جی ہاں بھینس کے آگے بین بجائیں یا بانسری
کچھ فرق نہیں پڑھتا ۔۔۔ اور ہمارے مولوی حضرات نے غالبا“ زندگی گزارنے کے
رہنما اصول فقط عام عوامالناس کے لئے وقف کردئے ہیں ۔۔۔۔۔ اور خود کو اس سے
بری الزماں سمجھ لیا ہے ۔۔۔۔ رسول اللہ کا ذکر چھڑ جائے تو آنکھوں سے اشک
جاری ہوجاتے ہیں لیکن جہاں اتبائے رسول پر عمل کرنے کا وقت آئے تب رسول
اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے وضح کردہ رہنما اصولوں سے نگاہیں پھیر لیں ۔۔۔
اور اپنی دیڑھ انچ کی مسجد بنا کر بیٹھ گئے ۔۔۔ ذرا کسی نے مزاج کے خلاف
اپنا مؤقف پیش کردیا تو اس بیچارے پر کفر کا فتوا لگا کر زندہ درگور کردیا
۔۔۔۔ اسے معتوب قرار دے دیا ۔۔۔ ہر فرقے کی اپنی ایک منطق ہے اور لچک
دکھانے کو کوئی رازی نہیں ۔۔۔ افسوس سے کہنا پڑھتا ہے ۔۔۔ ہم مسلمان ہوکر
بھی مسلمان نہیں بن پائے ۔۔۔ اسلام کو نہیں سمجھ پائے ۔۔۔
آج ایک چینل پر ٹالک شو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ نہ دیکھتی تو بہتر
تھا ۔۔۔ دیگر شرکہ کے اوپر تو بات نہیں کرونگی لیکن اس میں شرکت کرنے والے
ایک شریک کی پھول جھڑتی زبان نے ہمارے چودہ طبق روشن کردئے ۔۔۔ خود کو عالم
دین ثابت کرے پر تلے موصوف کے دین کا تو پتہ نہیں البتہ گالم گلوچ میں ضرور
پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی انہوں نے ۔۔۔۔ جب حد سے گزرنے لگے تو مجبوراً دوسرا
چینل لگا دینا پڑا ۔۔۔ بچے اور ساس سامنے بیٹھے تھے اور ویسے ہم اکیلے میں
بھی اس ٹالک شو کو دیکھنے کی دوبارہ جرت اپنے اندر نہیں پارہے تھے ۔۔۔۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آخر مولوی حضرات جو خود کو ولی اللہ کہلوانا
پسند کرتے ہیں عام آدمی کو نصیحت کرتے ہیں اخلاق اور کردار پر ہمیشہ بحث
اور مباحثہ اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں خود کو کیوں اس سے بری الازماں سمجھ
لیا ہے :
عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ قال : سئل رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسل عن اکثر
ما یدخلالناس الجنہ؟ فقال (تقویٰ اللہ وحسن الخلق) وسئل عن اکثر مایدخل
الناس النار؟ فقال (الفم والفرج) رواہ الترمذی ١ (حسن)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے
دریافت کیا گیا “کون سا عمل سب سے زیادہ لوگوں کے جنت میں جانے کا سبب بنے
گا ؟ آپ صلیٰ علیہ وسلم نے فرمایا “تقویٰ اور اچھا اخلاق“ ۔ پھر آپ صلیٰ
اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ “کونسا عمل سب سے زیادہ لوگوں کے آگ میں
جانے کا سبب بنے گا “ تو آپ صلیٰ علیہ وسلم نے فرمایا “منہ اور شرمگاہ“ اسے
ترمذی نے روایت کیا ہے ۔
میرا صرف اتنا کہنا ہے کہ دین اسلام کو رٹنے رٹانے سے کوئی عالم دین نہیں
بن جاتا ۔۔۔ اسے سمجھنے اور خود بھی اس پر پہلے عمل کرنے اور اپنی زندگی کو
اس پر گزارنے کے بعد ہی کسی کو دعوتِ دین کی طرف بلانے اسے غلط راہ پر جانے
سے روکنے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔۔۔ فرقہ چاہے کوئی بھی ہو اختلاف چاہے
جتنا بھی ہو مگر جس کا اخلاق بہتر ہوگا لوگ اسی طرف جائینگے ۔۔اس طرح گالم
گلوچ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔۔۔ اور عام آدمی پر بھی اچھا امپریشن آپ
حضرات کا نہیں پڑتا ۔۔۔۔ جب مولوی ایسی زبان بول رہا ہے تو ہم تو گناہگار
بندے ہیں ہم کیوں پیچھے رہیں ۔۔اور پھر جو انارکی پھیلے گی وہ جگ ہنسائی کا
باعث تو بنے ہی گی ساتھ میں ملک کی ابتر حالت مزید ابتری کا شکار ہوجائے گی
۔۔ میرا مقصد یہاں کسی کی دل آزاری نہیں اس لئے اگر کوئی بھی بات بری لگے
تو معافی چاہتی ہوں ۔۔۔ فی امان اللہ ۔۔۔ |