ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم درست اور
غلط کا فرق آج بھی بڑوں کی رائے کے مطابق کرتے ہیں لیکن بعض اوقات بڑے خود
غلط قسم کی سوچوں اور فلسفہ کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں ۔ ان میں ایک فلسفہ
بچوں سے متعلق خوف کا ہے ،ہمارے ہاں کہا جو کچھ کہا جاتا ہے ذرا الفاظ پر
غور کریں۔
1۔ بچوں کو کھلاؤ سونے کا نوالہ دیکھو شیر کی نظر سے۔
2۔والدین بچے کے جسم کے جس حصے پر ماریں، خاص کر ماں تو وہ جنتی ہو جاتا
ہے۔
3۔لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
4۔ڈنڈا پیر ہے یعنی جو اور کوئی نہیں سکھا سکتا ڈنڈا سکھا دیتا ہے۔
5۔چھوٹی عمر میں ہی بچوں پر کنٹرول کر لیں تو اچھا ہے بڑی عمر میں کچھ نہیں
ہو سکتا۔وغیرہ وغیرہ
ذرا غور کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم بچوں کے ساتھ کس قدر غلط رویہ اپناتے
ہیں ۔یہ رویہ اب بہت پرانا ہو چکا ہے ۔بچہ سونے کے نوالہ سے ذیادہ آپ کی
محبت کا بھوکا ہوتا ہے ،وہ کوئی شکار نہیں کہ آپ شیر کی نظر اس پر
رکھیں۔بچہ رب کی سب سے بڑی نعمت ہے،ماں کو مارنے کے لیے نہیں دیا جاتا۔
قدرت کے اس انمول تحفہ کو اگر آپ اپنی لاتوں کی نذد کریں گئے تو آپ کو
ردعمل میں جو ملنا چاہیے اس کے لیے تیار رہیں کیونکہ آپ کے پاس واپس وہی
آتا ہے جو آپ دیتے ہیں۔ڈنڈا پیر تو ہے آپ بچے کو اس طرح بہت سی چیزیں
سکھا لیں گئے لیکن اپنی محبت اس کے دل میں کبھی نہیں ڈال پائیں گئے۔
ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو کہا کہ تم اپنے سات سال کے بیٹے کو پانچ دن بعد
دربار میں لانا۔ جب پانچ دن بعد دربار لگا تو وزیر کا بیٹا بھی حاضر
تھا۔بادشاہ نے وزیر سے پوچھا تمہارا بیٹا کہاں ہے تو وزیر نے بتایا کہ وہ
سامنے ہی تو بیٹھا ہے حضور آپ کے آنے پر سب کے ساتھ سلامی دی تھی اس نے
اور اب بھی سب کے ساتھ ہی ۔۔۔۔ ابھی اس نے بات مکمل نہیں کی تھی تو بادشاہ
نے کہا میں نے تمہیں سات سال کا بچہ لانے کو بولا تھا یہ تو بچہ نہیں ہے۔
بچہ ہوتا تو آکے میرے سامنے کھڑا ہو جاتا مجھ سے تاج طلب کرتا اور پوچھتا
آپ اوپر کیوں یہ نیچے کیوں ؟ یہ بچہ نہیں ہے۔بچہ کی جو خصوصیات بادشاہ نے
بیان کی ہیں ،اصل میں بچہ ویسا ہی ہوتا ہےلیکن وزیر جس طرح کے بچے کو لے کر
آیاتھاہم ویسا ہی بچہ چاہتے ہیں ،جس کو ہم بولیں تو اُٹھ جائے ،ہم بولیں
تو بیٹھ جائے۔بچے کو اس کی شخصیت کے ساتھ قبول کرنے کی بجائے اسے دوسروں سے
مقابلتاْ جانچا جاتا ہے۔اکثر مائیں کہتیں ہیں تم نے فلاں کو دیکھا کس طرح
بڑھتا ہے یا پھر یہ کہ تمہارا چھوٹا بھائی تم سے ذیادہ اچھا ہے وغیرہ وغیرہ
۔یہاں تک کے شکل و صورت کی بناپر بھی بچوں کے نام ڈال دیے جاتے ہیں مثلاْ
سفید دودھ جیسا ہوتو کہتے ہیں یہ تو مکھن ہے اور اگر کالا ہو تو گلاب جامن
،کالو وغیرہ کہہ کر کبھی محبت اور کبھی غصہ جتایا جاتا ہے بچہ اکثر اپنے ان
