تعلیم ہی کسی ملک و قوم کی ترقی کا
واحدذریعہ ہوتی ہے ۔سنگاپور اور ملائیشیااس کی زندہ مثالیں ہیں کہ کوئی قوم
جتنی تعلیم کے میدان سرمایہ کاری اور کامیابیاں حاصل کرے گی اتنی ہی تیزی
سے اس ملک وقوم کیلئے ترقی کی راہیں ہموار ہونگی۔ لیکن جوملک و قوم تعلیم
اور اس کے مسائل کو سنجیدہ نہیں لیتے غلامی ان ہی کا مقدر ٹھہرتی ہے ۔بد
قسمتی سے پاکستانی حکمران بھی تعلیم کے معاملہ میں کچھ خاص سنجیدہ نظر نہیں
آتے تب ہی تو ہماری سرکاری تعلیمی سرگر میوں اور کامیابیوں کا اندازاہ اس
خبر سے لگا لیں کہ پنجاب بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کے باوجودپیک کے تحت 2016
میں پنجم ،ہشتم کے ہونے والے امتحانات میں سرکاری سکولوں سے شامل ہونے والے
بچوں میں سے 7لاکھ بچوں نے سرکاری سکولوں کو خیر باد کہہ دیا۔ اس طرح
سرکاری سکولوں میں ڈراپ آوٹ کی شرح بھی بڑھ گئی ہے ۔اس خبر نے توحکومتی
کارکردگی کو بے نقاب کر دیا ہے کہ پنجاب بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود
سات لاکھ بچے سرکاری سکولوں کوچھوڑ گئے ہیں ۔جس میں کہیں نہ کہیں کچھ ناقص
پالیسیوں اورشعبہ تعلیم سے حکومت کی عدم دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔اس سے
پہلے محکمہ تعلیم انرولمنٹ مہم کے تحت سرکاری سکولوں میں نئے داخلوں کے
اہداف حاصل کر نے میں ناکام رہا جس میں حکومتی مشینری نئے بچوں کو توسرکاری
سکولوں کی جانب راغب کر نہ سکی مگر پہلے سے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم
بچے سرکاری تعلیمی اداروں کو چھوڑ گئے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ
بچے گئے کہاں ........؟ اس میں صرف دو بات ہی ہو سکتی ہیں کہ بچے یا تو
پڑھائی کو خیر باد کہہ گئے ہیں یا نجی سکولوں میں چلے گئے ہیں ۔سکول چھوڑنے
کی بات کی جائے تو ناقص نتائج سے دلبر داشتہ ہو کر والدین بچوں کو تعلیم سے
کنارہ کشی اختیار کروادیتے ہیں یا اکثریت والدین کی آج کے اس معاشی تنگ
دستی کے دور میں اپنے بچوں پر زیادہ دیر سرمایہ کاری نہیں کرسکتے کیونکہ
بچوں کو پڑھانے میں سرمایہ کاری کا نفع کا فی دیر بعد ملتا ہے جو یقینی بھی
نہیں ہوتا اس لیے والدین جلد ہمت ہار جاتے ہیں اور معاشی حالت کو بہتر
بنانے کیلئے بچوں کودرسگاہوں سے ہٹا کر کو ورکشاپوں،موٹر مکینک،میڈیکل
سٹوروں،ہئر ڈریسروں،ہوٹلوں وغیرہ پر لگا دیتے ہیں۔جس سے بچے کوئی ہنر سیکھ
جاتے ہیں اوروالدین معاشی حالات بھی بہتر ہوجاتے ہیں اگر ایسا نہ بھی ہو تو
کم از کم تعلیمی اخراجات تو ختم ہو ہی جاتے ہیں۔ یہ سب صورت حال تعلیمی
ایمرجنسی کے جنازے کے مترادف ہے۔ اب بات کی جائے بچوں کے پرائیویٹ سکولوں
کی جانب منتقلی کی تو جناب ہمارے معصوم حکومتی نمائندے اورتعلیمی شعبہ کے
افسران سرکاری سکول چھوڑنے والے بچوں کی اکثریت کو نجی تعلیمی اداروں میں
تعلیم حاصل کرتا دیکھتے ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں کہ سارے بچے پرائیویٹ
سکولوں میں زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہوں ۔اگر ہم ان کی بات مان بھی لیں
تو کتنی شرم والی بات ہے کہ و الدین سرکاری تعلیمی اداروں سے مطمئین نہیں ۔وہ
ان اداروں میں اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ نہیں سمجھتے اور وہ مجبور ہیں
کہ نجی سکولوں میں ہزاروں روپے بھر کر اپنے بچوں کے روشن مستقبل کی امیدیں
لگائیں ۔ آخر کوئی تو وجہ ہو گی جو اتنی بڑی تعداد میں والدین سرکاری
تعلیمی اداروں سے باغی ہو گئے ہیں ۔ تو جناب اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں
ایک تو بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی اور دوسرا ان کے ناقص نتائج ہیں ۔سرکاری
