کافر اور کفر

آج دنیا بھر میں مسلمان جن مصائب اور آفات کا شکار ہیں ان کا سب سے بڑا سبب آپس کا تفرقہ اور خانہ جنگی ہے۔ ورنہ عددی کثرت اور مادی اسباب و وسائل کے اعتبارسے مسلمانوں کو سابقہ ادوار میں ایسی طاقت حاصل نہ تھی جیسی آج حاصل ہے۔ اگر آج امتِ مسلمہ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ امت کے بجائے ایک منتشر ہجوم نظر آتی ہے، جس میں دور دور تک کسی اتحاد کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ وہ بات بھی پرانی ہے کہ جب اس امت میں سیاسی، نسبی، نسلی، لسانی، وطنی اور طبقاتی تفرقہ تھا۔ آج اس امت میں جو تفرقہ سب سے زیادہ اور سب سے خطرناک ہے وہ دینِ اسلام کے نام پر ہے، جس میں ایک فرقہ اپنے مخالف فرقے پر سب و شتم، دشمنی، یہاں تک کہ قتل و غارت گری سے بھی گریز نہیں کرتا۔

چند دن پہلے بورےوالہ کے نواحی گاوٴں گڈواں میں ایک شخص اپنی زندگی کی بازی ہار گیا ۔طبعی موت تھی خدا ان کے درجات بلند کرے ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب ہو ۔اب ان کی تدفین کا عمل شروع ہوا تو سب سے پہلے کفن اور چارپائی کا انتظام کیا گیا ۔قریبی مسجد سے چارپائی اور میت کے اوپر دینے والی چادر منگوائی گئی ۔ اتفاق سے مرنے والے صاحب اہل تشیع تھے اور گاوں میں مسجد سنی فرقہ کی تھی ۔ان کے بیٹے نے مسجد کی رنگین چادر جس کے اوپر کلمہ طیبہ، اللہ ،محمدؐ اور ؐ چاروں خلفائے راشدین کا نام لکھا تھا اس چادر کو پکڑا اور اس سے حضرت عمر ؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ،حضرت عثمان غنیؓ کا نام کاٹ دیا اور صرف حضرت علی ؓ کا نام رہنے دیا یہ سب عمل چھپ کر ہوا کہ عام لوگوں کو اس وقت معلوم نہ ہو سکا میت کو دفنانے کے بعد مقامی مسجد کو چادر اور چارپائی واپس کر دی گئی جو کہ آج بھی مسجد کی ملکیت ہے اور مسجد میں موجود ہے .

تین دن بعد لوگوں کو جب اس گھناؤنی حرکت کا علم ہوا تو سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس جنونی انسان سے پوچھا جاے تو اس کا جو ردعمل آیا اس کے بعد پورا علاقے میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور تمام سنی علماء اکرام کی وہاں ایک میٹنگ ہوئی اور میڈیا کے سامنے ثبوت رکھا گیا ۔گواہ پیش کیا گیا اور پولیس کے اعلیٰ افسران سے درخواست کی گئی کہ ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جاے مگر ابھی تک کچھ نہیں ہو سکا ۔

یہ سراسر غلط حرکت تھی اور اوپر سے لوگوں کے جذبات کو بھی یہ کہہ کر ہوا دی گئی کہ ہم باقی خلفاء کو نہیں مانتے اور میں اپنے باپ کے اوپر وہ چادر کیوں دوں جس پر ان کا نام لکھا تھا ۔

اب کاروائی کو انا کا مسلہ بنا کر فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی جا رہی ہے ۔میں صرف ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں اس انسان سے جس نے اتنی بری اور قابل مذمت حرکت کی ہے کہ کیا صحابہ کرام کے نام کاٹ کر اس کے والد صاحب کو جنت مل چکی ہے ؟
کیا قیامت کے دن حساب میں اب ان سے کوئی نرمی کی جاے گی ؟
کیا خلفاے راشدین کو اس حرکت سے کوئی فرق پڑا ہو گا ؟
کیا اس قسم کی حرکت کے بعد اس کا ایمان پختہ ہو چکا ہے ؟
کیا اب مسجد کو نئی چادر دے کر وہ صلح کر لے گا تو وہ بخشا جاے گا ؟

ان سب سوالوں کا جواب وہی ہے جو میں سوچ رہا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے پھر اس قسم کا جنونی کام کر کے فسادات کرانے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔ سب فرقوں کا ایک ہی نعرہ ہے کہ ہمارے سواء سب کافر ہیں سب اپنے آپ کو شیعہ ،سنی، دیوبند، وہابی کہلانا پسند کرتے ہیں کوئی بھی مسلمان ہونا ہی نہیں چاہتا یہ کیسی فرقہ بندی ہے جس میں ہم اپنے ہی بھائیوں کو قتل کر کے جنت کی خوشخبری بھی دیتے ہیں .
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

ہمارے ملک میں فرقہ واریت کا بول بالا کیسے ہوا ؟ ہمارے ملک میں کب مزہبی عسکری ونگ اتنے مظبوط بن گئے کہ حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے لگ گئے یہ کھیل کب سے جاری ہے اور اب اس کا انجام کیا ہو گا کب تک ایک دوسرے کے لوگوں کو قتل کیا جاے گا کب تک فرقہ واریت کا پرچار ہو گا کوئی نہیں بتا سکتا ایک دوسرے کی دل آزاری کرنے کی رسم کب بند ہو گی کب تک لوگوں کو عقیدےکا نام لے کر مارا جاے گا ویسے عقیدہ ہوتا کیا ہے ؟

