ٹی20 ورلڈ کپ میں شکست پر اعدادوشمار کیاکہتے ہیں

وقت آگیا ہے کہ غلطیوں کا باریک بینی سے جائزہ لے کر ذمہ داروں کو فارغ اور کرکٹ کی بہتری کےلئے حقیقی اقدامات کئے جائیں
 حالیہ آئی سی سی ٹی20ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میںپاکستان کی افسوس ناک شکست پر قوم انتہائی رنجیدہ ہے۔ گو کہ کھیلوں میں ہار اور جیت ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اسپورٹس مین اسپرٹ کا تقاضہ ہوتا ہے کہ کھلاڑی اپنی ہار کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کرے۔تاہم جب کوئی ٹیم حوصلہ چھوڑ بیٹھے یا مقابلے کے بغیر ہی شکست کے لئے تیار ہو جائے تو یہ نہ صرف اس ٹیم کے لئے باعث شرمندگی اور ملک کے لئے رنجیدگی کا باعث بن جاتی ہے۔وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنی حالیہ شکست کا اعدادوشمار کی روشنی میں جائزہ لے کر اپنی خامیوں کو تلاش اور آئندہ کے لئے ایک زیادہ قابل بھروسہ ، با صلاحیت اور تجربہ کار ٹیم کو میدان میں اتارنا چاہئے۔ پاکستانی شائقین کے دلوں میں اس کھیل نے کتنی جگہ بنا لی ہے اس کا مشاہدہ انڈیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلے گئے حالیہ سیمی فائنل سے کیا جا سکتا ہے۔لوگوں کی اکثریت نے اس میچ کو قطعی طور پر اس طرح دیکھا گویا کہ گراﺅنڈ میں پاک بھارت ٹیموں کے درمیان ٹاکرا ہو۔گزشتہ دنوں چیف کوچ وقار یونس کی جانب سے غیر متوقع پریس کانفرنس میں اپنی جانب سے چیئرمین پی سی بی کو حالیہ ایشیاءکپ اور ٹی20ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی ناکامی پر دی جانے والی خفیہ رپورٹ افشاءہو جانے پر انتہائی غصے کے اظہار اور دوسری جانب ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی کی جانب سے فیکٹس فائنڈنگ کمیٹی کے روبرو پیش ہونے سے انکار نے پاکستان کرکٹ کو ایک ایسے بھنور میں پھنسا دیا ہے جو اپنے دائرے میں آنے والی ہر شے کو غرق آب کر دیتا ہے۔موجودہ تنازع کو ایک طرف رکھ کر اگر زمینی حقائق اور اعدادوشمار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ہمارے سلیکٹرز اور پالیسی سازوں نے ایک ایسی ٹیم منتخب کر کے بھیجی تھی جس کو ناکام ہونا ہی تھا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ اعدادوشمار کیا کہتے ہیں ؟ پاکستان کی تاریخ میں قومی ٹیم 6بارسے زائد ٹیسٹ سیریز میں ناقابل شکست رہی۔ان میں سے چھ سیریز1973سے1977تک کھیلی گئیں۔10سیریز1985سے1989تک اور سات2010سے2012تک کھیلی گئیں۔وقت اور تعداد دونوں کی اصطلاح میں فی الوقت ٹیم پانچ مرتبہ ناقابل شکست رہی۔ ان کا کوچ وقار یونس وہی شخص ہے جس نے2010سے2012تک ٹیم کوجیت کی ترغیب دی۔ کوئی بھی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وقار یونس کو اس دوران ملنے والی کامیابیوں کا بہت زیادہ کریڈٹ نہیں دیا جا سکتا اور یہ کہ یونس خان کی بیٹنگ ، مصباح الحق کا اسپنرز کو مہارت سے استعمال کرنا اور ٹیسٹ اسپیشلسٹس کی نئی نسل ان کامیابیوںکے پس پشت رہی۔ تاہم حقائق بھی بہت سادہ اور قابل فہم ہیں ۔ جب وقار نے2010میں کوچ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں تو پاکستان نے پچھلے تین برسوں سے زائد عرسہ سے کوئی سیریز نہیں جیتی تھی۔2014میں جب انہوں نے دوبارہ قومی کوچ کا چارج سنبھالا تو پاکستان اپنی پچھلی 5ایک روزہ انٹریشنل میچز کی سیریز میں کامیابی حاصل کر چکا تھا اور ٹیم ایشیا کپ کے فائنل میں پہنچ چکی تھی۔