یوگا یا سوریہ نمسکار مذہبی ہے یا نہیں؟ ثقافتی ہےیا
تہذیبی؟ جسمانی ورزش ہےیا روحانی سکون کا ذریعہ ہے؟ ان بے شمار سوالات سے
قطع نظر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا لازمی ہے یا اختیاری؟ اگر یہ اختیاری
ہے توجھگڑا اپنے آپ ختم ہوجاتا ہےلیکن اگر لازمی قرار دے دیا جائے تو
تنازع کھڑا ہوجاتا ہے۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن نے سرکاری اسکولوں پر سوریہ
نمسکار تھوپ کر یہی شوشہ چھوڑا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ جس طرح نمازِاشراق
مسلمانوں کی عبادت ہے اسی طرح سوریہ نمسکار بھی ایک مشرکانہ پرارتھنا ہے۔
اس لئے جس طرح غیر مسلم طلباء کو نماز کا پابند کرنا غلط ہے اسی طرح غیر
ہندو طلباء پر سوریہ نمسکار کو لازمی قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔ سوریہ
نمسکار کی تلخی کو کم کرنے کیلئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کاتعلق مذہب سے
نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب یا جسمانی ورزش سے ہے اور ہر طالب علم کو اپنی
تہذیبی اقدار نیز صحت کا خیال رکھتے ہوئے سوریہ نمسکار کرنا چاہئے۔ ایسے
میں سوریہ نمسکار کی حقیقت اورمسلمانوں کے اس سے اختلاف کی وجوہات کوجاننا
اور سمجھنا ضروری ہے۔
سوریہ نمسکار ہزار ملمع سازی کے باوجود بنیادی طور پر وہ سورج دیوتا کے
آگے سجدہ ہے۔ سناتن دھرم یعنی ہندو مذہب کی مقدس کتابیں اس کے اعتراف سے
بھری پڑی ہیں اور موجودہ دور کے نرم خومذہبی رہنما سری سری روی شنکر تک اس
کا ببانگ دہل اعتراف کرتے ہیں لیکن چونکہ اس شرکیہ عبادت کو علی الاعلان
مسلط کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے کو مختلف گمراہ کن حیلے بہانے تراشےجاتے ہیں۔
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو بغیر سوچے سمجھے اپنی
پرمپراوں (روایتوں ) کا پالن کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو غوروفکر کرکے کسی
نتیجے پر پہنچتے ہیں ۔ مسلمان دوسری طرح کا گروہ ہےاس کیلئے کسی بات کو
تسلیم کرنے کیلئے اس کا مقبول و مفید ہونا یا تہذیب و ثقافت کا حصہ ہونا
کافی نہیں ہے بلکہ وہ ہر مطالبے کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر جانچتا پرکھتا
ہے اورپھر اسے قبول یا مسترد کرتا ہے۔
اس دور پر فتن میں مذکورہ صفت عالیہ کوبنیاد پرستی اورابن الوقتی کو خوبی
شمار کیا جاتا ہے لیکن خود فسطائیوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ اگر لوگ بغیر
سوچے سمجھے کانگریس کے بھکت بنے رہتے اور اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے خلاف
بغاوت نہ کرتے تو انہیں اقتدار میں شریک ہونے کا موقع نہ ملتا۔ ملک کے عوام
اگر نرسمھاراو کو بابری مسجد کے تحفظ میں ناکامی سزا دینے کا فیصلہ نہ کرتے
تو انہیں اٹل جی کوپہلی مرتبہ ۱۳ دنوں کیلئے وزیراعظم بنانے کی سعاد بھی
نہیں ملتی اور اگر جنتا دل کی سرپھٹول سے بیزار نہیں ہوتے تو دوسری مرتبہ
اٹل جی حلف نہیں لیتے۔ اسی طرح یو پی اے سرکار کی بے لگام بدعنوانی اور
مہنگائی کے خلاف غم وغصہ کا اظہار نہیں ہوتا تو مودی جی کے ہاتھوں میں
