وزیر اعظم صاحب ۔۔۔۔ایک نظر ادھر بھی
(Muhammad Riaz Prince, Depalpur)
چند دن پہلے کی بات ہے کہ میرا ایک نہایت
ہی قریبی دوست ایک بارات میں شامل تھا ۔ اس کو نہیں معلوم تھا کہ میں اس
بارات میں شامل ہوں جس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اور میں مجرم بن سکتا
ہوں ۔ ساری بارات والے گھر سے بڑی خوشی سے نکلے تھے کہ وہ دلہن کو لینے جا
رہے ہیں اور ایک نیا گھر بسنے والا ہے ۔ وہ بڑی خوشیاں مناتے جا رہے تھے کہ
جب دلہن کا گھر قریب آیا ۔ سب یہ خوشی مناتے ہیں دلہن کے گھر والوں کو پتہ
چل جائے کہ بارات آگئی ہے ۔ کچھ ایسا ہی ہوا کہ بارات میں شامل چند لوگوں
نے ڈھول کی تھاپ پر ناچنا شروع کر دیا اور کچھ نے گولے اور پھول چھڑیاں
چلانا شروع کردیں۔ وہ ناواقف تھے کہ ان کے قریب تھانہ صدر تھا اور اس میں
آئے ہوئے بہت بڑے آفیسر ز جن کو انسانیت کا سبق بھی بھول چکا تھا ۔اور دورہ
پر آئے ہوئے ہیں۔ جیسے ہی گولے چلنے کی آواز ان کے کانوں تک پہنچی ۔تھانہ
صدر اور سٹی دیپال پور کے پولیس آفیسرز نے اس بارات پر دھاوا بول دیا اور
اس بارات کی ساری خوشیوں کو تباہ و برباد کر دیا ۔ اور بے قصور باراتیوں کو
سرے عام مار پیٹ شروع کر دی ۔اورپکڑنا شروع کر دیا۔ جس کے نتیجے میں باراتی
بھی پولیس کے ساتھ اولجھ پڑے ان کو کیا پتہ تھا کہ اس کا رزلٹ پولیس والے
ہمارے خلاف کیا بنائیں گے ۔ او ر ہم کو کس طرح پیش کیا جائے گا۔ اور ہمارے
ساتھ کیا بیتے گی۔
جب پولیس نے بارات پر اپنی پوری نفری کے ساتھ حملہ کیا تو کیا شادی اور کیا
شادی کی خوشیاں باقی رہیں ۔پتہ نہیں کہاں کہاں سے آئے مہمانوں کے ساتھ کیا
کچھ نہ ہوا۔ او ر ان کو کیسے بھاگ کر جان بچانا پڑی ۔ بارات میں چند دوست
دولہا کو بھگا کر لے گںے اور انہوں نے اس کی جان بچائی ۔جب پولیس نے ڈنڈا
بردار آفیسرز کے ساتھ حملہ کیا تو جو ان کے ہاتھ لگا ۔ وہ چاہے بارات کے
ساتھ تھا یا نہیں اس کو مار مار کر اپنا غصہ ٹھنڈا کیا ۔ دلہن والے بچارے
بہت ہی پریشانی کے عالم میں کہ پولیس نے ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا۔
یہاں تک کہ انہوں نے جو کھانا بارات اوراپنے مہمانوں کے لئے تیار کیا تھا
وہ لاکھوں کا کھانا بھی تباہ ہو گیا ۔ اورسارے مہمان اور بارات بغیر کھانا
کھائے پولیس کے اس ظم وزیادتی کی وجہ سے بھوکے لوٹ گئے ۔ اور ان کا سارا
کھانا تباہ ہو گیا۔کیا ان کے اس نقصان کو پولیس اور وزیر اعظم صاحب پورا
کرسکتے ۔ اور ان کی خوشیوں کو واپس لٹایا جاسکتا ہے ۔
اور جو باراتی پولیس کے ہتھے چڑھے ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کچھ اس طرح ہے
۔ بارات کے تقریباً دس لوگوں کو انہوں نے پکڑا چاہے وہ بارات میں شامل تھے
یا نہیں ان کو حوالات کے اندر بندکر دیا اور ان کے خلاف اپنی من مانی سے
مقدمات بنادیے ۔ ان میں کچھ طالب علم تھے کچھ زمیندار اور کچھ ملازم پیشہ
لوگ تھے ۔ ان کے خلاف دہشت گردی ۔اسلحہ کی نمائش گولا بارودچلانے ۔چوری ،
ڈکیتی ،نظریہ قتل جیسے مقدمات بنا کر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی جاتی
ہے اور مدعی پولیس خود بن جا تی ہے۔
وزیر اعظم صاحب۔ حوالات میں بند وہ معصوم لوگ جن کا واسطہ حوالا ت میں بند
بہت سے پیشہ ور مجرموں سے پڑتا ہے اور وہ جب ان کو اکساتے ہیں کہ آپ کو
پولیس نے کس جرم میں بند کر رکھا ہے تو وہ ان کی باتوں میں آکر نا جانے کیا
کچھ سوچ لیتے ہیں اور اسی بدلہ کی جنگ میں اپنے آپ کو مجرم بنا لیتے ہیں ۔
اس لئے کچھ سوچوں ان کے بارے میں اور پولیس والوں کو اس کی سزا بھی ملنی