ناموں کو پسند نہیں کرتا۔ جب بچہ سکول میں داخل ہوتا ہے وہاں مذید مسابقت
شروع ہو جاتی ہے ،اچھے نمبر لانے اور فسٹ آنے کے لیے کوشاں اس ننھی سی جان
کو کس قدر مسائل درکار ہوتے ہیں وہ نہ تو کسی کو بیان کر پاتا ہے اور نہ ہی
کسی کے پاس وقت ہوتا ہے کہ کوئی اس کے مسائل سنے۔
یہ تو اچھے خاصے پڑھے لکھے گھرانوں میں ایسا ہوتا ہے، اب اگر ہمارے معاشرے
کا وہ طبقہ جہاں بچوں کےحقوق ،مغربی ممالک کے جانوروں کے حقوق کے برابر بھی
نہیں ہیں،ان بچوں کی تعلیم و تربیت تو درکنار کوئی ان کے متعلق یہ بھی نہیں
سوچتا کہ انہیں دو وقت کا کھانا بھی ملتا ہو گا کہ نہیں۔بہت ہی کوئی قسمت
والا بچہ ہی ان غربت کے ماروں میں کسی معجزہ کے باعث پڑھ لکھ جاتا ہے۔اس کے
لیے ہمدردی اور محبت کی بجائے حیرت کے جذبات ابھرتےہیں۔افسوس کی بات تو یہ
ہے کہ بچے خواہ ہمارے ہاں اونچے طبقے کے ہوں یا نیچے طبقے کے والدین میں
بچوں کی تربیت سے متعلق شعور بہت کم ہے۔بہت پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے بچوں کے
ساتھ غصے میں ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جیسا کہ ان کے والدین بچبن میں ان کے
ساتھ کرتے تھے یعنی ڈنڈا پیر ہے۔ ان کے ذہین سے نہیں نکلتا۔لیکن خوف بچوں
کی ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہے جس کے باعث نہ صرف ان کی کارکردگی متاثر ہوتی
ہے بلکہ وہ اپنے سب سے بڑے محسن سے ہی دور ہو جاتےہیں۔جو والدین ہیں۔ایک
کہانی جو آپ کو بچوں کی نفسیات سمجھنے میں مدد دے گی سنیں۔
احمد ایک کوڑا چننے والا بچہ تھا لیکن ہر روز سکول کے بچوں کو دیکھتاتو اس
سات سال کے بچے کا دل سکول کے اندر جانے کو چاہتا لیکن خوف کی وجہ سے نہیں
جا سکتا تھا۔ ایک دن کوڑا چنتے ہوئے اسے ایک نیک دل آدمی نے دیکھا ۔جس کا
نام عبدالستار تھابچہ کچھ کاغذ غور سے دیکھ رہا تھا ۔ستار صاحب نے اپنا
موٹر سائیکل ایک جگہ روکا اور قریب آکر بچے کو دیکھا تو جانا کہ وہ کسی
سکول کی کتاب کے صفحےکوبغور دیکھ رہا تھا۔ عبدالستار ایک سوشل ورکرتھے جو
ایک ویلفیر سوسائٹی کے لیے کام کرتے تھے۔ بچے سے پوچھا کہ سکول جانا چاہتے
ہو تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس سے پہلے کسی نے اس قدر نرمی سے
بات نہیں کی تھی ،اس نے فوراْ ہاں کہا۔ عبدالستار اس کے ساتھ اس کے گھر
آئے۔ اس کی ماں سے پوچھا کہ کیا وہ بچے کو سکول داخل کروانا چاہتی ہے تو
اس کی ماں جو لوگوں کے گھروں میں کام کرتی تھی کہنے لکی صاحب ہم لوگ بچوں
کا کھانا پورا نہیں کر پاتے سکول کے خرچے کون دیکھے۔ عبدالستار صاحب نے اس
بچے کی سکول کی زمہ داری لے لی ۔ مڈل پاس کر کے جب وہ ایک بڑے سکول میں
پہنچ گیا تو سکول میں کوئی بچہ اس کا دوست نہیں تھا کیونکہ سب جانتے تھے وہ
سکول سے چھٹی ہونے کے بعد سارا دن کوڑے میں سے بوتل وغیرہ جمع کرتا ہے جبکہ
رات میں پڑتا ہے۔ہر بچہ شرم محسوس کرتا تھا کہ وہ ایک کوڑا چننے والے کا