اس کے بعد سے یا دوسرے لفظوں میں وقار یونس کے قومی کوچ بننے کے بعدٹیم نے اپنی11میں سے صرف تین سیریز میں کامیابی حاصل کی۔ان اعدادوشمار سے یہ حقیقت واضح طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ وقارکن شعبوں میں کامیاب اور کن میں ناکام رہے۔اگلے تین برسوں تک کوئی ورلڈ ٹی20کپ نہیں تھامگر آنے والی ٹیسٹ کرکٹ کے لئے یہ ایک مختلف سال بن کر آیا۔اس کے بعد جب ٹیم گوروں کے خلاف میدان میں اتری تو ڈریسنگ روم میں وقار ان کے ہمراہ نہیں تھے دراصل ٹی20میں ناکامی کے باعث ان کے کنٹریکٹ کی تجدید نہیں کی گئی تھی۔کچھ ایسی ہی صورت حال کپتان کے ساتھ بھی پیش آئی۔ اعدادوشمار پر نظر دوڑائیں تو پچھلے14برسوں میں کرکٹ کھیلنے والے 8ٹاپ ممالک کے خلاف صرف تین سیریز میں پاکستان کو کامیابی ملی۔

اس وقت تک ڈیڑھ عشروں میں پاکستان کی شناخت کم تر اوسط رنز والی ایک روزہ ٹیم کی حیثیت سے تھی۔اس دوران صرف2011میں پاکستان نے کھیلے گئے اپنے نصف سے زیادہ گیمز جیت لئے۔اس سال ملنے والی کامیابیوں میں مصباح ، آفریدی اور وقار کی قیادت میں ڈریسنگ روم کے کلچر میں آنے والی تبدیلی کا بڑا حصہ تھا۔دوسری جانب اسپاٹ فکسنگ میں فاسٹ بالروں کو سزا کے باعث پاکستان اسپنرزکی اکثریت والا ملک بن گیا تھا۔حالیہ شکستوںکا الزام خود آفریدی کے سر آتا ہے۔2007سے2011تک ایک روزہ میچز میںان کا اوسط29جبکہ ٹی20میں 18.8رنز تھا۔آفریدی 2012سے کسی حد تک عمران خان کی طرح ایک بالر کی حیثیت سے ٹیم کازبردست ہتھیار بن گئے تھے۔ ایک روزہ انٹرنیشنل میں ان کا بالنگ اوسط4.8رنز فی اوور کی اوسط سے 41.2رنزتھا جبکہ ٹی 20میں یہ اوسط7رنز فی اوور کی شرح سے30.7رنز تھا۔تاہم اس حقیقت کے باوجود اپنے عروج کے دوران بھی وہ بالخصوص ٹی20کے ایک اچھے کپنان نہیں تھے ،حتیٰ کہ2014میں جب ان کی دوبارہ تقرری ہوئی تو تمام پاکستانی کپتانوں میں صرف ان کا ریکارڈ منفی تھا۔ اس بات پر بھی کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ ان کے دوسرے دور کپتانی میںپاکستان نے جتنے میچز جیتے اس سے زیادہ ہار گیا۔ میں جانتا ہوں کہ شاہد آفریدی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مقبو ل کرکٹرز میں سے ایک ہیں۔ بلا شبہ ان کی بیرون ممالک میں بھی انتہائی مقبولیت ہمارے ملک کے لئے ایک اعزاز ہے۔ اسی طرح وقار یونس بھی اپنے وقتوں میں پاکستان کے ایک میچ وننگ بالر رہے ہیں۔ تاہم یہ وقت ذاتی پسند یا ناپسند کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کرکٹ کو تباہی سے بچانے کے لئے حقیقی اقدامات کا ہے۔

ہماری بیشتر شکستوں کی ذمہ داری کھلاڑیوں سے زیادہ سلیکٹرز اور پالیسی سازوں پر عائد ہوتی ہے۔مثال کی طور پرآل راﺅنڈر محمدحفیظ کا انتخاب ہمیشہ ایک بالر کی حیثیت سے کیا جاتا رہا ہے۔نومبر2014میں اس کے بالنگ ایکشن کو مشکوک قرار دیتے ہوئے مستقبل میں بالنگ پر پابندی عائد کر دی گئی۔اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ حفیظ نے پاکستان کے لئے بیٹسمین کی حیثیت سے زیادہ بہتر پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ان کا ٹیسٹ اوسط75اور ایک روزہ میچز میں 40سے زائد ہے تاہم ٹی20میں ان کی پرفارمنس اتنی اچھی نہیں رہی۔ انہوں نے اپنے آخری29میچز میں سے 24میں صرف دو مرتبہ30سے زائد اسکور کیا۔تاہم ہمارے سلیکٹرز نے شائد انہیں ٹیسٹ اور ایک روزہ انٹرنیشنل میچز کے ریکارڈز کو دیکھتے ہوئے ٹی 20اسکواڈ میں شامل کر لیا۔