اقتدار نہیں آتا۔ یہ تبدیلیاں عوام کے روایتی بھیڑ چال سےانحراف کی مرہونِ
منت ہیں ۔ ملک کی عوام اگر غوروفکر کرکے کسی حکومت کو مسترد کرسکتے ہیں تو
کسی طریقۂ ورزش سے انکار کیوں نہیں کرسکتے؟
سورج توانائی کا منبع ہونے کے سبب ایک عظیم نعمت ہے ۔اس کا اعتراف اور اس
سے استفادہ مسلمان بھی کرتے ہیں لیکن وہ اس کی عبادت نہیں کرتے۔ اس لئے کہ
یہ غیر عقلی فعل ہے ۔ اس کی وجہ مندرجہ ذیل مثالوں میں ملاحظہ فرمائیں۔ اگر
کوئی بہی خواہ آپ کوڈاک سےتحفہ بھیجے تو آپ کس کے احسانمند ہوں گے ؟ڈاکیہ
کا یا تحفہ روانہ کرنے والے کا؟ عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ جس نے تحفہ بھیجا ہے
اس کا شکریہ ادا کیا جائے ۔ مسلمانوں کے نزدیک سورج کی حیثیت کورئیر بردار
کی ہےاس لئے وہ سورج کی نہیں بلکہ سورج کے خالق خدائے واحد کے آگے سر
بسجود ہوتے ہیں ۔ ارشاد ربانی ہے: ’’ یہ رات اور دن اور سورج اور چاند اللہ
کی نشانیوں میں سے ہیں ۔(اس لئے)سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو بلکہ اُس خدا
کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر فی الواقع تم اُسی کی عبادت کرنے
والے ہو‘‘۔
اس بات کو ایک اور مثال سے سمجھیں ۔ ایک بادشاہ نےشاندار محل تعمیر کیا اور
اپنے بندوں کی سہولت کے لئے راستے میں نشانی کے طور پر مینارۂ نور بھی
کھڑاکر دیا تاکہ وہ باآسانی اس تک پہنچ سکیں۔ تاریکی میں روشن مینارۂ نور
سے کچھ لوگ اس قدر مرعوب ہوئے کہ اسی کے آگے سجدہ ریزہوگئے۔ وہاں موجود
چوکیدار کے ہاتھ چومنے چاٹنے لگے لیکن دوسرے گروہ نے اس کی روشنی میں اپنا
سفر جاری رکھا اور بالآخر اپنے آقا و مالک کے حضور پہنچ کر سر بسجدہ
ہوئے۔ آگے جانے والوں نے سورج پجاریوں سمجھایا کہ وہ مخلوق کے آگے جھکنے
کے بجائے خالق کی عبادت کریں لیکن جب وہ نہیں مانے تو انہیں ان کے حال پر
چھوڑدیا اس لئے کہ رب کائنات کا حکم ہے ’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی
نہیں‘‘ ۔اب اگر سورج کو دیوتا ماننے والوں کی اکثریت ہوجائے انہیں اقتدار
بھی حاصل ہوجائے جس کے بل بوتے پر وہ سورج کے خالق کی عبادت کرنے والوں پر
زور زبردستی کرنے لگیں اور انہیں بزورقوت یا فریب سورج کو نمسکار کرنے پر
مجبور کرنے کی کوشش کریں تو کیا یہ رویہ درست ہوگا؟
سوریہ نمسکار کے دعویداروں کی منطق یہ ہے کہ اس کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ
قومی تہذیب سے ہے اس لئے کوئی شہری اس پر اعتراض کرنے میں حق بجانب نہیں
ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی شئے کو ہندوستانی تہذیب کا جزو
قرار دے کر اسے بزور قوت نافذ کرنا درست ہے؟ ہندوستان کی تہذیب کے کئی رنگ
ہیں ۔ مثلاً جین منی کا بلا لباس رہنا بھی ہندی تہذیب کا حصہ ہے ۔ ہریانہ
کی اسمبلی اجلاس کا برہنہ منی ترون ساگرسے افتتاح کروا کر اسے تسلیم کیا
گیا ہے۔ اب اگر کل کوئی سرپھرا سربراہ اس تہذیب کو بزور قوت نافذ کرنے پر
مُصر ہوجائےتو کیا اس کا ایسا کرنا قابل تسلیم ہوگا؟ یا لوگوں کی سہولت
کرتے ہوئے وہ اسے مستقل کرنے بجائے جین منی کے احترام میں اسمبلی کے اندر
پروچن کے وقت ارکان اسمبلی سےبے لباسی اوڑھنے پر اسرار کرے تو کیا وہ حق
بجانب ہوگا؟ اورسارے ارکان اس کے احکامات کی بجاآوری کریں گے؟
