پڑھا لکھا انتقام
(Rai Azhar Hussain, Islamabad)
یہ 2001 کی یاد ہے میں اپنے دوست ارشد
چوہدری کے دفتر واقع بلیو ایریا گیا تو ایک معصوم سے چہرے نے استقبال کیا۔
مجھے اُس کے چہرے کی سنجیدگی اور متانت نے متاثر کیا۔ چائے کا کپ رکھتے
ہوئے اُس نے کہا کہ سر آپ کو تھوڑی زحمت ہوگی چوہدری صاحب دفتر سے باہر ہیں
ابھی آجا ئیں گے۔ مجھے آپ کے بارے میں بتا کر گئے ہیں ۔میں نے بھی وقت
گذاری کے لئے اُس سے گپ شپ شروع کی جس پر اُس نے بتایا میرا نام حافظ
بشیراحمد ہے اور آفس بوائے کے ساتھ ساتھ اوکائنٹ مینجرکاکام بھی کرتا ہوں
فائل ورک سے لیکر اکاؤنٹ کی درستگی تک سارے فرائض میرے ذمہ ہیں۔ سر چوہدری
صاحب سے آپ کے بارے بہت سن رکھا ہے ذرا ستاروں کا حساب لگا کر بتائیں کہ
کیا میں ایک کامیاب انسان بن جاؤں گا۔ میں نے انکساری سے جواب دیا کہ
ستاروں کے حساب کتاب کا تو مجھے علم نہیں البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اگر
انسان صدق ِدل اور لگن سے محنت کرے تو اﷲ کریم اپنا کرم ضرور کرتے ہیں۔ اُس
کی آنکھوں میں آگے بڑھنے کی آرزو اور خوابوں کی ایک وسیع کائنات میں پہلے
ہی دیکھ چکا تھا۔مجھے لگا کہ وہ مجھے بہت کچھ بتانا چاہتا ہے مگر میں نے
بشیر کو کہا کہ یہاں سے پہلے کی کہانی میں بعد میں سنوں گا سو آج سے تم نے
بس ایمانداری اور اطمینان کے ساتھ اپنی منزل کے حصول کے لئے محنت کرنی ہے
اور اس سلسلے میں تم بلا جھجک میرے پاس آسکتے ہو میں دامے درمے سخنے ہر طرح
سے حاضر ہوں اور پھر وہ لگن اور جنون کا سفر شروع ہوا جس نے نہ صرف
میرابلکہ سب کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ وقت گذرا کیونکہ اُس کو گذرنا ہی
تھا۔ میرے لئے وہ ایک ایسا مرید تھا جس کو کسی مرشد کے سورج اور روشنی کی
ضرورت تھی سو ہم دونوں ایک نا محسوس رشتے میں بندھ گئے اور ایک دوسرے کے
لئے راحت کا ساماں ہو گئے۔ پھر اچانک وہ بازار کی بھیڑ میں گم ہوگیا ۔ وہ
بھیڑ جس میں سروں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ سب سے دریافت کیا مگر تسلی
بخش جواب نہیں ملا۔لمحے، دن اور سال بیت گئے۔ میں نے سوچا بشیراحمد اپنے
اصل کی طرف لوٹا گیا ۔
2012 دسمبر کی ایک ٹھنڈی ٹھار رات قریب ۹ بجے رات فون کال موصول ہوئی۔ سلام
دعا کے بعد کہا میں اس وقت کچہری میں ہوں اور آپ کے چیمبر سے فون نمبر لے
کر کال کررہا ہوں ۔۔۔ملاقات کرنا چاہتا ہوں ۔ میں نے جوابا کہا کہ میں اب
ملازمت کرتا ہوں ۔ ا ُس نے کہا میں آپ سے کسی کیس کے سلسلے میں مشورہ کرنا