تعلیمی اداروں کے میٹرک کے نتائج حوصلہ افزاکم ہی آتے ہیں۔ سرکاری سکولوں
میں میٹرک کے پچاس فی صد سے زائدبچوں کے مایوس کن نتائج آتے ہیں ۔ جس کے
باعث والدین سرکاری سکولوں سے مطمئن نہیں اور دوسراسرکاری سکولوں میں بیت
الخلاء اور پینے کے صاف پانی جیسی سہولیات تک دستیاب نہیں اس کے علاوہ بچوں
کے بیٹھنے کو فرنیچر اور بجلی کی سہولت تک دستیاب نہیں۔بس یہ ہی نہیں
سرکاری سیکنڈری سکولز گاؤں اور قصبوں سے کافی دور بھی ہوتے ہیں جس میں بچوں
کیلئے سفری مسائل بھی آجاتے ہیں ۔اس کے علاوہ سرکاری سکولوں میں ٹیچنگ
اسٹاف کی بھی کمی والدین کی علم میں ہے۔اتنے مسائل کے ہوتے ہوئے کیسے نہ
ڈراپ آؤٹ ریٹ بڑھے کیوں نہ بچے اور والدین سرکاری سکولوں باغی ہوں۔ان سب
مسائل کو دیکھتے ہوئے والدین مجبور ہو جاتے ہیں کہ کوئی اور راستہ اختیار
کیا جائے آخروہ سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کی ناکامیاں اور سہولیات سے
محرمیوں کا سدباب کرتے ہوئے وہ اچھی سہولیات اور بہتر تعلیمی نتائج دینے
والے نجی تعلیمی اداروں کی جانب راغب ہو جاتے ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں
والدین اپنے بچوں کو مہنگی تعلیم دلوارنے پر مجبور ہیں۔جبکہ پاکستان کے
آئین کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے کہ میٹرک تک تعلیم ہر شہری کو مفت
فراہم کی جائے لیکن آئین پاکستان کی خلاف ورزی کھلم کھلا ہو رہی ہے۔یہ آج ،کل
کی بات نہیں شروع سے قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا
نہیں۔آخر کیوں والدین گھر کے دیگر اخرا جا ت پورے نہ ہونے کے باوجودبھی
مہنگی تعلیم دلوانے پر مجبور ہیں جبکہ ان کے بچوں کی بنیادی تعلیم کی ذمہ
داری حکومت پرہے ۔کیوں حکومتی کاوشیں اور کارکردگی صرف کاغذی کاروائیوں اور
اشتہاروں تک محدود ہیں۔پنجاب حکومت کا اس سال کا تعلیمی بجٹ پچھلے سال کے
بجٹ سے تین فی صد کم رکھا ہے ۔یاد رہے پچھلے سال تعلیم کیلئے مختص کیے بجٹ
میں سے 40%رقم واپس جمع کروا دی گئی یعنی کاغذوں میں ہمارے تعلیمی اداروں
کی صورت حال اورتعلیمی معیار اتنا اچھا ہوگیا کہ ان پر مزید خرچ کرنے جگہ
ہی نہیں رہی ۔بہت افسوس کی بات ہے کہ حکومت پنجاب کو صرف میٹرو بس و ٹرین
پر پیسہ خرچ کرنا آتا ہے جس میں خوب کمیشن بنتا ہے لیکن درسگاہوں اور قوم
کے معماروں پر خرچ کیلئے مختص رقم دوبارہ خزانے کا حصہ بنادی گئی ہیں ۔آخرایسا
کیوں ہوا ہمارے سرکاری سکولوں سے ناکافی سہولیات کے باعث بچے بھاگ رہے ہیں
اوراساتذہ بھی معمولی تنخواہوں کا رونہ رو رہے ہیں ۔اس کے علاوہ تعلیمی
نظام میں جدت کی ضروورت بھی ہے لیکن ہمارے حکمران جن کو تعلیمی نظام میں
کوئی کمی نظر ہی نہیں آتی ۔ہماری حکومت کو اساتذہ اور طالب علموں کے مسائل
نظر نہیں آتے جب تک ہم ان پر خرچ ہی نہیں کریں گے تب تک کیسے ڈراپ آؤٹ ریٹ
کم کر سکتے ہیں کیسے انرولمنٹ مہم کو کامیاب بنا سکتے ہیں کیسے شرح خواندگی
بڑھا سکتے ہیں۔ دنیا پاکستان کو جی ڈی پی کا 4% تعلیم پر خرچ کا مشورہ دیتی
نظر آتی ہے اور ہمارے حکمران ہیں کہ پہلے سے جاری بجٹ کا مکمل استعمال کر
تے ۔میری ارباب اقتدار سے گزارش ہے کہ مکمل بجٹ استعمال کرتے ہوئے سرکاری
سکولوں میں 100%بنیادی سہولیات ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کو بہتر اور جدید
بنانے کیلئے فنڈمہیا کریں اور یاد رہے کہ جب مزدور طبقہ خوشحال ہو گا تب ہی
ہم شرح خواندگی بڑھا اور ڈراپ آؤٹ کو کم کر سکے گے۔اس لیے غریب کی معاشی
حالت بھی بہتر بنائیں تاکہ وہ گھر یلوں اخراجات کو آسانی سے پورے کر سکے
اور اپنے بچوں کے روشن مستقبل کیلئے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرواتے
ہوئے ملکی ترقی اپنا کردار ادا کر سکے۔ |