اندھی تقلید کرنے والے زعفرانی رہنما ممکن ہے جین سماج کی خوشنودی حاصل
کرنے کی خاطراس کیلئے بھی تیار ہوجائیں لیکن اگر کوئی خاتون رکن اسمبلی اس
سےمعذوری ظاہر کردے تو اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟ کیا اس کی معذرت قبول
کی جائیگی؟ یا اس کی رکنیت معطل کردی جائیگی ؟ یا اس کو پاکستان بھیج دیا
جائیگا ؟ عقل یہ کہتی ہے کہ اس کی معذوری قبول کی جانی چاہئے۔ اگر کسی حلف
بردار رکن اسمبلی کی معذرت قبول ہوسکتی ہے ان مسلم طالب علموں کی کیوں نہیں
کہ سوریہ نمسکار کا نام نہاد تہذیبی مطالبہ ان کےعقائد کے خلاف سے ٹکراتا
ہے ۔ یوگا اور سوریہ نمسکار کو جسمانی ورزش کا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔ اب
اگر کوئی طالبعلم جسمانی ورزش نہیں کرسکتا تو کیا اس کو تعلیم کے بنیادی حق
سے محروم کرکے اسے اسکول سے نکال دیا جائیگا؟ہندوستان نہ صرف کثیر المذاہب
ملک ہے بلکہ یہ مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہے اس لئے یہاں ہر شہری پر کسی ایک
مذہب کا یا کسی مخصوص تہذیب کو بزور قوت مسلط کرنا عدل وانصاف کی روح کے
منافی ہے ۔
ہندوستانی عوام کے تعلیم وصحت کا خیال کرنا حکومت کی ذمہ داری ہےلیکن اسی
کے ساتھ شہریوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جس زبان میں چاہیں تعلیم حاصل کریں
۔ حکومت اگر یہ فرمان جاری کردے کہ سرکاری اسکولوں میں صرف سنسکرت زبان میں
تعلیم دی جائیگی اور جسے وہ ناقابل قبول ہو وہ ان اسکولوں سے نکل کر اپنا
الگ سے انتظام کرے یا ناخواندہ رہے تو کیا مناسبِ حال فیصلہ ہوگا؟ تعلیم
کےحصو کی خاطراگر زبان کا انتخاب طلباء یا اس کے والدین کرسکتے ہیں تو ورزش
کا انتخاب کیوں نہیں کرسکتے ہیں ۔کیا صحت بنانے کیلئے یوگا کا کوئی متبادل
موجود نہیں ہے۔ حکومت کا کسی مخصوص ورزش پر اصرار کرنا ایسا ہی جیسے سرکاری
دواخانوں میں صرف ایک طریقۂ علاج کو رائج کردیا جائے۔ عوام سے کہا جائے کہ
یہاں پر آیوروید کے چورن کھائیں اور اپنی صحت بنائیں ورنہ راستہ ناپیں ۔
عوام کو یہ اختیار حاصل نہ ہو کہ وہ ایلو پیتھی ، ہومیوپیتھی، یونانی یا
آیوروید میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں ۔
اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سرکاری اسپتال میں ہونے والا علاج یا
سرکاری اسکول میں دی جانے والی تعلیم کی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ کوئی خیرات
ہے جو کسی صاحب حیثیت جیب سے اس کی شرائط پر تقسیم ہوتی ہے یا ایک امانت
ہے؟ سرکار کے خزانے میں روپیہ عوام کے ٹیکس سے آتا ہے۔ بلواسطہ یا
بلاواسطہ ٹیکس ادا کرنے والوں کا تعلق ہر مذہب اور تہذیب کے ماننے والوں سے
ہے اور اس کے مستحق بلا تفریق مذہب و ملت سارے شہری ہیں ۔ سرکار ان پر کوئی
احسان نہیں کرتی بلکہ ان کا حق انہیں لوٹاتی ہے اس لئے اس کوعوام کی مرضی
کے خلاف اپنی شرائط پر دینا سراسرخیانت ہے۔
ممبئی میونسپلٹی کے تعلیمی کمشنرجومرکزکی وضع کردہ تعلیمی پالیسی بزور قوت
نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں شاید نہیں جانتے کہ اس بابت مرکزی وزیر آیوش شری