ہم اگر مسلمان بن جائیں تو حوثی باغیوں کی کبھی بھی یہ جرات نہ ہوتی کہ مکہ مکرمہ پر مزائل داغا جاتا ہم سب کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت فرقہ واریت میں الجھا کر اپنا مقصد پورا کرنے والے لوگ اب اپنے عظم میں کامیاب ہونے والے ہیں ۔۔۔

ہم مسلمان کب ہونگے ہم کب ایک جماعت کے جھنڈے تلے جمع ہونگے ؟

ہم نے حکومتی سطح پر کیوں کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں بنایا جس میں دونوں جماعتوں کے علماء ایک دوسرے کے تحفظات دور کر سکیں ۔جہاں جہاں ایک دوسرے کو اعتراض ہے اس پر مشورے کے ساتھ باہمی رضامندی سے کوئی لائعمل طے کیا جاے ایک دوسرے کو کافر کہنے کی رسم ترک کی جاے۔ گورنمنٹ اپنی اسمبلی میں ایسا بل کیوں نہیں پاس کرتی جس میں ہم سب مسلماں ہی کہلایئں
کوئی فرقہ اور عسکری قوت نہ ہو

۔۔۔۔کیا کوئی ایسا قدم اٹھایا جا سکتا ہے جس میں ہم سب کو کوئی خدا کا بندہ مسلمان بنا جاے .؟ اس وقت امتِ مسلمہ کی تباہی اور بے سروسامانی کی وجہ اگرچہ ہر شعبہ حیات میں عدمِ توازن اور بے اعتدالی ہے لیکن ہمارے ملک میں بدقسمتی سے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت نے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ہر جماعت، طبقہ اور قیادت اپنے علاوہ ہر ایک کو صفحہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دینے پر تلی ہوئی ہے سوچ و فکر کی اس شدت اور انتہاپسندی نے ہمیں ان راہوں پر گامزن کر دیا ہے جو آگ اور خون کی وادیوں میں جا اترتی ہیں۔ اس کی طرف اقبال رحمۃ اللہ علیہ یوں اشارہ کرتے ہیں:
کھویا گیا جو مطلب ہفتاد و دو ملت میں
سمجھے گا نہ تو جب تک بے رنگ نہ ہو ادراک

وہ مسلمان جو کبھی جسد واحد کی مانند تھے فرقہ واریت کی لہر نے انہیں گروہوں اور طبقات میں بانٹ کر رکھ دیا ہے۔

اسی فرقہ واریت کے باعث ہم عروج کی بجائے زوال کی طرف گامزن ہیں وہ مساجد و امام بارگاہیں جو امن و آشتی کا مرکز تھیں آج لوگ قتل و غارت گری کے خوف سے ان میں داخل ہونے سے کتراتے ہیں وہ مسلمان جو بھائی بھائی تھے آج فرقوں اور گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ پوری دنیا میں اسلام کے خلاف بولنے والوں کو نا صرف موقع مل جاتا ہے بلکہ وہ باقاعدہ طور پر ایسے کاموں کے لیے فنڈنگ کرتے ہیں ان کا مقصد اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ ہے اور ہم لوگ چند سکوں کی خاطر ان کی پیروی کرتے ہیں اور دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوتے ہیں ۔

اسلام میں سب سے پہلی چیز قرآن ہے مثلاً ایک غیر مسلم مسلمان ہو گا تو سب سے پہلے وہ قرآن کو سمجھے گا نا کہ حدیث یا سنت کو اور قرآن میں صاف لکھا ہے فرقے فرقے نہ ہونا تو اس کے بعد آپکے پاس کویٔ جواز نہیں رہتا اپنے آپ کو مسلمان کے علاوہ شیعہ سنی کہلاے۔

اب اگر کویٔ بھی کسی حدیث کا حوالہ دے کر کویٔ گروپ بنالے یا کسی شخص کی پیروی میں کویٔ جماعت کا نام رکھ لے
تو میری نظر میں وہ صیحیح نہیں
قرآن کا حکم بہت واضح ہے اس بارے میں
سورہ فصلت آیت نمبر ٣٣
ترجمہ ـ اس شخص سے بات کا اچھا کون ہو سکتا ہے جو خدا کی طرف بلاۓ اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں .

اگر کویٔ حدیث بھی آپ کو کویٔ اور نام رکھنے یا پکارنے کوکہے تو وہ قرآن کی رو سے ضعیف ہے
یہ پورا واقعہ بیان کرنے کا مقصد فسادات کروانا نہیں اگر خبر ہی بنانی ہوتی تو یہ ایک بریکنگ نیوز بن سکتی تھی میں بھائی چارے کا درس دے رہا ہوں چاہتا ہوں ایسی حرکت جس کسی نے بھی کی ہے اس کے خلاف کارروائی کی جاے تاکہ پورے گاوٴں کے جذبات مجروح نہ ہوں اور فسادات کی بجاے مل جل کر حل نکالا جاے اگر ہم اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کی پیروی میں بنا سچ اور جھوٹ کی تصدیق کیے نکل آئیں گے تو قتل و غارت کے سواء کچھ باقی نہیں رہے گا ۔اہل اقتدار سے گزارش ہے کہ ایسے معاملات میں بن بلاے آکر دونوں فریقین کی بات سن کر ریاست اور اسلامی قانون کے مطابق کاروائی کی جاے تاکہ لوگ ایسے کاموں سے گریز کریں ، کافر اور کفر کی تمیز کر سکیں ۔
Akbar Ahmer
About the Author: Akbar Ahmer Read More Articles by Akbar Ahmer: 21 Articles with 16313 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.