چاہتا ہوں۔ میں نے پھر معذوری کا اظہار کیا کہ میں اب جاب کرتا ہوں لیکن وہ
ملنے کے لئے باقاعدہ التجا کرنے لگا سو گھر کا ایڈریس بتایا۔ کوئی آدھ
گھنٹے بعد گھر کی گھنٹی نے باہر دیکھنے پر مجبور کیا۔ گلی میں ٹمٹامتی مدھم
زرد روشنی میں ایک مانوس چہرے کی جھلک نظر آئی اور پھر وہ مجھ سے لپٹ
گیا۔میرے حواس بحال ہوئے تو کہا اوئے بشیر تم ۔۔۔۔۔ ایک ہی سانس میں کو ئی
ہزار سوال اور دو ہزار خدشات کا اظہار کیا۔ وہ مسکرا کے بولا سر اندر آنے
کو نہیں کہیں گے۔ میں نے اُس کا ہاتھ تھاما اور اِس یقین کے ساتھ ڈرائنگ
روم کی طرف بڑھا کہ وہ پھر گم نہ ہو جائے ۔ یقین بھی عجیب چیز ہے پتھر کو
خدا اورخدا کو پتھربنا دیتا ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان دونوں میں خدا
کون ہے۔ وہ بولا سرمیں بیٹھ جاؤں۔ہاں ہاں بیٹھو بیٹھو مگر یہ بتاؤ جو عہد
تم نے کئی سال پہلے مجھ سے کیا تھا اُس کے بارے میں
کچھ کہو۔ سر مجھے سانس تو لینے دیں سب بتاتا ہوں۔ میں نے معذرت کی اور صوفے
کی پشت سے ٹیک لگا کر پر سکون ہوگیا اُس وقت ایسا لگا کہ کوئی کھوئی ہوئی
چیز مل گئی ہے۔
وہ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا اُس کے بعد کھڑا ہوا اور میری طرف اپنا ہاتھ
بڑھا کر بولا سر خاکسار کو ڈاکٹرحافظ بشیر احمد کہتے ہیں پی ایچ ڈی ان
بائیوٹیکنولوجی فرام قائداعظم یونیورسٹی اور واٹر لو یونیورسٹی کینیڈا اور
حال ہی میں اسلامک انٹرنشنل یونیورسٹی اسلام آبادمیں بطورمستقل پروفیسر
تعینات ہوا ہوں اس اعزاز کے ساتھ کہ میں سب سے کم عمر ترین پی ایچ ڈی
پروفیسر ہوں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میرے جسم کے رگ وپے میں شکر و تمنائیت کی
کوند سی لپک گئی اور میں نے اس کو گلے سے لگا لیا۔اُس نے کہا سر آپ کو واٹر
لو کینیڈا کی ساری پاکستانی کمیونٹی جانتی ہے۔ میں جس دن سے پاکستان آیا
پرانے دوستوں سے آپ کے بارے میں پوچھتا رہا مگر کسی نے تسلی بخش جواب نہیں
دیا آ ج مغرب کی نماز کے بعد ارادہ کیا کہ آپ کو تلاش کروں تو اچانک خیال
آیا کہ کیوں نہ کچہری میں جا کر کسی سے معلوم کروں پھر سوچا کہ رات کے اِس
پہر وہاں کون ہوگا مگر پھر ہمت کرکے چل پڑا اور کسی نہ کسی طرح آپ کے چیمبر
پر پہنچ کر آپ کو کال کی اور اب آپ کے سامنے ہوں۔میں نے ڈاکٹر کہا تو فوراً
ٹوکا سر آپ اؤے بشیر کہیں زیادہ اچھا لگتا ہے میں نے کہا نہیں بھائی اب تم
بڑے آدمی ہوتو ہم کیوں نہ تمھیں ڈاکٹر کہیں۔میں نے کہا آؤ دو نفل شکرانے کے