پدنائک کا کا نقطۂ نظر کیا ہے؟ شری پدنائک نے عالمی یوگا پروگرام کے دوران
''اوم'' کہنے کے مسئلہ پر پیدا شدہ تنازعہ کو ختم کرتے ہوئے کہا تھا کہ
یوگا کے دوران اوم کہنالازم نہیں ہے۔ شری پدنائک نے اخباری نمائندوں کو
بتایا تھا کہ ''اوم ایک آفاقی لفظ ہے۔ اس کا کوئی مذہبی مفہوم و وابستگی
نہیں ہے۔ گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی یہ یوم یوگا پروگرام کا ایک حصہ ہے
لیکن اس کا کوئی لزوم نہیں ہے۔ جو اوم کہنا چاہتے ہیںایسا کہہ سکتے ہیں۔
دوسرے جو اوم کہنا نہیں چاہتے اپنی مرضی کے مطابق کچھ اور کہہ سکتے ہیں''۔
شری پد نائک نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ ''سوریہ نمسکار ایک مشکل مشق ہے
کیونکہ اس میں ۱۲ آسن ہیں‘‘۔کمشنر صاحب کو چاہئے کہ چائے سے گرم کیتلی نہ
بنیں ۔
اس سے قبل جنوری ۲۰۰۷ کے اندرمدھیہ پردیش کی ریاستی حکومت نے’سوریہ
نمسکار‘ کا فرمان جاری کردیا جس کی شدید مخالفت ہوئی یہاں تک کہ کچھ لوگوں
نے اپنے بچے کو سکول نہ بھیجنے کا فیصلہ تک کرلیا ۔ مدھیہ پردیش کے مشہور
صحافی اور سماجی کارکن لجا شنکر ہردینیا اوربابو سالومن نے اس کے لازمی
قرار دئیے جانے کو افسوس ناک قرار دے کرسابق گورنر بلرام جھاکھڑ سے ملاقات
کی اور اس پر عملدرآمد کو روکنے کامطالبہ کیا۔اسی طرح بھوپال کے آرچ بشپ
پاسکل ٹوپنو نے بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کوئی حکومت اسے لازمی قرار
نہیں دے سکتی ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، مدھیہ پردیش کے کنوینر
مولانا شمس الدین آفریدی کی قیادت میں اہل حدیث، جماعت اسلامی اور مجلس
علوم کے قاضیان مفتیانِ شہر نیز سیاسی و سماجی کارکنوں نے بھی تعزیرات ہند
کی دفعہ ۲۶ اور دفعہ ۲۷ کا حوالہ دیتےسوریہ نمسکار کےخلاف احتجاج کیا
۔علماء کا یہ موقف تھاکہ ہندوستان کثیر المذہبی ملک ہے اور یہاں ہر شخص کو
مذہبی آزادی ہے۔
اس کے بعد جبل پور ہائی کورٹ رجوع کیا گیا اور عدالت نے ایک عبوری حکم میں
کہا کہ ریاستی حکومت کسی بھی طالب علم کو ایسا کرنے کے ليے مجبور نہيں کر
سکتی۔سوریہ نمسکار میں طلباء کی شمولیت لازمی نہیں اختیاری ہوگی ۔ چیف جسٹس
اے کے پٹنائک اور ایس کے جھا کی بنچ نے یہ فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے میں یہ
وضاحت موجود تھی کہ نہ تو بچوں کو سوریہ نمسکار کرنے مجبور کیا جائیگا
اورنہ اسکول یا بچوں کے خلاف کوئی کارروائی کی جائیگی ۔ ۲۰۰۹ میں پھر سے
مدھیہ پردیش میں یہ شرارت کی گئی تو ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو سوریہ
نمسکار لازمی قراردئیے جانے کے خلاف نوٹس دیا ۔ اس بار چیف جسٹس پٹنائک کے
ساتھ جسٹس اجیت سنگھ نے کیتھولک چرچ کے سربراہ فادرآنند متونگل کےذریعہ
اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی دستوری دفع ۲۵ اور ۳۰ کے تحت کی گئی شکایت پر
کارروائی کی تھی۔
راجستھان کے اندر ۲۰۱۵ میں جسٹس اے کے سنگھ اور جسٹس گریوال کی بنچ
نےتسلیم کیا تھا کہ کوئی قوم یا طالبعلم اگر سوریہ نمسکار نہیں کرنا چاہتا
تو اسے اس کا اختیار ہوگا اس لئے کہ یہ لازمی نہیں بلکہ اختیاری ہے۔ ان
تمام وضاحتوں کے بعد بھی اگر کوئی عدالت میں جاکر اپنی رسوائی کا سامان
