تعلیم اور فنی تربیت ایک ایسا مربوط نظام
ہے جس کے ذریعے کوئی فرد معاشرے میں باعزت روزگار کما کر بہترین زندگی
گزارنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ تعلیم انسان کو شعور اور معاشرتی ادب سکھا کر
معاشرے میں رہنے کے قابل بناتی ہے جسے حاصل کرنے سے انسان ایک قابل قدر
شہری بن جاتا ہے جبکہ فنی تربیت انسان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بروئے
کار لاتے ہوئے اسے باعزت روزگار کمانے کے قابل بناتی ہے تاکہ وہ معاشی طور
پر خوشحال زندگی بسر کر سکے۔فنی عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ہنر یا
کاریگری ۔ ایک لوہار سے لے کر انجینئرنگ ،زراعت اور صنعت کی عملی تعلیم تک
اس کی کئی اقسام ہیں۔یہی وہ فنون ہیں جو مختلف شعبوں میں کئی مصنوعات بنانے
میں استعما ل ہوتے ہیں۔اس لیے اس شعبہ پر توجہ دینے سے نہ صرف اندرونِ ملک
روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں بلکہ اس کے فروغ سے ہم بیش قیمت زرِمبادلہ
بھی حاصل کر سکتے ہیں جو ہمارے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں معاون
ثابت ہوسکتا ہے۔
اگر ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان زمانہ قدیم
سے ہی ترقی کا خواہاں رہا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھتی ہوئی
ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انسان نے نت نئی ایجادا ت اور دریافتوں کا
سہارا لیا جو انسانی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ابتدا میں ترقی کی یہ رفتار
سست تھی لیکن گزشتہ چند عشروں میں دنیا نے ہر میدان میں حیران کن ترقی کی
ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ترقی کا منبع صرف مغرب ہے جس میں جاپان کو اہم
مقام حاصل ہے۔پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیا ء الحق جاپان کے سرکاری دورے پر
گئے تو انہوں نے وہاں کی حیرت انگیز ترقی سے متاثر ہو کر جاپانیوں سے ان کی
ترقی کا راز دریافت کیا ۔جاپانی ترجمان نے بتایا کہ پانچویں اور چھٹی صدی
عیسوی کے دوران چند جاپانی چین اور جاپان کے درمیان ساڑھے پانچ سو کلو میٹر
سمندری سفر کر کے چین پہنچے۔ چین کے فنی ماہراستادوں سے ہنر کی نزاکتیں ،
باریکیاں اور نفاست سیکھی اور جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم مغرب سے حاصل کی۔اس
طرح وہ دونوں علوم کے امتزاج سے ہنر مندی کی انتہائی بلندیوں تک
پہنچے۔پیغمبر اسلام صلی علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کے چین
کی طرف مائل کیا جس میں یہ حکمت تھی کی کہ اس دور میں چین کے لوگ ہنر مندی
میں یکتا تھے۔
ایک طرف جاپان جیسے کمتر وسائل کے حامل ملک نے دنیا میں ہنر مندی سے اپنا
نام کمایا جبکہ دوسری طرف مسلمان قوم ہیں جن کی آبادی دنیا کا چوبیس فیصد
اور وسائل چالیس فیصد ہیں۔ اس کے باوجود وہ دیگر قوموں کے مقابلے میں نہ
صرف پستی کے عالم میں ہیں بلکہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور یورپی یونین کے
مقروض و محتاج ہیں۔ایک وقت تھا جب اسلامی حکومت میں علوم و فنون کو اہمیت
حاصل تھی۔تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تربیت بھی لازم تھی جس کے لیے قابل اساتذہ
اور ہنرمندوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھی۔ ہنرمندوں کے لیے حکومت وقت کی طرف
سے وظائف مقرر تھے جبکہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انعام و اکرام سے بھی
نوازا جاتا تھا۔ایک سوالی کا واقعہ مشہور ہے جس نے بارگاہِ نبوی ﷺمیں مدد
کی درخواست کی تو حضور اکرم ﷺنےاسکےہاتھمیںکلہاڑیتھماکراسے لکڑیا ں کاٹ کر
بیچنے کے ہنر کی طرف راغب کیا۔اسی طرح حضرت علی کا قول ہے کہ" ہرشخص کی
قیمت وہ ہنر ہے جو اس شخص میں ہے"۔
ایک عام تاثر ہے کہ تعلیم ہر مسئلہ کا حل ہے لیکن سری لنکا میں اٹھانوے
فیصد شرح خواندگی ہونے کے باجود یہ ملک غربت،بے روزگاری اور پسماندگی میں
جکڑا ہوا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تعلیم کے ساتھ فنی تربیت کو یکسر
فراموش کر دیا۔قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے تعلیم کے
ساتھ ساتھ فنی تربیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے فرمایا "ہمارے لوگوں کو فوراً
سائنسی اور تکنیکی میدان میں مہارت حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک کی
معاشی حالت کے مستقبل کو مضبوط بنایا جا سکے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ
ہمارا مقابلہ اس دنیا سے ہے جو اس سمت میں بہت تیزی سے رواں دواں ہے"۔
ہمارے ملک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی 63فیصد تعداد نوجوانوں کی ہے
جو کسی بھی ملک کے لیے خو ش آئند امر ہے لیکن تعلیم اور ہنر مندی سے محروم
یہ نوجوان ملکی معیشت کا سہارا بننے کے بجائے بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ
سے بوجھ ثابت ہورہے ہیں۔یونیسف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں
ایک کروڑ سے زائد بچے پرائمری اور دو کروڑ سے زائد بچے سیکنڈری لیول کی
تعلیم سے محروم ہیں۔ اس وقت 67 لاکھ بچے ایسے ہیں جو سکول جانے کی عمرمیں
ہیں یعنی ان کی عمریں پانچ سے نو سال کے درمیان ہیں لیکن وہ پھربھی سکول
نہیں جارہے۔ ان بچوں کی اکثریت تعلیم اور ہنر نہ ہونے کی وجہ سے جرائم کی
راہ پر چل نکلے ہیںیا گلیوں ،سڑکوں اورمزاروں پرآوارگی کی زندگی گزار رہے
ہیں۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلباء بھی ڈگری ہونے کے باوجود عملی
تربیت اور ہنر نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
اگر ان کے نصاب میں کوئی ایک بھی فنی کورس شامل ہوتا تو انہیں مایوسی کا
سامنا ہرگز نہ کرنا پڑتا۔ روزگار کے اعداد وشمار سے متعلق ادارے کے مطابق
30 پیشے کامیاب تصور کیے جاتے ہیں جن میں سے نصف کے لیے یونیورسٹی ڈگری کی
بجائے عملی تربیت ضروری تصور کی جاتی ہے۔
دنیا کے جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی بنیادی تعلیم کا حصہ بنایا وہاں
معاشی ترقی کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ جرمنی 78 فیصد ، کوریا ، ہنگری اور فن
لینڈ سو فیصد فنی تعلیم کو لازمی قرار دے چکے ہیں۔ چین اور جاپان بھی فنی
تعلیم کو لازم قرار دے کر اقوام عالم میں نمایاں مقام حاصل کرچکے ہیں۔اس کے
برعکس پاکستان میں فنی تعلیم کی شرح صرف چار سے چھ فیصد جبکہ ہمارے تیس
فیصد شرح خواندگی کے ملک میں صرف چھ فیصد نوجوان فنی تعلیم پر دسترس رکھتے
ہیں۔ یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں حکومت جی ڈی پی کاصرف
2.2 فیصد تعلیم کیلئے وقف کرتی ہے جس میں فنی تعلیم کے لیے فنڈز نہ ہونے کے
برابر ہیں۔ملک میں فنی تعلیم کی کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے
کہ صوبہ پنجاب آٹھ کروڑ کی آبادی پر مشتمل صوبہ ہے جس میں گیارہ تعلیمی
بورڈ ہیں اور ان میں صرف ایک فنی تعلیمی بورڈ ہے ۔
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ مختلف این جی اوز اور حکومت کی طرف سے جاری کردہ
اسکیموں کے ذریعے نہ صرف اربو ں روپے برباد کیے جارہے ہیں بلکہ عوام کی
خودد اری کو پامال کرتے ہوئے انہیں نفسیاتی طور پر بھکاری بنایا جارہا
ہے۔انہی وسائل کو اگر عوام کو ہنر مندی کی تعلیم دینے کے لیے بروئے کار
لایا جائے تو ملک سے غربت کا نام و نشان مٹایا جاسکتا ہے۔چینی زبان میں
مثال ہے کہ آدمی کو مچھلی نہ دو بلکہ اسے مچھلی پکڑنا سکھاؤ۔ضرورت اس امر
کی ہے عمومی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کو بھی لازمی طور پر رائج کیا
جائے ۔ اس کے لیے مڈل اور میٹرک کی سطح سے ہی ایک ٹیکنیکل کورس بطور لازمی
مضمون شامل کیا جائے تاکہ طلباء کا فنی تعلیم کی جانب رجحان پیدا ہو اور وہ
ضرورت پڑنے پرہنر سے استفادہ حاصل کر سکیں۔
موجودہ فنی تعلیمی ادارے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے
ناکافی ہیں اس لیے فنی تعلیمی اداروں کی تعدا د میں اضافہ کیا جائے اور عام
آدمی کی رسائی کو آسان بنایا جائے۔اس کے علاوہ ملک کے پسماندہ اور دور دراز
کے علاقوں میں فنی تعلیم کو فروغ دیتے ہوئے خواتین، معذوروں اور چائلڈ لیبر
کا شکار بچوں کے لیے فنی تعلیم کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ باعزت روزگار
کمانے کے قابل ہوسکیں۔
فنی تعلیم کے شعبے کا فروغ اور آگہی کیلئے ایک طویل المدت اور جامع منصوبہ
بندی کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ ایک آزاد اور خودمختار بورڈ
تشکیل دے جو جدید دور کے تقاضوں اورمارکیٹ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے
تیزی سے ہنرمند افرادی قوت تیار کرنے کے لئے اقدامات کرے۔ اس ضمن میں مختلف
شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ٹیم تشکیل دی جائے جو مقامی این جی اوز اورنجی و
سرکاری اداروں کے تعاون سے فنی تعلیم و تربیت کے فروغ کے لیے عملی اقدامات
کرے۔ |