ادا کریں کہ اُس پاک ذات نے اپنا کرم کیا ۔ آج تم نہ صرف ایک کامیاب انسان
ہوبلکہ شعورو آگہی کی اُس بلندی پر ہو جہاں ادراک اپنی تمام تر رعنائیوں کے
ساتھ تمھارے ہم رکاب ہے۔
رات کے گذرنے کا احساس اُس وقت ہوا جب بیگم صاحبہ نے نمازِ فجر کی نوید دی۔
ڈاکٹر صاحب نے تمام تر مشکلات کا ذکر کیا کہ کس طرح وظیفہ پرپی ایچ ڈی شروع
کی اورکینیڈا پہنچا ۔ فیس کے حصول کے لئے بیرا گیری کی اور اپنی تعلیم جاری
رکھی۔ مختلف کتابوں او ر ریسرچ مقالوں کا مصنف ہوں نیزاپنی ریسرچ پر بھی
انعامات بھی حاصل کر چکا ہوں ۔ تعلیم مکمل کر کے پاکستان واپس آ گیا ہوں ۔
نوکری کے ساتھ اپنے گاؤں جا کر سب کو ترغیب دیتا ہوں کہ تعلیم حاصل کرو کہ
یہ وہ ہتھیار ہے جس سے سب کو زیر کیا جا سکتا ہے ۔ میراخاندان جہاں عورت کی
تعلیم کوایک گناہ ِ کبیر ہ سمجھا جاتا تھا وہاں اب فیملی کی بیٹیاں ایم فل
اور پی ایچ ڈی کررہی ہیں۔ علم اپنی حکمت دکھا رہا ہے ۔اور تو اور سب نے
اپنا اسلحہ بیچ دیاہے کہ وہ اب اُن کے کام کا نہیں رہا۔ چچا اور تایا جو
میرے باپ کو محض اس لئے ذلیل و رسوا اور قتل کرنے کے درپے تھے کہ وہ اپنی
اولاد کو پڑھانا چاہتا ہے اب میرے سامنے صرف زمین گھورتے ہیں میری طرف آنکھ
اُٹھا کر نہیں دیکھتے ۔بارہا اُن سے گذارش کی کہ آپ بڑے ہیں ایسا نہ کیا
کریں تو وہ کہتے ہیں تمھیں سر اُٹھا کے دیکھنے کی ہمت ہم میں نہیں۔ یہ وہ
کہانی تھی جس پر آپ نے کہا تھا کہ جب کبھی کامیاب انسان بن جانا تو مجھے
سنانا سو آج سنا رہا ہوں۔ میں اکثر کینیڈامیں دوستوں کو کہا کرتا تھا کہ
میری کامیابی پرمیرے ماں باپ کے بعد سب سے خوش ہونے والا ایک ہی بندہ ہے جس
کو اسلام آبادجا کر ابھی تلاش کرنا ہے۔
آجکل ڈاکٹرحافظ بشیر احمد صاحب جو کہ ابھی شادی جیسے معاملات سے آزاد ہیں
کیمبرج یونیورسٹی میں بطورکم عمر سائنسدان اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں
اور ہر دردمند پاکستانی کی طرح مغرب کی چمک دمک سے متاثر نہیں ہوتے اور
چاہتے ہیں کہ اپنا پروجیکٹ جلد ختم
کرکے واپس اپنے ملک کے بچوں کی خدمت کریں اور اس سلسلے میں گاہے گاہے فقیر
سے رابطہ کرکے اپنے مقاصد سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ بلا شبہ مصمم ارادوں او
رنیک نیتوں کی مدد آسمان سے اترتی ہے۔ ایک دن فقیر سے پوچھا سر کوئی خدمت
ہو تو حکم کریں میں نے کہا کہ بس اپنے جیسے کم از کم دو بشیروں کو ڈاکٹر
بشیر بنا دینا یہی فقیر کی محبت کا صلہ ہے۔ باقی رہے نام اﷲ کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|
|