹیم کے ساتھ اس کے
کپتان کی تبدیلی بھی اتفاق شدہ امر بن چکی ہے۔اسی طرح دن ڈے کی ٹیم کے
کپتان کی تبدیلی بھی ضروری نظر آتی ہے۔اظہر علی ایک اچھا کھلاڑی تو ہے لیکن
اسے ایک اچھا کپتان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پاکستانی کرکٹ کے ماضی کے مائیہ ناز کئی کرکٹرز نے اس حقیقت کا برملا اظہار
کیا ہے کہ پاکستانی کی کرکٹ عالمی کرکٹ سے کم از کم پانچ سال پیچھے
ہے۔ہماری کرکٹ عالمی معیار سے کئی سال پیچھے کیوں ہے؟ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی
کمی نہیں لیکن کھلاڑیوں کا غلط انتخاب اور کھلاڑیوں کو دور جدید کے تقاضوں
کے مطابق تیار کرنے کی کوئی تیاری اور منصوبہ بندی بھی نظر نہیں آتی۔آج کی
عالمی کرکٹ ہر شعبے میں ’’پرفیکشن‘‘ کا تقاضہ کرتی ہے ،عالمی کرکٹ میں
جذبات پر کنٹرول اور تکنیک کا استعمال اہم ہے اور ہر شعبے میں پرفیکشن کی
طرح جسمانی فٹنس بھی لازمی جز ہے۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہمارے کھلاڑی
خود کو بہتر بناتے ہوئے،اپنی کارکردگی کو تعمیر کرنے پر توجہ نہیں
دیتے۔قومی کھلاڑیوں کو خطیر رقوم دی جاتی ہیں اور موجودہ شرح سے بھی مزید
بہتر دی جا سکتی ہیں لیکن اس کے لئے انہیں ہر شعبے میں اتنی مہارت حاصل
کرنا ہو گی کہ ان کی اچھی کارکردگی تسلسل سے جاری رہے۔ملک میں کرکٹ کی
بہتری کے لئے کئے جانے والے وسیع پیمانے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ یہ بھی
ضروری ہے کہ ہمارے کھلاڑی خود کو ’’ شو بز بوائے‘‘ نہ بنائیں اور ملکی
الیکڑانک میڈیا کی طرف سے بھی ایسا انداز اختیار کرنے سے گریز ضروری ہے۔ |