انوکھا نتیجہ!

نتیجہ غیر متوقع نہیں، تعلیمی بورڈز کے سابقہ نتائج کو دیکھتے ہوئے یہی امید تھی کہ ایک روز آئے گا، جب طلبا و طالبات کے حاصل کردہ نمبر کُل نمبروں سے بھی آگے نکل جائیں گے۔ بہت زیادہ نمبر لینے کا رجحان جس رفتار سے ترقی کی منزلیں پھلانگتا جارہا ہے، اس سے اس بات کا اندازہ ہو رہاتھا کہ منزلیں عبور کرنے کا وقت قریب ہے۔ تعلیمی بورڈز نے اپنے انٹرمیڈیٹ کے پارٹ فرسٹ کے نتائج میں کچھ طلبا کو کُل سے بھی زیادہ نمبر دے کر توقعات کے عین مطابق کام کیا ہے۔ جب اصل سے بھی زیادہ نمبر دینے کی بات میڈیا کے ہتھے چڑھی تو اُن طلبا وطالبات کو احتجاج کا موقع مل گیا جن کے نمبر کم آئے تھے، ان کا احتجاج اس لئے بھی حق بجانب تھا کہ اگر کسی کے نمبر غلطی سے بڑھ سکتے ہیں تو کسی کے غلطی سے کم بھی تو ہو سکتے ہیں۔ یوں ایک احتجاج کا ماحول بن گیا، معاملہ صرف ایک بورڈ کا ہی نہ ہوا،لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، بہاول پور اور ملتان بورڈز کے ان کارناموں پر پنجاب کے بہت سے شہروں میں احتجاج کیا گیا۔ لیہ میں ایک صدمہ یہ بھی ہوگیا کہ نجی کالج کا طالب علم فرحان فزکس اور انگلش میں فیل ہونے کے صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے زہریلی گولیاں کھا کر ملکِ عدم سدھار گیا۔

بورڈز کے صدر دروازوں پر طلبا کے احتجاج اور اشتعال کی وجہ وہی سٹوڈنٹس بنے جن کے نمبر کم تھے، ان کا مطالبہ تھا کہ ری چیکنگ کی جائے، عام حالات میں ری چیکنگ کی فیس وصول کی جاتی ہے، کیونکہ بورڈز نے فنڈز حاصل کرنے کے لئے دسیوں قسم کی مدات بنا رکھی ہیں، طلبا سے فنڈز وصول کرکے اپنی مراعات کا بندوبست کیا جاتا ہے، بہت سی حکومتی خدمات بھی بورڈز کے فنڈز سے پوری کی جاتی ہیں، بورڈز کے حکام کے بہت سے سیر سپاٹا پروگرام کی رقم بھی ظاہر ہے انہی امیدواروں سے کشید کی جاتی ہے۔ اب جبکہ بورڈز خود قصور وار تھے، ری چیکنگ کا مطالبہ فوری طور پر تسلیم کر لیا گیا اور مشتعل طلبا کو ٹھنڈا کرنے کا مزید اہتمام یہ کیا کہ ری چیکنگ کی کوئی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔ یقینا ان میں بہت سے طلبا ایسے بھی ہونگے جنہیں علم ہوگا کہ وہ پاس نہیں ہورہے، مگر بورڈ والوں کو تنگ کرنے کے لئے انہوں نے بھی اپنا نام ری چیکنگ میں لکھوا دیا۔ کیا جانئے کہ یہ لطیفہ بھی سامنے آجائے کہ جن طلبا کے نمبر سرحدیں عبور کرگئے تھے ، اصل نتیجہ آنے پر اُن میں سے کوئی فیل قرار دیا جائے۔ بورڈز کے حکام کا کہنا ہے کہ ہمارے پیپر دوسرے بورڈز کو بھیجے جاتے ہیں، وہاں سے ہی نمبر لگ کر آتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کمپیوٹر کی غلطی سے ایسا ہوا، ظاہر ہے اس قدر وسیع پیمانے پر اہتمام ہوتا ہے، سوفٹ وئیر کی کوئی خرابی بھی ہو سکتی ہے۔ سب کچھ ممکن ہے، مگر کیا اتنے اہم کام کی ذمہ داری صرف کمپیوٹر پر ڈال کر جان خلاصی کروائی جاسکتی ہے۔ رزلٹ تیار ہونے کے بعد کیا آخر میں رزلٹ کی فائنل ری چیکنگ نہیں ہونی چاہیے؟ غلطیاں تو انسان سے ہی ہوتی ہیں، مگر احتیاط کا دامن تو تھام کے رکھنا چاہیے۔ اگر کمپیوٹر کی غلطی سے کوئی فیل ہوگیا اور اس نے مایوس ہو کر خود کشی کرلی، تو کمپیوٹر کو کیا سزا دی جائے گی؟ کتنی قید اور کتنا جرمانہ ہوگا؟ یا پھر پھانسی بھی ہو سکتی ہے؟ بورڈز کے حالیہ رزلٹ پر جگ ہنسائی ہوئی۔ بہاول پور بورڈ کے چیئرمین نے پانچ اہلکاروں کو معطل کرکے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کا بندوبست بھی کردیا۔

اپنے تعلیمی نظام میں زیادہ نمبر حاصل کرنے کا رجحان ہیجان انگیزی تک پہنچ چکا ہے۔ تعلیمی ادارے اپنی تشہیر کا ذریعہ اپنی حاصل شدہ پوزیشنز کو ہی بناتے ہیں۔ بہت سے ادارے ایسے ہیں جو بہت ہی ذہین طلبا و طالبات کو مفت داخلہ دیتے اور بعد میں ان کے نتیجہ سے مزید داخلے حاصل کرتے ہیں، اپنے اداروں کو چار چاند لگاتے ہیں۔ یوں نمبر حاصل کرنے والی مشینوں کا ماحول بنا ہوا ہے۔ جبکہ سٹوڈنٹس میں تربیت کا فقدان ہے، ان میں معلومات عامہ کی کمی ہے، حتیٰ کہ ان مقابلوں میں شریک ہونے والے عام ادارے صرف محدود پیمانے پر ہی مطالعہ کرواتے (بلکہ رٹّا لگواتے) ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت نہم کے گزشتہ امتحانات میں پنجاب بھر سے دو بچیوں نے 505میں سے 504نمبر حاصل کر کے ریکارڈ قائم کردیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ آنے والے دنوں میں بچے اصل نمبروں سے زیادہ لیا کریں گے، علم ہو نہ ہو نمبر البتہ بہت ہونگے۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472549 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.