دوست بنے۔اپنی ذہانت کی بنا پر وہ کلاس میں ہر استاد کا فیورٹ بن گیا پھر
بھی دوستوں سے محروم رہا۔
اس کا ایک کلاس فیلو علی جو پچھلے پانچ سال میں فسٹ آرہا تھا احمد کے کلاس
میں آنے سے پریشان رہنے لگا تھا۔اس کو یہ خوف محسوس ہونے لگا تھا کہ کہیں
وہ اس سے پیچھے نہ رہ جائے۔ وہ ایک بزنس مین کا بیٹا تھاکبھی کبھار اس کا
باپ اس سے پوچھ لیتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے بیٹا۔
علی نے اپنے والد کو اپنے خوف سے متعلق کچھ نہ بتایا لیکن اس کے دل دماغ
میں احمد ہی چل رہا تھا تو والد کے حال چال پوچھنے پر اس کے منہ سے نکل گیا
کہ پاپا ہماری کلاس میں ایک جونپڑیوں میں رہنے والا لڑکا آ گیا ہے جو بہت
لائق ہے ۔اس کے باپ نے سنا تو ہنسا اور بولا اچھا فیس کہاں سے دیتا ہے۔ علی
نے کہا کوئی ویلفیر سوسائٹی دیتی ہےاس کی فیس۔یہ کہہ کر علی افسردہ صورت کے
ساتھ خاموش ہو گیا۔اس کے والد نے مسکراتے ہوئے کہا علی بیٹا اب کوئی جوپڑی
والا توتم سے آگے نہیں نکل سکتا نا؟اس کے باپ کی اس بات نے اسے مذید خوفزہ
کر دیا۔اس کے دل دماغ میں ہر وقت یہ ہی چلتا کہ اس کی تعریفیں کرنے والے اب
اس کا مذاق تو نہیں اڑائیں گئے کہ علی تو ایک کوڑا چننے والے سے پیچھے رہ
گیا۔
جب فائنل رزلٹ آیا تو وہ ہی ہوا جس کا علی کو ڈر تھا۔اس نےچھیانوے فی صد
نمبر لیےاور سیکنڈ پوزیشن حاصل کی جبکہ احمد فسٹ آیا۔جب علی گھر آیا تو
اس نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا۔ماں باپ کی منتوں کے تین گھنٹے بعد
علی نے دروازہ کھولا تو علی کے والدین نے اسے تسلی دی ۔اس کے والدین کو
روتے ہوئے اس نے یہ ہی کہا کہ ماما ،پاپا میرے نمبر میرا خوف کھا گیا ورنہ
میں کبھی سیکنڈ نہ آتا۔دوسری طرف احمد کے پاس کوئی دوست نہ تھا جو اسے فسٹ
آنے کی مبارکباد دے صرف اساتذہ اس کو مبارکباد دے رہے تھے۔وہ علی کو دور
سے افسردہ دیکھتا رہا تھا لیکن عجیب سے خوف نے اسے اگے بڑھ کر علی کو
مبارکباد دینے سے روک دیا۔
ہم اپنے بچوں کو شرم کرنا ،دوسروں کو نیچا سمجھنا،،جھوٹ بولنا،اپنے دل کی
دل میں رکھنا ،اور خوفزہ رہنا تو سکھا دیتے ہیں لیکن اپنے جذبات کا کھل کر
اظہار کرنا ، سب سے محبت کرنا نہیں سکھا پاتے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہی ہے
کہ ہم اپنی ذات ، اپنی سوچیں اپنے بچوں کو منتقل کر دیتے ہیں۔ان کے دماغ
ودل کو تخلیق کی صلاحتوں سے دور کر دیتےہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ
ترقی پزیر ہے ترقی یافتہ نہیں۔بچے ہمارا مستقبل ہیں انہیں روشن خیال محبت
اور امن کے امین بنائیں،ان کے دلوں سے خوف کو آشنا نہ ہونے دیں۔
ہمارے بچے نہ صرف ہمارے بلکہ معاشرے کے لیے قدرت کا انمول عطیہ ہیں۔ ان کی
بہتری کے لیے کوشش کرنا ہر ایک کا فرض ہے۔ جیسا بیج ڈالا جاتا ہے ویسا ہی
پودا ہوتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں صیح اور غلط کی تمیز دے ۔امین |