کفار مکہ نے جب مسلمانوں پر ظلم ڈھانے شروع کیے اور
مجبور ہو کر انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت ابوبکر ؓ
نے بھی رسول اﷲ ﷺ سے اجازت چاہی اور حبشہ کی طرف روانہ ہوئے ۔جب آپ مقام
’’برک الغماد ‘‘میں پہنچے تو قارہ کے سردار ’’ابن الدغنہ ‘‘سے ملاقات ہوئی
۔ابن الدغنہ نے پوچھا ابوبکر ؓ! کہاں کا ارادہ ہے ……؟آپ نے فرمایا مکہ
والوں نے جلا وطن کر دیا ہے ۔کسی دوسرے ملک جارہاہوں جہاں آزادی کے ساتھ
اپنے خدا کی عبادت کر سکوں ’’ابن الدغنہ نے کہا ‘‘ابوبکر ! تم جیسا آدمی
جلاوطن نہیں کیا جاسکتا ۔تم مفلسوں کی امداد کر تے ہو ،مصیبت زدوں کے کام
آتے ہو ،مسافروں کی مہمانداری کر تے ہو ،میں تمہیں اپنی ذمہ داری پر واپس
لے چلوں گا ۔حضرت ابوبکرؓ واپس چلے آئے اور ابن الدغنہ نے اعلان کر دیا کہ
ابوبکر ؓ میری پناہ میں ہیں انہیں کوئی نہ ستائے ۔
کافروں نے کہا ہم ابوبکر ؓ سے کچھ نہ کہیں گے مگر ان سے یہ کہہ دو کہ وہ
خاموشی کے ساتھ عبادت کر لیا کریں۔
کچھ دن تک تو حضرت ابوبکر ؓ نے اس شرط پر عمل کیا مگر پھر ان کی آزاد طبیعت
اعلان حق پر اس پابندی کو گوارہ نہ کر سکی ۔چنانچہ انہوں نے کھلم کھلا
تبلیغ فرائض ادا کرنا شروع کر دیے ۔جب ابن الدغنہ نے شکایت کی تو صاف کہہ
دیا کہ ’’مجھے تمہاری پناہ کی ضرورت نہیں ہے ۔میرے لیے اﷲ کی پناہ کافی ہے۔‘‘
جب مکہ کے کافروں نے اسلام کی روشنی کو قبول کرنے سے ا نکار ہی نہیں کیا
بلکہ اس روشنی کو بجھانے کا پکا ارادہ کر لیا تو رسو ل اﷲ ﷺ نے خدا وندی
ارشاد کے مطابق مدینہ منورہ کا عزم فرمایا۔
دوپہر کے وقت چلچلاتی دھوپ میں آپ نے اپنے رفیق و غمگسار کا دروازہ
کھٹکٹایا اور اپنے اس ارادہ کا اظہار فرمایا تو حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا
یارسو ل اﷲ ! کیا مجھے بھی ساتھ چلنے کی اجازت ہے ……؟حضور ﷺ نے فرمایا :ہاں
تیار ہو جاؤ ۔
حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اﷲ ! میں نے اسی دن کی تمنا میں پہلے
ہی سے دو اونٹنیاں تیار کر رکھی ہیں ۔‘‘
اس تاریخی سفر کا تمام انتظام حضرت ابوبکر ؓ کے گھر ہوا ۔حضرت عائشہ ؓ اور
حضرت اسما ء ؓ نے سامان سفر درست کیا ۔حضرت اسماء ؓ نے اپنا پٹکا کمرے سے
کھول کر دو ٹکڑے کیے اور ایک ٹکڑے سے تو شہ دان باندھا اور ’’ذوانطاقین
‘‘کا خطاب حاصل کیا ۔عبد اﷲ بن ابی بکر ؓ مکہ کے حالات کی اطلاع پہنچانے پر
مقرر ہوئے اور حضرت ابوبکر ؓ کے گلام عامر بن فہیرہ کے سپر د یہ خدمت ہوئی
کہ وہ بکریاں لے کر غار ثور میں چلے آیا کریں اور تازہ دودھ پلایا کریں ۔
ان انتظامات کے بعدرسو ل اﷲ ﷺ نے اپنے دو عزیز ترین اور قدیم ترین رفیقوں
میں سے ایک (حضرت علی ؓ )کو اپنے بستر پر لٹا کر اور دوسرے (حضرت ابوبکر ؓ
)کو اپنے ساتھ لے کر مکہ سے اندھیری رات میں چپکے سے باہر نکلے اور غار ثور
پر جا کر پہلی منزل کی ۔جب کا فروں کو معلوم ہو ا کہ ان کی سازش ناکام رہی
ہے تو جھنجھلا اٹھے اور آپ ﷺ کی تلاش میں چاروں طرف آدمی دوڑائے ۔کچھ لوگ
تلاش کرتے کرتے عین غار کے منہ پر پہنچ گئے ۔حضرت ابوبکر ؓ گھبرا نے لگے
اور عرض کیا یا رسو ل اﷲ !اگر کافر نیچے کی طرف نظر ڈالیں تو ہمیں دیکھ لیں
گے ۔حضور ﷺ نے بڑے اطمینان کے ساتھ فرمایا :اے ابوبکر ؓ ! غم نہ کرو خدا
ہمارے ساتھ ہے ۔قرآن مجید نے اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے ۔
’’اگر تم رسو ل اﷲ ﷺ کی مدد نہ کرو گے (تو نہ سہی )اﷲ نے اس کی اس وقت مدد
کی ہے جب اسے کافروں نے اس کے رفیق کے ساتھ نکا ل دیا تھا ۔جب و ہ دونوں
غار میں تھے اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے
‘‘۔اس طرح رسو ل اﷲ ﷺ اپنے یار غار کے ساتھ دن کو چھپتے ہوئے اور رات کو
سفر کرتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے اور تاریخ اسلام میں فتح صداقت اور غلبہ
حق کے باب کا آغاز ہوا ۔ |