چاہئے کہ وہ اپنے سینئرز کو دیکھانے کے لیے کہ اپنی ڈیوٹی کتنے احسن طریقے
سے نبھا رہے ہیں ۔معصوم اور بے قصور عوام پر ظلم کرتے ہیں ۔
اور جب ان کے اہل خانہ اور دوست احباب ان سے حوالات میں ملنے جاتے تو پولیس
کا عام آدمی کے ساتھ رویہ ایسا تھا کہ وہ اپنے کسی دوست یا بھائی کو ملنے
نہیں جا رہے بلکہ وہ کسی بڑے دہشت گرد کو ملنے جا رہے ہیں ۔جس پر ان کو بہت
سے سوالات کا سامنا کرناپڑتا ۔
جناب وزیر اعظم صاحب ۔ حوالات میں بند ایک بے قصوربچے کی والدہ آپ سے یہ
سوال کرتی ہے کہ یہ ہے آپ کا قانون جو عوام کو تحفظ فراہم کر رہا ہے یا پھر
ہمارے بے قصور بچوں کو دہشت گرد ،ڈاکو،چور،بننے پر مجبور کر رہا ہے ۔ میں
پوچھتی ہوں ان آفسیر ز سے جن کو انسانیت اور عوام سے اتنی نفرت کیوں ہے ۔
کیا وہ کبھی عام انسان نہ تھے یا پھر کندھوں پر پھول لگ جانے سے ان کو
انسانیت کا سبق بھول گیا ہے ۔ میں پوچھتی ہوں وزیر اعظم صاحب آپ سے اور ان
پولیس آفیسرز سے جب آپ لوگوں کی شادیاں ہوتی ہیں توآپ لوگ ایسا نہیں کرتے ۔
یا پھر قانون آپ لوگوں کے لئے نہیں ہیں بلکہ صرف اورصرف عوام پر ہی لاگو ہے
۔ میں ایسے قانون ایسے پولیس آفیسر ز کو نہیں مانتی ۔جو بے قصور لوگوں پر
ظلم کر رہے ہیں ۔ اور ان کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا جا رہا ۔ اور اگر
انہوں نے یہ کام کرہی دیا تھا تو اس کو سلجھانے کے اور بھی بہت طریقے تھے ۔
یہ آواز ایک ماں کی تھی جس نے ایسے قانون اور ایسے پولیس آفیسرز کو ماننے
سے انکارکرتے ہوئے اپنی آواز بلند کی ۔
قارئین!آپ ایسے اور بھی بہت سے مقدمات ومعاملات سے واقفیت رکھتے ہوں گے ۔
اور دیکھتے بھی ہوں گے جب بھی ظلم اور ذیادتی ہوتی ہے وہ بے قصور عوام پر
ہی کیوں ہوتی ہے ۔آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ آپ سب جانتے ہوں گے کہ نئے سال کی
خوشی میں لاہور اور بڑے بڑے شہروں میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ سرے عام ہوائی
فائرنگ ساری رات ہوتی رہی اور لوگ سو بھی نہ سکے ۔ اب ان کا قانون اور ایسے
آفیسرز کہاں تھے ۔ میں تو یہی کہوں گا کہ سب بھی ان کا حصہ تھے ۔ اس لئے
خاموش رہے ۔ اور ان باراتیوں نے ایسا کیا جرم کر دیا تھا جن پر ہر روز ظلم
و ستم ڈھا یا جا رہا ہے ۔کون سا انہوں اتنا بڑا جرم کر دیا ہے جس کی سزا ان
کو مل رہی اوران کی کوئی نہیں سن رہا ۔ پولیس کا کام تو عوام کو تحفظ فراہم
کرنا ہے ۔عوام کو مجرم بنانا نہیں ۔اور علاقہ کے وہ معززین لیڈر حضرات چار
دن تک خاموش کیوں رہے اور ان بے قصور باراتیوں کو تحفظ فراہم کروانے اور ان
کو پولیس کے جال سے نکلوانے کے لئے کچھ نہ کر سکے آخر کیوں ۔ مجھے تو یہی
لگتا ہے کہ وہ بھی عوام کے ساتھ مخلص نہیں ۔ کیوں کہ قانون سے یہ سب سیاست
دان بھی بالاتر ہیں اور یہ صرف عوام کے لئے ہی ہیں۔ ابھی تک ان باراتیوں کی
کوئی شنوائی نہیں ہو رہی اور وہ پولیس کے رحم و کرم پر حوالات میں بند ہیں
۔
وزیر اعظم صاحب ۔ اگریہی قانون ہے اور ایسا ہوتا رہا تو ہمارا پولیس
ڈیپارٹمنٹ عوام کے لئے تحفظ گاہ نہیں بلکہ کچھ اور بن جائے گا۔ اور ان کے
ظلم کی ہی بدولت ہمارے معصوم بچے دہشت گرد ،چور،ڈاکوبننے پر مجبور ہوتے ہیں
۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں چھپے ایسے آفیسر ز جو صرف اپنی آنا اور اپنا نام
بنانے پر عوام کے ساتھ نارواسلوک کرتے ہیں ان کوایسے اداروں سے باہر پھینک
دینا چاہئے ۔تاکہ عوام کا قانون نافذ کر نے والے اداروں پر اعتماد بحال ہو
سکے ۔ |
|