دائیں اور بائیں بازو کی فلسفیانہ موشگافیاں اور بے عملی

میری دونوں بازؤوں کے اہل علم و دانش سے مؤدبانہ گزارش ہیکہ آپ اپنی علمی، تخلیقی صلاحیتوں اور انسانوں کے لئے جوآپ کے دلوں میں محبت موجزن ہے اس کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے عملی اقدمات کے لئے منصوبہ بندی کریں، اپنی گلی ،محلے، احباب ، رشتہ دار حتیٰ کہ پورے معاشرے کے لوگوں میں عمل کے شعور کو بڑھائیں، کیونکہ معاشروں میں تبدیلیاں لانے کے لئے افراد معاشرہ کا وجود اور ذہنی اور جسمانی طور پہ صحت مند ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ایسی روایتوں کو رواج دیجئے جو عمل کی طرف راغب کریں، اپنی گلی، محلے اپنے شہر، اور اپنے ملک کے لوگوں کی خبر گیری کے لئے اپنے گھر سے نکلیں، ہر دن ایک چھوٹی سی نیکی کریں، کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیں، کسی کی مدد کر دیں، ان کی مجبوریوں اور مسائل کو سمجھیں اور پھر ان کے حل کے لئے لکھیں، عملی منصوبے بنائیں، چھوٹے پیمانے پہ ہی سہی لیکن عملی کام کریں ، دوسروں کو بھی راغب کریں، خود اس حل میں عملی طور پہ شریک ہونے کا کلچر عام کریں۔عملی طور پہ ایسی تنظیمیں بنائیں جو انسانوں کی خدمت کریں، نہ ہی مذہب اس سے روکتا ہے اور نہ ہی سیکولر نظریہ اس میں آڑے آتا ہے، اگر واقعی ذہنی عیاشی سے نکلنا ہے تو عملی کام کو اپنانا ہو گا، عملی جدو جہد کی تعلیم دینا اور لینا ہو گی،تو یقیناً یہ ایک طرح کا ایسا سماجی عمل ہے جو آگے چل یقیناً مثبت اجتماعی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔اور قوم کو اس سیکولر اور غیر سیکولر کے جھگڑے سے بھی شاید نجات مل جائے۔
آج ہمارے سماجی اور سیاسی منظر نامے میں ویسے تو نظریات و افکار کا ایک زبردست طومار نظر آتا ہے لیکن اگر اسے کسی سمت میں اگر تقسیم کیا جائے تو دو قسم کے مکاتب فکر خاص طور پہ نمایاں نظر آتے ہیں، ایک وہ جو’’ دائیں بازو‘‘ اور ’’دوسرا بائیں بازو‘‘ سے متعلق کہلاتے ہیں، او الذکر مذہبی ریاست اور مذہب ہی کو انسانی معاشرے کی فلاح کا ضامن سمجھتا ہے اور ودسرا بازوسیکولر یا ترقی پسند وغیرہ کہلاتا ہے، جو ایک ایسی فلاحی ریاست کے حق میں جس سے مذہب کا کوئی تعلق نہ ہو معاشرے میں لوگ اپنے اپنے مذاہب کے مطابق آزادانہ زندگی گذاریں۔

گذشتہ نصف صدی سے ان دونوں بازؤں کا جائزہ لیں،تو سماجی اور سیاسی سطح پہ یہ دونوں بازو مفلوج نظر آتے ہیں، دونوں اپنے اپنے نصب العین میں ناکامی سے دوچار نظر آتے ہیں،ان دونوں بازوؤں نے نظریاتی، فکری بحثوں، مکالموں، سیمیناروں،پہ سارا زور صرف کر رکھا ہے، کہیں بھی کوئی عملی تبدیلی نظر نہیں آتی، دونوں بازؤوں سے متعلقہ اہل علم ودانش اپنی گلیوں ، بازاروں میں گندگی، بھوک، افلاس، محرومیوں کے ڈیرے روز دیکھتے ہوں گے، آتے جاتے فٹ پاتھوں پہ انسان انہیں سسکتے ہوئے بھی نظر آتے ہوں گے، ہسپتالوں میں بغیر دوا و علاج کے مرتے ہوئے، غربت کی وجہ سے خود کشی کرنے والے انسانوں کی خبریں بھی ملتی ہوں گی، کیونکہ یہ ساری خبریں رکھنا ان کے مدلل موضوع سخن کے لئے ضروری ہیں۔لیکن نصف صدی سے کوئی عملی کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔

دائیں بازو کو لیجئے، زمین و آسمان کی تبدیلی کے دعوے کئے جاتے ہیں، اسلامی نظام، عادلانہ نظام، کی باتیں ہوتی ہیں، ایسے ایسے خواب دکھائے جاتے ہیں جن سے سوائے عقیدتمندی کے کوئی اور نتیجہ نہیں نکلتا، ایسی ایسی خوش فہمیوں کی جنت کے نظارے دکھائے جاتے ہیں جو دنیا مافیہا سے بے خبر کر دیتے ہیں،نفرت اور بغض کے ایسے ایسے حربے سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے سوائے سماجی انتشارکے کچھ اور حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔زمین کے نیچے اورآسمان سے اوپر کی باتوں نے انہیں سماجی زندگی ہی سے بے دخل کر رکھا ہے۔ان سے گذارش ہے کہ انبیاء اکرام کی سیرت کامطالعہ کر کے ہی دیکھ لیں تو ہمیں حقیقت سمجھ میں آتی ہے کہ انہوں نے یقیناًسماجی مثبت تبدیلی کے لئے اپنے افکار اپنے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کئے،لیکن انہوں نے انسانی معاشرے کو تنہانہیں چھوڑا، مفلوک الحال اور پریشان حال لوگوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا، انہوں نے لوگوں کو یہ کہہ کر تسلی نہیں دی کے ہمارا کوئی نظام آئے گا تو تب ہی تمہارا کچھ ہو گا، لہذا ابھی مرتے ہو تومرتے رہو۔ پیغمبر اسلام نے اپنے نوجوانی سے لے کرآخری ایام تک اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ انفرادی اور اجتماعی سماجی خدمت میں وقف رکھا۔ ان کی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں آپ نے معاشرے کے عام کاموں سے لے کر اجتماعی نظاموں کی تبدیلی تک کے کام میں ہمیشہ اپنے آپ کو مصروف رکھا۔آپ نے بلا تعصب مذہب و قومیت لوگوں کی عملی طور پہ مدد کی ، مکی دور میں باقاعدہ ایک نوجوانوں کی سماجی تنظیم بنائی جو عملی طور پہ مکہ کے مقتدر طبقات کے ظلم سے مظلوم لوگوں کو بچاتی تھی اور ان کے ظلم کے خلاف آاواز اٹھاتی تھی۔ آپ نے لوگوں کے عام کاموں میں بھی ان کی عملی مددکی مثلاً سودا سلف بھی لا کر دیا، لوگوں کے بوجھ اٹھائے، غریب لوگوں کی مالی مدد کی، بھوکوں کو کھانا کھلایا، یتیموں، مسکینوں اور معاشرے کے مفلوک الحال لوگوں کی ہر سطح پہ مدد کی۔اور سماجی خدمت کے حوالے سے ایک ایسا مثالی رویہ اپنایا، یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے ان کی نظریاتی اور فکری دعوت کو قبول کیا۔یہ تھا ان کا عملی کردار ، اب ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں سارا زور خطابت اور بس خطابت تک محدود ہے، اور سیکولر حلقوں کو علمی شکست دینے کے لئے ہمہ وقت ہتھیاروں کو تیز کیا جاتا ہے، انسان دوستی کے حوالے سے عملی کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔

اور اسی طرح ہمارا انتہائی پڑھے لکھا دوسرا بازوجو اپنے آپ کو ترقی پسند، سیکولر، انسان دوست، لبرل نہ جانے کیا کیا کہلاتا ہے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے ان کا جو فلسفہ زندگی ہے وہ بظاہر انسانیت سے قریب محسوس ہوتا ہے، انسانیت کا درد، اس کا غم، انسانی حقوق، عقلی ترقی، آزادی اظہار رائے، جمہوریت یعنی ان کے نظریہ میں کمالات کے عنوانات چھپے ہوئے ہیں، کیاکچھ نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ ایک سیکولر ریاست اور معاشرے میں بس ترقی ہی ترقی خوشحالی ہی خوشحالی، یہ بھی خواب دکھانے میں دائیں بازو سے پیچھے نہیں ہیں۔ہاں ا ن کے ہاں لفاظی جدید طرز کی اور اصطلاحات عصر حاضر کے مطابق ہوتی ہیں، بعض اوقات تو ترقی پسندی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ تجزیہ پاکستان کی مفلوک الحال قوم کا، زرعی دور کے معاشرے کا ہو گا اور دلیل کسی یورپین معاشرے کے مفکر کی دے رہے ہوں گے، اور پھر مکالمہ بازی میں تو ان سے کوئی جیت نہیں سکتا، مذہب کاتو ایسا محاسبہ کرتے ہیں کہ کبھی کبھی ان پہ سیکولر بنیاد پرستوں اور انتہا پسندوں کا سا گمان ہوتا ہے،ان کے ہاں نظریاتی بحثوں کا کلچر کچھ زیادہ ہے،کیفے ٹیریا ہوں، یا کوئی آن لائن مکالمے اور بحث ہو یہ وقت کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں،شب وروز نظریاتی تشنگی دور ہوتی ہے، خوب دائیں بازو کا بھی آپریشن ہوتا ہے اور پھر تھکے ماندھے یہ دماغ غفلت کی نیند سو جاتے ہیں تاکہ اگلے دن، یا اگلے مباحثے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں۔ نصف صدی سے ترقی پسند ادب، سیکولر اور انسان دوستی کے نئے نئے مضامین تخلیق ہوتے رہے لیکن اگر کوئی کام نہیں ہوا تو وہ لوگوں کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے والا، عملی طور پہ بھوکے انسانوں کی پرورش کرنے والا، بغیر دوا و علاج کے مرنے والوں کی مدد کا انتظام نہ ہو سکا، اور نہ ہی سیکولر ازم کے اس نظریاتی جمع خرچ نے ان کے دماغ کے ان خلیوں کو متحرک کیا جو فقط انسانوں کی خدمت کرنے کے عملی پروگرام سوچتے ہیں۔
سوچیئے کہ کیا ہم آرام سے بیٹھ کر بندکمروں میں سیکولر ازم و مذہبی انقلاب کے فلسفوں کا پرچار کرتے رہیں؟ اور لوگ بھوک و افلاس سے ہمارے سامنے مرتے رہیں، کیا ہم بغیر دوا کے بچوں کوتڑپتا چھوڑ دیں؟، بغیر علاج کے لوگوں کو مرتا چھوڑ دیں؟ کیا لوگوں کی عزتوں کو معاشرے میں تار تار ہوتے ہوئے چپ بیٹھے رہیں؟ کیا لوگ گندے پانی، گندے ماحول سے بیماریوں میں پڑتے رہیں؟ اور ہم تماشہ دیکھتے رہیں؟ کیا ہمارا سیکولر یا غیر سیکولر نظریہ ہمیں معاشرے سے اس طرح کی چشم پوشی کی تعلیم دیتا ہے؟ کیا صر ف کمروں میں بیٹھ کرانسان دوستی اور سیکولر ازم کے سبق پڑھائے جائیں یا اٹھ کر انسان دوستی کے سبق پہ عمل کرتے ہوئے معاشرے کی خدمت کریں، لوگوں کے دکھ دردبانٹیں، ہسپتالوں میں جائیں، جہاں بغیر دوا کے لوگ مرتے ہیں، جہاں ان کے لئے علاج کی مناسب سہولتیں نہیں ان کی مدد کریں،سڑکوں پہ فٹ پاتھوں پہ نظریں دوڑائیں، جہاں بے گھر لوگ سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں بغیر بستر کے پڑے نظر آتے ہیں، معاشرے پہ نظر دوڑائیں بچے معاشی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سکول نہیں جا پاتے۔اور نہیں تو کم از کم انسان دوستی کے اس فلسفے کی عملی مشق کے لئے اپنی گلی اور محلے کے لوگوں کو ہی منظم کر لیں تاکہ وہ اس کی متواتر صفائی رکھیں تاکہ ماحول صاف رہے اور لوگ بیماریوں سے بچ جائیں۔کچھ تو عملی طور پہ کرو،تاریخ کا یہ سبق ہے کہ فقط انسان دوستی اور خدمت انسانیت کے اسباق پڑھ کے، اور مکالموں سے معاشرہ نہیں بدلتا۔آج ہم غور کریں کہ زبانی انقلاب کے فلسفوں اور انسان دوستی کے اسباق کا رٹہ لگانے والے تو ہم بن گئے، لیکن اپنے ارد گرد سے غافل ہیں، ہم میں اتنی جرات اخلاق نہیں کہ ہم معاشرے کے دکھوں میں عملی طور پہ ان کے ساتھ شریک ہوں، ایسے پروگرام سوچیں جن کی مدد سے لوگوں کی تعلیم، ہنر کا بندو بست ہو اوروہ معاشرے کے فعال شہری بن سکیں۔

میری دونوں بازؤوں کے اہل علم و دانش سے مؤدبانہ گزارش ہیکہ آپ اپنی علمی، تخلیقی صلاحیتوں اور انسانوں کے لئے جوآپ کے دلوں میں محبت موجزن ہے اس کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے عملی اقدمات کے لئے منصوبہ بندی کریں، اپنی گلی ،محلے، احباب ، رشتہ دار حتیٰ کہ پورے معاشرے کے لوگوں میں عمل کے شعور کو بڑھائیں، کیونکہ معاشروں میں تبدیلیاں لانے کے لئے افراد معاشرہ کا وجود اور ذہنی اور جسمانی طور پہ صحت مند ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ایسی روایتوں کو رواج دیجئے جو عمل کی طرف راغب کریں، اپنی گلی، محلے اپنے شہر، اور اپنے ملک کے لوگوں کی خبر گیری کے لئے اپنے گھر سے نکلیں، ہر دن ایک چھوٹی سی نیکی کریں، کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیں، کسی کی مدد کر دیں، ان کی مجبوریوں اور مسائل کو سمجھیں اور پھر ان کے حل کے لئے لکھیں، عملی منصوبے بنائیں، چھوٹے پیمانے پہ ہی سہی لیکن عملی کام کریں ، دوسروں کو بھی راغب کریں، خود اس حل میں عملی طور پہ شریک ہونے کا کلچر عام کریں۔عملی طور پہ ایسی تنظیمیں بنائیں جو انسانوں کی خدمت کریں، نہ ہی مذہب اس سے روکتا ہے اور نہ ہی سیکولر نظریہ اس میں آڑے آتا ہے، اگر واقعی ذہنی عیاشی سے نکلنا ہے تو عملی کام کو اپنانا ہو گا، عملی جدو جہد کی تعلیم دینا اور لینا ہو گی،تو یقیناً یہ ایک طرح کا ایسا سماجی عمل ہے جو آگے چل یقیناً مثبت اجتماعی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔اور قوم کو اس سیکولر اور غیر سیکولر کے جھگڑے سے بھی شاید نجات مل جائے۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136038 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More