کرنا چاہتا ہو تو کوئی اس کی مدد نہیں کرسکتا۔ مدھیہ پردیش کے اندر اسکولی
تعلیم کی وزیر ارچنا چٹنس صاف طور پر کہہ چکی ہیں کہ اجتماعی سورج
نمسکارمیں شمولیت رضاکارانہ ہے۔ سورج نہ تو بھگوان ہے اور نہ ہی اس کا مذہب
یا مذہبی رسم یا رواج سے کوئی لینا دینا ہے۔سورج نمسکار صحت کے حصول کیلئے
ایک یوگا آسن ہے اور ہم اسے تھوپ نہیں رہے ہیں۔ تمام لوگ اس کیلئے مجبور
نہیں ہیں ، جو لوگ اس میں حصہ نہیں لینا چاہتے ، وہ خوشی سے اسے چھوڑ سکتے
ہیں۔
اس معاملے میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا
موقف نہایت واضح ہے۔ بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی رحمانی کے مطابق
سوریہ نمسکار سورج کی پوجا ہے اور یوگا بھی ہندووں کا طرز عبادت ہے۔مولانا
ولی رحمانی فرماتے ہیں جو چیزیں انسانوں کیلئے بنائی گئی ہیں ان کے سامنے
جھکنا یعنی نمسکار کرنا یا بندگی بجا لانا یا ان سے کچھ مانگنا انسانیت کی
توہین ہے۔انہوں نے کہا تھا ہمارے ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مسلمانوں اور
ان کی نسلوں سے توحید کا عقیدہ چھین لینا چاہتے ہیں اور کسی نہ کسی ترکیب
سے ان کو اپنے مشرکانہ برہمنی رنگ میں رنگ لینا چاہتے ہیں۔ اسی ترکیب کا
ایک حصہ سوریہ نمسکار، یوگا اور وندے ماترم ہیں جن کا تعلق برہمنی دھرم اور
ویدک کلچر سے ہے۔ مسلمان اللہ کی وحدانیت کے قائل ہیں اور انہیں سوریہ
نمسکار یوگا اور وندے ماترم سے الگ رہنا چاہئے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈپر سارے
فرقوں کا اعتماد ہے ۔ ابھی حال میں سپریم کورٹ کے اندر پرسنل لاء بورڈ کے
دائر کردہ مقدمہ کی تائید سارے مکاتب فکر کے علماء و مشائخین نے کی ہے اس
لئے یہی موقف امت کیلئے قابل قبول ہے اور وہ اس بابت نہ کسی فریب کاری کا
شکار ہوگی اور نہ کسی دباو میں آئیگی۔
اہل اسلام کا نقطۂ نظر واضح ہےوہ سارے انسانوں کو خدائے واحد کا کنبہ
مانتے ہیں اور ان کواللہ کی جنت میں ایک ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں اس لئےاسلام
کی دعوت دیتے ہیں۔ہمارے لئے اسوہ حسنہ تو یہی ہے کہ لوگ پتنگوں کی مانند
آگ پر گرے جارہے ہیں اورنبیٔ کریمؐ کمر پکڑ پکڑ ان کو بچا رہے ہیں۔ ایک
خالق حقیقی کی عبادت جہاں ساری مخلوق سے محبت پیدا کرتی ہے وہیں کسی ایک
مخلوق کی پرستش انسانوں کے اندر تفریق و انتشار کا سبب بنتی ہے اس لئے کہ
بہت سے لوگ مخلوق کے آگے سربسجود ہونے سے انکار کردیتے ہیں جن میں مؤحد
اور ملحد دونوں شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ جو مشرک مخلوق کی عبادت کے قائل
ہوتے ہیں وہ بھی کسی ایک پر اتفاق نہیں کرتے بلکہ ہر گروہ اپنے لئے الگ
معبود تراش لیتا ہے۔ آگے چل کرمعبودانِ باطل کی عبادت نفرت کا سرچشمہ بھی
بن جاتی ہے۔ ممبئی سے قریب کلیان میں گنپتی کے جلوس میں شامل بھکتوں کی
اپنے ہم مذہب پولس حوالدار کوتالاب ڈبونے کی کوشش اور پھر سرِ عام پٹائی اس
کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔اس طرح کی شدت پسندی اورعدم رواداری کا رحجان سوریہ
نمسکار کے بزور نفاذسے پروان چڑھے گا۔ ان معاملات سیاسی مفاد پرستی کے
بجائے عدالتی احکامات کو ملحوظِ خاطر رکھاجانا چاہئے۔ |