حفیظ کے24ناکام میچز کا آغاز 2013میں دبئی میں سری لنکا کے خلاف میچ سے ہوا۔اس میچ میں شرجیل خان نے 25گیندوں پر50رنز بنا ڈالے مگراگلے26ماہ تک اسے ٹی20انٹرنیشنل میچز میں موقع نہیں دیا گیا۔ پاکستانی سلیکٹرز کا باو ہ ا ٓدم ہی نرالا ہے۔ انہوں نے ٹی20کپتان کی تقرری ماضی میں ان کے ایک روزہ انٹرنیشنل میچز کے ریکارڈ کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی۔دوسری جانب انہوں نے ٹی20اسپیشلسٹ شرجیل خان کو ایک روز ہ میچز کے ریکارڈ کی بنیاد پر ڈراپ کر کے حفیظ کا انتخاب کر لیا جو کہ ٹیسٹ اور ایک روزہ میچز کے کامیاب بیٹسمین ہونے کے باوجود ٹی20میں مسلسل ناکام ہو رہے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سلیکٹرز اور پالیسی سازتینوں فارمیٹ کی کرکٹ کے درمیان بنیادی فرق کو عملی طور پر سمجھنے میں ناکام ہیں۔ٹی20ورلڈ کپ کھیلنے بھارت جانے کے لئے انہوں نے پانچ پیسر کا انتخاب کیااور ایک بھی فرنٹ۔لائن اسپنر کو لے جانا ضروری نہیں سمجھا۔آفریدی کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کبھی بھی فرنٹ لائن اسپنر نہیں رہے۔

سلیکشن کمیٹی نے ٹی20ورلڈ کپ کے لئے آفریدی کے ساتھ عماد وسیم ، محمد نواز اور سلیم ملک کو بطور اسپنرز منتخب کیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام اپنی بالنگ سے زیادہ بیٹنگ کے حوالے سے مشہور ہیں۔ہو سکتاہے کہ نواز کبھی فرنٹ لائن اسپنر بن جائے مگر اس کے لئے ابھی اسے موزوں کنڈیشنز کی ضرورت ہے۔دھواں دار بیٹنگ کے لئے پاکستان کے پاس صرف دو حقیقی بیٹسمین شرجیل اور آفریدی ہیں جن کا ٹی20میں اسٹرائیک ریٹ130سے زائد ہے ۔اس میں عمر اکمل کو تیسرے نمبر پر شامل کیاجا سکتا ہے۔آفریدی نے پہلے خود بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر اکمل کو بھیج دیا ۔اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ نچلی بیٹنگ لائن میں کوئی جان نہیں تھی۔پورے ٹورنامنٹ میں پاکستانی بیٹسمینوں کو اسپنرز کے خلاف جدوجہد کرتے دیکھا گیا۔ اسپنرز کو نہات اعتماد سے کھیلنے والے سرفراز کوپورے ٹورنامنٹ میں سست رفتار اور ٹرن ہوتی گیندیں کھیلنے کا موقع نہیں ملااس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ٹیم نے اپنے دستیاب وسائل کی صلاحیتوں کو درست طرح استعمال کیا۔اس کا جواب نفی میں ہے۔ گوکہ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی اور کوچ وقار یونس ٹیم کی ناکامی میںاپنی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگ چکے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی غلطیوں کا باریک بینی سے جائزہ نہ لیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ لڑکوں کا انتخاب کرتے ہوئے ان کی فٹنس اور پروفیشنلزم کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا ۔ مقامی پچز اور بالز پر بھی توجہ نہیں دی جاتی یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کو اپنے عروج کے سفر کے لئے گزشتہ دو عشروں سے جاری جدوجہد کے باوجود کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
syed yousuf ali
About the Author: syed yousuf ali Read More Articles by syed yousuf ali: 94 Articles with 77868 views I am a journalist having over three decades experience in the field.have been translated and written over 3000 articles, also translated more then 300.. View More